نوآبادیات، ما بعد نوآبادیات اور رد استعماریت (سیاسی و ثقافتی تناظر میں)

برصغیر نوآبادیات سے مابعد نوآبادیات تک

برصغیر کے تناظر میں دیکھیں تو یہ خطہ کم و بیش دو سو سال برطانوی تسلط کے زیر رہا ہے۔ سیاسی و ثقافتی دونوں سطحوں پہ برطانیہ کا اس پہ غلبہ رہا ہے۔ ان کا یہ غلبہ اور تسلط ہندوستان کی منشا اور رضا کے مطابق نہیں تھا۔ اس لیے اس تسلط اور غلبہ کو حاصل کرنے کے لیے ظلم، جبر، تشدد، تہذیبی وثقافتی تدابیر اور حکمت عملیوں کو آزمایا گیا۔ نتیجتاً ہندوستان برطانیہ کی نو آبادی بن گیا جہاں نو آبادیاتی نظام قائم رہا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ برطانیہ نے ہندوستان کو با قاعدہ نو آبادیات کا درجہ نہیں دیا ہے، جس طرح ساؤتھ افریقا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کو نوآبادیات بنایا گیا ہے۔ اس دعوی کی دو دلیلیں پیش کرتے ہیں۔

اول برطانوی باشندوں نے ہندوستان میں رہائش اختیار نہیں کی جیسے دیگر نو آبادیوں میں آباد کاری کی۔

دوم ۱۹۲۷ء میں نہرورپورٹ میں حکومت برطانیہ سے جو مطالبات کیے گئے ، ان میں ایک مطالبہ یہ تھا کہ ہندوستان کو مکمل آزاد اور خود مختار کرنے کے بجائے نو آبادیاتی طرزی آزادی (Dominion Status) کے تحت چلایا جائے ۔

جہاں تک پہلی دلیل کا تعلق ہے تو اس ضمن میں کہا جا سکتا ہے یہ کسی حد تک درست ہے، باقی رہا یہ سوال کہ انھوں نے آباد کاری کیوں نہیں کی ، اس کا جواب یہ کہ برطانوی موسم معتدل ٹھنڈا اور ابر آلود رہتا ہے، وہاں کے باشندوں کے لیے ہندوستان ایسے نسبتا گرم ملک میں رہنا دشوار تھا، ہندوستان میں برطانوی افسران ٹھنڈے علاقوں میں رہتے تھے، جن میں شملہ، کشمیر، کالام سر فہرست ہیں۔ (ہندوستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں برٹش ریزیڈنسی تھیں ۔ انھوں نے ہندوستان میں نو آباد کاری ( رہائش ) نہیں کی تو اس کا مطلب یہ نہیں نکالا جا سکتا کہ برطانیہ نے ہندوستان میں نو آبادیاتی نظام قائم نہیں کیا۔

دوسری دلیل سے یہ گمراہی پھیلائی گئی کہ ‏Dominion Status کا مطالبہ یہ تھا کہ ہندوستان کو برطانیہ اپنی Colony کا درجہ دے۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ نے ہندوستان نو آبادیاتی نظام قائم کیا ہے۔ جس میں غاصبانہ قبضہ تشدد ظلم اور استحصال رہا ہے۔ اس پر تشدد اور استحصالی نظام کے خلاف کانگریس (۱۸۸۵ء) اور مسلم لیگ (۱۹۰۶ء) نے سیاسی سطح پہ اس بات کا مطالبہ کیا کہ حکومت برطانیہ ہندوستان کو چھوڑ کر چلی جائے۔ انھوں نے تحریک آزادی شروع کر دی۔ رہا سوال Dominion Status کیا ہے، اس سے مراد استعماری حکومت کا اپنے زیر تسلط علاقوں کے مقامی سیاسی راہنماؤں کو حکومتی معاملات سونپ دینا سوائے خارجہ پالیسی ، دفاع اور ذرائع ابلاغ کے۔ یہ تین بڑے اور اہم ادارے ایمپائر کے پاس ہوں گے اور باقی جملہ معاملات حکومت اور ذمے داریاں مقامی سیاست دانوں کے سپرد ہوں گی۔ کانگریس کا مطالبہ تھا کہ جمہوری طرز حکومت قائم کیا جائے ۔ اس وقت اکثریت ہندوؤں کی تھی ، صاف نظر آ رہا تھا کہ جمہوریت میں ہندوؤں کی ہی حکومت ہوگی، جس میں مسلمان ہمیشہ اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔ برطانیہ نے جس طرح کا استحصالی نظام قائم کیا ہوا تھا اس میں رہتے ہوئے Dominion Status کا بھی مل جانا بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی والا معاملہ تھا۔ اس سے یہ سمجھنا اور نتیجہ نکالنا کہ ہندوستانیوں کی طرف سے برطانوی ایمپائر سے Dominion Status کا مطالبہ ہندوستان کو برطانوی Colony بنانے کا مطالبہ تھا، انتہائی گمراہ کن خیال ہے۔ نہرورپورٹ میں اس مطالبے کا بنیادی مدعا ہندوستان میں کانگریس کو حکومت بنانے کی اجازت دی جائے تھا۔ کانگریس نے یہ مطالبہ ۱۹۰۸ء میں کرنا شروع کر دیا تھا۔ نو آبادیاتی عہدہ میں آزادی کی نوعیت یہ تھی کہ کم از کم حکومت خود بنائی اور چلائی جائے۔ کانگریس نے Self governance کا مطالبہ کر کے برطانیہ کو ہندوستان کو کالونی بنانے کی دعوت نہیں تھی۔ اندرونی معاملات حکومت کو خود جمہوری طرز حکومت کے ذریعے چلانے کا مطالبہ بظاہر کسی حد تک خود مختاری کا اعلامیہ ہے لیکن یہ خودمختاری بھی برطانوی ایمپائر کے زیر تھی۔ نہرورپورٹ میں ہندوستان کو ڈومینین اسٹیٹس دینے کا مطالبہ ملک کی دوسری سیاسی جماعتوں ( بلخصوص جمعیت علمائے ہند) نے مسترد کر دیا، اور اپنے نصب العین میں برطانوی حکومت سے مکمل آزادی کا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں کانگریس بھی جمعیت کے موقف کی تائید میں ہوگئی۔ یوں ہم دیکھتے ہیں، نو آبادیاتی عہد میں مزاحمت، اندرونی حکومت بنانے کا مطالبہ اور بعد ازاں مکمل آزادی کی تحریک زور شور سے چلی، بالآخر برطانیہ سے سیاسی و انتظامی آزادی تو مل گئی مگر نفسیاتی، ذہنی، ثقافتی غلامی کے ساتھ تہذیبی مرعوبیت نو آبادیاتی عہد سے مابعد نو آبادیاتی عہد تک برابر رہی، اس سے آزادی نہ مل سکی جو ہمارے نزدیک حقیقی آزادی ہے۔ برصغیر کو ۱۹۴۷ء میں برطانوی ایمپائر سے سیاسی و انتظامی آزادی تو مل گئی لیکن اس آزادی کی نوعیت کو دیکھنا نا گزیر ہے۔دونوں ممالک میں مقامی حکومتیں بنیں، وہ حکمران بنے جنھوں نے کالونیل عہد میں استعمار کے خلاف سیاسی جدو جہد کی تھی۔ نوآبادیاتی عہد کے مابعد نو آبادیاتی دو چیلنج کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا ۔ اول نو آبادیاتی باقیات دوم نیا نو آبادیاتی نظام۔ نو آبادیاتی باقیات کو ڈاکٹر مبارک علی نے نو آبادیاتی ورثہ کا نام دیا ہے۔ اس کی نوعیت بھی دو طرح کی ہے۔ اول ذہنی ونفسیاتی مرعوبیت اور تہذیبی و ثقافتی مغلوبیت ہے۔ دوم نوآبادیاتی آئین نو آبادیاتی جاگیرداری نوآبادیاتی سرمایه داری سیاست پر چند بڑے گھرانوں کی اجارہ داری (حبیب جالب کی نظم میں گھرانے یاد آ رہی ہے) اور انتظامی اداروں کی طاقت شامل ہے۔ جب تک نو آبادیاتی باقیات کا خاتمہ نہ ہو جب تک بھی حقیقی آزادی نا ممکن ہے۔

امریکہ بطور جدید نوآباد کار

نو آبادیاتی عہد جو نو آبادیاتی نظام سے مشروط ہے، کے اختتام پر دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی نقشے پر امریکا ایک نئی طاقت بن کر ابھرا۔ ترقی پذیر/ پسماندہ / غریب اور سابقہ نو آبادیوں پر اس کا اثر رسوخ بڑھنے لگا۔ عالمی نقشے پر برطانوی استعمار کے بعد امریکی استعمار نے اپنے پنجے گاڑھنا شروع کیے۔ اس امریکی نئے نو آبادیاتی نظام میں براہ راست فوجی طاقت سے حملہ کرنے کے بجائے مختلف پالیسیوں سے غلبہ پانے کی روش شامل ہے۔ اس کے لیے نیا نو آبادیاتی نظام، نیا سامراجی نظام نو سامراجیت، نو استعماری صورت حال اور مابعد نو آبادیاتی نظام ایسے نام استعمال کیے جاتے ہیں۔

پاکستان برطانیہ کی نوآبادی سے امریکہ کی نوآبادی تک

پاکستان کا برطانوی غلامی سے امریکی غلامی تک کا سفر دو قدم پر مشتمل ہے ، یہ دو قدم صرف دو ماہ ہیں : امریکی تعاون کے لیے پہلی فرمائش قیام پاکستان کے صرف دو ماہ بعد کر دی گئی تھی ۔ اس فرمائش میں فوجی امور کے لیے اکاون کروڑ ڈالر طلب کیے گئے تھے، امریکی حکام کا تاثر یہ تھا کہ اس فرمائش کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستانی افواج کی ذمے داری امریکا سنبھال لے، فوجی امور کے علاوہ انتظامی اور معاشی شعبوں کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کا تقاضا کیا گیا تھا (1)امدادی کی طلب امریکی تسلط کو قبول کرنے کی خواہش تھی یا مجبوری ، ہر چند خود مختاری پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے ۔ ذاتی مفاد کے لیے امداد یا قرض حاصل کرنے کا ساتھ کئی چیزوں کی قربانی بھی دینا ہوتی ہے۔ پاکستانی حکمرانوں نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی

امریکی غلامی کا طوق اپنے گلے ڈالنے کی پیش قدمی کی۔ پہلے پہل تو امریکی حکام نے بیزاری ظاہر کی، پھر جلد ہی ذاتی مفاد کو دیکھتے ہوئے، امریکا نے پاکستان کو اپنے زیر کرنے میں دیر نہ کی۔ ستر کی دہائی میں پاکستان مکمل امریکی استعمار کی زد میں رہا۔ ملکی سلامتی اور استحکام حکام کے امریکی سہارا ضروری خیال کیا جانے لگا۔ یعنی یہ واضح ہے کہ ابھی باقیات نو آبادیات سے چھٹکارا پایا ہی نہیں تھا اور ایک نئے استعمار کے دست نگر ہو گئے۔ سابقہ نو آبادیاتی ممالک کے حکمران ہمیں کسی بیرونی ملک (استعماری طاقت) کا سہارا ملکی سالمیت کے لیے ناگزیر سجھتے ہیں ۔ مابعد نو آبادیاتی عہد عالمگیریت کا عہد ہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس میں کوئی ملک مکمل آزاد اور خودمختار نہیں ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اس قدر طاقت ور ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک بھی ان کے زیر ہیں۔ ایسے تو دنیا کے طاقت ور ترین ممالک بھی اپنی خارجہ پالیسیاں ملٹی نیشنل کمپنیوں اور دیگر ممالک کو مد نظر رکھ کر تشکیل دیتے ہیں۔ مابعد نو آبادیاتی عہد میں اول ذہنی و نفسیاتی اور ثقافتی و سماجی سطح پر برطانوی غلامی دوم سیاسی ، معاشی اور تجارتی سطح پر خصوصاََ امریکی غلامی ہے۔

برطانوی استعمار نے ہندوستان پر سیاسی، معاشی علمی غلبہ کے ساتھ تہذیبی و ثقافتی یلغار کی جس کے باعث نو آبادیاتی تمدن مسلط ہوا۔ تو آبادیاتی جاگیردار اور نو آبادیاتی سرمایہ دار پیدا ہوئے۔ نو آبادیاتی و مابعد نو آبادیاتی عہد میں انھوں نے بھی عوام (کسان، مزدور اور نچلا طبقہ) کے لیے استحصال کار کا روپ دھار لیا۔ نو آبادیاتی عہد کے جملہ بیانیوں کے سیاق میں ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں :

جب نو آبادیاتی دور کا خاتمہ ہوا تو سیاسی طور پر تو ایشیا و افریقا کے ملک آزاد ہو گئے مگر سماجی و معاشی سائنسی اور فکری طور پر مغرب کے زیر اثر اور تسلط میں ہی رہے۔ ان ملکوں میں جو حکمران طبقہ آیا یہ وہ لوگ تھے جو مغرب کے تعلیم یافتہ تھے اور مغربی تہذیب سے متاثر تھے۔ ان کے نزدیک جدیدیت کے معنی مغربی تہذیب و تمدن اور کلچر کو اختیار کرنا تھا۔ لہذا آزادی کے بعد بھی نو آبادیاتی دور کے ادارے اور روایات باقی رہے (۲)

مذکورہ اقتباس سے چند نکات کو سمجھ آتے ہیں یہ ہیں۔

نو آبادیاتی دور کے بعد ایشیا اور افریقا نے سیاسی آزادی حاصل کی۔

نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد بھی سابقہ نو آبادیاتی ممالک سماجی، معاشی ، سائنسی اور فکری لحاظ سے مغرب کے زیر رہے۔ کہ استعماری دور کے بعد ان ممالک پر جو حکمران ہے، وہ مغربی تعلیم یافتہ تھے ۔ ( یہ حمکران اپنی اصل میں تو مقامی ہیں مگر سوچ ، مزاج لباس، زبان تعلیم اور چال چلن میں مغربی ہیں) ان حکمرانوں کے نزدیک حقیقی ترقی مغربی تہذیب و تمدن اور کلچر کو اختیار کرنے میں ہے۔

نو آبادیاتی دور کے ادارے اور روایات باقی رہے۔ ( ان اداروں میں فوج ، پولیس، بیورو کریسی خفیہ ادارے جو عوام میں خوف پھیلاتے ہیں)

غرض نو آبادیاتی دور کے بعد حکمرانوں اور عوام میں وہی صورت رہی جو نو آبادیاتی دور میں استعمار اور مقامی باشندوں کے درمیان تھی۔ عوام ہر چند استحصال زدہ رہتی ہے۔ مابعد نوآبادیاتی عہد میں آزادی کی نوعیت یہ ہوتی کہ عوام کے لیے استحصال کنندہ حکمران طبقہ اور حکومتیں بیرونی طاقتوں کے طفیل چل رہی ہوتی ہیں۔

رد استعماریت،رد نوآبادیات

رد استعماریت کے لیے استعار شکن،کن ترک نو آبادیات ، استعمار شکست ، ردنو آبادیات، اور سامراج شکن ایسے نام استعمال کیے جاتے ہیں۔ رد آبادیات سے مراد یورپی مرکزیت سے انکار مغرب سے سیاسی سماجی، معاشی سائنسی فکری آزادی اور مقامی تہذیب و ثقافت کی بازیافت ہی نہیں بلکہ مغرب کے مقابلے میں مشرق کو لا کھڑا کرنے کی بھی کوشش ہے۔ نوآبادیاتی نظام اور نو سامراجیت کے جملہ استعماری بیانیوں سے انحراف اور روگردانی رداستعماریت ہے۔ ترک نو آبادیات کے لیے ضروری ہے کہ نو آبادیاتی باشندے باقیات نو آبادیات سے چھٹکارا حاصل کریں۔ اپنی تہذیبی اقدار اور ثقافتی شعار سے رجوع کریں۔ ذہنی و نفسیاتی غلامی سے نجات حقیقی استعمار شکن رویہ ہے۔ استعماری تہذیب و ثقافت کو اپنانے سے انکار، اس کی نقل کرنے سے گریز ، اس سے مفاہمت و معاونت کرنے سے دور رہنا، اپنی زبان کو استعماری زبان پر فوقیت دینا استعماری نظام کے تمام مضمرات کے خلاف مسلسل جد و جہد کرنا نو آبادیات ہے۔ردنو آبادیات کے بعد ہی سیاسی، معاشی تعلیمی ، سماجی اور تہذیبی و ثقافتی ترقی کر سکتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد استعمار جس نئی شکل میں سامنے آیا اس میں براہ راست سیاسی و انتظامی کنٹرول نہیں ہے، بلکہ استعمار اپنے ہی ملک میں بیٹھ کر ترقی پذیر پسماندہ ممالک کو اپنے مفاد کے تابع رکھ کر وہاں کی مصنوعات اور ایجادات کو روک کر اپنی مصنوعات اور ٹیکنالوجی کو وہاں کثیر زر مبادلہ کے عوض فروخت کرتا ہے۔ نئی سامراجی حکمت عملیوں میں پسماندہ ممالک کو قرض دینا، امداد دینا، بھاری مشینری دینا اور دیگر مصنوعات دینا شامل ہیں۔ جدید سامراجی نظام میں ترقی پذیر ممالک کو صارفی حیثیت تک محدود رکھا جاتا ہے، ان کی حیثیت منڈی سے زیادہ نہیں ہوتی جہاں استعمار اپنی مصنوعات فروخت کرتا ہے۔ یو سامراجیت میں میڈیا اور دیگر جملہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایسے بیانیوں کو پرموٹ کیا جاتا ہے، جو استعمار کو بہتر اور امن پسند جب کہ دیگر مذاہب اور اقوام کو کم تر اور دہشت گرد بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کمپنیاں اپنا مال فروخت کرنے کے لیے ذہن سازی سے کام لے رہی ہیں ۔ براینڈ اور مونو گرام کے نام پر عالمی سطح پر خرید وفروخت کا کاروبار چل رہا ہے۔ اس کا فائدہ کسی کو ہے، سمجھا جا سکتا ہے۔سابقہ مقامی اگر اپنی تہذیب و ثقافت کی طرف رجوع کر کے اپنی شناخت کا تعین کرے گا تو پھر استعماریت ہوگی ۔ مزاحمت کرنا اور معاونت نہ کرنا رو استعماریت کی ابتدائی حالت ہے۔ سامراجیت Imperialism)) سے مراد جب کوئی ملک ریاست سلطنت فوجی طاقت کے ذریعے کسی دوسرے ملک یا علاقے کو اپنی سلطنت کا حصہ بنالے جب کہ استعماریت (Colonialism)‏ سے مراد ایک طاقت، ملک ریاست، سلطنت کا کسی دوسری ریاست / سلطنت کو معاشی اور سیاسی طور پر مغلوب کر کے وہاں سے خام مال حاصل کرنا اور پھر اسے مصنوعات میں تبدیل کر کے وہیں فروخت کرنا ہے۔ اس عمل کے لیے اگر استعمار مناسب سمجھے تو وہاں آباد کاری بھی کر سکتا ہے۔ دونو آبادیات ان دونوں نظاموں کے لیے ضروری ہے کہ اپنی اصل میں یہ دونوں ایک ہی نظام کے دو رخ ہیں اور یہ نظام استحصال پر مبنی ہے۔ حقیقی استعمار شکست کیسے ممکن ہے اس باب میں یہاں فرانز فین اور نگوگی کےنظریات، سفارشات اور ان کی بتائی حکمت عملیوں اور ضرورتوں کو بیان کیا جاتا ہے۔

نوآبادیات سے نکلنے اہم نکات

فرانزفینن نے اپنی کتاب The Wratched of Earth میں یورپ پر سخت تنقید کی اور خصوصاً ردنو آبادیات کے عمل کو انجام پانے کے لیے چند نکات کا ذکر بڑے زور سے بیان کیا ہے، ذیل میں درج کیے جاتے ہیں :

استعمار کی حقیقی شکست پورا معاشرتی ڈھانچہ بدلنے میں ہے۔

مقامی اپنی اقدار کی تلاش کریں جو نو آبادیاتی عہد میں کھوگئی تھیں، اور اپنے طور اطوار خود پیدا کریں۔

استعمار کی شکست نئے انسانوں کی تخلیق ہے، جن کے خون میں استعمار مخالف جذبات شامل ہوں ۔

وہ اپنی تہذیب اور اپنی اقدار سے محبت کرنے والے ہوں۔

مقامی باشندوں کو باور کرایا جائے کہ تمام انسان برابر ہیں۔

اسی تشدد سے استعمار کا مقابلہ کیا جائے جس تشدد سے استعمار نے جسموں اور ذہنوں پر غلبہ حاصل کیا۔

یورپ کو اپنے حال پر چھوڑ دو، وہاں انسانیت کے پر چار کے جھوٹے دعوے کیے جاتے ہیں مگر جہاں انھیں انسان نظر آتا ہےاسے قتل کر دیتے ہیں۔

یورپ نے دنیا کی راہنمائی کا کام بے لحاظی اور تشدد کے ساتھ سر انجام دیا ہے۔ اس کے متشدد رویے نے اس سے عاجزی،انکساری، لجاجت اور ملائمیت جیسے اوصاف چھین لیے ہیں۔

ہمارے پاس یورپ کی پیروی کے علاوہ زیادہ بہتر کام ہیں، یو پی کھیل ختم ہو چکا اس لیے ہمیں کچھ اور تلاش کرنا چاہیے۔ہم سب کچھ کر سکتے ہیں، ہاں یورپ کی نقالی ترک کریں اور اس کی ہمسری کرنے کی خواہش کو چھوڑ دیں۔

یورپ گہری کھائی میں گر رہا ہے لہذا ہم یورپ کی اس گم راہی سے بچھیں، یعنی اس کی نقل چھوڑ دیں۔ہمہیں یورپی کارناموں ، یورپی تکنیک اور یورپی اسالیب پر رکھ کر اپنا توازن نہیں کھونا چاہیے کہ ان سب میں انسان کی نئی ہے ۔ہم یورپ کے خلاف متحد ہو جائیں، ہمارا انحصار اپنے بازو اور ذہن پر ہونا چاہیے۔

ہم یورپ کے جمود میں کھڑے ہیں ہمیں اس جمود سے بھاگنا چاہیے۔یورپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اس نے تعظیم انسانیت کو روا نہیں رکھا اس لیے اب وہ گیت گانا اور نا چنا بند کرے۔

اپنے ملکوں کی تقدیر (ترقی) کو یورپ کے ہاتھوں سے نکال کر خود انسانیت کا پرچار کریں۔

انسانیت کو بڑھتا دیکھنا ہے تو ہیں دریافتیں اور ایجادیں کرنا ہوں گی۔

مذکوره بالا استعمار شکن نکات فینن کی مابعد نوآبادیاتی فکر کو پیش کرتے ہیں۔ فینن کی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ اب یورپ کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں، اس وقت ہمیں اس نئے انسان کی ضرورت ہے جو انسان دوست اور متشدد رویوں سے پاک ہو۔ غیر یورپ کو اگر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے تو اسے دریافتیں اور نئی ایجادات کرنا ہوں گی۔ فینن کے نزدیک اصل میں یورپ کے مقابلے میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرنا ہوگی فینین استعماری بیانیوں کے مقابلے میں متبادل بیانیوں کے خدوخال واضح کرتے ہیں۔ اس نے مقامی دانشوروں کی سوچ سیاسی راہنماؤں کا حال اور قومی شعور پر روشنی ڈالی ہے۔ فینن نے جو انتہائی اہم بات کی ہے وہ یہ کہ جن طور طریقوں سے استعمار مقامیوں کی اساطیری تصویر بناتا ہے اور انھیں ، سراپا برائی پیش کرتا ہے، بالکل اسی طرح مقامی باشنده / مقامی دانشور ما بعد نو آبادیاتی مفکر کو چاہیے کہ وہ بھی استعمار کی اساطیری تصویر بنائے، جس میں وہ (استعمار ) بھی سراپا برائی نظر آئے۔ یہ رہا استعماری طرز عمل ہوگا۔ فینن نے مقامی بورژوا طبقے ، سیاسی و انتظامی حکمرانوں اور نو آبادیاتی ورثے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے خاتمے پر زور دیا ہے۔

آزادی کے لیے سفارشات

فینن کی سفارشات میں آزاد ملکوں کا اپنی تہذیبی وثقافتی بازیافت، اقدار کی بحالی، اپنی جڑوں کی تلاش اور ذاتی شناخت کو ظاہر کرنا اہم ہے۔

وہ نقالی کے اس عمل کو نا پسند کرتا ہے جس میں مقامی استعمار کی نقل کر کے اس کے برابر ہونے کا خواب دیکھتا ہے۔

وہ مقامی تہذیوں کو مرکز میں لانے کی سفارش کرتا ہے جنھیں یورپی مرکزیت نے حاشیے پہ لگا دیا تھا۔ رد نو آبادیات کا دعوی ہے کہ کوئی ثقافت اور ثقافتی مظہر مرکز یا حاشیہ پر نہیں بلکہ ہر ثقافت اور ثقافتی مظہر اپنی پہچان رکھتا ہے۔

کسی ثقافی کی یا ثقافتی مظہر کو کسی دوسری ثقافت یا ثقافتی مظہر پر کوئی برتری فوقیت اور افضلیت نہیں ہے۔ رد نو آبادیات ہمیں باور کراتی ہے کہ تاریخی و ثقافتی مطالعے میں مرکز اور حاشیے کا تصور استعمار کی سیاسی چال ہے۔

فینن کی تعلیمات کو عصری صورت حال سے ملا کر دیکھا جائے تو وہ آج بھی ہمارے لیے قابل عمل ہیں۔

نگوگی فینن کے بعد دوسرا بڑا رد نو آبادیاتی مفکر ہے۔

ردنو آبادیات پر ان کی کتاب Decolonizing the Mind ہے، جس کی اشاعت ۱۹۸۸ ء میں ہوئی۔

اس کتاب میں چار مضامین شامل ہیں نیگوگی کا رد نو آبادیاتی نظریہ واضح طور پر سامنے آیا ہے۔

نگوگی ثقافتی آزادی کو حقیقی آزادی خیال کرتا ہے۔ نگھوگی یورپی مرکزیت کے اس تصور کو رد کرتا ہے جو ثقافتی بالا دستی پرمشتمل ہے ۔

انھوں نے انسانی استعماریت کو موضوع بنا کر زبان کے اس استعماری تصویر کو بھی رد کیا جس کے مطابق انگریزی کو دیگر مقامی زبانوں پر برتری دی جاتی ہے۔

رد نوآبادیاتی عہد میں مابعد نوآبادیاتی مفکرین پر دو زمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔

اول وہ اپنی قوم کو مغربی ثقافتی بالا دستی سے نجات دلائیں، دوم جدید استعماری نظام ، جھنڈوں اور حربوں سے قوم کو آگاہ کرتے ہوئے ، ملک کو اس (امریکی اور دیگر طاقتوں) سے ازاد کرائیں ہیں۔

عوام اور حکمرانوں میں ملکی مفاد اور غیرملکی مفاد کی پہچان کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ جب یہ نوآباد ہائی کام جو عالمگیریت اور تباہی مشن پر مشتمل ہے، جس میں انسانی نا قدری سرفہرست اور ذاتی مفاد کو اولیت حاصل ہے کا مقابلہ کیا جائے۔

نسبتاً ترقی پذیر اقوام اور معاش و تجارتی کمزور ممالک کو برابرحق مختاریت دینا وقت کی ضرورت ہے۔

یہ معلوم ہے کہ عالمگیریت کے اس عہد میں بڑے سے بڑا طاقت و ملک بھی کئی داخلی و خارجی مسائل میں جتا ہے تاہم یہ کہنا کہ ان سائل و مشکلات سے نجات حاصل کرنا ایک سعی لا حاصل ہے، ایک گمراہ کن خیال ہے۔

تو آزاد ملکوں کے لیے چند سفارشات ذیل میں ہیں: ایماندار قانونی ماہرین پر مشتمل کمیٹی کا انتخاب (جو اسلامی، سماجی اور جدید ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر از سر نو آئین کی تشکیل کرے)منظم عوامی انقلابانسان دوست لیڈران کا انتخابعوام میں سیاسی وقومی شعور کی بیداری ۔ اپنے وسائل پر زیادہ سے زیادہ انحصارملکی مصنوعات کا زیادہ استعمال اور غیر ملکی برانڈڈ چیزوں سے گریز ۔ ان دست کاریوں کا فروغ جو بیرون ممالک کی زیادہ سے زیادہ ضروریات ہوں۔زراعت اور صنعت پر توجہ قومی زبان کی ترویج و ترقی (دفتری اور حکومتی زبان کا درجہ )یکساں نظام نصاب تعلیمسائنس ، میڈیکل اور ٹیکنالوجی میں دلچپسی ( تجربات، ایجادات ، دریافتیں) عدلیہ، پولیس اور بیوروکریسی کی ایماندارانہ کارکردگی پر توجہاستعماری منڈی بننے سے بچاؤخارجہ پالیسی بنانے تجارتی معاہدوں میں اور دیگر تمام ملکی معاملات میں عوامی وقومی مفادات کو ترجیح نو آبادیات ، مابعد نوآبادیات اور ردنو آبادیات کے باب میں کی جانے والی مذکورہ سیاسی، معاشی اور ثقافتی وضاحتیں اور سفارشات کو لمحہ حال میں سمجھنا اور ان پر عمل پیرا ہونا ناگزیر ہے تبھی جا کر حقیقی آزادی اور ترقی ممکن ہوگی۔

حواشی:

ایم ایس رامانی پاکستان میں امر یکی کردار ، مترجم، قاضی با دید یکشن پارس ، لاہور، ۲۰۱۲ ۱۰ ص ۸ڈاکٹر مبارک علی: برطانوی راج فکشن ہاؤس لاہور ۲۰۱۲، ص ۹۷

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں