نسیم حجازی کی سوانح و شخصیت
خاندانی پس منظر
میرتقی مؔیراردوکےاساتذہ اورکلاسیکی شعرامیں شمارہوتےہیں۔ان کی غزل کلاسیک کی عمدہ مثال ہے۔انھوں نےاپنےکلام میں سوزوگدازسےکام لیاہےاوراساسی لحاظ سےان کاکلام غم و دردکےتجربات سےگزرکراشعارکےقالب میں ڈھلانظرآتاہے۔
ان کی زندگی میں دردوغم اورسوزوگدازموجودتھا،یہی چیزہمیں ان کی شاعری میں یاان کےکلام میں بھی نظرآتی ہے۔ان کی شخصیت اور ذاتی زندگی کااثران کےکلام پرہواہے۔ان کی ابتدائی تکالیف اورغموں سےبھرپورتھی یہی وجہ ہےکہ اس کااثران کےکلام پربراہ راست یاغیرشعوری طورپردکھائی دیتاہے۔
کسی بھی انسان کےبارےمیں آگاہی حاصل کرنےسےقبل یااسےجاننےسےقبل اس کےخاندان اورخاندانی حالات کےبارےمیں جاننالازم ہوتاہے؛خاندانی حالات کےبناہم کسی انسان کےبارےمیں صحیح معنوں میں نہیں جان سکتے،اسی بناپراس کےخاندانی حالات سےباخبرہوناپڑتاہے۔اس حوالےسےیہ دیکھاجاتاہےکہ وہ کہاں پیداہوا؟یااس کی ولادت کہاں پرہوئی؟۔
اسی طرح اس کی ابتدائی زندگی کےبارےمیں جانناکہ اس کی ابتدائی زندگی کس ماحول میں گزری اورقسم کی زندگی انھوں نےگزاری یاانھیں گزارنی پڑی۔اس کےساتھ ساتھ یہ بھی سمجھناکہ اس کےآباواجداکون تھے؟اس کےآباواجدادکےبارےمیں بھی جانکاری ضروری ہے۔کیوں کہ کسی انسان کی پہچان ہی اس کےآباواجدادہوتےہیں۔آباواجدادسےاس کی شناخت سماج اور معاشرےمیں متعین ہوتی ہےاوراسےپہنچاناجاتاہے۔
اس کےعلاوہ وہ جس ماحول میں پلابڑھا،جہاں پراس کی پرورش ہوئی،اس سےآگاہی کےعلاوہ یہ بھی جانناکہ وہ جس ماحول میں پیداہوااوراس نےوہاں بچپن گزاری،وہاں کی روایات کیا تھیں؟اقدارکیاتھے؟وہاں کی تہذیبی حالت کیسی تھی وغیرہ۔یہ سب جاننااورسمجھنااس لیےضروری ہوتاہےکہ پتہ لگایاجاسکےکہ اس کےماحول اورحالات و واقعات کےعلاوہ وہاں کی تہذیب و ثقافت اورشعریات وغیرہ کااس کی شخصیت اورفن پارےپرکیسےاثرہوا؟۔یہاں نسیم حجازی کےخاندانی حالات سےواقفیت سےپتہ چلےگاکہ ان کی زندگی کاان کےفن پراثرپڑاہےیانہیں؟
اوراگرپڑاہےتوکتنا؟وغیرہ۔اس باب میں نسیم حجازی جوکہ اردوکےجانےپہنچانےتاریخی ناولوں کےحوالےسےاہم اورمعتبرنام ہے،کی سوانح و شخصیت کا جائزہ لیاجائےگااوراس پرتحقیق ہوگی۔نسیم حجازی جس خاندان میں پیداہوئے،وہ خاندان آرائیوں کےنام سےجاناجاتاہے۔نسیم حجازی کی پیدائش بھی اسی خاندان میں ہوئی۔
آرائیوں کےمتعلق بہت سی روایات مشہورہیں؛کہاجاتاہےکہ یہ وہ خاندان ہےجب محمدبن قاسم حجازمقدس سےیہاں(سندھ)تشریف آئےتویہ خاندان ان کےساتھ سندھ آگیااوریہاں آکریہیں کاہوکررہایعنی یہیں پربس گیا۔
آرائیوں کی خاصیت یہ تھی کہ وہ کاشت کاری میں ماہرتھےلہٰذاکاشت کاری کوانھوں نےاپنامستقل پیشہ بنایا۔اس بات کی تائیدعلی اصغرچوہدری نےبھی کی ہےکہ نسیم حجازی کاتعلق آریاخاندان سےتھا۔اس ضمن میں وہ رقم طرازہیں:’’اریحامیں آبادہونے ،بزرگوں کی یاد میں حجازی بھی لکھتےہیں۔جیسے پاکستان کےمشہور ناول نگار جناب نسیم حجازی صاحب ۔‘‘(۱)
نسیم حجازی کےوالدصاحب کا نام محمدابراہیم تھا۔محمدابراہیم ایک معززانسان تھے۔وہ انہارمیں تحصیل دارتھے۔نسیم حجازی کی والدہ کاانتقال ان کےبچپن ہی میں ہوگیاتھا،اس وقت نسیم حجازی کی عمرچودہ(۱۴) سال تھی۔وہ ماں کی محبت اور شفقت سےمحروم رہے۔
پیدائش
اکثر مشہور و معروف شخصیات کی تاریخ پیدائش میں اختلاف پایا جاتا ہے اور یہ مسئلہ ادیبوں کے ساتھ زیادہ ہوتا ہے۔ یہ سفرِِزندگی کی حقیقت بھی ہے کہ دنیا سے جانے والے کو اپنے انتقال کی تاریخ معلوم نہیں ہوتی لیکن یہ تاریخ دنیا والوں کو اچھی طرح یاد رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخ وفات میں کم ہی اختلاف پایا جاتا ہے
جب کہ تاریخ پیدائش اکثر ادیبوں کے مشکوک رہتی ہے۔ اس طرح اکثر یہ صورت حال پیش آتی ہے کہ مصنف یا ادیب کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے کئی اقوال مشہور ہوجاتے ہیں۔ بعد میں اس مسلےکو حل کرنے کے لیے دو صورتوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ۱: یا تو اُسی تاریخ کو مستند مانا جاتا ہے جس کے حق میں مصنف خود ہو۔ ۲:یا پھر سرکاری دستاویزات پر درج تاریخ کو مستند ٹھہرایا جاتا ہے۔
لیکن جہاں تک نسیم حجازی کا تعلق ہےتوان کےحوالےسےیہ بات درست چابت نہیں ہوتی کیوں کہ نسیم حجازی اس فہرست سے مبرا ہیں۔ نسیم حجازی پنجاب کے ضلع گورداس پور کے گاؤں سوجان پور میں ۱۹ مئی ۱۹۱۴ء کو پیدا ہوئے۔بقول ڈاکٹرتصدق راجا:’’نسیم حجازی کی پیدائش ۱۹/۱۹۱۴ء کو پنجاب کے ضلع گورداس پور کے ایک گاؤں سوجان پور میں ہوئی۔‘‘(۲)
نسیم حجازی کل چھ بہن بھائی تھے۔نسیم حجازی کا اصل نام محمدشریف تھا۔وہ سب بہن بھائیوں میں بڑےتھے۔اس کےعلاوہ ان کےبعد محمدیعقوب،عبدالحکیم،فاطمہ بی بی،محمدبی بی اور لطیفہ بی بی تھے۔
ان کی حقیقی والدہ کاانتقال چوں کہ بہت جلد ہوگیاتھالہٰذا ان کی پرورش کےلیےان کےوالد نےدوسری شادی کی ۔اس دوسری شادی سےنسیم حجازی کچھ زیادہ خوش نہیں تھا اوران کےتعلقات اپنی سوتیلی ماں سےہمیشہ ناخوشگوارہی رہے۔البتہ اس سوتیلی ماں سےان کی ایک بہن تھی جس سےنسیم حجازی کا رویہ بہت ہی اچھاتھا۔اس بہن کی شادی کےخراجات بھی ان تینوں بھائیوں نے مل کراٹھائے۔
چوں ان کا نام شریف تھالیکن نسیم حجازی کیسےپڑا؟توجب انھیں اسکول میں داخل کروایاگیاتوان کےعربی کےاستادنےان کےنام کےساتھ ’’حجاز‘‘لگادیا۔اورکہاکہ تمھاراتعلق آریہ خاندان سےہے،اورآرئیں حجازسےآئےہیں۔نسیم حجازی نےایک انٹرویو میں خوداس کی توضیح کچھ یوں کی ہے:’’جب میں نےلکھنے کاآغازکیاتھاتو ان دنوں میں سوجان پورضلع گورداس پور میں رہتاتھا اور وہاں کے مولوی غلام مصطفیٰ سےاکثرملاقات ہواکرتی تھی۔
ایک روزوہ بولےکہ تمھیں پڑھنھےلکھنےکاشوق توہےلیکن تم اپناتخلص نہیں کرتے،اس وقت میں محمدشریف ہی لکھاکرتاتھا۔میں نےان سےپوچھاکہ کیانام رکھوں ،تووہ کہنےلگےکہ تم سرزمین حضازسےتعلق رکھتےہو،اس لیےسرزمین حجازسےہی کوئی نہ کوئی تخلص رکھ لو۔لہٰذامیں نےاس بات پرغورکیااورمحمدشریف کےبجائے’’نسیم حجازی‘‘لکھناشروع کردیاجوبعدمیں میری پہنچان بن گیا۔‘‘(۳)
نسیم حجازی کی تربیت سازی ان کی ماں (حقیقی ماں)عمربی بی کی سایہ عافیت میں ہوئی اوران کی کردارسازی اورکردارکےبنےسنوارنےمیں عمربی بی کا بڑاہاتھ تھا۔لیکن چوں کہ وہ جلداس دنیاسےکوچ کرگئیں ۔اس حوالے سےڈاکٹرتصدق حسین اپنی کتاب’’نسیم حجازی۔ایک مطالعہ‘‘میں لکھتےہیں:
’’انہیں ماں سے محبت تھی چاندنی راتوں میں کھیل کودمیں لگےرہنےکی وجہ سے ان کےوالدنےبورڈنگ ہاوس میں داخل کردایاتھامگراس کےباوجودوہ صبح کا ناشتہ اوررات کا کھاناماں کاپکاہواکھانےکےلیےگھرآجاتےتھےجہاں ماں منتظرملتی تھی،ماں کےانتقال پرانہیں یوں محسوس ہواجیسے’ایک روشنی چھن گئی ہے‘پھروقت کےساتھ ساتھ آہستہ آہستہ انہوں نےاپنےدل کوسمجھایالیاتھاکہ ایساہوناہی تھااوریہ کہ ماں کوخالق حقیقی کےپاس جانےسےکون روک سکتاتھا۔‘‘(۴)
اس بیان سےصاف واضح ہوتاہےکہ نسیم حجازی اپنی والدہ سےکتنی محبت کرتےتھے۔ظاہری بات ہےکہ ایک بچہ ابتدائی ایام میں ماں کےسائےتلےہی پروان چڑھتاہے،بچےکی فرمائشیں،اس کےنازنخرے،اس کی خدمت اوراس کی تربیت سازی میں ماں کابہت اہم کردارہوتاہے۔
اس لیےتوماہرین اوربزرگ لوگ کہتےہیں کہ بچہ ماں سےزیادہ کسی دوسری ہستی سےقریب ترنہیں ہوسکتااورنہ ہی والدکےساتھ وہ اتناوقت گزارتاہےجتناکےماں کےساتھ،یہی وجہ ہےکہ ماں جب اپنےبچےکی مثبت تربیت کرتی ہےتووہ بچہ بڑاہوکرنہ صرف والدین کانام روشن کرتاہےبلکہ پوری قوم کےسر اونچا کرنےمیں بھی اہم کرداراداکرتاہے۔
نسیم حجازی کی ماں سےاتنی اُنس اورمحبت سےصاف جھلکتاہےکہ وہ اپنی ماں کوجی جان سےچاہتےتھےاوران کےگزرجانےکےبعدبھی انھیں یادکیاکرتےتھے۔یہ چیز ہمیں ان کی تحاریرمیں بھی دکھائی دیتی ہے۔
لیکن چوں کہ وہ ایک فن کارتھےلہٰذا وہ سمجھ چکےتھےکہ ہرانسان کوایک نہ ایک دن فناہوناہےکیوں کہ انسان فانی ہے۔ان کی ماں کےموت کےبعدانھیں شدیدصدمہ پہنچالیکن بالآخروہ سنبھل گئےاورانھوں نےاپنےآپ سے سمجھوتا کرلیاکہ دنیامیں ہمیشگی نہیں ہےاورہرکسی کوفناہونا،باقی رہنےوالی ذات صرف اللہ کی ہے۔لیکن ماں کی یادان کی تمام عمرکاحصہ رہی ہے۔وہ اس سےکبھی بیگانےنہ ہوئےاورنہ ہی ان کی یادکوبھلاسکے۔
تعلیم
نسیم حجازی کےگاؤں(سوجان پور) سےدورایک میل فاصلےپرایک اورگاؤں تھاجس کانام کھنڈاہے،نسیم حجازی نےابتدائی تعلیم اسی گاؤں کےاسکول گورنمنٹ ہائی سکول کھنڈاسےحاصل کی۔اس کےبعدانھوں نےایک اورسکول جوکہ گورداس پورمیں واقع تھامیں دسویں میں داخلہ لیااورمشن ہائی اسکول دھاریوال ضلع گورداس پورسے۱۹۳۲ءمیں جماعت دہم کاامتحان پاس کیا۔
اس کےعلاوہ بی۔اےکی ڈگری انھوں نےاسلامیہ کالج ریلوےروڈلاہورسے۱۹۳۸ءمیں حاصل کی۔ان کےوالدکی یہ خواہش تھی کہ نسیم حجازی فوج میں بھرتی ہو،لیکن نسیم حجازی فوج اورسرکاری ملازمت سےدروبھاگتےتھے،یہی وجہ ہےکہ تعلیم مکمل کرنےکےبعدسیدھاصحافت کارخ کیا۔ انھیں کالج میں ہی دوران طالب علمی لکھنےکاشوق تھا،وہ لکھاکرتےتھے۔لہٰذااپناپہلاافسانہ انھوں نےیہی پرتحریرکیاجس کاعنوان’’شودر‘‘تھا۔
ییہ افسانہ جنوری ۱۹۳۶ءمیں ماہنامہ ’’حکایت الاسلام‘‘میں شائع ہوا۔اس افسانےپرنسیم حجازی نےبطورمصنف اپنانام محمدشریف نسیم لکھاتھا۔اس کےبعدتخلیقی سفرآہستہ آہستہ شروع ہونےلگا اور یوں اگلےشمارےمیں انھوں ایک اورافسانہ شائع کیاجوکہ ’’جستجو‘‘کےعنوان پرمشتمل تھا۔اس افسانےمیں انھوں نے اپنے نام کےساتھ اوربھی اضافہ کیا،
انھوں نےاپنانام محمدشریف نسیم جان پوری متعلم اسلامیہ کالج لاہورلکھا۔انھوں اپنےپہلےافسانے’’شودر‘‘میں سماج میں پھیلی اونچ نیچ کی برائی کوپیش کیاہے۔ان کےناول ’’انسان اور دیوتا‘‘میں بھی اسی خیال کی عکاسی کی گئی ہے۔ ان کےخیال میں افسانہ’’شودر‘‘اصل میں اس خیال اوراس بنیادی تصورکوپیش کرنےکےلیےان کےناول’’انسان اوردیوتا‘‘کےلیےتمہیدہی تھی۔یہ اعتراف انھوں نےخودکیاہے۔
ان کےمزاج میں فراست اورفہم دورطالب علمی(اسلامیہ کالج)میں ہی پیداہوگئی جس کی بناپروہ مشکل سےمشکل حالات کامقابلہ خندہ پیشانی سےکرلیاکرتےتھے۔اس حوالےسےڈاکٹرتصدق حسین ایک دل چسپ اورجاذب واقعہ نقل کرتےہیں:
’’ایک بارکالج سےچھٹی ہونےپربذریعہ ریل گاڑی جب اپنےآبائی گاؤں پہنچاتوگاؤں خالی نظرآیا،معلوم ہواکہ گاؤں والےاپنےہمسایہ گاؤں کےلوگوں سےلڑنےکےلیےلاٹھیوں سےلیس وہاں جمع ہیں اس نےفوراًگھوڑےکولگام ڈالی اوراسکی ننگی پیٹھ پرسوارہوکراس جانب بجلی کی سی تیزی کےساتھ روانہ ہوا۔
اس نےدیکھاکہ دونوں گاؤں کےلوگ آمنےسامنےصف آراہیں اس نےدورسےہی للکارا’’خبردار‘‘لاٹھیاں فضامیں بلندکی بلندرہ گئی دوایک کوتھپڑمارےاورانہیں ایسارام کرلیاکہ اب دونوں طرف سےلوگ کشتی لڑنےکےلیےاکھاڑےمیں اتررہےتھے۔کبڈی بھی کھیلی گئی اوریہ نوجوان مخالف گاؤں کےلوگوں کی طرف سےکھیلاکیوں کہ وہ کمزورتھےاس طرح یہ لڑائی ٹل گئی۔‘‘(۵)
طالب علمی کےزمانےہی سےانھیں لکھنےکاشوق تھا،اسی شوق اوراساتذہ کی محنت کی وجہ سےان کی تربیت سازی بھی ہوتی رہی اورساتھ ساتھ تحریری شوق بھی بڑھا۔یہ شوق ودل چسپی اوراساتذہ کی تربیت کانتیجہ ہی تھاکہ وہ اپنی روایات سےنہ صرف مخلص رہابلکہ ان سےمحبت بھی کرتاگیا۔ڈاکٹرتصدق حسین ان کےزمانہ طالب علمی کاواقعہ(جس میں حجازی کی شرارت کاذکرکیاگیاہےکہ وہ کتنےشریراورخطرناک و طاقت ورتھے) کچھ یوں پیش کرتےہیں:
’’بشرالدین مشن ہائی اسکول کےکرسچن ہیڈماسٹرتھے،ذہین،بااصول اورمشفق،حجازی ان سےمتاثرہوئے۔اس اسکول میں انگریزی کےاستادامریکی تھےبورڈنگ میں شام کواسمبلی ہوتی تھی جس میں زبورپنجابی زبان میں گائی جاتی تھی، نسیم حجازی نےایک شام چنددوستوں سےمشورےکےبعدچھت پرچڑھ کرعین اس وقت اذان دےدی جب اسمبلی ہورہی تھی پادری بہت برہم ہوااورکہا“He is a dangerous boy”(یہ بہت خطرناک لڑکاہے)مگرہیڈماسٹرنےمعاف کردیا۔‘‘(۶)
نسیم حجازی کی شخصیت کی تشکیل اوران کےکرداروتربیت میں ان کی تعلیمی دورکابہت بڑاہاتھ ہے۔ان کی شخصیت پراس دورکےاثرات دکھائی دیتےہیں۔اساتذہ کی تربیت کی وہی جھلک اوروہی فراست ہمیں بعدمیں علمی ندگی میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ان کی ابتدائی تعلیم کایہ دوران کےلیےنہایت اہم ہے۔
ان کی تر بیت سازی میں اسکول اساتذہ اوران کی حقیقی والدہ کابھی بہت بڑاکرداررہاہے۔جن کی بناپرنسیم حجازی نےاسےمحسوس کیااوراس بات کاادراک کیاکہ ان میں غیرمعمولی صلاحیت موجودہے۔انہی اساتذہ اوروالدہ کی وجہ سےانھیں یہ احساس ہواکہ وہ لکھنےکےمیدان کی طرف چلےاوراس ضمن میں مناسب رہمنائی انھیں ملتی رہی اورساتھ میں حوصلہ افزائی بھی۔
ملازمت
نسیم حجازی نےتعلیم سےفراغت حاصل کرنےکےبعدصحافت کی دنیامیں قدم رکھااورصحافت میں حصہ لینےلگے۔اس دورمیں کراچی سےبہت اخبارشائع ہوتےتھےجن میں دواخبارایسےتھےجن سےنسیم حجازی منسلک ہوئے۔ان اخبارات میں ایک ’’زمانہ‘‘اوردوسرا’’حیات‘‘تھا،وہ ان دواخبارات سےمنسلک ہوگئے۔وہ زیادہ مدت تک ان اخبارات میں کام نہ کرسکے،لہٰذاانھوں ان میں لکھنامارچ ۱۹۴۱ءمیں شروع کیااوردمبر۱۹۴۱ءتک وہ ان سگؤےمنسلک رہے۔انھوں نےبطورمعلم یااستادبھی کام کیا۔
صحافت کےساتھ ساتھ انھوں نےڈرگ روڈ کراچی میں بطورایک استادکےکام کرناشروع کیا۔ان کی قسمت کی خرابی کی وجہ سےوہ بمشکل تین ماہ تک معلم رہےاوراس کےبعانھیں سبکدوش کردیاگیا۔
ان کی سبکدوشی کی وجہ دراصل ایک اداریہ تھا،یہ وہ اداریہ تھاجوانھوں نےکچھ عرصہ قبل ایران کےبارےمیں ضبط قلم کیاتھا۔جب انھیں سبکدوش کیاگیاتھاتوانھوں نےصرف ایک طرف توجہ کی اوروہاں اپنےبہت سےخدمات انجام دینےلگے۔انھوں نےساری توجہ صحافت پرمرتکزکردی۔
اس دورمیں میرجعفرخان جمالی اپناایک اخبارنکالاکرتے تھے جو کہ ہفت روزہ تھا۔اس اخبارکانام ’’تنظیم‘‘تھا۔نسیم حجازی ان کےاسی اخبارسےمنسلک ہوگئے۔۱۹۴۳ءتا۱۹۴۸ءوہ بحیثیت مدیراخبار’’تنظیم‘‘میں خدمات انجام دیتےرہے۔اسی دوران روالپنڈی سےبھی ایک اخبار’’تعمیر‘‘طباعت پذیرہوتاتھا،نسیم حجازی نے ۱۹۴۹ءسے۱۹۵۳ءتک اس اخبارکےمدیرکےطورپرخدمات انجام دینی شروع کردی۔
اس کےبعدانھوں نےعنایت اللہ کےساتھ مل کراخبار’’کوہستان‘‘جاری کردیا۔یہ اخباران دونوں نے۱۹۵۳ءمیں روالپنڈی سےجاری کیاتھا۔یہ اخبارشائع ہوتےہوئےمشہورومقبول ہوگیا،اس اخبارکی شہرت دوردرازعلاقوں تک پھیل گئی اوریوں اسی مقبولیت کی بناپرایہ اخباربعض اورمقامات سےبھی شائع ہونےلگا۔اس اخبارنےقلیل عرصےمیں شہرت حاصل کی۔
یہ ۱۹۵۶ءمیں لاہورسےجب کہ ۱۹۵۷ءمیں ملتان شائع ہونےلگا۔یہ اخباراتنامشہورومقبول ہونےلگاکہ پنجاب کےتمام اخبارات پرنہ صرف سبقت لےگیابلکہ وہاں اس کی اہمیت بھی مسلم ہونےلگی اوربڑھ نےلگی۔
لیکن پھرہوایوں کہ جب کسی چیزکی مقبولیت ہوتی ہےتوکوئی نہ کوئی رکاوٹ سامنےآہی جاتی ہےلہٰذامغربی پاکستان کی حکومت نے۱۹۶۳ءمیں اس اخبارکےتین ایڈیشنوں پرپابندی لگادی،اوراس کی مدت تین ماہ تھی۔نسیم حجازی کےخلاف سازشیں کی گئیں لہٰذانھوں سےاس سےعلیحدگی اختیارکی اوراس اخبارکوکنونشن بعدمیں مسلم لیگ نےخریدلیا۔بقول ڈاکٹرتصدق حسین:
’’فیلڈمارشل ایوب خان کےدورمیں یہ اخبارنسیم حجازی سےگورنمنٹ نےلےلیاتھاجس کی داستان آج بھی بیان کرتےوقت ایک عجیب دردکی کیفیت ان پرطاری ہوجاتی ہے۔انہیں بعدمیں یہ پیش کش ہوئی کہ آپ کوہستان کی ادارت قبول کرلیں لیکن انہوں نےاسےیہ کہہ کرٹھکرادیاکہ صدرمحترم !اب اخبارآپ کاہوگاپالیسی آپ کی چلےگی اس لیےنسیم حجازی کاقلم استعمال نہیں ہوسکتااسےمعاف فرمایےاوریہ اعزازکسی اورکوبخشئیے۔‘‘(۷)
اسی پابندی کی بناپراخبارزوال کی طرف محوسفرہونےلگا۔اوراسی طرح ایک کامیاب اخباردھیرےدھیرےناکامی کی طرف گامزن ہوگیا،جس کی اصل وجہ حکومتی پابندی ہی تھی۔اس کےبعدنسیم حجازی نےاس اخبارکے بجائےاپناتخلیقی سفرشروع کیااوروہ اپنی تخلیقات میں اتنےمگن ہوگئےکہ دوبارہ اخبارکی طرف توجہ بھی نہیں کی۔ڈاکترمسکین علی (سابقہ صدرشعبہ صحافت پنجاب)نسیم حجازی کےمقام و مرتبےاوران کی صحافتی خدمات کےحوالےسےرقم طرازہیں:
’’نسیم حجازی صاحب بنیادی طورپرناول نگارتھے۔صحافت کےمیدان میں وہ ضرورتاً آئے تھے۔۔۔صحافت میں وہ صاحب طرزصاحب دل صاحب دفاع صحافی تھےاگر ان کااخبارزندہ رہتاتوان کی وفات کےبعدان کےیوم منائےجاتےخصوصی ایڈیشن چھپتےان کی عظمت کی بےاندازہ تشہیرہوتی۔پاکستان میں جوبھی صحافی نظریہ پاکستان پریقین رکھتاہےاسلام کی حقانیت کو جانتاہےاورپھرلکھتاہےوہ نسیم حجازی کاجانشین ہےلیکن نسیم حجازی کااسلوب اپناتھا۔آج کےصحافیوں کےاسلوب اپنےنہیں ہے۔‘‘(۸)
المختصرہم یوں کہہ سکتےہیں کہ نسیم حجاززی نےبھی ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں سےتھوڑےدوردورسےگاؤں میں حاصل کی۔پھرمیٹرک کاامتحان ضلع گورداس پورکےایک اسکول سےپاس کیا،اس کےبعدبی۔اےکی ڈگری انھوں نےاسلامیہ کالج ریلوےروڈلاہورسےحاصل کی اوریوں انھوں نےتعلیمی سفرمکمل کرنےکےبعدملازمت کی طرف دھیان دیا۔
ملازمت کےحوالےسےانھوں نےزیادہ توجہ صحافت پرصرف کی اورصحافت میں انھوں نےنمایاں خدمات انجام دیں،اس دوران مدرس بھی بنےلیکن تھوڑی مدت کےلیے،انھوں نےاپنےساتھی عنایت اللہ کےساتھ مل کراخبار’’کوہستان ‘‘جاری کیاجس کی بناپروہ صحافتی و ادبی حلقوں میں مقبول ہوگئےاوراس کےبعدانھوں نےتخلیقات کی طرف توجہ دی۔انھوں نےناول نگاری میں تونام پیداکیاہی ہےلیکن صحافت میں بھی وہ جانےپہچانےادیب ہیں۔تاریخی ناول نگاری کےحوالےسےوہ ایک مستندنام ہے۔اردوادب میں تاریخی ناولوں کیےلکھنےکےحوالےسےانھیں قدرت حاصل ہے۔
ازدواجی زندگی
نسیم حجازی نےطالب علمی کےزمانےہی میں شادی کی۔ان کی شادی کےوقت ان کی عمر۲۳سال تھی۔انھوں نےمولاناغیاث الدین کی دخترنیک اخترنجابت النساءسے۱۹۳۷ءمیں شادی کی۔
مولاناغیاث الدین وہ شخصیت ہیں جن کاشماراپنےعہدکےناموراوراہم علمامیں ہوتاہے۔وہ اپنےعہدکےایک قابل،معتبراورمتبرک والےعالم تھے۔ظاہری بات کی ہےکہ ان کی بیٹی بھی ان کےلائق تھی،نجابت النساءبیگم ایک دین دار،طہارت پسند،پاکیزہ،باکردار،باحیا،تعلیم یافتہ اوربیدارمغزخاتون تھیں۔نجابت النساءکی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ کبھی بھی اپنےشوہر(نسیم حجازی)کی ادبی و صحافتی زندگی میں ان کےلیےرکاوٹ کاباعث نہیں بنیں۔
وہ نسیم حجازی کےساتھ ایسا سلوک روارکھتی کہ انھیں کوئی پریشانی نہ ہو۔انھوں نےہمیشہ نسیم حجازی کوتحریک دی۔انھیں محنت کرنےکےلیےاکسایااوران کی تخلیقی قوتوں کوتحرک دیا۔ان کی بیگم جب ان کےگھردلہن بن کرگھرپہلی مرتبہ آئیں،اس دورکاواقعہ بیان کرتےہوئےکہتےہیں کہ:
’’بیاہ کردلہن بن کرجب وہ میرےگھرآئی تومیں نےان سےکہاکہ اب تک زندگی کےبوجھ کواکیلےاٹھایاتھا،اب چاہتاہوں کہ مل کرچلیں۔میں نےایک کاغذاورقلم انہیں کودیااوراملاکرایاجوکچھ انہوں ےلکھاسےمیں نےدیکھااس میں کوئی غلطی نہ تھی میں کہایہ میرےچھپنےوالےناول کےپہلےسطورہوں گی جنھیں کبھی تبدیل نہ کروں گا۔‘‘(۹)
وہ اپنی بیگم سےبےحدمحبت کرتےتھے،انھیں اپنی بیگم بہت زیادہ پسندتھی،وہ ان کی صحبت سےدورنہ جاتےاوراگرکہیں کسی ضرورکام سےجاتےبھی توچاہتےکہ جلدگھرلوٹ جاؤں۔اسی محبت کااظہارکرتےہوئےکہتےہیں:
’’ان کی رفاقت کےبعد زندگی مکمل ہوگئی۔جب کبھی ملک سےباہرجاتاتواپنےگھرآنےمیں جلدی کرتا۔‘‘(۱۰)
اولاد
نسیم حجازی نےازدواجی زندگی کاآغازجوانی ہی سےکیایعنی تئیس سال سے،لیکن اس کےباوجودان کی ازدواجی زندگی بہت خوش گوارگزری۔انھوں نےکبھی بھی ازدواجی زندگی سےشکایت نہیں کی۔رب کائنات نےان پررحم کی تھی اورانھیں دوبیٹوں سےنوازاتھا۔ان کےبڑےصاحبزادےکانام خالدنسیم ہے،خالدنسیم دو(۲)اگست ۱۹۳۸ءکو پیداہوا۔
نسیم حجازی اسےڈاکٹربناناچاہتےتھےلیکن روایتاًوہ ڈاکٹرنہ بنےاوراس نےاس طرف دھیان نہیں دیا۔البتہ بعدمیں اس نےمختلف ڈپلومازکےذریعےاس مضمون کونہ صرف پڑھابلکہ سمجھابھی،اور پھر اسے اپنا لیا۔ خالد نے بی۔اےتک تعلیم حاصل کی اورپھراخبار’’کوہستان‘‘سےمنسلک ہوگیا۔اس کےعلاوہ وہ ’’روزنامہ جنگ‘‘سےبھی وابستہ ہوا۔اورآخرمیں وہ ملک میں شمسی توانائی کےفروغ میں شریک ہوگیا۔خالدنسیم نےاپنی خالہ زادشہنازخالدسےشادی کی۔خالدنسیم تین اولادوں کےباپ تھے،جن میں ایک بیٹی اوردوبیٹےشامل ہیں۔ان کےسب سےبڑےصاحبزادےکانام غیاث الدین،جب کہ چھوٹےکانام صلاح الدین ہےجوفوج میں ملازم ہے۔
ان دونوں کےنام معروف شخصیت سیدابوالاعلی مودودی نےرکھےتھے۔نسیم حجازی کاچھوٹابیٹااحسن نسیم ہے۔احسن نسیم کی تین اولادیں ہیں،جن میں ایک بیٹااور دو بیٹیاں شامل ہیں۔نسیم حجازی کامنجھلابیٹاعین جوانی میں فوت ہوا،اس کی موت پانی میں ڈوبنےکی وجہ سےہوئی۔اس حوالےسےنجابت النساءبیگم(بیگم نسیم حجازی)لکھتی ہیں:’’منجھلےبیٹےجاویدنسیم کی وفات ہماری زندگی کاسب سےالمناک واقعہ ہےیہ عجب بات ہےکہ نسیم صاحب اس کےبارےمیں بےحدفکرمندرہاکرتےتھے۔جب جاویدنسیم غرق آب ہواتواس کی عمر۱۹ برس تھی۔
پہلےدن اس کی لاش نہیں مل سکی تھی رات بھرسیکڑوں آدمی جوہڑکےاردگردبیٹھےہوئےتھےکئی لوگوں نےاس کی لاش ڈھونڈنےکےلیےغوطےبھی لگائے۔نسیم صاحب کواس بات کی بہت فکرتھی کہ ان میں سےکوئی اس جوہڑمیں ڈوب نہ جائے۔اگلےدن ٹرک پرلدکرایک کشتی پہنچ گئی اورکمانڈران چیف جنرل موسیٰ نےحکم دیاکہ اگرلاش جلدی نہ ملےتوپمپ لگاکرجوہڑخالی کردیاجائےفوجیوں نےکشتی اتارکرکنارےپررکھدی اورکشتی کھنچنےوالاکاانتظام کرنےلگے۔
نسیم صاحب آگےبڑھےاورکشتی کےچپوسنبھالتےہوئےلوگوں کی طرف متوجہ ہوکرکہنےلگےتم میں سےدواچھےتیراک میرےساتھ آجائےدوکےبجائےچارافرادآگےبڑھےاورنسیم صاحب کےساتھ کشتی میں بیٹھ گئےاو واقعہ بڑارقت انگیزتھاجوخواتین
وہاں موجودتھی ان کی چیخیں نکل گئی،نسیم صاحب نےدوتین مقامات پرکشتی روکی اورپھرایک جگہ گہرےپانی میں گوطہ خورکودپڑےتھوڑی دیربعدبچےکی لاش مل گئی اورجب تک وہ اسےسپردخاک کرکےواپس نہیں آگئےکسی نےانہیں روتےہوئےنہیں دیکھا۔ان کےدوست احباب تسلی دےرہےتھےکہ اچانک ان کاحوصلہ ٹوٹ گیااوروہ سسکیاں لیتےہوئےاپنےکمرےمیں چلےگئے۔تھوڑی دیرکسی نےدروازہ کھولاتووہ جانمازپربیٹھےہوئےتھے۔‘‘(۱۱)
نسیم حجازی کوایک بیٹی کی نہایت تمنا تھی،لیکن ان کی یہ تمنامحض تمناہی رہی اوربارگاہ خداوندی میں پوری نہ ہوسکی۔ان کی اہلیہ نے۵۴برس کی زندگی ان کےساتھ بہت خوش اسلوبی اورہنسی خوشی گزاری۔اور بالآخر ۲۹ نومبر ۱۹۹۱ء کواس دنیاسےرخصت ہوگئی۔‘‘(۱۲)
تصانیف
نسیم حجازی کی تصانیف کی فہرست درجہ ذیل ہے:
۱۔ خاک اورخون یہ ناول برطانوی راج،تقسیم ہنداورتحریک پاکستان کےمتعلق ہے۔
۲۔ یوسف بن تاشفین اس ناول میں اندلس،طوائف الملوکی کےپہلےدور،استرداداوردولت مرابطین کودکھایا گیا ہے۔۳۔ آخری چٹان اس ناول میں فتح بیت المقدس،خوارزمیہ پرمنگول حملےاورسقوط بغداد(عباسیہ خلافت کاخاتمہ)کاذکرکیاگیاہے۔
۴۔ آخری معرکہ یہ ناول محمودغزنوی کےہندوستان پرحملوں کےمتعلق ہے۔۵۔ اندھیری رات کےمسافر اس میں استرداداورسقوطہ غرناطہ پرقلم فرسائی کی گئی ہے۔
۶۔ کلیسااورآگ یہ ناول اندھیری رات کےمسافرسےآگےاوربیت المقدس سےعیسائیوں کی انخلاسےتعلق رکھتاہے۔
۷۔ معظم علی اس ناول میں برطاوی راج،جنگ پلاسی،اینگلو میسورجنگیں (حیدرعلی کادور)،تیسری جنگ پانی پرطبع آزامائی کی گئی ہے۔
۸۔ اورتلوارٹوٹ گئی معظم علی سےآگےاوراینگلومیسورجنگوں پرمشتمل ناول۔
۹۔ داستان مجاہد خلافت امویہ،فتح سندھ،فتح المغرب،فتح اندلس اورفتح وسط ایشیاپرمشتمل ناول۔
۱۰۔ انسان اوردیوتا یہ ناول قدیم ہندوستان میں برہمنااورکھشتری ذات کےلوگوں کاشودروں پرمظالم پرمبنی ہے۔
۱۱۔ محمدبن قاسم فتح سندھ سےمتعلق ناول۔
۱۲۔ پاکستان سےدیارِحرم تک یہ نسیم حجازی کاسفرنامہ ہے۔
۱۳۔ پردیسی درخت نسیم حجازی کایہ ناول تقسیم ہندسےچندسال پہلےبرطانوی راج پرلکھاگیا ہے۔
۱۴۔ گمشدہ قافلے نسیم حجازی نےیہ ناول برطانوی راج،تقسیم ہنداورتحریک پاکستان پرتحریرکیاہے۔
۱۵۔ پورس کےہاتھی یہ نسیم حجازی کامزاحیہ ڈراماہے۔
۱۶۔ قافلۂ حجاز اس ناول میں خلافت راشدہ اورفتح ایران کاذکرکیاگیاہے۔
۱۷۔ قیصروکسریٰ اس ناول کاموضوع ساسانی اوربازنطینی سلطنتوں کےخلاف جنگ اورجزیرہ نماعرب میں ترویج اسلام ہے۔
۱۸۔ ثقافت کی تلاش یہ بھی نسیم حجازی کاطنزیہ و مزاحیہ ڈراماہے۔
۱۹۔ شاہین یہ ناول دراصل استردادسقوط غرناطہ پرلکھاگیاہے۔
۲۰۔ سوسال بعد نسیم حجازی کاطنزومزاح پرمشتمل ناول۔
۲۱۔ سفیدجزیرہ یہ طنزومزاح پرمبنی ناول ہے۔
وفات
نسیم حجازی کی اہلیہ کی وفات کےبعدان کی حالت نہایت تشویش ناک ہوتی گئی۔انھیں بیگم کی موت کابہت شدیدصدمہ پہنچا۔وہ بیارہوگئےاوراس دوران ان کی بڑی بہوان کی تیمارداری کرتی تھی۔بہت علاج معالجےکےبعدجب ان کی طبیعت نہ سنبھلی توبڑےبیٹےکوبلایاگیاجواس وقت کوئیٹہ میں تھے۔
وہ اپنےوالد کی شدیدبیماری کاسن کرفوراًگھرآگئے۔بہت علاج کرائےگئےلیکن بالآخریک مارچ ۱۹۹۶ءپیرکےدن (۸۲برس کی عمرمیں)روالپنڈی میں اپنےحقیقی مالک سےجاملے۔ان کی موت کےحوالےسےوکیل انجم اپنےمقالے’’نسیم حجازی تاریخی ناول نگاری کابڑاقلم کار‘‘میں اپنےتاثرات کااظہارکرتےہوئےلکھتےہیں:
’’تاریخی واقعات کواجاگرکرنےوالےنسیم حجازی مارچ ۱۹۹۶ءکوخودتاریخ بن گئےمگرکچھ لوگ ایسےہوتےہیں جومرکربھی نہیں مراکرتے۔نسیم حجازی کاشمارایسےہی لوگوں میں ہوتاتھا۔انہوں نےاپنی موت کےبعدناول کےذریعےمتاثرہونےوالاطبقہ چھوڑاہے۔اس کےساتھ ساتھ ترقی پسندادب سےوابستہ ناول نگارنسیم حجازی کےفن کوتنقیداورتضحیک کی نظرسےدیکھتےتھےاوران کےلئےنسیم حجازیت جیسی تضحیک آمیزاصطلاح استعمال کرتےتھے۔
۲۰۱۴ءمیں نسیم حجازی کوحکومت پاکستان نےشاندارخدمات پرنشان امتیازسےنوازا۔حکومت کی طرف سےاتنےبڑےناول نگارکی خدمات کوان کی موت کےبعداگرخراج تحسین پیش کیاگیاتویہ اچھی بات ہے۔‘‘(۱۳)
ان کی نمازہ جنازہ میں ملک بھرکی ممتازشخصیاتاوراعلی ادباوشعرانےشرکت کی۔ان کی نمازہ جنازہ دومرتبہ اداکی گئی۔انھیں اسلام آبادکےمرکزی قبرستان میں دفن کیاگیا۔
حوالہ جات
۔علی اصغرچوہدری،تاریخ آرائیاں،ص ۱۶۲۲۔
تصدق حسین راجا،ڈاکٹر،نسیم حجازی۔ایک مطالعہ،ص ۲۱۳۔
نویدانور،پرویزملک،روزنامہ پاکستان ادبی ایڈیشن،لاہور۴۔
تصدق حسین راجا،،ڈاکٹر،نسیم حجازی۔ایک مطالعہ،ص ۲۹۵
۔ایضاً،ص ۲۰،۲۱۶۔
ایضاً،ص ۲۹،۳۰۷۔
ایضاً،ص ۴۲۸۔
ممتازعمر،نسیم حجازی کی تاریخی ناول نگاری،ص ۱۶۰۹۔
ایضاً،ص ۷۶۱۰۔
ایضاً،ص ۷۶۱۱۔
تصدق حسین راجا،ڈاکٹر،نسیم حجازی۔ایک مطالعہ،ص ۲۸۲۱۲۔
عبدالقیوم(مقالہ نگار)،تاریخی ناول نگاری کی روایت اورنسیم حجازی،مقالہ برائےپی۔ایچ۔ڈی،جمویونی ورسٹی،جمو،۲۰۱۷ء،ص ۲۴۱۳۔
بحوالہ ایضاً،ص ۳۱،۳۲
مزید یہ بھی پڑھیں: تاریخی ناول نگاری میں نسیم حجازی کا مقام و مرتبہ مقالہ pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں