موضوعات کی فہرست
پس منظر
وہ جو کھوئے گئے قرآن کے بیان کردہ لوگوں کے افسانے ہیں جو شخصیت کے زوال اور اس کی موت کا نہایت دل دوز منظر پیش کرتے ہیں۔ اس میں شخصیت سچ مچ اپنی اٹل اور ناگزیر موت کو پہنچ جاتی ہے اور ماضی کی تمام تر یاد نا قابل بازیافت طور پر محو ہو جاتی ہے۔ ساتھ ہی ذات کا سارا احساس بھی ۔
وہ جو کھوئے گئے ان کے المیہ میں ابن فرید لکھتے ہیں:
میرے نزدیک تو بے بسی و بے سرو سامانی بے کسی و مظلومی یاد ماضی اور وطن کا ناسٹلجیا (Nostalgia)۔۔۔۔اور اس کےلیے گریہ کا آپ کے افسانے کا مرکزی خیال ہے ہجرت نہیں! یہ مرکزی خیال آپ کو اتنا عزیز ہے کہ اسے اس نے سورنگ سے باندھا ہے۔
خلاصہ
اس کہانی میں چار بے نام آدمی ہیں۔ انہیں با قاعدہ ایک خاص رمزی منصوبے کے تحت ناموں سے معری کر دیا گیا ہے تا کہ انفرادی ذات کی گم کردگی کے احساس کو دو چند کیا جا سکے۔
شناخت کے لیے انہیں ان اشیاء سے جو ان کے حلیوں میں ممتاز ہیں پکارا جاتا ہے ۔ مثلاً زخمی سروالا ، باریش آدمی، تھیلے والا اور نو جوان اور یہ اس لیے کہ ان کے وجود کی موہومیت اور غیر حقیقی پن نہایت ڈرامائی انداز میں اجاگر ہو جائے ۔
ان کے بارے میں ہمیں اس سے زیادہ کچھ اور معلوم نہیں کہ یہ کسی بہت سی شدید تعذیب کی حدود سے بھاگ نکلے ہیں۔ اغلب گمان یہ ہے کہ ان کا تعلق غرناطہ شاہجہان آباد (دلی) اسرائیل اور کشمیر سے ہے۔
ان کی مثال علی ہجویری کی ایک تمثیلی حکایت کے موجب ہے جس میں چوہے آتش زدہ پہاڑ سے بھاگ نکلے ہیں مگر یہ آکہاں سے رہے ہیں اور جانا انہیں کہاں ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ ان تمام سوالوں کا بے کم و کاست جواب موجود نہیں۔
ان کے بارے میں ہمیں اس سے زیادہ کچھ اور معلوم نہیں کہ یہ کسی بہت سی شدید تعذیب کی حدود سے بھاگ نکلے ہیں۔ اغلب گمان یہ ہے کہ ان کا تعلق غرناطہ شاہجہان آباد (دلی) اسرائیل اور کشمیر سے ہے۔ البتہ ان کی بازیافت اسپین میں غرناطہ سے موجودہ اسرائیل میں بیت المقدس سے ہندوستان میں کشمیر اور جہاں آباد یعنی دہلی ہے ۔۔۔۔
ان تمام جگہوں پر انہوں نے عظمت آدم اور اس کے وقار کی نہایت ٹھوس ، نہایت دلاویز دستاویز چھوڑی ہیں ۔
زخمی سروالا کہتا ہے۔ میں اکھڑ چکا ہوں اب میرے لیے یہ یاد کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کون سی مضاعت تھی اور کون سا موسم تھا اور کونسی بستی تھی ؟
اس افسانے کے چاروں کردار اس شک میں مبتلا ہیں کہ ان میں سے ایک شخص گم ہو گیا ہے وہ ایک بار دو بار غرض کئی بار خود کو گنتے ہیں۔ پہلے ایک پھر دوسرا پھر تیسرا، پھر چوتھا۔ سب ہی گننے کا عمل دہراتے ہیں اور گنتی کے دوران گنے والا خود اپنے آپ ہی کو گنا بھول جاتا ہے۔ انہیں صرف اتنا یاد ہے کہ ان میں سے ایک کم ہو گیا ہے لیکن یہ کم شدہ کون ہے؟
انہیں تو گم شدہ کا چہرہ تک یاد نہیں رہا اور نہ یہ کہ اس کا نام کیا ہے؟ اور نہ یہ کہ وہ مرد ہے یا عورت۔ اس ساری حکایت کا مطلب ایک ہی ہے:
چاروں میں سے کسی کو بھی اب اپنی ذات کی واضح آگا ہی نہیں رہی۔ آگے چل کر زخمی سر والے کو اچانک یہ خیال آتا ہے کہ گنتی لیتے وقت وہ شاید خود کو شمار کرنا بھول گیا تھا۔ وہ اپنے شک کا اظہار اپنے دوسرے ساتھیوں سے کرتا ہے۔ باری باری ہر ایک کو اپنی یہی غلطی معلوم ہوتی ہے اور ہر ایک یہی سوچتا ہے کہ گم شدہ آدمی فی الواقع وہی ہے۔
تب سب چکر میں پڑ گئے اور یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ آخر وہ کون ہے جو کم ہو گیا ہے اس آن زخمی سروالے کو پھر وہ وقت یاد آیا جب تم ہو جانے والے آدمی کو ڈھونڈ کر پلٹ رہا تھا کہنے لگا اس وقت مجھے لگا کہ وہ آدی تو یہیں کہیں ہے مگر میں نہیں ہوں ۔ باریش آدمی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا: عزیز تو ہے۔ یہ سن کر زخمی سروالے نے ایک ایک ساتھی کو یوں دیکھا جیسے اسے باریش کے بیان پر اعتبار نہیں آیا۔ ایک ایک ساتھی نے یقین دلایا کہ وہ ہے۔
تب اس نے ٹھنڈا سانس بھرا اور کہا: چونکہ تم نے میری گواہی دی۔ اس لیے میں ہوں ۔ افسوس کہ میں اب دوسروں کی گواہی پر زندہ ہوں ۔“ اس پر باریش آدمی نے کہا: اے عزیز شکر کر تیرے لیے تین گواہی دینے والے موجود ہیں۔
ان لوگوں کو یاد کر جو تھے مگر ان کا کوئی گواہ نہ نکلا۔ سووہ نہیں رہے ۔”زخمی می سر والا بولا : سواگر تم اپنی گواہی سے پھر جاؤ تو میں بھی نہیں رہوں گا۔؟
یہ کلام سن کر سب چکرا گئے اور ہر ایک دل ہی دل میں یہ سوچ کر ڈرا کہ کہیں وہ تو وہ آدمی نہیں ہے جو کم ہو گیا ہے اور ایک اس مخمصے میں پڑ گئے کہ اگر وہ کم ہو گیا تو وہ ہے یا نہیں ہے ۔ دلوں کا خوف آنکھوں میں آیا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔ پھر ڈرتے ڈرتے اپنا اپنا شک بیان کیا ۔
افسانہ وہ جو کھوئے گئے کا تنقیدی جائزہ
سیٹرھیاں میں سید اپنی بازیافت میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر وہ جو کھوئے گئے کے چاروں آدمی نامزدر رہتے ہیں یہ حتمی اور واقعی طور پر کھو چکے ہیں۔ اپنی گزشتہ ذاتوں کی اب غیر مرئی پر چھائیوں سے زیادہ کچھ نہ ہوتے ہوئے۔ یہ بیچارے اب ایک دوسرے کی شہادت پر زندہ ہیں۔
یہ آئینہ ان تمام لوگوں کا ہے جو اپنی آگ کی زد میں آئی ہوئی عمارت سے حی علی ہجویری رحمتہ اللہ علی کی حکایت کے ہراساں چوہے کی طرح امان کے لیے بھاگتے ہیں اور یوں اپنے عنصر سے جدا ہو کر ایک مہیب تر اور تاریک تر آگ میں بے نام و نشان ہمیشہ کے لیے فنا ہو جاتے ہیں۔
روایت کے باہر کوئی زندگی نہں اس کہانی میں حافظے کے زوال اور اس کی اہل فنا کوپیش کیا گیا ہے۔
سلیم الرحمان اپنے مضمون ” فنا کا مسلہ” میں وہ جو کھوئے گئے پر یوں رقمطراز ہیں: اس افسانے میں کردار اپنے نام بھی کھو چکے ہیں ۔ ایک جہنم جہاں نفسانفسی کا علم ہے وہاں ہر شخص جان کی امان مانگتا تے دور بھاگتا ہے۔ ہر ایک اس درد میں گرفتا ہے جسکا کوئی درمان نہیں۔
پوری فضا میں اس نے بے اعتمادی اور بے حسی کا دور دورہ ہے۔ توزان کا سارا حساس زمان و مکان کا سارا احساس ریزہ ریزہ ہے اب تو جینے کی کی خواہش بھی نہیں جینے کا جیلی رجحان بھی نہیں اور آخر میں ایسا لگتا ہے کہ فضا میں تمسیح کے سوا کچھ بھی نہیں یہ بے نام لوگ جن کے چہرے مسخ ہیں، خاک و خون ہور ہے ہیں تڑپ رہے ہیں مر رہے ہیں۔
کرداروں کے وجود کی موہومیت (Imbuguity) اور غیر حقیقی پن کی یہ ایک عمدہ ڈرامائی صورت ہے کہ جب حافظے کا زوال ہو جاتا ہے تو شخصیت معدوم ہو جاتی ہے۔ ماضی کی یاد ہی جڑوں کو قائم رکھتی ہے اور اس کے بغیر فرد یا معاشرہ نسیان کے دودھیا اندھیروں میں گم ہو جاتا ہے۔
اس افسانے کا اسلوب قدیم داستانوں اور اساطیر کا ہے۔ اس تناظر میں یہ افسانہ لکھا گیا ہے۔ یہ افسانہ خالصتاً علامتی انداز کا ہے۔ ویسے بھی انتظار حسین سیدھے سادے اور روایتی انداز میں افسانہ لکھنے کے قائل ہی نہیں۔
تجریدی افسانے میں تذبذب اور بے یقینی سی ہوتی ہے اور بے وزنی و تشکیک کی کیفیت نظر آتی ہے۔ مگر ان کا شعور ( حال ) اور تحت الشعور (ماضی ) گڈمڈ دکھائی دیتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ لاشعور کی آمیزش بھی پائی جاتی ہے۔
بہر حال انتظار حسین کا یہ افسانہ علامت کے مروجہ تصور کے مطابق علامتی قرار ہی دیا جا سکتا ہے اور یہ افسانہ علامت کا ایک نہایت نرالا اور خوبصورت ترین شاہکار ہے ۔
انتظار حسین اپنے افسانوں پر علامت نگاری اور تجریدیت کے لیبل کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کے افسانوں میں علامت کے ساتھ ساتھ ایک کہانی بھی ملتی ہے جو کہ اپنے انداز ایک مکمل کہانی پن رکھتی ہے۔
مختصر یہ کہ انتظار حسین نے اپنے اس افسانے میں مسلمانوں کے ماضی کی شاندار روایات، تہذیب و معاشرت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور قومی وملی جذبے کو ابھارا ہے۔ اس سلسلے میں علامت کا سہارا لیا۔
یروشلم کی تقدیس کا سوال ہو یا غرناطہ کی عظمت و شکوہ کا مسئلہ یا جہاں آباد کی عظمت رفتہ کا سراغ ہو یا کشمیر کے ہاتھوں سے نکل جانے کا المیہ یہ چاروں دکھ اور چاروں غم اس افسانے میں نمایاں ہیں اور ان چاروں ملکوں کے یہ چاروں نمائندے جو اپنے ملکوں سے نکلنے پر مجبور ہو گئے ہیں وہ اب جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
اور اس چوتھے شخص کو تلاش کرتے پھرتے ہیں جو ان کی بات سنے ، ان کے دکھ درد بانٹے اور ان کی رہبری کرتے ہوئے انہیں اپنے ماضی کی عظمت رفتہ سے ہمکنار کر ڈالے ۔
یہی ہے ان چاروں کا المیہ کہ جس کے تدارک کے لیے یہ چاروں مارے مارے پھرتے ہیں اور یہاں تک کہ وہ اپنے وجود کے ہونے کی بھی گواہی طلب کر رہے ہیں کیونکہ انہیں اب اپنے ہونے کا یقین ہی جیسے نہیں رہ گیا اور انتظار حسین نے انہیں یقین دلانے ، ان کی ڈھارس بندھانے اور ان کے وجود کی گواہی دینے کے لیے یہ خوبصورت افسانہ تخلیق کیا۔
اگلا موضوع: انتظار حسین کا افسانہ ‘آخری آدمی’ کا خلاصہ، مرکزی خیال اور فکری و فنی جائزہ
متعلقہ سوالات اور جوابات
وہ جو کھوئے گئے کا مرکزی خیال کہاں ہے؟
بے سرسامانی ،مظلومیت اور ناسٹلجیا
وہ جو کھوئے گئے میں کتنے کردار ہیں۔
اس افسانے میں چار بےنامی کردار ہیں ۔
اس افسانے کے کرداروں کا تعلق کہا سے ہے؟
اسرائیل ، کشمیر ، دہلی اور غرناطہ (غالب گمان)
افسانہ وہ جو کھوئے گئے کے تمام کردار کس شک میں مبتلا ہیں؟
اس افسانے کے چاروں کردار اس شک میں مبتلا ہیں کہ ان میں سے ایک شخص گم ہو گیا ہے
افسانہ وہ جو کھوئے گئے کا مرکزی موضوع کیا ہے؟
حافظے کی گمشدگی۔