موضوعات کی فہرست
نوآبادیات پس منظر
نو آبادیاتی نظام سوچنے والی مشین نہیں ہوتا نہ ہی وہ ایسا جسم ہوتا ہے جس میں دلائل کو صلاحیتیں بھی حاصل ہوں۔ یہ نہایت وحشیانہ قسم کا تشدد ہوتا ہے اور محض اس وقت گھٹنے ٹیکتا ہے، جب اس کا مقابلہ زیادہ بڑے تشدد سے ہو۔ (فرانزفینن)ہم سب جانتے ہیں کہ برطانوی سیاسی تسلط ( نو آبادیاتی نظام) کے بعد بھی ہم اس طرح سے آزاد نہیں ہوئے جس طرح آزادی کے حقیقی معنی و مفہوم ہیں۔ سیاسی تسلط سے آزاد ہونا، سیاسی خود مختاری کا حاصل ہونا اور بے قید ہونا حق آزادی نہیں ہے۔ تہذیبی و ثقافتی مطالعات، مابعد نو آبادیاتی مطالعات ، نو آبادیاتی نظام کی شعریات اور دوثقافتوں کے تفاعل سے پیدا ہونے والی صورت حال میں آزادی اپنے دائرہ کار میں وسیع مفہوم سمیٹے ہوئے ہے۔
آزادی سے کیا مراد ہے
آزادی کے لغوی معنی چونکارا، خود مختاری، با اختیار اور بغیر روک ٹوک کے ہر کام اپنی منصوبہ بندی کے تحت انجام دینے کے ہیں۔ آزادی میں کسی کا خوف اور جبروتشدد اور ظلم نہیں ہوتا ہے۔ سیکولر فکر کے حامل تو مذاہب کے معاملے میں بھی فرد کی آزادی کے قائل ہیں کہ اسے مذہب اپنانے عمل پیرا ہونے اور چھوڑنے کا مکمل اختیار ہو۔ ہر فرد اپنی مرضی، سوچ ، منشا اور خواہش کے مطابق ایمان عقیدہ فکر اور مذہب اختیار کرنے میں آزاد ہو۔ یہ اختیار اس فرد کی خود مختاری ہے۔ یہاں دو چیزیں بیان کرنا ضروری ہیں۔
نوآبادیاتی نظام اور معاشرتی پابندیوں میں فرق
اول انسان گو آزاد پیدا ہوا ہے، مگر وہ اپنی خاندانی روایات ، معاشرتی اقدار سماجی حد بندیوں ، قانونی تقاضوں اور میں ثقافتی روایات کا پابند ہوتا ہے، یہ اسیری اس کی سماجی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ یہ منفی نہیں مثبت ہے۔ اس میں فرد کی منشا بھی شامل ہو تو اسے اس سماج میں رہنے کے لیے ان پابندیوں کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ یہ اس لیے بھی قابل قبول ہوتی ہیں کہ یہ خود سماج کی ہی متعین کردہ ہوتی ہیں ۔ غلامی اور اسیری اس صورت خطر ناک ہے جب فرد کی منشا کے خلاف اسے مختلف حوالوں سے پابندیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ پابندیاں سماج کی نہیں بلکہ کسی خارجی طاقت کی طرف سے عائد ہوتی ہیں۔ جس میں تشدد ، جبر ظلم اور بربریت ہوتی ہے۔
مغربی میں تصور آزادی کا ارتقاء
مغرب میں آزادی کا تصور اس وقت ابھر کر سامنے آیا جب نشاۃ الثانی کا عمل شروع ہوا۔ مغربی انسان تین بنیادی ساجی اداروں سے آزادی چاہتا ہے۔ اول مذہب ، دوم سماجی و خاندانی اقدار اور سوم ریاستی قانون ، جو فرد کی آزادہ روی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ مغربی انسان خود تو آزاد رہنا چاہتا ہے مگر وہ دوسرے انسانوں پر تسلط کو اپنی ذمے داری بنا کر پیش کرتا ہے۔
مشرق میں آزادی کا تصور
مشرق میں خصوصاََ اسلامی نظام اقدار میں آزادی کا تصور بالکل واضح ہے جس کے مطابق انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلا کر اسے اللہ کی غلامی میں لانا ہے۔ دنیا کی پہلی اسلامی ریاست مدینہ میں میثاق مدینہ اس کی عمدہ مثال ہے جس نے ریاست میں سب مذاہب کے پیروکاروں کی آزادی کو یقینی بنایا۔ آزادی اور خودمختاری کے ضمن میں یہ چند باتیں ہماری آئندہ گفتگو سے متعلق ہیں۔ نو آبادیات سے چھٹکارا، اور اس سے ملنے والی آزادی کی حقیقت کیا تھی ، وہ کونسی آزادی کی قسم یا نوعیت تھی، اس کو واضح کرنا لازم ہے۔ آئندہ صفحات میں کسی ریاست کی آزاد ہونے کے معنی و مفہوم،نو آبادیاتی عہد میں آزادی کی نوعیتیں اور حصول آزادی کے لیے کی جانے والی کوششیں، برطانوی تسلط سے آزادی کی حقیقت، ما بعد نو آبادیاتی عہد میں آزادی کی صورت حال ، تقاضے اور امکانات کے بعد رد استعماریت ایسے مسائل و موضوعات سے بحث کی جائے گی۔ہر ملک کی اپنی خارجہ پالیسی ہوتی ہے۔ دیگر ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات ہمیشہ ملکی مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ خارجہ پالیسی بناتے ہوئے اپنی جغرافیائی حدود، مذہب، ثقافت، زبان، معیشت اور دیگر مفادات کو مد نظر رکھتا ہے۔ مذکورہ چیزوں سے صرف نظر کر کے کوئی ملک اپنی خارجہ پالیسی میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ خارجہ پالیسی وہ حکمت عملی ہے جس میں کسی حکومت ریاست کے تجارتی تعلقاتی اور مفاداتی معاملات شامل ہوتے ہیں۔ امن اور معاشی ترقی، خارجہ پالیسی کے بنیادی مدعا ہوتے یا ہونے چاہئیں۔خارجہ پالیسی کی تشکیل میں ہر ملک کو آزاد ہونا چاہیے۔
حقیقی آزادی کے اہم نکات
کسی ملک کی حقیقی آزادی کے تقاضے کیا ہیں، چند نکات توجہ طلب ہیں:
وہ اپنے نظام ملک کو منظم کرنے، خارجہ پالیس تشکیل دینے اور معاملات حکومت کو چلانے میں آزاد اور خود کار ہو۔
کسی معاملے میں اس کی ذاتی رائے ہو، اس پر کوئی داخلی و خارجی طاقت کا دباؤ نہ ہو۔
وہ اپنے اندرونی و بیرونی معاملات اور مسائل کو خود حل کرنے کے قابل ہو۔
ریاستی فیصلوں میں اسے ملکی مفاد عزیز ہو۔
اس ملک کی عوام اپنے معاشرتی اور ثقافتی شعار و اقدار سے جڑی ہوئی ہو کسی غیر ملکی زبان تعلیم، اقدار اور تہذیب سے بےجا مرعوب نہ ہو۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں