نوآبادیات پس منظر ، تعارف ، ادوار ، ادب پر اثرات اور اختتام
موضوعات کی فہرست
نوآبادیات پس منظر اور تعارف
دنیا میں سامراجیت بادشاہت اور شہنشائیت کی شکل میں طاقت کے زور پر رواج پاتی رہیں ۔ شروع سے لے کر آج تک طاقت کے بل بوتے پر ایک ملک دوسرے کو مغلوب کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا۔
اسی عسکری کشمکش اور مصنوعات کی منڈیوں کی تلاش کی وجہ سے نو آبادیاتی صورتحال نے جنم لیا۔ نو آبادیاتی صورتحال پیدا کرنے کے سبب کے پیچھے طاقت ور قوم کے غاصبانہ قبضہ کرنے کی ذہنیت کارفرما ہوتی ہے ۔
نو آباد کار جب کسی قوم اور ملک کواپنی نو آبادیات بنا لیتا ہے تو وہاں کے رسم و رواج ، تہذیب و ثقافت ، زبان وادب اور تعلیم پر اپنی گہری چھاپ لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس ساری صورتحال کا مقصد نو آباد کار کے اختیار اور دائرہ کار کو بڑھانا اور نو آبادیاتی باشندوں کو ہر حوالے سے مجبور و بے بس بنانا ہوتا ہے۔
نو آبادیاتی باشندے نو آباد کار کو ہمیشہ غاصب، ظالم سمجھتے ہیں مگر بے بس اور مغلوب ہونے کے باعث اس کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
نوآبادیات اور ادب
جیسے جیسے وسائل پر نو آباد کار قابض ہوتا جاتا ہے اور اس کا اختیار بڑھتا جاتا ہے نو آبادیاتی باشندوں کا احساس محرومی بھی بڑھتا جاتا ہے۔ نو آبادیاتی باشندے نہ صرف سیاسی تعلیمی اور ثقافتی حوالے سے مغلوب ہوتے چلے جاتے ہیں بلکہ ان کا ادب بھی نو آبادیاتی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
ادب کی اصناف، موضوع ، الفاظ و تراکیب اور نظریے تک نو آباد کار سے مستعار لیے جاتے ہیں۔
محمد علی صدیقی کے بقول :
سیاسی نو آبادیاتی نظام کے جلو میں ادبی نو آبادیاتی نظام نے بھی محکوم اقوام کے احساس کمتری میں شدت پیدا کی اور خصوصیت کے ساتھ مشرق میں وہ اتھل پتھل شروع ہوئی کہ ہم مغربی روح مزاج، نظر یہ کائنات اور نسل یادوں کا ساتھ دیے بغیر ان کے استعارات ، تشبیہات اور علامتوں کو اپنے حرف خاص کی طرح گرداننے لگے”
نو آبادیاتی باشندوں کو زندگی کا ایسا مقصد اور تصور دیا جاتا ہے کہ وہ نو آبادیاتی نظام کا کل پرزہ بن کر رہ جاتے ہیں ۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مشرق نے مغرب سے بہت کچھ لیا ہے ، یہ صورت حال کچھ مختلف ہے دراصل اہل مغرب نے مشرق شناسی کے حوالے سے جو کوششیں کیں، ان کوششوں کے نتیجے میں نو آبادیاتی باشندوں پر مغربی علوم وفنون کا در کھلا۔
یہ اس لیے ممکن نہیں ہوا کہ اہل مغرب یہ چاہتے تھے کہ مشرق والے ان تمام علوم و فنون پر دسترس حاصل کریں جنھیں حاصل کر کے وہ ہم سے کل آزادی کا مطالبہ کر سکتے ہیں ۔ بلکہ یہ اُن لوگوں کی وجہ سے ممکن ہوا جنھوں نے جدید علوم وفنون کی تحصیل کے نتیجے میں آزادی کا خواب دیکھا۔
نوآبادیاتی نظام میں آئیڈیالوجی اور ڈسکورس
آئیڈیالوجی اور ڈسکورس کے ذریعے نو آباد کار اپنے تسلط کو استحکام دینے کی کوشش کرتا ہے سیاسی اور سماجی حوالے سے انہیں وقت کی سب سے بڑی سچائی بناکر پیش کرتاہے۔
سماج میں سیاسی و ثقافتی حوالے سے آئیڈیالوجی ، ڈسکورس ( مہا بیانیہ ) اور اے پس ٹیم (عصری حسیت ) بیک وقتم صروف کار ہوتے ہیں اور انسانی ذات پر اپنے اثرات مرتب کر رہے ہوتے ہیں
کیونکہ انسان کاتعلق سماج سے ہے۔ سماج میں ہونے والی ہر تبدیلی اُس سماج میں رہنے والے لوگوں پر ضرور اثر انداز ہوتی ہے۔
دنیا پر نوآبادیاتی نظام کے ادوار
دنیا میں جدید دور میں سامراجی شہنشائیت (امپیریلزم) کے تین ادوار مشہور ہوئے ۔
۱۴۹۲ء سے وسط اٹھارویں صدی کے درمیان سپین اور پرتگال، انگلینڈ ، فرانس اور نیدر لینڈز نے نو آبادیات قائم کیں، اور امریکہ ، ایسٹ انڈیز اور انڈیا میں بادشاہت قائم کی ،
اس کے بعد انیسویں صدی کے وسط سے لے کر پہلی جنگ عظیم تک برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور دوسری قوموں کے درمیان سامراجی طاقت کے حصول کی دوڑ شروع ہوئی ۔
انیسویں صدی کے اختتام تک دنیا کی کل زمین کا پانچواں حصہ اور دنیا کی ایک چوتھائی آبادی تاج برطانیہ کے زیر تسلط آچکی تھی، جن میں انڈیا، کنیڈا،آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ، ساؤتھ افریقہ، برما اور سوڈان جیسے علاقے شامل تھے۔
اس کے بعد دوسرے نمبر پر بڑی نو آبادیاتی سامراجی طاقت فرانس کے پاس تھی جو کہ الجیریا، فرنیچ ویسٹ افریقہ، استوائی افریقہ ، انڈو چائنا (۱۸۸۷ء ۱۹۴۷ء) تک ملکوں کو مغلوب کرتا چلا گیا ۔
جرمنی، اٹلی، اور جاپان بھی نوآبادیات کی دوڑ میں شامل ہو گئے ۔ ۱۸۵۵ء میں بیلجیم نے وسطی افریقہ میں بلگین کونگو (۱۹۰۸ء) کونو آبادیات میں شامل کیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور کیمونسٹ ملک سویت یونین کے درمیان سامراجی طاقت کے حصول کے لیے رسہ کشی ہوئی۔ (۲)
مصر پر نبولین بونا پارٹ کا قبضہ ہو یا ہندوستان پر برطانیہ کا یا ترکی اور دوسرے ممالک پر یورپ، فرانس برطانیہ، امریکہ کا قبضہ، مقصد یہ بھی تھا کہ انھیں اپنے علمی و سائنسی اور صنعتی کارناموں کے لیے تجربہ گاہوں اور وسائل کی ضرورت تھی۔
یہ وسائل انھوں نے مشرقی ممالک میں تلاش کیے۔ یہاں انھیں نئے مشاہدات، تجربات اور انکشافات کے لیے جگہ اور وقت مل گیا۔ ان نو آباد کاروں کے محکوم ممالک پر حکمرانی کے الگ اصول تھے اور اپنے ممالک میں حکمرانی کے الگ، مغرب کا یہ فکری اور سیاسی تضاد انسان اور انسانیت کے ساتھ ایک بھونڈے مذاق کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔
اس صدی میں امریکہ کے سوا باقی دنیا پر سیاسی اور تمدنی طور پر یورپ کا قبضہ ہو چکا تھا۔ ایشیا کی بڑی بڑی سلطنتیں مٹ چکی تھیں ۔۔۔
یورپ سارے ایشیا پر غالب آچکا تھا۔ شمالی ایشیا سلطنت روس میں شامل ہو چکا تھا۔ جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ملک ہندوستان پر انگریزوں کا پوری طرح تسلط ہو چکا تھا۔ عثمانیوں کی وسیع وعریض سلطنت مٹ رہی تھی۔
ترکی کو یورپ نے مرد بیمار قرار دے رکھا تھا۔ ایران کو روس اور برطانیہ نے اپنے اپنے مفاد کے لیے تقسیم کر رکھا تھا۔ افغانستان اگر چہ آزاد تھا تا ہم وہ برطانیہ کے ماتحت تھا۔ مشرق بعید کے ہر ملک پر یورپ کو اقتدار حاصل تھا۔ چین یورپ کو تجارتی مراعات دینے کے تنازعوں میں پھنسا ہوا تھا۔
سارے ایشیائی ملکوں میں تنہا جاپان اپنی ملکی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے ترقی کی طرف قدم اٹھا رہا تھا۔ افریقہ میں صرف مصر ہی ایک قابل ذکر ملک تھا۔ لیکن اسے بھی آزادی نصیب نہیں تھی ۔ (۳)
اٹھارویں صدی کے بعد کا زمانہ صنعتی اور سائنسی ترقی کے حوالے سے اہمیت کا حامل تھا،فرانس، برطانیہ، ہالینڈ، وینس، جنیوا تجارت کے بڑے مراکز کی حیثیت سے سامنے آئے انھیں اپنی صنعتوں کے لیے تجارتی منڈیوں کی ضروت تھی ۔
اس تجارتی انقلاب کی وجہ سے فرانس نے الجیریا تیونس ، مراکش، برطانیہ نے مصر سوڈان ، ولندیزیوں نے انڈونیشیا، اٹلی نے لیبیا، روس نے وسطی ایشیا کی ریاستوں پر قبضہ جما لیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے توسط سے برطانیہ، ہندوستان کو اپنی کالونی بنانے میں کامیاب ہو گیا اور ہندوستان ایک طویل عرصے لیے برطانیہ کے نو آبادیاتی کلیجے میں آگیا۔
روایتی نوآبادیات کا اختتام اور اور جدید دور کے نوآباد کار
انیسویں صدی کے آخر میں مغرب میں جدیدیت کی تحریک نے جنم لیا۔ ڈاڈا ازم، سرئیلزم، ایبز ڈازم، کیو بزم، سمبلزم ، شعور کی رو غیرہ جدیدیت ہی کی ذیلی تحریکیں ہیں۔
یہ تمام تحریکیں دنیا بھر کے ادب وفن میں اس وقت ظہور پذیر ہوئیں جب دنیا میں سامراجیت کے غلبے کی جنگوں نے یورپ کے نام نہاد مہذب فرد، اس کی تہذیب و شائستگی ، اس کے اخلاق ، رعب و وقار کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔
یہ وہی انسان تھا جو ہمیشہ نو آبادیاتی نظام میں پسنے والی مظلوم اقوام کے دکھوں ، غموں اور غلامی پر خاموش رہا۔ بلکہ ڈھٹائی سے صدیوں سے مسلط نو آبادیاتی نظام کا ترجمان و نمائندہ بننے میں قومی افتخار محسوس کرتا رہا۔
جب انھی کے آئیڈیل بھیڑیے منڈیوں پر اپنا حق جمانے کے لیے ایک دوسرے پر پل پڑے تو یورپ کا ”حساس انسان عالمی جنگوں کے دوران اپنی برباد ہو جانے والی تہذیب پر برہم ہوا۔ (۴)
جدیدیت سے جو توقعات وابستہ کی گئیں تھی، وہ ان پر پورا نہ اتری ۔ جدیدیت نے آمریت ، سامراجیت، جاگیرداریت ، سرمایه داریت ، نو آبادیت کی حمایت کے سوا کچھ نہ کی۔
1945ء میں نو آبادیاتی نظام اپنے اختتام کی جانب بڑھنے لگا۔ ۱۹۴۷ء میں انڈیا آزاد ہو گیا پھر چین آزاد ہو گیا ۔ ۱۹۹۱ ء میں سویت یونین کی طاقت منتشر ہوگئی، مختلف شمالی ریاستوں آزادی مل گئ اور امریکہ واحد طاقت ور ملک کے طور پر ابھرا۔
اگلا موضوع: مابعد نوآبادیات اردو کے تناظر میں ناصر عباس pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں