نیچا نے مذہب پر حملہ کیوں کیا؟
موضوعات کی فہرست
ایک بلند حوصلہ شیر وہ ہے جو بکری کو دیکھتے ہی ایک وار میں اسے ختم کر دے، جبکہ ایک بلند حوصلہ بکری وہ ہے جو شیر کے سامنے اپنی گردن جھکا دے۔
کچھ لوگوں کے نزدیک، مذہب انسانوں کو بالکل ایسی ہی بھیڑ بکریاں بنا دیتا ہے۔ یہ سوچ ایک ایسے فلسفی کی تھی جس نے اپنے نظریات سے مغرب کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا: فریڈرک نیچا۔ نیچا نے مذہب، خاص طور پر عیسائیت، کے خلاف جو فکری جنگ چھیڑی، وہ شاید ہی کوئی اور کر پایا ہو۔
اس مضمون میں، ہم فریڈرک نیچا کے فلسفے کا گہرائی سے جائزہ لیں گے، خاص طور پر اس کی متنازعہ کتاب "اینٹی کرائسٹ” کی روشنی میں۔ ہم یہ جانیں گے کہ نیچا نے مروجہ اخلاقیات کو کیوں مسترد کیا اور کیسے اس کے نظریات آج بھیRelevant ہیں۔
اینٹی کرائسٹ: ایک انقلابی کتاب
فریڈرک نیچا کی کتاب "اینٹی کرائسٹ” عیسائیت کے ادارہ جاتی ڈھانچے پر ایک شدید حملہ ہے۔ نیچا کتاب کے آغاز میں ہی واضح کرتا ہے کہ یہ کتاب ہر کسی کے لیے نہیں ہے، بلکہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو فکری دیانت اور شعور رکھتے ہیں۔
اس کتاب میں وہ لکھتا ہے کہ عیسائیت نے انسان کو ایک کھوکھلی اخلاقیات دی ہے، جہاں وہ ہر وقت گناہ اور ثواب کے خوف میں مبتلا رہتا ہے۔
نیچا کے مطابق، یہ خوف انسان کی انفرادی آزادی اور اس کی سوچ کی پرواز کو روکتا ہے۔ اس نے صرف عیسائیت پر ہی نہیں، بلکہ ہر اس عقیدے پر تنقید کی جو انسان کو اپنی صلاحیتوں کے مکمل ادراک سے روکتا ہے۔
ماسٹر موریلٹی بمقابلہ سلیو موریلٹی
فریڈرک نیچا کے فلسفے کا ایک سب سے اہم ستون ماسٹر اور سلیو موریلٹی کا تصور ہے۔ نیچا کا ماننا تھا کہ "اچھائی”، "برائی”، "محبت”، اور "ہمدردی” جیسے تصورات معاشرتی طور پر تشکیل دیے گئے ہیں اور وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔
ماسٹر موریلٹی: طاقت اور عظمت کی اخلاقیات
قدیم یونان جیسی قبل از مسیحی تہذیبوں میں ایک مختلف قسم کا اخلاقی نظام رائج تھا۔ یہاں "اچھا” اور "برا” کا تصور آج سے بالکل مختلف تھا۔
- اچھا (Good): وہ تمام چیزیں جو حکمران طبقے کو قدرتی طور پر حاصل تھیں، جیسے طاقت، دولت، اور خوشی۔
- برا (Bad): وہ تمام چیزیں جو "اچھے” کا الٹ تھیں، جیسے غربت، کمزوری، اور ناخوشی۔
نیچا نے اسے "ماسٹر موریلٹی” کا نام دیا، جو طاقت، خود اعتمادی اور زندگی کی بھرپوریت پر زور دیتی ہے۔
سلیو موریلٹی: رحم اور ہمدردی کی اخلاقیات
ماسٹر موریلٹی کے متوازی، غلاموں اور کمزور طبقوں میں ایک اور اخلاقی نظام نے جنم لیا۔ نیچا کے مطابق، "برائی” (evil) کا تصور یہیں سے پیدا ہوا۔ جن لوگوں پر ظلم کیا جاتا تھا، وہ حکمران طبقے سے جڑی ہر چیز کو "برا” سمجھتے تھے۔
- ان کے لیے "اچھا” (Good): ہر وہ چیز تھی جو زندگی کی مشکلات کو کم کرے، جیسے رحم، مہربانی، اور ہمدردی۔
نیچا کا کہنا تھا کہ "سلیو موریلٹی” ایک زندگی سے انکار کرنے والا نظام ہے جو انسان کی روح اور جسم دونوں کو قید کر لیتا ہے، اور اس نظام کو سب سے زیادہ عیسائیت نے پھیلایا۔
عیسائیت پر نیچا کی تنقید
نیچا نے عیسائی اخلاقیات پر شدید تنقید کی کیونکہ اس کا ماننا تھا کہ یہ انسان کی بنیادی جبلتوں کے خلاف ہے۔ اس کی چند بڑی تنقیدیں یہ تھیں:
- رحم ایک کمزوری ہے: نیچا کے مطابق، عیسائیت رحم کو ایک نیکی سمجھتی ہے، جبکہ حقیقت میں یہ کمزور اور ناکام لوگوں کی اخلاقیات ہے جو مضبوط لوگوں کو نیچے کھینچتی ہے۔
- فردیت کو دبانا: یہ نظام انسان کی انفرادیت، اس کی "خودی” اور اس کی شخصیت کو ختم کر کے اسے ایک "ریوڑ کی اخلاقیات” (herd morality) کا حصہ بنا دیتا ہے۔
- زندگی سے انکار: نیچا کا ماننا تھا کہ عیسائیت زندگی کے ہی خلاف ہے کیونکہ یہ انسان کی قدرتی نشوونما کو روکتی ہے اور اسے ایک بے ضرر اور بزدل مخلوق بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
- "ول ٹو پاور” کو کچلنا: فریڈرک نیچا کے فلسفے کا مرکزی نقطہ "ول ٹو پاور” (Will to Power) ہے—یعنی ہر انسان میں آگے بڑھنے، طاقت حاصل کرنے، اور خود کو ثابت کرنے کی خواہش۔ نیچا کے نزدیک، مذہب اس بنیادی قوت کو دبا دیتا ہے۔
آخرت کا تصور اور زندگی سے فرار
نیچا کو مذہب کے اس تصور سے بھی سخت نفرت تھی کہ یہ دنیا فانی ہے اور اصل زندگی آخرت میں ہے۔ اس سوچ کی وجہ سے لوگ اس دنیا میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے اور کچھ حاصل کرنے کی بجائے جنت اور دوزخ کی فکر میں اپنی زندگی ضائع کر دیتے ہیں۔
اس کے نزدیک، یہ خیالات انسان کی بنیادی جبلت کے خلاف ہیں اور اسے اس زندگی میں محنت کرنے سے روکتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ انسان اڑنے کے لیے پیدا ہوا ہے، نہ کہ ہر وقت گناہ اور ثواب کے خوف میں جکڑے رہنے کے لیے۔
نیچا اور علامہ اقبال: ایک دلچسپ موازنہ
حیرت انگیز طور پر، فریڈرک نیچا کے فلسفے اور علامہ اقبال کی شاعری میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ اقبال کی مشہور نظم "ابلیس کی مجلس شوریٰ” اس کی بہترین مثال ہے۔ نظم میں، ابلیس اپنے مشیروں کو تسلی دیتا ہے کہ مسلمانوں سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ کہتا ہے:
مست رکھو ذکر و فکرِ صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
اس شعر کا مطلب ہے کہ مسلمانوں کو صبح کے ورد، وظیفوں اور خانقاہی نظام میں الجھا کر رکھو تاکہ وہ عملی طور پر کوئی بڑا کام نہ کر سکیں۔ یہ سوچ بالکل نیچا کی تنقید سے ملتی ہے کہ مذہب انسان کو بے معنی رسومات میں پھنسا کر اس کی حقیقی صلاحیتوں کو قید کر دیتا ہے۔
نتیجہ: اپنے وجود کے عروج کو پانا
فریڈرک نیچا کا مقصد انسان کو اس "غلامانہ اخلاقیات” سے آزاد کروانا تھا تاکہ وہ اپنے وجود کے عروج کو چھو سکے۔ وہ چاہتا تھا کہ انسان بھیڑ بکریوں کی طرح دوسروں کے بنائے ہوئے اصولوں پر چلنے کی بجائے، اپنی عقل اور ارادے سے اپنی زندگی کا راستہ خود بنائے۔
جیسا کہ ایک شعر میں کہا گیا ہے، جو اس پورے فلسفے کا نچوڑ ہے:
جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
- اعلان دستبرداری (Disclaimer): اس پوسٹ میں بیان کردہ معاملات ، یوٹیوب ویڈیوز ، کتب اور آرٹیکلز پر مشتمل ہیں۔ یہ پروفیسر آف اردو کے اپنے خیالات نہیں۔