جب ہم پاکستان میں تعلیم و تربیت اساتذہ یا پیشہ تدریس کی کیفیت کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں اس پیشہ کی طرف بہت کم لوگ مائل ہوتے تھے حد یہ تھی کہ لوگ دیہات میں پٹواری بنا یا پولیس میں بھرتی ہونا اچھا سمجھتے تھے اور شہروں میں زیادہ رجحان ڈاکٹر، انجینئر یا وکیل بننے کا تھا۔ ایک زمانے میں یہ بات عام تھی کہ جب کوئی شخص اپنے اوپر تمام ملازمتوں کے دروازے بند پاتا ہو تو وہ محکمہ تعلیم کا رخ کرتا اور پیشہ تدریس کو اپناتا ہے۔
اگر اس کی وجہ پر غور کیا جائے۔ تو ہمیں اس کا جواب مندرجہ بالا باتوں پر غور کرنے سے ملتا ہے یعنی یہ کہ ابتداء میں اساتذہ کی تنخواہیں بہت کم تھیں ، مواقع کم تھے، رہائش کی سہولتیں نہیں تھیں اور علاج معالجہ کا بھی کوئی بندوبست نہیں تھا۔
حکومت کی توجہ تعلیم کی طرف کم تھی۔ ان وجوہ کی بناء پر عوام میں بھی اس پیشہ کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ تعلیم کی ضرورت اور اہمیت کا احساس پیدا ہوتا گیا اور اس طرف کچھ فلاحی اداروں اور کچھ حکومت کی توجہ سے اس پیشہ کی عزت اور وقار کو بڑھانے میں مدد دی۔ تنخواہوں کے اسکیل بڑھائے گئے اور کچھ سہولتیں بھی دی گئیں۔ مثلاً
غیر تربیت یافتہ افراد کی تربیت کا انتظام بلا معاوضہ کیا گیا۔
تربیت کے لئے خواہشمند اساتذہ کو پوری تنخواہ پر چھٹی دی گئی۔
علاج معالجہ اور رہائش کی سہولتیں دیگر سرکاری ملازمین کے برابر مقرر کی گئیں۔
بعض مدارس کیلئے سر براہی الاؤنس دیا گیا۔ اس طرح آہستہ آہستہ یہ پیشہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہوتا گیا اور ہوتا جارہا ہے۔ کسی بھی پیشہ کا انتخاب کرنے والوں کے پیش نظر پیشہ کے تقدس اور عظمت کے مقابلہ میں دولت ، شہرت اور اثر ورسوخ کو اولیت دی جاتی ہے۔
تعلیم کو بحیثیت پیشہ تدریس اپنانے والوں کیلئے مالی نقطہ سے بہت کم رغبت و شوق کا سامان ہے۔ پاکستان ایک ایسا ترقی پذیر ملک ہے جو تقریباً دو سو سال ایک غیر قوم کے قبضہ میں رہا اور اس دوران اس کی ہر چیز کو تباہ وبرباد کرنے کی کوشش کی گئی ۔ معمولی صنعت و حرفت سے لے کر ، تعلیم ، ثقافت اور اخلاق و روایات سب ہی کو نشانہ بنایا گیا اور معاشی ، سیاسی اور سماجی لحاظ سے اس ملک کو نقصان پہنچایا گیا
اور اس عرصہ میں اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہو گا کہ اخلاقی جہالت کو عام کیا گیا اگر ہم اس خطہ ارض کی سابقہ تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطہ اس مغربی قوم کی آمد سے قبل علم و فضل کا گہوارہ رہ چکا تھا جہاں ہر طرف علم کے چرچے تھے اور خاص و عام کی محفلیں علمی بحثوں سے گرم رہا کرتی تھیں اور ہر علاقہ میں مکتب و مدرسے کافی تعداد میں موجود تھے۔ لیکن کچھ ہی عرصہ میں تمام مدارس اور مکتبوں کی امداد بند کر دی گئی۔
ان سے متعلق زمینیں وغیرہ ضبط کر لی گئیں۔ اس کے بعد ایک تو مخصوص مقاصد کے مطابق نظام تعلیم رائج کیا گیا اور دوسری طرف تمام مضامین کی تعلیم کیلئے ذریعہ تعلیم انگریزی زبان کو قرار دے دیا گیا اور ساتھ ہی مقاصد تعلیم بھی یکسر بدل گئے اور وہ تمام افراد جو انگریزی زبان سے ناواقف تھے جاہل قرار دیئے گئے۔ اس طرح ان پر تمام ملازمتوں کے دروازے بند کر دیئے گئے۔اب حال یہ تھا کہ تعلیم کا مقصد ملازمت سرکار تھا۔ لوگ اس مقصد کے تحت انگریزی سکولوں کا رخ کرنے لگے۔
لیکن جو انگریزی تعلیم کو پسند نہیں کرتے تھے ان کے بچے ان کے خاندان اور بعض جگہ پورے پورے علاقے ہر طرح کی تعلیمی سہولتوں سے محروم ہوتے چلے گئے اور جب یہ لوگ اس علاقہ سے روانہ ہوئے تو جہالت اس قدر عام تھی کہ خواندگی کا اوسط ۳ فیصد سے ۵ فیصد تھا اور علم برائے ملازمت کارجحان عام تھا۔
اس کے علاوہ مدارس کی بھی درجہ بندی کر دی گئی اور تعلیم کو عام کرنے کے بجائے اسے ایک خاص طبقے کے لئے محدود کر دیا گیا اور صرف اس قسم کی تعلیم کا بندوبست کیا گیا تھا جو صرف کلرک پیدا کر سکتی تھی۔
اس طرح مساوات قائم کرنے کے بجائے گروہ بندی کی پالیسی پر عمل کیا گیا۔۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کے بعد جب یہ خطہ ارض آزاد ہوا تو تمام شعبوں کی از سر نو تنظیم کی گئی اور اسلامی اقدار وروایات کو دوبارہ زندہ کرنے اور عام زندگی میں رائج کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔
اس طرح تعلیم پر خصوصی توجہ کا آغاز ۱۹۵۸ء میں ایک تعلیمی کمیشن کے قیام سے ہوا، جس نے ۱۹۵۹ء کی ابتداء میں ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی۔ جس کی روشنی میں تعلیمی اصلاحات عمل میں آئیں۔ اس کے بعد سے آج تک تعلیم کے نظام کو خوب سے خوب تر بنانے کا سلسلہ جاری ہے ۔
اس موضوع کے متعلق مزید یہ بھی پڑھیں: نوجوانوں میں اخلاقی اقدار کا فقدان اور اعلی تعلیمی ادارے مقالہ pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں