ڈراما کس طرح پیدا ہوتا ہے؟ | ڈرامہ بنیادی مباحث

ڈراما کس طرح پیدا ہوتا ہے؟ | ڈرامہ بنیادی مباحث

ڈراما کس طرح پیدا ہوتا ہے انسان اپنے جذبات مسرت ولم مختلف طریقوں سے اظہار کرتا ہے۔ کبھی الفاظ سے کبھی اشاروں سے کبھی چہرے کے اتار چڑھاؤ اور کبھی اعضاء کی جنبش و حرکت ہے۔ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کبھی تو وہ اس طرح کرتا ہے کہ زبان سے کہہ دیتا ہے یہ بات مجھے پسند نہیں۔ کبھی وہ صرف نفرت سے اپنا منہ دوسری طرف پھر لیتا ہے کبھی چہرے پر شکنیں ڈال ڈال کر اس کا اظہار کرتا ہے اور کبھی کبھی جب وہ بیک وقت ان تمام ذرائع سے کام لیتا ہے۔

اس میں زیادہ زور پیدا ہو جاتا ہے۔ اظہار جذبات کے ذریعہ بعض فطری ہوتے ہیں اور بعض اکتسابی ، آواز ایک فطری چیز ہے مگر کسی خاص طریقے سے اس کا استعمال اکتسابی چیز ہے۔ بچہ پیدا ہوتے ہیں مختلف قسم کی آوازیں تو نکالنے لگتا ہے لیکن کوئی خاص زبان استعمال نہیں کرتا ہے ۔ وہ بڑا ہوتا ہے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو بولتے سنتا ہے تو ان کی نقل کرتا ہے اب اس نقل سے وہ چند الفاظ سیکھ لیتا ہے اور پھر ان الفاظ کے معنی سمجھتا ہے۔

مثلاً اس کو بھوک لگتی ہے تو وہ روتا نہیں ہے بلکہ بھوک بھوک چلاتا ہے لیکن صرف یہ کہہ دینے سے اس کا مقصد پورا نہیں ہوتا بلکہ اعضاء کی جنبش چہرے کے اتار چڑھاؤ کی آوازوں سے سے بھی اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے ۔ کسی کا محض یہ کہہ دینا کہ میں بہت رنجیدہ ہوں وہ اثر پیدا نہیں کرتا جو چہرے کے اتار چڑھاؤ اور اعضاء کی جنبش سے پیدا ہو سکتا ہے۔

اس لئے اظہار رنج و مسرت کیلئے زبان ثانوی حیثیت رکھتی ہے ۔ اگر زبان نہ ہو تو ہم اشاروں کے ذریعہ اپنے مطالب کا اظہار کر سکتے ہیں۔ بہر حال اگر زبان سے کوئی بات کر دیں اور اشاروں سے اس میں تاثیر پیدا نہ کریں تو ہماری بات میں زور پیارا نہیں ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جدید اردو ڈرامہ نظریات اور امکانات مقالہ pdf

اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جب انسان سوسائٹی میں رہتا ہے تو وہ ضرور مختلف طریقوں سے دوسروں کے تاثرات کو بھی محسوس کرتا ہے اور پھر دوسروں کے سامنے ان تاثرات کو پیش کرتا ہے اور جب وہ اس طرح دوسروں کی نقالی کرتا ہے تو ڈرامہ یا ناٹک وجود میں آتا ہے ۔ گویا ڈر امریا ناٹیک انسان کے جذبہ نقالی کا اظہار ہے ۔

ارسطو انسان کو سوشل حیوان ہونے کے ساتھ ساتھ نقال حیوان بھی قرار دیتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ نقالی انسان میں بچپن سے ودیعت کی جاتی ہے۔اور فطرتا انسان نقالی سے خوشی محسوس کرتا ہے ۔

ڈرامہ تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے اور جب تک انسان میں نقالی کا جذبہ موجود ہے ڈرامہ یا ناٹک بھی موجود رہے گا۔ ڈرامہ چونکہ دوسروں کے احساسات و جذبات کو منتقل کر دینا ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ سے سوسائٹی کی تمدنی و معاشرتی پہلوؤں کو بھی پیش کرنا ہے اس لئے خود دیگر صنف ادب سے اہمیت میں کسی طرح کم نہیں۔

ڈرامہ یا ناٹک کی اہمیت جو اس کو دیگر اصناف ادب سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کی عوام سے قربت ہے کیونکہ جب ڈراما سٹیج کیا جاتا ہے تو اس کو دیکھنے والا کوئی مخصوص طبقہ نہیں ہوتا بلکہ سوسائٹی کے ہر طبقہ کے افراد اس میں شامل ہوتے ہیں۔

ڈرامہ نگار ناول نویس یا افسانہ نگار کی طرح تمنا تمثیل کے مقصود کو کھلے الفاظ میں ظاہر نہیں کر سکتا بلکہ اس کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ کرداروں اور مکالموں سے اپنے مقصد کو اس طرح پیش کر دے کہ عوام کے سامنے وہ آئینہ ہو جائے اس سے ڈرامہ کو پیش کرنے میں صرف مصنف ہی کی محنت کافی نہیں ہوتی بلکہ کرداروں کو بھی محنت کرنا پڑتی ہے ۔

مزید یہ بھی پڑھیں: اردو کے اہم ڈرامہ نگار pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں