چراغ تلے کا تنقیدی جائزہ | مشتاق احمد یوسفی کی کتاب چراغ تلے کا تنقیدی جائزہ

چراغ تلے کا تنقیدی جائزہ

مشتاق احمد یوسفی کے مطبوعہ مضامین میں صنف لاغر کو پہلا مقام حاصل ہے جس سے یوسفی کی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔

جبکہ یوسفی کی تصانیف میں چراغ تلے کو اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ یوسفی نے چراغ تلے 1991ء میں مکتبہ جدید لاہور سے شائع کروائی۔ اس کے بعد اس کتاب کی اشاعت مکتبہ دانیال کراچی کے حصہ میں آئی۔ فی الوقت یہ کتاب ہندو پاک کے مختلف اشاعت خانوں سے شائع ہو کر بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکی ہے۔ میرے پاس ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے ۲۰۱۷ ء میں شائع شدہ نسخہ موجود ہے،

جس میں ایک مقدمہ بنام پہلا پتھر کے علاوہ بالترتیب، پڑیے گر بیمار، کافی، یادش بخیر یا، موذی، سنہ، جنون لطیفہ، چار پائی اور کلچر، اور آنا گھر میں مرغیوں کا کرکٹ، صنف لاغر، موسموں کا شہر اور کاغذی ہے پیرہن، موجود ہیں۔ یوسفی نے اس کتاب کے مضامین کو کھٹ مٹھے مضامین کا نام دیا ہے۔ اگرچہ مختلف ناقدین فن نے ان مضامین کو انشائیہ اور خاکشائیہ وغیرہ ناموں سے منسوب کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔

قطع نظر اس کے کہ ان مضامین کو کیا کہا جائے۔ میں فقط اتنا کہوں گا کہ یوسفی کے یہ مضامین مزاحیہ ادب کے بہترین فن پارے ہیں۔ جن کے پڑھنے سے فرحت و انبساط کے ساتھ ساتھ سیاسی ، سماجی اور مذہبی اقدار پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ چراغ تلے کے مضامین پر مختلف ناقدین فن نے اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر احسن فاروقی اپنے مضمون بنام یوسفی ایک مزاح نگار میں یوسفی کا شمار ان اعلی ترین مزاح نگاروں کی فہرست میں کرتے ہیں جو بقول ڈاکٹر فاروقی :

"ولیم میک پیس تھیکرے کی اس ڈیفینیشن پر پورے اترتے ہیں۔ جس سے بہتر مزاح کی تعریف میری نظر میں نہیں ہے۔ . ‏Truth Topsy True at once Pure and Absurd.

"ڈاکٹر احسن فاروقی کے نزدیک یوسفی نے حقیقت یعنی Truth کے Topsy پہلو کو اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے اور ان کا مزاح "علمیت ، سنجیدگی ، ذہانت اور کچی ذکاوت (wit) سے تعلق رکھتا ہے۔ جہاں چراغ تلے کی بدولت یوسفی، ڈاکٹر احسن فاروقی کی نظر میں ”ہمارے معاشرے کی مضحکہ خیز غلطیوں کے پر مزاح نقاد ہیں ۔

بقول مظفر علی سید چراغ تلے آج کے اردو مزاح کا حاصل ہے۔ “ اور پروفیسر نظیر صدیقی کے نزدیک رشید احمد صدیقی کی طرح یوسفی کے یہاں بھی ظرافت و بصیرت ، مزاح اور مشاہدے کا حسین امتزاج موجود ہے۔ وہ لکھتے ہیں:”ظرافت اور بصیرت ، مزاح اور مشاہدے کا جیسا خوبصورت اور خیال انگیز امتزاج مشتاق احمد یوسفی کے ہاں ملتا ہے۔ اس کی دوسری مثال یا یوں سمجھئے کہ پہلی مثال ( نثر نگاروں میں ) رشید احمد صدیقی کے سوا کہیں اور نہیں مل سکتی ۔ )

ان کے نزدیک اگر چہ یوسفی کا انداز بیان رشید احمد صدیقی سے مستعار و ماخوذ ہے لیکن علی گڑھیت کی کمزوریوں سے پاک اور رواں دواں ہے۔ شاہد رشقی اپنے مضمون یوسفی ایک طنز نگار میں یوسفی کے مزاح آمیز طنز کو دو دھاری تلوار سے تعبیر کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ ابن اسماعیل کے نزدیک چراغ تلے کا ہر مضمون اپنی جگہ ایک مزاح پارہ ہے۔ ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملے میں مزاح کیایک ایک کا ئنات متحرک ہے ۔مندرجہ بالا تمام تاثرات چراغ تلے کے مضامین کے حوالے سے گاہے گاہے ناقدین نے اپنے مضامین میں پیش کیے ہیں۔

جس سے چراغ تلے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ میں نے اپنے اس باب میں چراغ تلے کے جملہ مضامین کا بالترتیب تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔چراغ تلے کے جملہ مضامین کے علاوہ اس کا مقدمہ بنام پہلا پتھر بھی اپنے اندر طنز و مزاح کا حسین امتزاج رکھتا ہے ،

جس میں یوسفی نے کتاب کی تصنیف کے اسباب و علل کے علاوہ فن مزاح نگاری پر بھی پائیدار جملے ثبت کئے ہیں جو پہلا پتھر کی اہمیت کو دوبالا کرتے ہیں۔ مقدمہ کے شروع میں مقدمہ نگاری پر لطیف جملوں کے ذریعہ مزاح پیدا کیا ہے اور مسدس حالی کے ایک شعر میں ایک لفظ کی تبدیلی یعنی عرب کو ادب سے بدل کر پیروڈی کے ذریعہ مزاح میں چار چاند لگا دیئے ہیں۔

یہاں یوسفی نے اپنا ایک مزاحیہ خاکہ بھی اڑایا جہاں یوسفی نے مقدمہ کے شروع میں پیروڈی اور بیان مقدمہ نگاری سے ایک مزاحیہ فضا پیدا کی ہے و ہیں طنز و مزاح کے فن پر بات کرتے ہوئے ان کا انداز سنجیدگی لیے ہوئے ہے۔ مقدمہ کے درمیان کی اس سنجیدگی کو جو عمدہ طنز نگار کے تلواروں پر رقص کرنے، خام فنکار کے طنز کی مقدس جھنجلاہٹ، عمل مزاح کے (اپنے)

لہو کی آگ میں تپ کر نکھرنے اور قوم کو بسنے ہنسانے کے فوائد کے بیان سے پیدا ہوگئی تھی۔ یوسفی نے شاہد احمد دہلوی کے ذکر اور ایک مزاحیہ واقعہ کے ذریعہ الٹی ہنسی اور سیدھی ینسی کے بیان سے رفو کر دیا ہے۔ آخر میں اپنے مضامین کے اہم کردار مرزا عبدالودود بیگ کو اپنے ہمزاد کے روپ میں متعارف کرا کے مقدمہ کا اختتام کیا ہے۔

یوسفی کا یہ مقدمہ مختلف لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے، جس میں ہمیں سنجیدگی ، مزاح ، پیروڈی کے نمونوں کے علاوہ یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک عمدہ مزاح کیا ہے؟ اور ایک بہترین طنز کس کو کہا جاسکتا ہے۔ نمونہ کے طور پر ایک اقتباس نقل کرتا ہوں۔ یوسفی لکھتے ہیں :

(یوں بھی میں قبلہ شاہد احمد صاحب کی باوقار سنجیدگی کا اس درجہ احترام کرتا ہوں کہ جب وہ اپنا لطیفہ سنا چکتے ہیں تو احتراماً نہیں ہنستا لیکن ایک دن یہ دیکھ کر کہ میرا ایک مضمون پڑھ کے الٹی ہنسی (جس میں بقول ان کے آواز حلق سے باہر نکلنے کے بجائے الٹی اندر جاتی ہے ) ہنس رہے ہیں۔ میں خوشی سے پھولا نہ سمایا پوچھا دلچسپ ہے؟

فرمایا : جی ! تذکیر و تانیث پر ہنس رہا ہوں ! پھر کہنے لگے : حضرت! آپ پنگ یانگ کو مؤنث اور فٹ بال کو مذکر لکھتے ہیں ! میں نے کھسیانے ہو کر جھٹ اپنی پنسل سے فٹ بال کو مؤنث اور پنگ پانگ کو مذکر بنا دیا تو منہ پھیر پھیر کر سیدھی بنسی بننے لگے۔)

یوسفی نے چراغ تلے کا یہ مقدمہ ۵ فروری ۱۹۶۱ء کو کراچی میں قلم بند کیا۔ یوسفی نے مقدمہ کا نام پہلا پتھر رکھنے کی بھی عمدہ توجہہ بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

("جس شخص کو پہلا پتھر پھینکتے وقت اپنا سر یاد نہیں رہتا، اسے دوسروں پر پتھر پھنکنے کا حق نہیں ۔)

یوسفی نے اپنے اس مقدمہ میں ان کتب پر بھی چٹکی لی ہے جو بقول ان کے سراسر مقدمے ہی کی چاٹ میں لکھی گئی ہیں۔ مثال میں یوسفی نے برنارڈ شا کے دڑامے ڈاکٹر جانسن کی ڈکشنری حالی کی مقدمہ شعر و شاعری کو پیش کیا ہے جو بقول مرزا عبد الودود بیگ، اس کتاب میں سے مقدمہ نکال دیا جائے تو صرف سر ورق باقی رہ جاتا ہے۔

ساتھ ہی یوسفی نے رقمیں دے کر کتابوں پر مقدمہ لکھوانے والوں کو رشوت دے کر پولیس سے مقدمہ چلوانے والوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا ہے۔چراغ تلے میں مشتاق احمد یوسفی نے جن موضوعات کو چھیڑا ہے معاشرہ میں وہ دائمی حیثیت کے حامل ہیں ۔ خاص کر عیادت ، سگریٹ نوشی ، جنسیات اور کھیل کود وغیرہ ایسے مسائل ہیں جو معاشرہ میں دائمی حیثیت کے حامل ہیں۔

ان موضوعات کو یوسفی نے اپنی ذہانت و تجربے ، فلسفیانہ تبصروں ، شوخی و بے باکی اور اپنے منفرد اسلوب ولطيف استعمال زبان سے زینت بخشی ہے۔ یہاں تیمارداری کے مضحک پہلوؤں ، سگریٹ نوشی کی عادت کے جواز میں مضحک دلائل و واقعات ، کافی کی بیٹی اور چھینکی چسکیوں میں غیر سنجیدہ حضرات کی سنجیدگی اور صنف لاغر میں جسم لاغر کا حلول یوسفی کی ذہانت و فن مزاح نگاری پر ان کی مہارت کا بین ثبوت ہے۔

یونی نے کتاب کا نام مشہور مثل چراغ تلے اندھیرا سے اخذ کیا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ کیا مسائل و نقائص ہیں جن کو چراغ تلے کے اندھیرے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے؟ کیا حقیقت میں یہ چھوٹی چھوٹی روایتی غلطیاں تاریکی کی پیداوار ہیں؟ ساتھ ہی یوسفی نے کتاب لکھنے کے مقصد کو خندہ مکرر اور اپنی اصلاح سے تعبیر کر کے اپنے بڑے پن کا ثبوت دیا ہے۔

یوسفی کے نزدیک ان کی یہ کتاب ایک ایسا تتھا چراغ ہے جو کسی الاؤ کو بھڑ کانے یا چیتا کو دہکانے کی سکت نہیں رکھتا مگر اپنی چاک دامنی پر ہسنے اور دوسروں کو ہنسانے کا دم خم ضرور رکھتا ہے۔

مآخذ : مشتاق احمد یوسفی حیات اور ادبی خدمات مقالہ pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں