پنجاب میں اردو کا نظریہ | حافظ محمود شیرانی

پنجاب میں اردو کا نظریہ

حافظ محمود خان شیرانی نے اپنے گہرے اور طویل لسانی مطالعے اور تحقیق کے بعد ٹھوس بنیادوں پر اپنا یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ اردو زبان کی ابتداء پنجاب میں ہوئی۔ ان کے مطابق اردو کی ابتداء اس زمانے میں ہوئی جب سلطان محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری ہندوستان پر پے در پے حملے کر رہے تھے۔

ان حملوں کے نتیجے میں فارسی بولنے والے مسلمانوں کی ایک مستقل حکومت یہاں (پنجاب) میں قائم ہوئی اور دہلی کی حکومت کے قیام سے تقریباً دو سو سال تک یہ مسلمان فاتحین یہاں مقیم رہے۔ اس طویل عرصے میں زبان کا بنیادی ڈھانچہ وجود میں آیا۔ اس نظریے کی سچائی کے ثبوت میں شیرانی صاحب نے اس علاقے کے بہت سے شعراء کا کلام پیش کیا ہے جس میں پنجابی فارسی اور مقامی بولیوں کے اثرات سے ایک نئی زبان(اردو) کی ابتدائی شکل نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر غلام حسین ذو الفقار اس سلسلہ میں یہ لکھتے ہیں :سلطان محمود غزنوی کی فتوحات کے ساتھ برصغیر کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ فتوحات کا یہ سلسلہ ۱۰۰۰ء سے ۱۰۴۶ء تک جاری رہا اور پنجاب و سندھ کے علاوہ قنوج گجرات (سومنات ) متھرا اور کالنجر تک فاتحین کے قدم پہنچے لیکن محمود غزنوی نے ان سب مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہ کیا ۔

البتہ ۱۰۲۵ ء میں لاہور میں اپنا نائب مقرر کرا کے پنجاب کو اپنی قلمرو میں شامل کر لیا۔ نئے فاتحین میں ترک اور افغان شامل تھے۔ غزنوی عہد میں مسلمان کثیر تعداد میں پنجاب میں آباد ہوئے ۔ علماء اور صوفیاء نے یہاں آکر رشد و ہدایت کے مراکز قائم کئے اور تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں مقامی باشندے گروہ در گروہ اسلام قبول کرنے لگے ۔

اس سماجی انقلاب کا اثر یہاں کی زبان پر بھی پڑا کیونکہ فاتحین نے پنجاب میں آباد ہو کر یہاں کی زبان کو بول چال کے لئے اختیار کیا۔ علماء نے بھی اشاعت دین کے لئے اس زبان کو ذریعہ اظہار بنایا۔ اس طرح غزنوی دور میں مسلمانوں کی اپنی زبان عربی فارسی اور ترکی کے ساتھ ایک ہندوی زبان کے خط و خال نمایاں ہوئے اور نکھر نے لگے۔

مسعود سعد سلمان لاہوری نے اس زبان میں شاعری کی اور عربی و فارسی کے علاوہ ایک دیوان ہندوی میں بھی ترتیب دیا ۔تذکرہ نگار محمد عوفی ( لباب الالباب ) میں لکھتا ہے :

"اور اسہ دیوانست یکے بتازی یکے به فارسی و یکے بہ ہندوی”عوفی کے اس بیان سے اس زبان کے وجود کا ثبوت ملتا ہے جسے غزنوی دور میں مسلمانوں نے بولنا اور لکھنا شروع کر دیا تھا۔ امیر خسرو نے اپنے دیوان ” غرۃ الکمال” کے دیباچے میں سعد سلمان لاہوری کے ہندوی دیوان کا ذکر کیا ہے۔

جس سے عوفی کے بیان کی تائید کی ہے۔ امیر خسرو اس بر عظیم کی مختلف زبانوں سے وقف تھے ۔ انہوں نے اپنی مثنوی ” نہ سپہر” میں بعض علاقوں کی زبانوں کا ذکر الگ الگ کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے لاہوری ( جسے ابو الفضل نے ملتانی کہا) اور دہلوی ( برج بھاشا) کے برعکس ہندوی کا ذکر کر کے اس بات کا ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ یہی زبان صوبائی یا علاقائی زبانوں کے مابین ایک بین العلاقائی زبان کا درجہ کھتی تھی۔

یہی ہندوی رفتہ رفتہ نشو و نما اور ارتقاء کے مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی آگے کی چند صدیوں میں اردو کی موجودہ شکل قرار پاتی ہے۔مسلمان تقریباً پونے دو سو سال تک پنجاب حکومت کرتے رہے۔ جس میں موجودہ خیبرپختونخواہ صوبہ اور سندھ بھی شامل تھے۔ ۱۱۹۳ ء میں قطب الدین ایبک کے فوج کے ساتھ مسلمانوں نے دہلی کی طرف چلے گئے ۔

اور چند ہی سالوں کے بعد ہی سارے شمالی ہندوستان پے قابض ہو گئے ۔ اس طرح لاہور کی بجائے دہلی کو دارالخلافہ کی حیثیت حاصل ہو گئی تو یہ امر لازمی تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ یہ زبان جو اس وقت تک بول چال کی زبان کا درجہ حاصل کر چکی تھی ان مسلمانوں کے ساتھ ہی دہلی کی طرف چلی گئی ۔حافظ محمود خاں شیرانی فرماتے ہیں:

"سندھ میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے اختلاط سے اگر کوئی نئی زبان نہیں بنی تھی تو غزنوی دور میں جو ایک سو ستر سال پر حاوی ہے ایسی مخلوط یا بین الاقوامی زبان ظہور پذیر ہوسکتی ہے اور چونکہ یہ زبان پنجاب میں بنی ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ یا تو موجودہ پنجابی کے مماثل ہو یا اس کی قریبی رشتہ دار ہو۔ بہر حال قطب الدین ایبک کے فوجی اور متوسلین پنجاب سے کوئی ایسی زبان ہمراہ لے کر روانہ ہوتے ہیں جس میں خود مسلمان قومیں ایک دوسرے سے تکلم کر سکیں اور ساتھ ہی ہند و اقوام بھی اس کو سمجھ سکیں ۔”

تاریخی اور سیاسی واقعات و شواہد اور ثبوتوں کے علاوہ پروفیسر محمود خاں شیرانی اردو اور پنجابی کی لسانی شہادتوں اور مماثلتوں سے دونوں زبانوں کے قریبی روابط و تعلق کو واضح کر کے اپنے اس نظریے کی صداقت کو منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان کے مطابق اردو کا آغاز پنجاب میں ہوا آپ فرماتے ہیں: اردو اپنی صرف و نحو میں پنجابی و ملتانی کے بہت قریب ہے۔ دونوں میں اسماء وافعال کے خاتمے پر الف آتا ہے اور دونوں میں جمع کا طریقہ مشترک ہے۔

یہاں تک کہ دونوں میں جمع کے جملوں میں نہ صرف جملوں کے اہم اجزاء بلکہ ان کے تو ابعات و ملحقات پر بھی ایک ہی قاعدہ جاری ہے۔ دونوں زبانیں تذکیر و تا نبیف کے قواعد افعال مرکبہ و توابع میں متحد ہیں۔پنجابی اور اردو میں 60٪ سے زیادہ الفاظ مشترک ہیں ۔

"مزید اگر پروفیسر شیرانی کی مہیا کردہ مشابہتوں اور مماثلتوں پر نظر ڈالیں تو اردو اور پنجابی کے لسانی رشتوں کی اور وضاحت ہو جاتی ہے اور یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اردو اپنی ساخت اور صرفی و نحوی خصوصیات کی بنا پر پنجابی زبان سے بہت نہایت قریب تر ہے اور اس سے بھی شیرانی صاحب کے استدلال کو مزید تقویت پہنچتی ہے۔ ملاحظہ کریں:

مصور کا قاعدہ پنجابی اور اردو میں ایک ہے۔ یعنی علامت مصدر (نا) امر کے آخر میں اضافہ کر دی جاتی ہے۔

قدیم زمانے میں دونوں زبانوں میں اس کا رسم الخط (ناں) تھا۔

تذکیر و تانیث کے قواعد دونوں زبانوں میں ایک جیسے ہیں ۔ یعنیاکثر ایسے الفاظ جو (الف) پر ختم ہوں تانیث بنانے کے لیے الف ”ی“ سے بدل جاتے ہیں۔ مثلا” بکرا۔ بکری گھوڑا گھوڑی چنگا۔ چنکی اور کالا کالی وغیرہ۔

جب اسم مذکر حروف علت کی بجائے حرف صحیح پر ختم ہو تو دونوں زبانوں میں مؤنث بنانے کے لئے نی ” یا ” انی بڑھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مغل ۔ مغلانی لوہار۔ لوہارنی وغیرہ

اسماء اور اسمائے صفات دونوں میں "الف” پر ختم ہوتے ہیں۔ منڈا ( پنجابی ) لڑکا ( اردو) انچا ( پنجابی ) اونچا ( اردو ) وغیرہ۔ اسمائے صفات واحد جمع اور تذکیر و تانیث میں اپنے موصوف کی حالت کے مطابق ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر:اردو(اونچا گھوڑا، میرا لڑکا)پنجابی(اچا گھوڑا، میرا منڈا)

خبر میں تذکیر اور تانیث واحد جمع میں اپنے مبتداء کے مطابق آتی ہے۔ جیسے: یہ بات اچھی نہیں ہے ( اردو ) ایہہ گل چنکی نہیں اے ( پنجابی ) ماضی مطلق دونوں میں یکسا ہے۔

ماضی احتمالی دونوں میں مشترک ہے۔مضارع دونوں میں ایک جیسا ہے۔ فعل حال کی تعریف دونوں زبانوں میں ایک ہی ہے۔

مستقبل کا اصول دونوں میں یکساں ہے۔

امر کا قاعدہ دونوں میں مشترک ہے۔

لفظ (گا) پنجابی میں حال کے معنوں میں بھی مستعمل ہے۔

فعل لازم و مستعدی دونوں کا اصول مشترک ہے اور متعدی با لواسطہ کا بھی قاعدہ ایک ہی ہے۔ معروف و مجہول کا طریق یکساں ہے۔

ان تمام مذکورہ اور اس کے علاوہ تمام مشابہتوں اور مماثلتوں کی وجہ سے حافظ شیرانی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی ولادت کا مقام ایک ہی ہے۔ دونوں نے ایک ہی جگہ تربیت پائی ہیں اور جب ذرا سیانی ہو گئیں تب ان میں جدائی ہوگئی۔ اور جو اختلافات آج ان دونوں زبانوں میں دیکھے جاسکتے ہیں وہ بعد کی پیداوار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں اردو کا نظریہ

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں