پروفیسرنورکمال شاہ کےمجموعے’’نمک زار‘‘میں طنزومزاح | مقالہ وقار احمد

باب سوم: پروفیسرنورکمال شاہ کےمجموعے’’نمک زار‘‘میں طنزومزاح پروفیسرنورکمال شاہ کےطنزیہ و مزاحیہ مضامین کےمجموعے’’نمک زار‘‘کی طنزومزاح کاجائزہ لینےسےقبل مزاح نگاری کےچندعناصرسےآگاہی ضروری ہےجن میں بعض کااستعمال پروفیسرصاحب نےفن کاری کےساتھ کیاہے،ان کےاس مجموعےکی صفحات کی تعداد۱۲۸ہےاوراس میں ۱۷مضامین شامل ہیں۔اس کاانتساب پطرس بخاری،مشتاق احمدیوسفی اورڈاکٹرارسلان کےنام ہے۔یہ توتھامجموعےکامختصرتعارف اب آئیےکہ مزاح نگاری کےعناصرسےآشناہوں۔ مزاح نگاری اپنے نمود کے لے جن عناصر کا سہارا لیتی ہے ان میں سب سے پہلا عنصر موازنہ ہے۔یعنی دو چیزوں کا آپس میں بیک وقت مشابہت یا تضاد سے ایسی حالت پیدا کرنا جو مزاح کو جنم دے ۔اس لیے مزاح نگار مزاح پیدا کرنے کے لیے اس حربے کواستعمال کرتا ہے۔اس بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں :”موازنہ کی مثال کسی شریر آئینے کا وہ عکس ہے جو کسی فر دکے حلیے کو مضحکہ خیز حد تک بگاڑ دیتا ہے۔ یہ عکس بیک وقت اس فرد کا اصلی عکس بھی ہے اور اس سے قطعا مختلف بھی اور اسی لیے یہ ہنسی کو بیدار بھی کرتا ہے۔”(۱) بیک وقت دو مختلف چیزوں سے مشابہت اور تضاد کا موازنہ کر کے ہنسی کو بیدار کیا جاتا ہے ۔دیگر زبانوں کی طرح اردو میں بھی مزاح کے اس حربے سے خوب کام لیا گیا ہے۔خصوصاً مزاح نگاروں نے اس حربے کا خوب صورت استعمال کیا ہے۔مزاح نگاری کا دوسرا کار آمد حربہ مزاحیہ صورت واقعہ ہے۔ یہ طنزو مزاح کے لیے لازم اور ایک مشکل حربہ ہے۔اس کی وجہ زبان و بیان اور الفاظ کی سلاست و بلاغت کے خیال کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز صورت حال بھی پیدا کرنا ہے جسے پڑھ کر قاری ہنسنے پر مجبور ہوجائے۔یہ خالص مزاح کی ایک قسم ہے ۔کیلے کے چھلکے پر پھسلنے سے جو مزاحیہ صورت حال پیدا ہوتی ہے یہی اس کی بہترین مثال ہے۔اس صورت حال سے لوگوں کے چہروں پر ہنسی خود بخود پھیل جاتی ہے۔ مزاح نگاری کا تیسرا اور کار آمد حربہ زبان کی بازیگری ہے۔لفظی بازی گری سے مزاح پیدا کرنے کی بہت سارے طریقے ہیں مگر اس میں جس طریقے کو زیادہ اہمیت ملی ہے وہ رعایت لفظی ہے ۔اس تکنیک میں عام طور پر ایسے الفاظ کا استعمال کیاجاتا ہے جن کے قریب اور بعید دونو ں معنی مراد لیے جاتے ہیں ۔اس لیے اس سے بیک وقت معنی مراد لیے جاتے ہیں جسے ابہام اور الفاظ کی تکرار جیسی خصوصیت پیدا ہوتی ہے۔ایک ناقد اس کی وضاحت کے لیے یہ مثال پیش کرتا ہے:”مرزا غالب جب بہادر شاہ ظفر سے عید ملنے گئے تو انھوں نے پوچھا”میاں کتنے روزےرکھے؟جواب دیا”پیرو مرشد ایک نہیں رکھا۔”(۲) مزاح نگاری کے لیے چوتھی اہم چیز مزاحیہ کردار تخلیق کرنا ہے جو ایک مشکل کام ہے ۔اس قسم کے کردار کو تخلیق کرنے کے لیے مبالغہ سے کام لیا جاتا ہے کہ اس کردار کے اندازر و اطوار کو مضحک بنایا جاسکے۔مزاحیہ کردار تخلیق کرنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ تخلیق کردہ کردار سامنے آتے ہی قاری یاسامع کے چہرے پر بے اخیتار ہنسی کی لہر دوڑ جائے ۔تاہم جب ایک بار اس انوکھے کردار کی تخلیق ہوجاتی ہے تو پھر اس کردار کا سرسری سا ذکر بھی ماحول کی ساری سنجیدگی ختم کردیتا ہے۔مثال کے طور پر پنڈت رتن ناتھ سرشار نے جو کردار خوجی کے نام سے تخلیق کیا ہے اگر خوجی کا نام کہیں پر بھی سامنے آجائے تو ہم غیر شعوری طور پر ہنسنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔ مزاح نگاری کا آخری حربہ تحریف یا پیروڈی ہے لیکن پیروڈی صرف مزاح نگاری ہی کا حربہ نہیں بلکہ طنز نگار بھی اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔اس میں خیالات کو اس طرح بدل دیا جاتا ہے کہ اس سے مزاحیہ تاثرات پیدا ہوجاتے ہیں۔بعض اوقات حرف اور حرکت کی تبدیلی سے بھی پیروڈی ہوجاتی ہے۔نیو اکسفورڈ ڈکشنری میں لکھا ہے:”پیروڈی کو مصنف کی کسی خاص تخلیق تک محدود ہونا چاہیئے۔اس طرح کہ اس سے اصل کے مزاحیہ انداز میں تنقید ہو۔”(۳) اب آتےہیں پروفیسرصاحب کےمجموعےکی طرف،اس مجموعےمیں پہلا مضمون مہمانوں کےحوالےسے ہے۔اس مضمون میں مہمان نوازی کی اہمیت اورعزت وتکریم پرروشنی ڈالی گئی ہےاورساتھ ساتھ مہمان پرمزاح بھی کی گئی ہے۔مہمان کےحوالےسےانھوں نےان حقائق کوسامنےلایاہےجوہرکسی کےدل میں ہوتےہیں لیکن وہ اسےلب پہ لانےسےگریزکرتاہےیاقاصرہوتاہے۔پروفیسرنورکمال شاہ نےمہمان کےحوالےسےحقیقت پسندی سےکام لیتےہوئےلکھاہےکہ مہمان دوقسم کےہوتےہیں ،ایک اپنےاوردوسرےپرائےیادورکےرشتہ دار۔گھرمیں اول زلذکرکوبہت اہمیت دی جاتی ہےاورہرحوالےسےان کی مہمان نوازی کی جاتی ہے۔اس ضمن میں گھرکےسربراہ کاحال یہ ہوتاہےکہ وہ اپنی عزت،وقار،مال،اسباب اورمختلف اشیاکونیلام ہوتےہوئے دیکھتاہےلیکن زبان پرکچھ نہیں لاسکتا۔مرادیہ ہےکہ یہ مہمان اکثربیگم صاحبہ کےگھرانےکےہوہوتےہیں ،یہی وجہ ہےکہ بیوی کےسامنےکسی کی نہیں چلتی لہٰذاکچھ کہتےہوئے بھی کچھ نہیں کہاجاسکتاہے۔نورکمال شاہ نےاس صورت حال سےجومزاح پیداکی ہےاس میں ایک طرف سنجیدگی ہےتودوسری جانب ظرافت کی عمدگی۔گویاان کےہاں مرزافرحت اللہ کارنگ نمایاں ہے۔مرزافرحت اللہ بیگ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہےکہ وہ جب بھی مزاح پیداکرتےہیں توساتھ ساتھ سنجیدگی سےبھی کام لیتےہیں ۔یہی سنجیدگی ان کی ظرافت کی ایک اہم خصوصیت بن جاتی ہے۔پروفیسرنورکمال شاہ کےہاں بھی یہی رنگ نمایاں ہے۔مہمانوں کی اقسام کےحوالےسےانھوں نےجومزاح پیداکیاہےوہ خوب صورتی سےخالی نہیں۔لکھتےہیں:’’۔۔۔اولاًگھرکےمہمان اوردوم باہرکےمہمان۔ان دونوں میں سےخطرناک ترین اورمضرسکون وسکوت پہلی قسم والی ہے۔یہ نہ صرف آپ کےآرام و اطمینان بلکہ خاموشی و سکوت کی بھی قاتل ہے۔ان کےگھرمیں تشریف لاتےہی آپ کوسکون اور خاموشی کاایک لمحہ بھی میسرنہیں ہوگا۔تعجب کی بات یہ ہےکہ مضر ہونے اور سمجھے جانے کے باوجود ان کامقام ومرتبہ دوسرےقسم کےمہمان سےافضل ہوتاہے۔ان افضل مہمانوں کاسرااگربدقسمتی سےبیگم کےمیکےشریف سے جا ملتا ہو تو پھر کیا کہنے۔ آپ کی پوری ملکیت و جاگیریعنی بھراپراگھران کےقبضےمیں چلاجاتاہے۔یہی وہ موقع ہے جب آپ اپنے ہی گھرمیں غیراوراجنبی بن جاتےہیں۔توجہ اورالتفات کے سارے گلدستےمہمانوں پرنچھاورکئےجاتےہیں۔آپ کےاستعمال کےتمام ذاتی و غیرذاتی؛قیمتی اشیاءان کےتصرف میں آجاتی ہیں۔بےبسی اورلاچارگی کی تصویربن کراپنی قیمتی چیزوں کاحشردیکھتےہوئےبھی آپ کچھ نہیں کرپاتے۔‘‘(۴) ان کےہاں ایک طرف مزاح کی چاشنی موجودہےتودوسری جانب ہمیں اصلاح اور پیغام بھی نظرآتاہے۔انھوں نےبعض مضامین میں شائشتہ خصوصیات کوزندگی میں اپنانےکادرس دیاہے۔یہ ان کی مزاح کی بڑی خصوصیت ہےکہ وہ پیغام دیتےہیں لیکن قاری کوکوئی گھٹن اوربوریت محسوس نہیں ہوتی،قاری اسےبوریت سےبالاترہوکردل چسپی کےساتھ پڑھتاہے۔اس حوالےسےاقتباس ملاحظہ ہو:’’مہمان بننےکےلئےفاصلےکی شرط اس کےمقام و مرتبےکاتعین کرتی ہے۔زیادہ دوراورلمبےفاصلےسےآیاہوامہمان زیادہ قابل توجہ اور زیادہ قابل احترام سمجھاجاتاہے۔آج کل سائنس کی برق رفتارترقی کےآگےہماری اخلاقی ترقی صفرہوکررہ گئی ہے۔چنددہائیاں پہلےمہمان کاجومقام اورمرتبہ ہواکرتاتھا،آج کی تہذیب یافتہ معاشرےمیں وہ بالکل معدوم ہوچکاہے۔اس زمانےمیں کوئی بھی نوواردجوکہیں باہرسےآیاہواہوتا؛آبادی کےاندرپہنچ کراُسےمہمان کےمرتبےپرفائزکیاجاتا۔سب محلےوالےاس کی آؤبھگت کرتےاورحسب توفیق اس کی ضروریات کاخیال رکھتے۔گاؤں کےبڑےحجرےمیں اس غرض سےانتظام موجودہوتا۔مہمان کےلئے بستر اور کھانے پینےکافوراًہی بندوبست ہوجاتااوررات کواسےآرام سےسلادیاجاتا؛ جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا مگرہماری روزافزوں ترقی سےیہ روایت اب دم توڑچکی ہے۔رہی سہی کسرہوٹل مالکان اورریسٹورنٹ والوں نےپوری کردی ہےکہ وہاں بستراورکھانےپینےکی ضرورت بآسانی پوری ہوجاتی ہے۔‘‘(۵) متذکرہ بالااقتباس سےکئی خصوصیات سامنےآتی ہیں۔پروفیسرنورکمال کاکمال یہ ہےکہ ان کےہاں توضیحی اندازبیان موجودہےلیکن وہ جب کسی شےکوسمجھاتےہیں تووضاحت بھی جامعیت کےساتھ کیاجاتاہےنہ کہ لمبی چوڑی باتوں میں۔ان کےہاں اگرایک طرف اصلاح موجودہےاوروہ اس روایت کوقائم کرنےکےمتمنی ہیں جوپشتونوں کےرگ رگ میں رچی بسی ہےکہ ؛مہمان نوازی پٹھانوں کےہاں ایک مقدس فریضہ ہی ہےوہ پہلےپہل اس کابہت پالن کرتےتھےاوراس کی پاسداری کیاکرتےتھے۔لیکن بدقسمتی سےانھوں نےمغربی اورمشرقی بعض ثقافتوں کودیکھ کراسےترک کرناشروع کردیاہےجس کی بناپراب وہ روایت برقرارنہیں اورپروفیسرصاحب اس وجہ سےسخت نالاں دکھائی دیتےہیں۔ایک طرف وہ معاشرےاورپشتون روایت کی بحالی چاہتےہیں تودوسری جانب انھوں نےپٹھانوں کی روایت شکنی پرطنزبھی کیاہے۔ان کےطنزکی کاٹ میں شدت پسندی نہیں پائی جاتی ہےبلکہ اس میں ٹھہراؤپایاجاتاہے۔ بہترین مزاح نگاری کے لیے ضروری ہے کہ بات کو اس انداز سے پیش کیا جائے کہ پڑھنے والا اس کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکیں اور اس سے لطف اندوز ہوسکے اگر بات زیادہ گہری او رمشکل ہو تو اس میں جو مزاحیہ پن ختم ہوجاتا ہے۔نورکمال شاہ نے بھی اس انداز کو اپنانےکی کوشش کی ہے۔ اور اس کو اپنی تحریروں میں خوبصورتی سے برتنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے ہیں ۔اس لیے وہ بعض جگہوں پر خوبصورت الفاظ کےعلاوہ ضرب المثال کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس سے ایک طرف بات قاری کے لیے آسان ہوجاتی ہے اور ووسری طرف مزاح کا پہلو بھی برقرار رہتا ہے۔یہ خوبی نورکمال شاہ کی مزاح نگاری کو دلچسپ بناتی ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں :’’پشتومیں ایک ضرب المثل مشہورہے’’کہ دابئی خپل ئی نوکورتہ رازہ اوکہ دداداخپل ئی نوبہرکینہ‘‘۔اس کامطلب یہ ہےکہ اگرامی کےعزیزہو تو گھرکے اندر آجاؤ اور اگر بابا کےرشتہ دارہوتوباہرٹھہرجاؤ۔‘‘(۶) ہرکام کی ابتدا یا آغا زمشکل ہوتا ہے لیکن سب سے زیادہ اہمیت کے حامل بھی یہی چیز ہوتی ہے۔آغا زایسا کرنا چاہیے کہ آگے جانے میں مزہ آئے ۔اس طریقے سے مزاح پیدا کرنا آسان کام نہیں او رنہ یہ صلاحیت ہر کسی میں موجود ہوتی ہے۔ابتدا ہی سے قاری کو اپنےساتھ کرنا ایک مشکل فن ہے لیکن پروفیسرنورکمال شاہ اس حوالےسے کافی مہارت رکھتے ہیں ۔وہ تحریر کا آغاز اس اندا زمیں کرتے ہیں کہ ایک طرف پورا واقعہ آسانی کے ساتھ قاری کی سمجھ میں آتا ہے تو دوسری طرف اس آغاز سے ساری تحریر مزاحیہ بن جاتی ہے۔روایات کی پاسداری: پروفیسرنورکمال شاہ کےہاں ہمیں روایات کی پاسداری نظرآتی ہے۔ایک طرف انھوں نےاس پرطنزکیاہےاوران لوگوں کامذاق اڑایاہےجو اپنی روایات سےبےگانےہوگئےہیں تودوسری جانب انھیں شدیدصدمہ بھی پہنچتاہےکہ پشتونوں کی روایات کتنی حسین اورقابل رشک تھیں ،لیکن پشتونوں نےانھیں پامال کردیاہےاوراب وہ جدیدطرزکی زندگی گزاررہےہیں جس سےانھیں بہت سےمسائل کاسامنا کرنا پڑرہاہے۔حالاں کہ ابتدامیں ان لوگوں کےپاس اتنےوسائل نہیں تھےجتنےآج ہیں،لیکن وہ بڑوں کی عزت کرنا،مہمان نوازی،چھوٹوں پرشفقت کرنا،معاشرتی خوش حالی،رشتوں کی بحالی و پاسداری جیسےوسائل سےمالا مال تھے۔اب ان کی حالت یہ ہےکہ وہ رشتوں کی معنویت سےدورہوتےجارہےہیں اوراس مادہ پرستی کی دنیامیں مادےکےپیچھےپڑےہوئےاوراس میں تقریباًدھنس چکےہیں۔یہ لوگ مہمان نوازی سےبھی دھیرےدھیرےمتنفرہوچکےہیں۔ان کا تواب یہ حال ہےکہ وہ اپنی روایات کوروندتےہوئےخوش ہوتےہیں۔پہلےپہل وہ مہمانوں کےسامنےجان نچھاورکرنےسےبھی گریزنہیں کرتےتھے،اب وہ مہمان کو ایک زحمت کےسواکچھ بھی نہیں سمجھتے۔وہ مہمان نوازی کاخوش حال دوراب کہاں ؟اب وہ رونق اورسکون و آرام کہاں؟اب پشتونوں کی بہادری بھی مفقودہوگئی ہےکیوں کہ وہ اپنی روایات اوراخلاقی اقدارسےدورہوگیاہے۔وہ ان مسائل کا ذکرمزاحیہ اندازمیں یوں لکرتےہیں کہ قاری خودبخودان کی کیفیت اور ان کی ناراضگی کوسمجھ جاتاہے۔ان کےمطابق مہمان اب آرام سکون کاسخت دشمن ہے،وہ خانگی اورنجی زندگی میں خلل ڈالنےکےمترادف ہے۔وہ اصل میں مزاح کرتےہیں لیکن دل ہی دل میں اس روایت کومٹتےہوئےدیکھ نہیں سکتےاس لیےاسےطنزکوجامہ پہناکرلوگوں کواحساس دلاتےہیں ۔ایک جگہ کہتےہیں:’’پھربھی اگرکوئی اس رحمت کواپنےلئےزحمت محسوس کرتاتوبڑی آسانی سےخودکوبچاسکتاتھا۔جیسےکسی گاؤں میں ایک شخص گھرمیں کھانا کھانے کے بعد حجرے پہنچاتووہاں مہمان موجودتھااوردوسراکوئی مقامی فردوہاں موجودنہ تھا۔علیک سلیک کےبعداس نےروایتامہمان سےپوچھ ہی لیاکہ ہاں بھئی مہمان!تم نے کھانا کھا لیا ہے؟۔ مہمان بےچارہ توبھوکاتھا،فوراًبولا؛نہیں جی!میں نےکھانانہیں کھایاابھی۔وہ شخس حاضرجوابی سےبولا؛اچھا۔۔۔۔!!شکرہےمیں نےتوکھالیاہے۔۔۔۔۔!!!۔‘‘(۷) بظاہرتویوں لگ رہاہےکہ انھوں نےمیزبان پرطنزکیاہےلیکن اصل میں وہ یہ احساس دلاناچاہتےہیں کہ مہمان کی وہ مہمان نوازی اور عزت و تکریم ہمارےہاتھ سےنکل گئی ہے۔اب محض ہم دولت اور مادے کے پجارے بن گئےہیں۔اس کےعلاوہ انھوں نےایک جگہ یہ احساس بھی دلایاہےکہ بعض مہمان بھی آج کل سچ میں بےشرم بن گئےہیں اورناشائستہ حرکات کرتےہیں جس کی بناپرمیزبان انھیں ٹرخانےکی ترکیب سوجھتاہے۔اس حوالے سے اقتباس ملاحظہ ہو:’’۔۔۔چندمہینےپہلےایساہی ایک قرض اورغرض کامارامہمان میرےہاں پہنچااورباقاعدہ تمہیدباندھ کراپنی غمخواری اورتہی دامنی کی داستان سناکرمجھےآبدیدہ بنانےکی کوشش کرنےلگا۔ظالم میری تنخواہ اورماہانہ خرچ کاباقاعدہ چارٹ بناکر لایا تھا۔ مجھے سمجھانے لگا کہ دوسال پہلےترقی ملنےکےبعدآپ کی تنخواہ تھوڑی سی کمی بیشی کوملاکےایک لاکھ روپےتک ہوگئی۔آپ کےسوادسلف کاخرچ اوردیگرگھریلواخراجات تقریباًتینتس ہزار روپےتک ہوں گےکیوں کہ آپ توویسےبھی چکنائی کم کھاتےہیں،میٹھےسےپرہیزبھی کرتےہیں،ڈاکٹرنےگوشت کھانےسےمنع بھی کیاہےاورفضول خرچ بھی نہیں ہیں۔بچوں کےتعلیم کےخرچےدس پندرہ ہزارہوں گےیاچلیئےبیس ہزارہی لگالیں۔ اس حساب سےآپ کےپاس پچاس ہزاررووپےفی مہینہ زائداوراضافی بنتےہیں جسے آسانی سےبچت کےپلڑےمیں ڈالاجاسکتاہے۔چنانچہ اس طرح ایک سال میں آپ کم ازکم چھ لاکھ کےمالک بن چکےہیں اورمیری ضرورت فقط تین لاکھ ہیں، سودیجئے گا۔‘‘(۸) انھوں نےیہاں مہمان کی وجہ سےمیزبان کی حالت کی خرابی کی بناپرمزاح پیداکی ہے۔ان کاکمال یہ کہ وہ کسی واقعےسےخوب صورتی کےساتھ مزاح اورظرافت پیداکرسکتےہیں،یہ حس ہمیں چندہی مزاح نگاروں کےہاں نظرآتی ہے۔ان کےہاں روایت کی پاسداری کاموضوع کبھی گہری مزاح توکبھی ہلکےپلکےمیں اجاگر ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کےاس مجموعےمیں ہمیں روایت کی پاسداری کادرس دیاگیاہےاوراس کی اصلاح کی طرف اشارہ بھی کیاگیاہے۔عصری شعور: پروفیسرنورکمال شاہ کےطنزیہ و مزاحیہ مضامین کےمجموعے’’نمک زار‘‘میں کورونااورہنسی کےمابین موازنےیاتقابل کےعلاوہ دونوں کی خصوصیات پرطنزومزاح کی گئی ہے۔ ان کی نظر معاشرے کے ہر شعبہ اور ہر کردار پر رہتی ہےاگر یہ کہا جائے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگیوں پر نظر رکھتے ہیں تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ وہ اپنی بصیرت و بصارت دونوں سے کام لیتے ہیں ۔وہ اصلاح نفس سے لے کر معاشرے تک سبھی مسائل کو زیر بحث لاتے ہیں ۔وہ ایک نڈر انسان کی طرح ہر برائی کا سامنا کرتا ہے اور اسے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس کو بھی اس میں مبتلا پاتے ہیں ان کا بیان بغیر کسی خود او رڈر کے کرتے ہیں۔ان کےہاں عصری آگاہی موجودہے۔وہ عصری مسائل کوطنزومزاح کاجامہ پہنانےمیں ماہرہیں۔پروفیسرصاحب کی ژرف نگاہی کااندازہ اس بات سےلگایاجاسکتاہےکہ انھوں نےکسی بھی عصری مسٔلےکوہاتھ سےجانےنہیں دیابلکہ بھرپورطورسےاس پرطبع آزمائی کی ہے۔ان کےعصری شعوروآگاہی کااندازہ اس سےلگایاجاسکتاہےکہ کوروناجیسی وباجوکہ ابھی ابھی دنیاکی دگرگونی اورانسانی زندگی کوایذاپہنچانےپھیلی تھی کوانھوں نےجامعیت اورفن کاری کےساتھ اپنےمضامین میں پیش کیاہے۔ کوروناایک عالمی وباہےجس نےتمام دنیاکےلوگوں کونہ صرف مصیبت میں ڈلابلکہ بہت سےجانیں اس وباکی زدمیں آکرفناہوگئیں۔اس وبانےایک طرف عالمی حکما،طبیبوں اوردانش وروں کوورطۂ حیرت میں ڈالاتودوسری جانب ایک عام انسان کی زندگی خطروں سےبھرکراسےمحصورکرلیا۔یہ (Covid.19)ایک ایسی وباتھی جس نےیہ ثابت کردیاکہ انسان کیاہے؟اوراس کی اصلیت کیاہے؟۔اس نےایک طرف یہ سوچنےہرمجبورکیاکہ انسان کتنامجبوراوربےبس ہےتودوسری طرف یہ بھی دکھایاکہ مغرب کےغیردینی لوگ جواسلام دشمن ہیں ،کوئی اختیارنہیں رکھتےبلکہ اختیاراورقدرت صرف اللہ کےپاس ہے۔اس وبا میں انسان کیڑےمکڑوں کی طرح صفحۂ ہستی سےمٹادیا۔اس سےانسانوں کی زنددی میں بہت تبدلیاں رونماہوئیں۔انسان یہ سوچنےپرمجبورہوگیاکہ ایک چھوٹی سی بیماری بخاراورکھانسی و نزلہ جوکہ روزمرہ زندگی میں انسان پرحملہ کرتارہتاہےلیکن اتناشدیدجھٹکاانسان کودےگاناممکن ہے۔انسانی عقل دنگ رہ گئی اور بالآخریہ رازبھی افشاں ہواکہ یہ عالمی طاقتوں کی رچی ہوئی ایک چال کےسواکچھ نہیں ہوسکتی۔کوروناکی وبا: زیرتحقیق مجموعےمیں کورونااورکھانسی دونوں سےطنزومزاح پیداکرنےکی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔انھوں نےاپنےمضمون’’کورونااورکھانسی‘‘میں اسےخوب صورتی کےپیش کیاہے۔مضمون کےابتدامیں لکھتےہیں:’’دوستو!عجیب گومگوں کاشکارہوں،سمجھ میں نہیں آرہاکہ کیا کررہاہوں، مجھے کیا کرنا چاہئے اور شائد میرے جیسے ہزاروں لاکھوں لوگوں کی یہی حالت ہے۔ان دنوں پوری دنیاایک انجانےاورخوفناک بیماری کوروناکی لپیٹ میں ہے۔اس عالمگیر وبا نے تو سوچنے سمجھنےکےزاویےتبدیل کردئیےہیں۔ انسان بہت ساری اعلانیہ اور غیراعلانیہ پابندیوں کاشکارہوکرگھرکاقیدی بن چکاہے۔کام،کاروباراور روزگارسب بند ہوچکےہیں۔جہاں پہلےگھر سے باہر رہنا مردانیت کی شان سمجھاجاتاتھا؛آج گھرکےنسررہناآدمیت کی معراج تصور کیا جاتاہے۔محاذبدل چکاہے؛حکمت عملی بدل چکی ہے۔مردآج سے پہلے معاشرےسےلڑتاتھا؛آج گھرکےاندربیوی بچوں سےلڑتاہے۔‘‘( ۹) انھوں نےابتدامیں کوروناکی وجہ سےپیداہونےوالےمسائل کاذکرکیاہےاوراس کےبعدواقعاتی اندازمیں مزاح کی چاشنی بھی شامل کی ہے۔تمہیدباندھ کرآگےیوں مزاح پیداکرتےہیں:’’ بندہ نہ ہی کھانس سکتا ہےاورنہ ہی آزادی سےچھینک سکتا ہے۔ اپنے بخار یا سردرد کا حال نہ توگھرمیں اورنہ ہی گھرسےباہرکسی کو بتا سکتا ہے۔ ہسپتال یاکسی ڈاکٹرکےپاس جانےسےتوایساڈرتاہےجیسےگیرمسلم کلمے سے!! !۔ گلے کا خراب ہونا تو سونے پر سہاگہ؛ اپنےپرائےایسےدوربھاگتےہیں جیسےآپ ابھی ابھی کسی کوقتل کرکےآئےہوں اورہاتھ میں ہنوزخنجرواسلحہ موجودہوبدقسمتی سےچھینک یا کھانسی اگرلوگوں کےسامنےآگئی اورآپ چھینکےیاکھانسےتوسارےلوگ یوں گھور کر دیکھےلگتےہیں جیسےاتنی بڑی عمرہونےکےباوجودآپ نےقمیض الٹاکراُس پہ اپنی ناک صاف کی ہو۔‘‘(۱۰) اس قتباس میں طنزومزاح اپنےعروج پرہے۔پروفیسرصاحب نےکوروناکی حالت اوراس صورت حال کوجس اندازسےپیش کیاہےوہ عمدگی سےخالی نہیں۔جامعیت و اختصارکوکلام نظم ونثرمیں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے،اس سےکلام میں شستگی،شائستگی اور خوب صورتی و رعنائی پیداہوتی ہے؛کلام کی رنگارنگی میں اضافہ ہوتاہے۔اس کےعلاوہ فن کارکی قادرالکلامی اور کلام پرقدرت کاثبوت بھی ملتاہے۔نورکمال شاہ کےہاں ہمیں مذکورہ اقتباس میں ایجازواختصارکی چاشنی نظرآتی ہے۔انھوں نےاختصارکےساتھ کوروناکےدوران ہونےوالےواقعات پرطنز کے نشتر چلائےہیں۔ان کاکمال یہ ہےکہ مختصرجملوں کےبعدآنےوالےجملےمیں بھی مزاح سےکام لیتےہیں۔ ابھی قاری کی ہنسی روکی نہیں ہوتی کہ وہ طنزیامزاح سےاسےاوربھی ہنسادیتےہیں۔ان کےہاں ہمیں طنزومزاح کی چاشنی بیک وقت نظرآتی ہے۔وہ بطورمزاح نگارایک عمدہ لکھاری ہیں لیکن جب طنزکرتےہیں توجچلےتلےاندازمیں۔انھیں طنزومزاح پرعبورحاصل ہےاور اس کا کھلا ثبوت مذکورہ اقتباس ہےجس میں ان کی طنزومزاح ٹھاٹےمارتی ہوئی نظرآتی ہے۔ان کامشاہدہ انتہائی عمیق اورمطالعہ انتہائی گہراہے۔ان کےمطالعےکی گہرائی کااندازہ ان کی تحاریرسےلگایاجاسکتاہے۔ان کی تحاریر میں ہمیں عمیق مشاہدےکی جھلک نظرآتی ہے؛وہ کسی چیزکوسرسری نگاہ نہیں دیکھتےبلکہ وہ اسے اپنے مشاہدےسےگزارکراس پردقیق نظرڈالتےہیں۔وہ کھانسی کےفوائدگنواتےہوئےلکھتےہیں کہ ہنسی نہ صرف ہمارےنظام تنفس کےلیےموزوں اورکارآمدہےبلکہ اس کےکئی فوائدہیں۔ہنسی کےحوالےسےطنزومزاح سےکام لیتےہوئےکہتےہیں؛اقتباس کچھ یوں ہیں:’’کھانسی‘‘بھی اللہ تعالیٰ نےکتنی عجیب اورلاجواب شےپیداکی ہےجسےہمارےہاں نظام تنفس اورنطام انہضام کی درستی کےساتھ ساتھ باہم اشارےکنائےکےلئےاستعمال کیاجاتارہاہے۔سامنےموجوددشمن اوربدخواہ کےمتعلق آگاہی دلانےیااپنی موجودگی کااحساس دلانےکےلئےہم بڑی بےدردی سےاس کا استعمال کرتے آئے ہیں۔ خصوصاً اس وقت جب ہماری عتاب اورتضحیک کانشانہ بننے والا ہمارے درمیان محفل میں موجود ہو؛ہلکی سی’’ٹوخ‘‘اس کاساراکچاچٹھابیان کردیتی ہے۔‘‘(۱۱) کوروناکی وجہ سےکھانسی پرپابندیوں کی بناپرانسان جن تکالیف سےگزارااورانسان نےجواذیتیں جھلیں ،پروفیسرصاحب نےانھیں خوب صورتی کےساتھ صفحۂ قرطاس پراتاراہے۔وہ بعض اوقات چھوٹےچھوٹےجملوں سےبھی مزاح پیداکرتےہیں۔مثلاً:’’سانس یاخوراک نگلنےکےسسٹم میں رکاوت پیداہوئی اوربس ذراایک ہلکی سی ’’ٹوخ‘‘کےساتھ سسٹم صاف۔کوروناکاسب سےبڑانقصان یہی ہواکہ کھلےعام کھانسی پرغیراعلانیہ پابندی لگ گئی۔ہم پاکستانین جتنی سخاوت اورفراخ دلی(بلکہ دریادلی کہہ لیں)سےکھانستےہیں شائدکوئی اورقوم اس ہنرمیں ہمارامقابلہ کرسکے۔‘‘(۱۲) ان کی طنزومزاح میں رکاوٹ پیدانہیں ہوتی بلکہ اس میں تواترجھلکتاہےیعنی وہ مسلسل طنزومزاح کرتےہیں،قاری کوہنسی روکنےکاموقع نہیں دیتے۔پروفیسرنورکمال شاہ جدید دورمیں نفسیات کےعلم سےآگاہی لازمی گردانتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ اس طرف بھی توجہ دلاتے ہیں کہ اس کی وجہ سےانسان اب نہایت احتیاط کے ساتھ اور سوچ سمجھ کر زندگی گزارتا ہے تاکہ ماہر نفسیات اس کے مخفی رازوں کو آفشاں نہ کردے۔جب انسان ایک جگہ کئی مہینے اکٹھے گزارے اور پھر یک دم وہاں سے جانے کا پروگرام بنالے اور صرف ایک شخص وہاں رہ جائے تو اسے نفسیاتی حوالے سے بہت دکھ اور غم کےلمحات سے گزرنا پڑتا ہے۔وہ اکیلا رہنے کا خوگر نہیں ہوتا لہذا تنہائی میں اسے گھٹن محسوس ہوتی ہے اور ایک قسم کا ڈر بھی لگتا ہے۔کوروناکی وجہ سےتنہائی کی بناپرانسانی حالت کاانھوں نےخوب تصویرکشی کی ہے۔تشبیہات،ضرب الامثال اوراشعارکااستعمال: وہ مزاح نگاری اورطنزنگاری کوخوب صورت بنانےکےلیےتشبیہات اوراشعارکااستعمال بھی کرتےہیں۔وہ اپنےکلام میں تشبیہ اورشعرسےملمع کاری کرتےہیں۔بہترین مزاح نگاری کے لیے ضروری ہے کہ بات کو اس انداز سے پیش کیا جائے کہ پڑھنے والا اس کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکیں اور اس سے لطف اندوز ہوسکے اگر بات زیادہ گہری او رمشکل ہو تو اس میں جو مزاحیہ پن ختم ہوجاتا ہے۔پروفیسرنورکمال شاہ نے بھی اس انداز کو اپنانےکی کوشش کی ہے۔ اور اس کو اپنی تحریروں میں خوبصورتی سے برتنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے ہیں ۔اس لیے وہ بعض جگہوں پر خوبصورت تشبیہات کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس سے ایک طرف بات قاری کے لیے آسان ہوجاتی ہے اور ووسری طرف مزاح کا پہلو بھی برقرار رہتا ہے۔یہ پروفیسرنورکمال شاہ کی مزاح نگاری کو دلچسپ بناتی ہے۔وہ ’’نمک زار‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں :’’گلے کا خراب ہونا تو سونے پر سہاگہ؛ اپنےپرائےایسےدوربھاگتےہیں جیسےآپ ابھی ابھی کسی کوقتل کرکےآئےہوں اورہاتھ میں ہنوزخنجرواسلحہ موجودہوبدقسمتی سےچھینک یا کھانسی اگرلوگوں کےسامنےآگئی اورآپ چھینکےیاکھانسےتوسارےلوگ یوں گھور کر دیکھےلگتےہیں جیسےاتنی بڑی عمرہونےکےباوجودآپ نےقمیض الٹاکراُس پہ اپنی ناک صاف کی ہو۔‘‘(۱۳)نورکمال شاہ کتنے خوبصورت اور آسان تشبیہات سے بات کو آسان سے آسان تر بنا دیتے ہیں ۔ہرکام کی ابتدا یا آغا زمشکل ہوتا ہے لیکن سب سے زیادہ اہمیت کے حامل بھی یہی چیز ہوتی ہے۔آغا زایسا کرنا چاہیے کہ آگے جانے میں مزہ آئے ۔اس طریقے سے مزاح پیدا کرنا آسان کام نہیں او رنہ یہ صلاحیت ہر کسی میں موجود ہوتی ہے۔ابتدا ہی سے قاری کو اپنےساتھ کرنا ایک مشکل فن ہے لیکن پروفیسرصاحب اس حوالےسے کافی مہارت رکھتے ہیں ۔وہ تحریر کا آغاز اس اندا زمیں کرتے ہے کہ ایک طرف پورا واقعہ آسانی کے ساتھ قاری کی سمجھ میں آتا ہے تو دوسری طرف اس آغاز سے ساری تحریر مزاحیہ بن جاتی ہے۔تشبیہ کےذریعےوہ قاری کوخوب صورتی اورعمدگی کےساتھ سمجھاتےہیں،وہ تشبیہ کےذریعےکلام کوخوب صورت بناتےہیں۔تشبیہ سے کلام میں حسن اور خوب صورتی پیدا ہوتی ہے

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں