وجودیت
وجودیت میں انسانی وجود اور اس کی اہمیت کے حوالے سے بات کی جاتی ہے۔ مختلف نظریہ سازوں اور ادیبوں نے اس نظریہ کے تحت وجود (Beinig) اور وجود خارجی (Existence) کو موضوع بحث بنایا ہے۔
انسان اور کائنات کے باہمی تعلق کے حوالے سے مفکرین ، دانشوروں اور فلسفیوں نے مختلف نظریات اور تصورات پیش کیے ہیں۔ اس بحث کا تعلق انسان کی ابتدا اور تاریخ سے ہے کہ انسان کائنات کے لیے بنایا گیا ہے یا کائنات انسان کے لیے بنائی گئی ہے۔ گزشتہ دو تین صدیوں میں ہونے والی سائنسی وٹیکنالوجی اور صنعتی ترقی کے نتیجے میں فرد کی نسبت اشیاء اور پیسے کی قدر بڑھنے سے انسان محرومیوں اور تنہائیوں کا شکار ہو گیا۔
"وجودیت ایک فلسفیانہ میلان کی حیثیت سے صنعتی تہذیب کے انتشار اور تضادات کے نتیجے میں سامنے آئی ۔ (۱)
وجودیت باطن کی کشمکش سے متعلق وہ تحریک ہے جس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ انسان تنہائی اور محرومیوں کا شکار ہے، اس تحریک میں باطن کا ادراک تو شامل ہے مگر اس ادراک کا منتہا اور منشا تطہیر ذات یا تزکیہ نفس نہیں ہے۔ بقول ڈاکٹر سلیم اختر :
"وجودیت کی اساس اس امر پر استوار ہے کہ اس دنیا میں آزاد اور منفرد پیدا ہوا لیکن معاشرے میں رہنے کی بنا پر وہ اپنے لیے ایک خاص نوع کا طرز عمل منتخب کرنے پر مجبور ہے بحیثیت ایک فرد یہ انتخاب اس کا حق ہے۔ جب کہ معاشرے کا ایک رکن ہونے کی بنا پر یہی انتخاب ایک طرح کی مجبوری بن جاتا ہے اور اس سے کرب کا وہ احساس جنم لیتا ہے جو جدید انسان کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔”
سائنس کی ترقی اور صنعتوں کے فروغ نے سرمایہ دارانہ تہذیب کو جنم دیا۔ انسان سائنس صنعت و حرفت ، عقلیت پرستی اور میکانکیت کے بوجھ کی وجہ سے اپنا وزن اٹھانے سے نا چار ہو گیا۔ اس مشینی دور اور پیسے کی دوڑ نے منڈیوں کی تلاش کے سلسلے میں کمزور ملکوں کو کالونی بنا کر انسان کو دہانے کی خواہش نے انسانوں کو دو عظیم اور لرزا دینے والی جنگوں کا ایندھن بنا دیا۔ جس کی وجہ سے پوری دنیا لرز اٹھی۔
مذہب کے انہدام ، معروضی قدروں کے تسلط مشینی زندگی کے دہشت ناک تجربے نے انسان کو خود اپنی قدر کے تعین کے رویے کی طرف لانے میں اہم کردار ادا کیا اور وجودیت نے عقل کی مطلقیت سے انکار کرتے ہوئے فرد کی بے مثل انفرادیت پر اصرار کیا ۔ وجودیت کے نزدیک اشیا کے حوالے سے انسان کو نہیں بلکہ انسان کے حوالے سے اشیا کو دیکھنا چاہیے۔ تجربہ کی قطعیت ہی وجودیت کا بنیادی ستون ہے ۔ چنانچہ انسان کے وجود کے چند بنیادی اظہارات جو وہ مختلف حالتوں میں کرتا ہے وجودیت کے لیے نہایت اہم ہیں۔ بوریت ، ناسیا، خوف، تشویش اور دہشت وغیرہ انسان کی مطلق فطرت اور کائنات کے تعلق کے بارے میں سوالات پیدا کرتے ہیں۔ جب ژاں پال سارتر اور دوسرے وجود یوں نے جس چیز پر زیادہ اصرار کیا وہ انسان کی انفرادی آزادی ہے اور انسان کے انتخاب کا حق ۔ (۳)
انسان کی آزادی اور اسے انتخاب کا حق دینا ایسے نظریات ہیں جو کہ ہر دور میں عوام کی پسندیدگی کا مرکز رہے کیونکہ انسان شروع سے کبھی مذہب کی آڑ میں کبھی معاشرتی اقدار کے نام پر پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑا کراہتا ہوا زندگی کے دن پورے کرتا رہا ہے۔ کبھی شاعری میں، کھبی فلسفے میں اور کبھی مختلف تحریکوں میں انسان نے اپنی آزادی کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔
وجودیت کے نظریے کے حوالے سے ہائیڈیگر ۱۹۷۲ کا نام اہمیت کا حامل ہے۔
موضوعات کی فہرست
ڈاکٹر محمد اشرف کمال ، تنقیدی نظریات اور اصطلاحات سے انتخاب
اگلا موضوع:جدیدیت سے کیا مراد ہے؟
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں