ناول علی پور کا ایلی خلاصہ اور تنقیدی جائزہ

لہذا ایلی اور شہزاد کے درمیان مخصوص تعلقات اور دو مخصوص پس منظر رکھنے والوں کے شعور کی کار فرمائیوں کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے تہہ در تہہ نفسیاتی اور جنسی رویے بذات خود ایک نفسیاتی صداقت کو پیش کرتے ہیں اور اس نفسیاتی صداقت کا متحمل صرف ناول ہی ہو سکتا ہے۔

اصل مصیبت یہ ہے کہ مصنف خواہ خوبصورت استعاروں، علامتوں اور رمز یہ اشاروں میں جنسی مناظر کو بیان کرے اور خواہ یہاں صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں والی بھی کیفیت ہو حساس پڑھنے والے کے جذبات کا متلاطم ہونا از بس ضروری ہے جس طرح حسرت موہانی نے ایک بار کہا تھا کہ اچھی غزل عشق و محبت کے حوالے سے فاسقانہ ہی ہوتی ہے۔

اسی لحاظ سے جنسی و نفسیاتی ناول بھی اپنی فطرت کے لحاظ سے سفلی جذبات کے اتھل پتھل ہونے کا محرک ہوتا ہے خواہ اس ناول کو قاری اور نقاد اپنے مخصوص نقطہ نظر کے تحت قبول کر لے یا دو کر دے۔

اس کے لیے ہم عصمت چغتائی کے ناول ” ٹیڑھی لکیر” اور ڈی ایچ لارنس کے ناول لیڈی چیٹر لیز لور کی مثال بھی دے سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ پہلی سطح پر وہ ناول نگار تو قابل مذمت گردانا جا سکتا ہے جو محض سفلی جذبات کو بھڑ کانے کے لیے جنسی مناظر کا براہ راست اور ننگا بیان کرے لیکن دوسری سطح پر وه ناول نگار جوجنسی و نفسیاتی وارداتوں کو موضوعاتی صداقت کے اظہار کے لیے

علامتی ، استعاراتی اور رمزو کنایہ کے پیراؤں میں ملفوف کر کے پیش کرے وہ کم قصور وار ٹھہرتا ہے اس لیے کہ وہ جنس کے تذکرہ کو ادبی لبادہ عطا کر دیتا ہے ورنہ ناول لچر، پوچ فحش اور بے ہودہ شکل اختیار کر لے۔ اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے ۔ کہ جنس کے بیان یا تذکرہ کا مختلف قارئین اور نقادوں پر مختلف اثر ہوتا ہے۔

کوئی ایک یا ایک سے زیادہ جنسی مناظر خواہ علامتوں، استعاروں، اشاروں اور کنایوں میں پیش کیے گئے ہوں کسی کے لیے اتنی جاذبیت نہیں رکھتے اور وہ انہیں عریاں یا فحش نہ سمجھتا ہے اور نہ ان کی گرمی اپنے اندر محسوس کرتا ہے کہ دیوانہ ہو جائے اور دوسرے شخص پر اگر یہ مناظر مہلک واردات گزار دیں یا یہ کہ وہ اپنی خاص تربیت اور مخصوص نظریہ کے تحت ان کے تذکرہ ہی کو فضول اور بے ہودہ سمجھتا ہو تو یہ کیسے طے ہو کہ کون سے واقعات عریاں اور فحش ہیں

اور کون سے ایسے نہیں ہیں بلکہ خاص انسانی صداقت کا اظہار ہیں۔ فحش نگاری کے تحت منٹو، ڈی ایچ لارنس اور چند دیگر ادباء عدالتوں میں پیش کیے جاتے رہے ہیں اور ججوں کے دیئے ہوئے فیصلے اب ادب کا حصہ ہیں لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود جنس نگاری پر متضاد آراء اب بھی صادر کی جاتی ہیں ۔ تو کیا ہم اس نتیجے پر نہ پہنچیں کہ جنس نگاری والا ادب انسانی سوچ کے اعتبار سے اضافی یا Relative ہوتا ہے؟ ایک پورا طبقہ اسے محض ادبی نقطہ نگاہ سے ضروری قرار دیتا ہے۔

تو دوسرا طبقہ اسے اخلاق بگاڑنے اور سوچوں کے زہر آلود ہونے کے حوالوں سے ہمارے ادب کے لیے غیر ضروری اور غیر اخلاقی قرار دیتا ہے تو کیا یہ گوئم مشکل و گر نه گوئم مشکل والا معاملہ نہیں؟ بہر صورت اس حقیقت کو پھر سے دہرانے کی ضرورت پڑے گی کہ ناول میں جنسی واقعات کا موضوعاتی جواز ہمیشہ قائم و دائم رہے گا لیکن یہ بھی واضح رہے کہ نیچرل ازم کے تحت جنسی مناظر کا براہ راست بیان جس کے عقب میں عریانی اور فحاشی کا فروغ ہو اور سفلی جذبات کے بھڑ کا نا شامل ہو وہ قابل مذمت ہی ٹھہرایا جائے گا۔

اس لیے کہ اس سے ادب اور اس سے حاصل ہونے والا لطف دونوں غارت ہو جاتے ہیں۔ علی پور کا ایلی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں افسانہ آزاد“ کا سا مطالعاتی لطف موجود ہے۔ اس کا آغاز کرنے کے بعد پورا قصہ پڑھے بنا چین نہیں پڑتا۔ یہ مصنف کا کمال ہے کہ اس نے اپنے پہلے ہی ناول میں اتنی زبردست مطالعیت Readability کا مظاہرہ کیا۔ مرحوم ڈاکٹر سہیل بخاری نے تو یہاں تک کہا تھا کہ جس نے اسے نہیں پڑھا اس نے کچھ نہیں ہے پڑھا۔

ممتاز مفتی نے اسے تلاش ذات کا ناول قرار دیا ہے جس کی انہیں ایلی اور الکھ نگری میں تکمیل کرنا ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اگلے ناول میں بھی علی پور کا ایلی والا اسلوب ہو گا۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی تفصیلات متحرک و مربوط قصہ کی جس لا تعداد جزئیات میں قاری پھنس کر رہ جائے ۔

الفاظ اتنے کہ جتنے کی ضرورت ہو۔ نہ کم نہ زیادہ، پیرا گراف بغیر طوالت کے اور ماجرائی توانائی سے بھر پور جو حقیقت اور التباس حقیقت Illusion of Reality کے درمیان پڑھنے کو شروع سے آخر تک مطالعہ پر مجبور رکھے اور پلاٹ شوکت صدیقی کے ناول ” خدا کی بستی اور جانگلوں کی مانند سریع الحرکت، مکالمے ایسے کہ دل کو چھوئیں اور تخیل کی عجیب عجیب وادیوں میں لے جائیں۔ بہر صورت ای کی اوڈیسی Odessey اس ناول کی حد تک تمام ہوئی ۔ دیکھنا یہ ہے کہ الکھ نگری میں ایلی یعنی ممتاز مفتی کس شان سے جلوہ گر ہوتے ہیں۔

مؤلف تحریر: محمد سہیل بھٹی

یہ بھی پڑھیں: ممتاز مفتی کے فکر و فن کا جائزہ pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں