پشتو لوک گیت اور ان کی مختلف اقسام
اگر کسی قوم کے مجموعی مزاج کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے لوگ گیتوں سے لگایا جا سکتا ہے کہ قومی تشخص لوک گیت میں کھل کر سامنے آتا ہے۔ لوک گیت تصنع اور تکلف سے پاک ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اردو افسانے پر پشتون کلچر کے اثرات |pdf
ان میں حقیقت پسندی اور بے ساختگی ہوتی ہے اور یہ کسی خاص طبقے کی ترجمانی کے بجائے عام لوگوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ لوگ گیت کروڑوں لوگوں کی عادتوں ، رسموں ، عقیدوں ، انداز فکر، طرز معاشرت اور روحانی زندگی کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بیسویں صدی پشتو ادب پر انگریزی ادب کے اثرات | PDF
پشتو میں وہ تمام اصناف سخن رائج ہیں جو اردو، فارسی اور دیگر مشرقی زبانوں میں رائج ہیں لیکن پشتو لوک گیتوں کا سرمایہ معیار و مقدار دونوں کے لحاظ سے زیادہ قدرو قیمت کا حامل ہے۔
یوں تو ہر علاقے میں اپنے اپنے لوگ گیت ہوتے ہیں مگر پشتو میں کچھ لوک گیت ایسے بھی ہیں جو تمام پشتونوں کا مشترکہ ورثہ ہیں۔ ان میں لنڈ کی ، چار ہیت ، نیمہ کئی بہکتی ، بدلہ، لو بہ اور اللہ ہو شامل ہیں ۔ ان تمام اقسام کے گیتوں میں کچھ مشترک پہلو بھی ہیں اور تکنیک کے لحاظ سے ان میں کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لنڈ ئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لنڈ ئی پشتو لوک گیت کی مقبول ترین صنف ہے۔ اس کی تاریخ بہت پرانی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی مثال دوسری زبانوں میں نہیں ملتی ۔ لنڈئی کو مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے جیسا کہ مصرع اور جپہ وغیرہ۔ لنڈئی دراصل بالشت بھر کے ایک سانپ کو کہتے ہیں جس کا زہر بڑی تیزی سے بدن میں سرایت کرتا ہے۔
لنڈئی ایک بہت ہی پر اثر صنف ہے اور اس کے الفاظ اور معانی میں جادو کا سا اثر ہوتا ہے۔ اسے مصرع بھی کہتے ہیں ۔ ایک تو اس لیے کہ یہ ڈیڑھ مصرعے سے بنا ہوتا ہے اور دوسرا اس لیے کہ اس کا اثر مصری تلوار کی کاٹ کی طرح ہوتا ہے۔ مصری تلوار اپنی کاٹ کے اعتبار سے ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ لنڈ ئی کو یہ بھی کہتے ہیں۔
لنڈ ئی اونچی آواز سے گایا جاتا ہے۔ یہ پشتونوں کے رگ وپے میں اس قدر سرایت کر گئی ہے کہ چھوٹے ، جوان ، بڑے ، بوڑھے اور عورتیں سب گاتی ہیں ۔ دو شینرا ئیں گھر بیٹھے، مرد کھیتوں میں کام کرتے اور اپنا مال مویشی ہانکتے لنڈئی بھی گاتے ہیں۔ ا
اس کا اصلی لطف تب ملتا ہے جب کوئی چرواہا ڈھلتی سہ پہر کے وقت بھیڑ بکریوں کا ریوڑ دامن کوہ سے گاؤں کی طرف ہانک رہا ہو اور بانسری کی سریلی آواز میں لنڈ کی گا رہا ہو ایک شتربان لق و دق صحرا میں اونٹ پرسوار ہو کر لنڈ ئی گا رہا ہو۔ لنڈئی میں ہر قسم کے مثلا اخلاقی، تاریخی ، روحانی ، رزمیہ ، عشقیہ، طنز و مزاح اور علم و حکمت کے مضامین باندھے جاسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاربیتہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار ہیتہ کے لغوی معنی چار ابیات یا آٹھ مصرعوں والی صنف سخن ہے لیکن چار بیتے کی یہ تعریف کوئی حتمی تعریف نہیں کیونکہ ایسے چار بیتے بھی ہیں جن کے مصر عے کم ہوتے ہیں۔ لنڈ ئی کی طرح چار بیتہ بھی ایک بہت قدیم اور مقبول صنف ہے۔ دیہات میں شادی بیاہ کے موقعوں پر اب بھی گوئیے لوگوں کے دل چار بیتوں سے گرماتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیمہ کئی۔۔۔۔۔۔۔۔
نیمہ کئی بھی لنڈ ئی کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے لیکن اسے عورتیں شادی کے موقعے پر کورس کی شکل میں گاتی ہیں ۔ نیمہ کئی میں طویل مضامین باندھے جاتے ہیں۔ عموما عشقیہ مضامین اس میں بڑی خوبی سے ادا کیے جاسکتے ہیں۔
لنڈ ئی کی طرح اس کا پہلا مصرع چھوٹا ہوتا ہے اور دوسرا بڑا۔ اس کا ایک سر ہوتا ہے جسے پیر و یا کھڑا کیا جاتا ہے۔ لنڈئی کے گانے کے بعد سر یا مکھڑے کی تکرار ہوتی ہے۔ نیمہ کئی اور لنڈئی میں فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ لنڈ ئی انفرادی طور پر گائی جاتی ہے اور نیمہ کئی کورس کی شکل میں۔ اس کے علاوہ نیمہ کئی کا سر یا کھڑا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پشتو لوک گیتوں میں سوز و ساز کے لحاظ سے بکتی بہت مقبول صنف ہے اور اکثر رقص کے ساتھ گایا جاتا ہے۔ پشتو کے دیگر لوک گیتوں کے اوزان، آہنگ اور دلکشی کے مقابلے میں اس کا آہنگ بہت زیادہ ولولہ انگریز ہوتا ہے اور سننے والوں کے دل کے تاروں پر مضراب کا کام کرتا ہے۔ بکتی قدرے چست آواز سے گائی جاتی ہے۔
اس لیے سننے والوں کی رگوں میں ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ عام طور پر دیہاتوں میں ساز و سرور کی محفلوں میں گائی جاتی ہے۔ اسے اونچی آواز سے نہیں گایا جاتا۔ تکنیک کے لحاظ سے چار بیتہ اور بکتی میں فرق ہوتا ہے۔ دونوں کو ایک ہی صنف نہیں سمجھنا چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدلہ بھی پشتو لوک گیت کی ایک مقبول صنف ہے۔ اس میں خصوصاً عشقیہ مضامین ، معاملہ بندی اور منظر کشی کے خاکے بڑے دلچسپ اور مؤثر پیرائے میں کھینچے جاتے ہیں لیکن بدلہ صرف ان مضامین کے لیے مخصوص نہیں بلکہ اس میں تاریخی، رومانی، داستانی اور انقلابی قصے بھی بیان کیے جاتے ہیں۔
جس کے باعث بدلہ مثنوی کا نعم البدل بن جاتا ہے بلکہ ہیئت کے لحاظ سے بھی یہ مثنوی سے مشابہ ہوتا ہے۔ پشتو کے بعض مشہور رومانی قصوں کا انداز بدلہ کا ہے۔ لوبہ میں کبھی کبھی سوال و جواب کا سلسلہ بھی چل پڑتا ہے۔ یہ سوال و جواب مرد اور عورت کے مابین ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لوبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پشتو لوک گیت کی ایک مقبول صنف ہے۔ اسے عموماً عورتیں گاتی ہیں دوگانے کی صورت میں اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ اردو میں لو بہ” کے لیے لفظ کھیل“ استعمال ہوتا ہے ۔ تکنیک کے لحاظ سے لو بہ اور نیمہ کئی میں بہت کم فرق ہوتا ہے۔ لو بہ میں ایک سر یہ کھڑا ہوتا ہے جو آخر میں مکر لایا جاتا ہے۔
5.7- اللہ ہو
اللہ ہو کو بھی پشتو لوک گیتوں میں کافی مقبولیت حاصل ہے۔ اردو میں اس کے لیے لفظ ” ” اوری” استعمال ہوتا ہے۔ اوری دنیا کی ہر ایک زبان میں پائی جاتی ہے، لیکن پشتو کے اللہ ہو اور دیگر زبانوں کی لوریوں میں ایک واضح فرق ہے۔
ایک پشتون ماں اپنے بچے کو بلی ، کتے ، شیر اور پولیس کے سپاہی کا نام لے کر نہیں سلاتی کیونکہ اس طرح بچہ ابتدائی عمر سے بزدل بن جاتا ہے بلکہ اس کو اپنے اسلاف اور مشاہیر کے کارنامے گا گا کر سلاتی ہے اور اسے اپنے مذہب اور مادر وطن پر جان دینے کا درس دیتی ہے۔
پروف ریڈر: ڈاکٹر عاصمہ بتول
پی۔ایچ ۔ڈی اردو