ولی دکنی: اردو شاعری کا چاسر
موضوعات کی فہرست
تعارف
نام ولی محمد تھا۔ (جمیل جالبی، وہاب اشرفی احتشام حسین ، سید جعفر کے مطابق) لقب شمس الدین تھا۔ ولی اورنگ آباد میں 1668 میں پیدا ہوئے۔ ولی کا انتقال 1720۔۔۔ 1725 عیسوی کے درمیان احمد آباد میں ہوا۔ اہل دکن کے مطابق ولی کا وطن اورنگ آباد اور اہل گجرات کے مطابق احمد آباد تھا۔ ولی کے والد کا نام شریف محمد تھا۔
ادبی سفر
ولی نے 1113 ہجری بمطابق 1700 عیسوی میں اپنے عزیز ترین دوست سید ابوالمعالی کے ہمراہ دلی کا سفر کیا تھا اور یہاں سعد اللہ گلشن سے ملاقات کی تھی۔ ولی مغلیہ بادشاہ اورنگزیب کے عہد میں دلی میں آئے تھے۔ ولی صرف ایک بار دلی میں آئے تھے۔ سعد اللہ گلشن ولی کو دو مشورے دیے:
- پہلا مشورہ: دکنی الفاظ کا استعمال کم کرو اور ان کی جگہ فارسی کی شیرین الفاظ کا انتخاب کرو۔
- دوسرا مشورہ: فارسی شاعری میں جو مضامین موجود ہیں انہیں اپنی زبان میں ادا کرو۔
1719 عیسوی میں ولی کا دیوان دلی آیا تھا (مصحفی کے مطابق)۔ 1719 میں ولی کا دیوان دلی میں آنے سے دلی میں اردو شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا۔
خصوصیات
ولی دکنی اردو شاعری کے ابتدائی شعرا میں سے ایک ہیں، اور انہیں "بابائے اردو غزل” بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اردو شاعری کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا اور غزل کو ایک مقبول صنف کے طور پر پیش کیا۔
عشق اور حسن کا بیان
ولی دکنی کی غزلوں میں محبت، عشق اور حسن کے موضوعات نمایاں ہیں۔ ان کی شاعری میں محبوب کی تعریف، عاشق کی کیفیت اور عشق کی مشکلات کا ذکر ملتا ہے۔
سادگی اور روانی
ولی دکنی کی شاعری سادہ زبان اور فطری روانی کے ساتھ ہوتی ہے۔ ان کی غزلوں میں مشکل الفاظ یا پیچیدہ خیالات سے زیادہ، سادگی اور دل سے قریب موضوعات کو ترجیح دی گئی ہے۔
علاقائی رنگ
چونکہ ولی دکنی کا تعلق دکن سے تھا، ان کی غزلوں میں مقامی زبان، بول چال اور تہذیب کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اردو کو دکن کی عوامی زبان میں پروان چڑھایا اور اس میں فارسی کے الفاظ کا بھی خوبصورت استعمال کیا۔
تصوف کا عنصر
ان کی شاعری میں صوفیانہ خیالات بھی ملتے ہیں، جس میں عشق حقیقی اور روحانیت کا ذکر نمایاں ہوتا ہے۔
ادبی مقام
ولی کا مقابلہ چاسر سے کیا جاتا ہے اور ولی کو اردو کا چاسر کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلا باقاعدہ دیوان ولی کی دیوان کو مانا جاتا ہے۔ ولی دکنی نے اردو غزل کو ایک نئی شناخت دی، جس کی وجہ سے ان کے بعد آنے والے شعرا نے بھی ان کے اسلوب کو اپنایا اور اردو غزل کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
حسن پرستی
ولی کی شاعری میں حسن و جمال کا موضوع بڑا اہم ہے۔ ولی سے پہلے کسی شاعر نے حسن و جمال کا بھرپور اور کامیاب تصور نہیں دیا۔ اسی لیے ڈاکٹر عبد اللہ نے ولی کو جمال دوست شاعر کا لقب دیا۔
اشعار
ولی کی شاعری میں مختلف ناموں سے محبوب کا تصور بھی نمایاں ہے۔ ولی کو اُس کی والہانہ محبت اور وارفتگی عشق کا پتہ ملتا ہے۔
"گرنہ نکلے سیر کو وہ نو بہار
ظلم ہے فریاد ہے افسوس ہے”
ولی کا اثر
ولی کی شاعری میں حسن کو تجربے کے طور پر قبول کیا جاتا ہے، جس سے اس کی روح اور جسم میں سرمستی کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ ولی کو اردو شاعری کا باوا آدم قرار دیا گیا ہے۔
حیات و وفات
ولی کو پورا نام شمس الدین محمد ولی تھا۔ پیدائش اورنگ آباد، 1668 ء، وفات 1707ء بتائی جاتی ہے۔ لیکن وفات کے سال میں تحقیقات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
تحقیق اور اختلافات
ولی دکنی کے نام، خاندان، مقام اور تاریخ پیدائش و وفات کے بارے میں مختلف آرا موجود ہیں۔ بعض محققین کے مطابق ولی احمد آباد میں پیدا ہوئے، جبکہ بعض کے مطابق یہ دکن کے رہائشی ہیں۔
ولی کی شاعری کے تاریخی پہلو اور اُن کے اثرات اردو شاعری کی تاریخ میں بے مثال ہیں۔ محمد حسین آزاد نے انہیں اردو شاعری کا باوا آدم کہہ کر ان کی عظمت کا اعتراف کیا۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں