ڈپٹی نذیر احمد کی ناول نگاری کا تنقیدی جائزہ 01

نذیر احمد کی ناول نگاری کا پس منظر

نذیر احمد اردو کے پہلے کامیاب ناول نگار ہیں انہیں کہانیاں کہنا آتا ہے اور ان کی کہانیاں براہ راست زندگی سے چنی گئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پند و موعظت کے پہاڑ ان کے قصوں میں ایسے کھڑے ہیں، جنہیں نفس قصہ سے کوئی سروکار نہیں، لیکن بالفرض اس پند و موعظت کے بھرمار کو کتاب سے نکال دیا جائے تو صاف سیدھا سا دا قصہ باقی رہ جاتا ہے۔

جس میں انتہائی خارجی تفصیل کے ساتھ زندگی کی بھی تصویر نظر کے سامنے پھر جاتی ہے یہ تصویر محدود ہے اس کا تعلق اس وقت کی دہلی کی متوسط گھر یلو زندگی سے ہے۔ اس میں بہت زیادہ گہرائی بھی نہیں، پھر بھی خارجی حقیقت نگاری کا یہ کمال آج تک اردو کے کسی ناول نگار کو نصیب نہیں ہوا ۔۔۔۔ قصے کرداروں کی نفسات اور قصے کی منطقی رفتار میں کہیں آویزش نہیں ہونے پاتی، ہر چیز سلجھی ہوئی ہے، یہ نثری قصے کی کلاسیکی معراج ہے۔

نذیر احمد کی ناول نگاری پر اعتراضات

نذیر احمد کی ناول نگاری کے متعلق نقادوں کی متضاد رائے ہے کچھ نقاد انہیں سرے سے ناول نگار مانتے ہی نہیں ، اور دوسرے نقاد ان کی ناول نگاری کے محاسن کو شمار کر کے انہیں اردو کا اولین ناول نگار سمجھتے ہیں ۔

نذیر احمد کے نہایت سخت گیر نقاد ڈا کٹر احسن فاروقی ہیں، جوان کے ناولوں کو ناول ہی نہیں مانتے، وہ انہیں تمثیلی افسانے کہتے ہیں۔

علی عباس حسینی کو اعتراض ہے کہ نذیر احمد ملائے مسجدی ہیں، انہوں نے حسن و عشق کے موضوعات کو اپنے نالوں میں جگہ نہیں دی۔

یہ بھی اعتراض کیا گیا کہ نذیر احمد کے کردار مثالی ہوتے ہیں اور ان میں ارتقاء کہیں نظر نہیں آتا، وہ یا تو فرشتے ہوتے ہیں یا شیطان۔

اس کے علاوہ نذیر احمد کے طویل مکالموں کو وعظ و ناظرہ کانام دیا۔ ان کے ناولوں پر سب سے بڑا اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ مقصدی ہیں۔ اور مقصد کی عریاں تفصیل انہیں ادب کے دائرے سے نکال کر پروپیگنڈہ لٹریچر کی حدوں میں داخل کر دیتی ہے۔

جہاں تک ڈاکٹر احسن فاروقی کی رائے ہے، تو خود ان کی اپنی رائے میں تضاد موجود ہے اپنی کتاب ” اردو ناول کی تنقیدی تاریخ ” میں اپنی ہی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں؟

"باد جو ان تمام خامیوں کے ان کی فطری قصہ گوئی داد کے قابل ہے”.

نذیر احمد کی ناول نگاری میں کردار

نذیر احمد کے ناولوں میں کردار نگاری کا پہلو بھی اگر نقائص کا حامل ہے تو اس کی وجہ ان کی اصلاحی و مقصدی غلو پسندی ہے، جس کیلئے انہوں نے کسی چیز کی پروا نہیں کی۔

لیکن اگر نذیر احمد نے جوش اصلاح میں ناول کے فنی تقاضوں کا خیال نہیں رکھا تو ہمارے نقادوں نے بھی جوش تنقید میں نذیر احمد کے ساتھ بے جا زیادتی کی ہے، مثلاً مجنوں گورکھپوری نے اپنی کتاب ” افسانہ” میں نذیر احمد کی کردار نگاری کو مناسب مقام نہیں دیا.

ڈاکٹر احسن فاروقی جو نذیر احمد کے ناولوں کو تمثیلی قصے کہتے ہیں ، ان کی کردار نگاری کو سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے ، ان کے خیال میں نذیر احمد کا ہر کردار تمثیلی مجسمہ ہے۔

بے شک ان کے اکثر کردار اسم با سمی ہوتے ہیں مثلاً ظاہر دار بیگ، ابن الوقت ، حجتہ الاسلام وغیرہ لیکن بعض کردار نذیر احمد نے ایسے بھی تخلیق کئے جو ان کی ناول نگاری کیلئے سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔

مبتلاء اور ابن وقت کے کردار تو مختلف ارتقائی مراحل سے گزرتے ہیں۔ بعض کرداروں کی ذہنی کش مکش کی عکاسی میں نذیر احمد کے یہاں بڑی فنکاری ملتی ہے۔

بقول ڈاکٹر سید عبد الله : ” یہ اردو میں نفسیاتی تجزیے کی اولین کوششوں میں سے ہے۔”

نذیر احمد کے ناولوں میں کرداروں کی بھر مار ہے، ظاہر ہے اتنے ڈھیر سارے کرداروں میں کچھ کردار بے جان اور ٹائپ کردار بھی بن کر رہ گئے ہیں مگر ان کے بعض کردار بلاشبہ جیتے جاگتے کرداروں میں اور زندگی کا بھر پور ثبوت پیش کرتے ہیں ۔

مثلاً ابن الوقت ہر لحاظ سے ایک مکمل کردار ہے۔ ”فسانہ مبتلاء کے تو سارے کردار ہی زندہ کردار ہیں۔ ظاہر دار بیگ کا کردار نذیر احمد کا نہایت دلچسپ اور نا قابل فراموش کردار ہے۔

نذیر احمد نے اپنی جاندار مکالمہ نگاری کے ذریعے اپنے کرداروں میں روح رواں کو جاری و ساری کیا ، اگر چہ وہ اردو ناول نگاری کے نقاش اول ہیں لیکن انہوں نے بعض کردار اتنے مؤثر اور دلچسپ تخلیق کئے ہیں، کہ وہ دوسرے ناول نگاروں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں