ناول شہر لازوال، آباد ویرانے کا تنقیدی جائزہ
بانو قدسیہ کے مقبول عام ناولوں میں ان کے آخری ناول شہرر لازوال ، آباد ویرانے کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔ یہ ناول ۲۰۱۱ء میں لکھا گیا اور یہ ناول ۵۷۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس ناول کو باقی ناولوں کے مقابلے میں منفرد ناول قرار دیا جاتا ہے ۔
اس ناول کے نام کو مصنفہ نے دو حصوں میں جبکہ پورے ناول کو تین کہانیوں میں بانٹ کر اس کے حُسن میں اضافہ کیا ہے ۔
پہلا حصہ شہر لازوال کے نام سے پیش کیا گیا ہے جو کہ ۶۸ صفحات پر محیط ہے اور دوسرا حصہ اس کے آگے کے صفحات کا احاطہ کرتا ہے۔ بانو قدسیہ اس ناول کی تقسیم سے متعلق ان الفاظ کا اظہار کرتی ہیں :
(اس ناول کی تھیم یہ ہے کہ لاہور شہر جو بے پناہ نا پاک لوگوں سے آباد ہے، کیسے ابھی تک آباد ہے۔۔۔۔۔ غالباً کچھ اللہ کے بھگت اس دھرتی پر آباد جو اس کے لیے دعا گو ہیں ۔ ۳۴)
شہر لازوال ، آباد ویرانے کے پہلے حصے میں مصنفہ نے فیوڈل لارڈ اور بیوروکریٹ کی طرز زندگی کو عیاں کر کے ہمیں ان کی طرز زندگی سے آشنا کرنے کی کامیاب کوششیں کیں ۔ ان طبقو سے تعلق رکھنے والے لوگ دولت کی فراوانی میں غوطہ زن ہو کر تیار ہوئے ہیں ۔
یہ لوگ انسانی اقدار اور انسانی تہذیب کی دھجیاں اُڑانے میں پیش پیش ہیں۔ بانو قدسیہ نے بڑی مہارت سے سماجی برائیوں کو اجاگر کیا ہے۔ صحیح معنوں میں یہ لوگ پردے کی آڑ میں انسانیت کو تہس نہس کرتے ہیں ۔ یا یوں بھی کہے کہ یہ لوگ نقلی لباس پہنے انسانیت کو پامال کر رہے ہیں۔ بانو قدسیہ نے اس ماحول کی تصویر بھی ان الفاظ میں کی ہے:
(جس طبقے میں رشوت گھومتی پھرتی تھی اس میں زیادہ تر مفرقسم کی شخصیتیں ملا کرتی تھیں ۔ یہاں دولت تھی فراوانی تھیں ہر قسم کے گیجٹ تھے۔ مربعے، کوٹیاں، بنک بیلنس ،
آپس میں امیر برادری کا گھٹ جوڑ ، ایک طرح کی گفتگو، ایک قسم کی چغل خوری ، وہی بیران دریا محبت اور آتش اور درون دریا آپس کا حسد۔۔۔۔ یہاں وی سب کچھ تھا جس کی آرزو میں غریب لوگ اوپر کی طرف چڑھنے کی آرزور رکھتے تھے اور یہاں پر اس چیز کی بھی کمی نہ تھی جو اس ترقی کو صفر سے ضرب دے کر پھر صفر بنا دیتی تھی۔ ۳۵)
اس ناول میں مصنفہ نے کئی موضوعات کو سمیٹ کر پورے ناول کو تیار کیا ہے جن میں مذہب سے دوری کے نتائج ، بے راہ روی ، بد امنی، انتشار، انسانی رشتوں کی پامالی وغیرہ جیسے موضوعات اہم ہیں۔ ناول کے پہلے حصے شہرر لازوال کو آگے لے جانے میں کئی کردار محو سفر ہیں جن میں ظفر ،
طوائف رخشنده، اکرام شاه، جنرل بختیار، جمال وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کرداروں کے علاوہ اس ناول کو آگے لے جانے میں کئی ضمنی کردار بھی رواں دواں ہیں۔ دوسرے حصے یعنی آباد ویرانے کے کرداروں میں راحیلہ، ساجدہ ، او ما، سریندر، ڈاکٹر قیصر وغیرہ پیش پیش
ہیں۔ ناول کے پہلے حصے میں رخشندہ نامی عورت جو کہ پہلے ظفر کی نصف النہار ہوتی ہیں لیکن حالات ایسی کروٹ لیتے ہیں اور اسے ایسا مرض آدبوچ لیتا ہے جو اسے پاگل خانے کی راہ دکھاتا ہے اور پاگل خانے سے واپسی پر وہ کئی مردوں کی خوش حالی یا یوں کہے کہ جنسی آسودگی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اسی طرح ایک اور کردار سید اکرام شاہ جو کہ علاقہ جھنگ سے تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ اہل بیت سے بھی قربت رکھ رہا ہوتا ہے،
ساتھ ہی ساتھ یہ کردار قوالی میں دلچسپی اور سیاسی محرکات پر دسترس جیسی صفات سے متصف تھا، اس کردار میں ان صفات کے علاوہ کئی خامیاں بھی تھیں جن میں شراب نوشی اور طوائفوں کی صحبت خاص تھیں ۔ ان کی وحشیا نہ خامیوں کا علم اگر چہ ان کی بیوی کو بخوبی ہوتا ہے لیکن وہ اپنے خاوند سے کچھ کہے بغیر اپنی زندگی اس کی خدمت میں صرف کر دیتی ہیں اور اس طرح وہ ایک ایسی قربانی دیتی ہے جس کی تمنا شاید ہر وحشی مرد کرتا ہے۔
دراصل اس کے شوہر کے کردار کے ذریعے مصنفہ نے جاگیرداری نظام کی منافقانہ خصلتوں کو واضح کیا ہے۔ یہ کردار دولت کا بے دممریغ استعمال کرتا ہے اور اس فضول خرچی کے لیے جو پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے وہ در اصل غریب سے چھینا ہوا پیسہ ہوتا ہے اور ان پیسوں کا استعمال وہ اپنے عیش و عشرت کے لیے کیا کرتا تھا ، وہ مشاعروں کا اہتمام بھی کیا کرتا تھا، اور تہمند باندھے شاہ صاحب لوگوں کی نظروں میں ایک ذی عزت انسان بنے پھر رہے تھے ۔
اسی طرح ان کے پہناوے کا ڈھنگ بھی منفرد تھا ۔ ان کے پیروں میں پہننے والی جوتیوں پر بہت مہنگی کڑھائی کی ہوتی تھی، وہ محفلوں میں پنجن پاک کی قسمیں کھا کر لوگوں کو اپنے نیک ہونے کا یقین بار بار دلاتے تھے۔ علاوہ ازیں اس کیجیبوں میں کئی ہزار نوٹ ہوتے تھے اور اس طرح وہ ایک گرج دار شخصیت بن کر پھرا کرتے تھے۔
ناولوں میں اگرچہ اکثر عورت کے استحصال کی داستان کو بیان کرنا عام رواج رہ چکا ہے لیکن اس معاملے میں مرد کی داستان کو ناول میں مساوی حیثیت دینا ایک نہایت منفرد تجربہ ہے اور شاید بانوقدسیہ اس لیے منفرد اسلوب رکھتیہیں کہ انہوں نے اس طریقے میں نہایت کامیاب تجربے کر کے اس ناول کو ایک کامیاب ناول کے روپ میں پیش کیا ہے۔ اس طرح مصنفہ راوی کی زبانی اس فن میں مساوی طریقے سے کام لیتی ہیں مثلاً :
(عورت اور روپیہ ان دونوں نے مل کر مرد کا خوب استحصال کیا تھا اور خود مرد کے استحصال کا نشانہ بنی تھی۔ جو معاشرے اپنی عورت سے روپیہ کا سا سلوک کرتے ہیں وہ بالا آخر بڑے انتشار سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں روپیہ عورت کی طرح پردے دار با حیا ہو گیا تھا۔
لاکرز میں بند بیرونی ممالک میں چھپا ہوا سونے چاندی کی شکل میں مقید رو پیر اپنی موت آپ مر رہا تھا اور عورت ؟ کم از کم اس سوسائٹی کی صورت جس میں رخشندہ رہتی تھی ۔ یہاں کی عورت بے وقعت تھی ۔ سر بازار منہ کھولے، بال بکھرائے پھر رہی تھی اور کوئی اسے مقید کرنے کو تیار نہ تھا۔ روپیے نے عورت کے ساتھ اپنا روپ بدل لیا تھا اور دونوں معجوب تھے ۔ روپیے اور عورت کا کوئی مرکز کوئی حدود اربعہ، کوئی جہت باقی نہ رہی تھی ۔ ۳۶)
مصنفہ نے ناول میں معاشرے کے امیر طبقہ کے شہری معاشرت میں رہ رہے ایسے اوپری طبقے کی آسائشوں اور زیبائشوں کو دکھایا ہے جہاں وہ بڑی بڑی جاگیریں لیے، فیکٹریوں کے مکان مالکان بن کر دنیا کے تمام دکھوں سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ غم و پریشانیاں ان کی زندگیوں سے کوسوں دور ہے، یہ لوگ معاشرے میں جس ہتھیار کو ہر پریشانی ، ہرغم ، ہر بیچ سے لڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ روپیہ اور صرف روپیہ ہے۔
یہ لوگ اپنی اولاد کو مغرب کی تعلیم دینے میں پیش پیش ہیں۔ یہ لوگ اس جھوٹی شان کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے مختلف پارٹیوں کا اہتمام کر کے خود کو ابدی خوشی دینا چاہتے ہیں جو کہ نا ممکن فعل ہے۔ اس طبقے کے بچے چونکہ مغرب کی تعلیم کے پروردہ تھے اس لیے وہ اپنے آپ کو ایسے مباحث میں پھنساتے ہیں جن سے نکلنا ان کے لیے دشوار ہو جاتا ہے۔
اسی طرح اگر ہم جنرل بختیار کی بات کریں تو اس کے گھر کی بناوٹ دل کو موہ لینے والی تھی۔ ان کا گھر اس درجہ خوبصورت تھا کہ اس کو دیکھ کر تصویر کا گماں ہوتا، یعنی ایسا لگتا تھا کہ جیسے اس طرح کا حسین گھر صرف تصویروں میں ہی ممکن ہے۔ حقیقی زندگی میں اس طرح کا گھر ممکن نہیں ۔ اس گھر کی زیبائش رنگ برنگے پھولوں سے کی جاتی تھی ۔
لان کے گرد و پیش میں طرح طرح کے گلابوں کی کیاریاں لگی ہوتی تھی ۔ کھڑکیوں پر نہایت خوش رنگ پردے لگے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں مختلف درختوں کی نمائش بھی اس گھر کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتے تھے اور ان کے گھر کا ماحول پر سکون اور خوش گوار لگتا تھا۔جنرل صاحب جو کہ خود رخشندہ سے جسمانی تعلقات استوار کرتے تھے لیکن بیوی کے سامنے رخشندہ ان کی بہن بن جاتی ۔ طوائف تو طوائف ، معاشرے کے اس طرح کے افراد تو طوائفوں سے بھی آگے نکل چکے تھے ۔ بیگم صاحبہ اپنے شوہر کے غلط کارناموں سے بخوبی واقف تھی
لیکن اس سب کے باوجود وہ بالکل انجان بننے کا ناٹک کرتی تھیں۔ دراصل مرد کی عیاشی سہنے کی ایک عجیب قسم کی طاقت سے اس کی بیوی نبرد آزما تھی ، دوسری طرف رخشندہ جیسی طوائف بھی اس کی بیوی سے دوستانہ تعلقات رکھے ہوئی تھی اور دونوں خواتین اپنے اپنے عاشق یعنی جنرل بختیار کو معصوم تصور کرتی تھیں ۔
(پتہ نہیں کیا بات تھی لیکن اب جب سے رخشندہ جنرل صاحب کی ذہنی، جسمانی اور دینی بہن بن چکی تھی خود اس کا خیال راسخ ہو چکا تھا کہ جنرل صاحب کی ذاتی زندگی بالکل بے داغ ہے۔ اس کا اور بیگم بختیار کا ایمان حجب تھا۔ ۳۷)
جہاں تک ناول کی دوسری کہانی کا تعلق ہے تو یہ کہانی کاشف کی کہانی سے موسوم ہے۔ جس میں مصنفہ نے پاکستان کے ظہور پزیر ہونے کے بعد اس ملک کے معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔
اس معاشرے میں رہ رہے لوگ خود احتسابی کے عمل سے کوسوں دور ہے، یہ لوگ خود کو بدلنے کے خواں نہیں بلکہ یہ طبقہ بے حس طبقہ ہے جو بغیر کسی مقصد کے اپنی زندگی گزارہے ہیں۔ یہ لوگ کسی بھی معاملے سے متعلق اپنی رائے دینے سے قاصر ہیں۔ ساتھ ہی یہ افراد آزادی کے خواں بھی نہیں تھے لیکن شاید آزادی ان کا مقدر تھی اس لیے اس نے ان سے قربانی کا نظرانہ مانگ لیا اور یہ لوگ اپنے مقدر کے لکھے کے ساتھ کبھی لڑنا پسند نہیں کرتے ۔
جو انسان یا جو قوم جس چیز کے لیے خود کوشاں نہیں ہوتیں یا خود جس چیز کے لیے محنت نہیں کرتیں انہیں وہ چیز راس نہیں آتی پھر وہ چاہیے آزادی ہو یا کوئی اور معمولی چیز ۔ اسی کی مثال پیش کرتے ہوئے مصنفہ نے اس ناول میں یہ بات باور کرائی ہے کہ سن سینتالیس میں ہندو پاک کے عوام نے وہ قربانیاں پیش کیں جن کو ہند و پاک کا کوئی بھی شخص فراموش نہیں کر سکتا۔
اگر چہ ان قربانیوں کا تعلق ہمارے خوابوں سے بالکل بھی نہ تھا لیکن پھر بھی لوگ ان قربانیوں کو دینے سے پیچھے نہیں رہے یعنی انہوں نے اپنے جان و مال بھی اس آزادی کی نذر کر دیے ۔ پھر دھیرے دھیرے بر صغیر کے لوگ بے ضمیر ہو گئے اور اسی سفر پر پھر سے گامزن ہوئے جہاں سے انہوں نے اپنی بے ضمیری کا سفر شروع کیا تھا۔
معاشرے میں سارے لوگ ایک جیسے ہوں یہ ضروری تو نہیں ۔ اس ماحول میں کچھ لوگ ایسے تھے جو تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا ہوا تحفہ سمجھتے تھے ۔ جو زندگی کو نفع و نقصان سے بالا تر تصور کرتے تھے ۔
ایسے لوگ دوسروں کے بارے میں بھی بھلا سو چتے ہیں اور زندگی سے شکایت کرنے کے بجائے زندگی سے راضی رہنے کے اہل ہوتے ہیں ۔ ایسی ہی صفات رکھنے والی عورت کا مشف کی والدہ ہوتی ہیں ۔ وہ ہر آن خوش رہنے والی عورتوں میں سے تھی۔ اس کی زبان پر گلے شکوے نہ ہوتے بلکہ وہ زندگی کو ایک خزانے سے تعبیر کرتی ۔
ماں اگر چہ اپنی اولاد کی اللہ تعالی کے بعد سب سے بڑی خیر خواہ ہوتی ہیں اور اس کا فرض بنتا ہے کہ اپنی اولاد کو صحیح اور غلط کے بیچ کا فرق سمجھا سکے۔
اسے اس قدر مضبوط بنائے کہ وہ غلط کاموں کے خلاف لڑ سکے لیکن کاشف کی ماں اگر چہ محبت کا پیکر تھیں لیکن وہ اپنے بیٹے کو حوصلوں کی وہ مقبولی نہ دیں سکیںجس سے اس میں غلط کاموں کے خلاف اعلان جنگ کرنے کی حدت اُبھر آتی اور معاشرے میں پھیلی برائیوں کو کسی طرح دور کرنے کے خلاف جدو جہد کرتا ۔
کاشف پولیس میں ایس ایچ او کے عہدے پر فائزم تھا اور اس محکمہ میں وہ بعض غلط فیصلوں کے لیے مجبور کروایا جاتا ۔ وہ چاہتا تو اس محکمہ میں رہ کر اس پیشے میں پھیلی برائیوں کو کم کرتا لیکن اس میں وہ ہمت نہ تھی
جس کی ضرورت ہر لمحے ایک سچے انسان کو غلط کام کےخلاف لڑنے کے لیے جٹانی پڑتی ہیں اور شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے پاس وطن چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔ دراصل یہ المیہ اس نسل یا اس پودکا ہے جو پاکستان بننے کے بعد پروان چڑھی۔ ایسی نو جوان بےحسی کا شکار ہو کر خود کو بے حد مجبور تصور کرتے ہیں۔ ایسے ہی کردار کو مصنفہ نے کاشف کے ذریعے پیش کیا ہے،
یعنی وہ اگر چہ پولیس جیسے محکمے میں رہ کر اچھی سروس کر سکتا تھا اور وہ اس شعبے میں سچائی اور دیانت داری کا لوہا اپنے کاموں کی وجہ سے منواتا ۔ وہ طاقتور لوگوں سے مظلوموں کی حمایت کر سکتا تھا لیکن کاشف میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ اس محکمے میں مستقل طور پر رہ کر لوگوں کو ظلم سے نجات دلواتا ،
وہ خود بھی اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ اس قدر مضبوط نہیں ہے۔ دراصل اُسے اپنے حق کے لیے لڑنے کی ترغیب اپنے گھر سے بچپن سے نہیں ملی تھی اور شاید اسی کمی کی وجہ سے وہ لڑنے کے بجائے نوکری چھوڑنے کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ ناول کی تیسری کہانی جو کہ آباد ویرانے” کے عنوان سے موسوم ہیں ۔ اس حصے کو ساتھ عہدوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان میں سے کئی عہدوں کو ذیلی عہدوں میں تقسیم کر کے مصنفہ نے ایک نئے انداز سے تعبیر کیا ہے ۔
اس حصے میں مصنفہ نے گہرے تہذیبی شعور کے ساتھ ساتھ بیسویں صدی کی معاشی معاشرتی اور سیاسی زندگی کو اجاگر کیا ہے ۔ ڈاکٹر سرفراز مغل کے والد ابراہیم مغل مسلم تہذیب کے پروردہ کے روپ میں اس ناول میں جلوہ افروز ہیں ۔
وہ اپنے اہل و عیال کی رہائش ایسے علاقے میں کروانے کا اہل ہیں جہاں مسلم آبادی ہو، جہاں وہ مسلم تہذیب کے ساتھ زندگی گزار سکے ۔ اس لیے پہاڑ پر بسنے کے سلسلے میں انہیں یہ خوف لاحق ہیں کہ شاید وہاں مسلم آبادی کا فقدان ہیں سو مسلم تہذیب کے تحت ساجدہ بہو شوکت اور راحیلہ اسلامی تقاضوں کے مطابق زندگی نہ گزار سکیں گے۔ وہ مذہب کے بارے میں نہایت فکر مند ہے۔
وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے دوستی کو بھی نا پسند کرتے ہیں لیکن اسکا بیٹا سرفراز وقت کی نزاکت کو جھتے ہوئے ہندوؤں سے بھی دوستی کرنے سے پیچھے نہیں ہوتا۔ اپنے بچوں شوکت اور راحیلہ کو بھی اس نے دوسرے مذاہب کے لوگوں سے میل ملاپ کے سلسلے میں کھلی آزادی دے رکھی تھی شاید اس آزادی کی بنا پر ان مسلم بچوں کی دوستی اوما، بہو اور سریندر سے ہو جاتی ہیں ۔
یہ بچے ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر کھیلا بھی کرتے لیکن اوما کی نانی ان بچوں کو ماس کھانے کی بنا پر باورچی خانے نے میں گھسنے نہ دیتی۔
راحیلہ ایک دن اسکول میں ڈرامے کے دوران ہندولڑ کی میلتی کا رول ادا کرتی ہے جس کے لیے وہ سروستی بہن سے ساڑھی مانگ کر پہنتی ہے اور جوں ہی گھر والوں کے سامنے آجاتی ہیں ، ابراہیم مغل اسے ساڑھی میں ملبوس دیکھ کر آگ بگولہ ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ :
(اس کا حلیہ دیکھ لو ساجدہ بی بی ۔۔۔۔۔ ماتھے پر یہ ہندی ۔۔۔۔۔ تن پر یہ ساڑھی —- تمہاری آزادی نے یہ دن دکھائے ۔۔۔۔۔۔ ۔ کب سے کہہ رہا ہوں اسے اتنی آزادی نہ ہو۔۔۔۔۔
نہ دو ۔ آج ماتھے پر تلک لگایا ہے کل کو دیے جلا کر مندر جانے لگئی تو ۔۔۔۔۔ میل جول ہی ساری چیز ہے۔ جو آدمی چوروں سے ملتا ہے، آہستہ آہستہ چوری اس کے نزدیک برافعل نہیں رہتا ۔۔۔۔۔ فاحشہ عورتوں سے میل جول حیا ختم کر دیتا ہے۔ ۳۸)
بڑے ابا یعنی ابراہیم مغل لباس کا لوگوں کے مذہب اور سماج سے گہرا تعلق تصور کرتے ہیں اور جو لوگ بڑی آسانی کے ساتھ لباس کی ساخت بدلتے ہیں وہ اپنی شناخت کو بھی قائم و دائم نہیں رکھ سکتے ۔
گو بڑے ابا اس ناول میں ایک مضبوط کردار کے روپ میں نمود پذیر ہوتا ہے اور ان کی باتوں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ مسلمان اپنی تہذیب کلچر وغیرہ سے دوری کے سبب اپنے دین سے بعید ہو گیا ہے ۔
اسی طرح دوسری جانب شاہد یعنی راحیلہ کے منگیتر کے گھر میں بھی ایسے ہی خیالات پروان چڑھ رہے تھے کہ مسلمان خود کو ایک ہی سمت کی طرف لے جانے سے قاصر ہیں اسی لیے زوال پزیر ہو رہے ہیں ۔ مصنفہ دراصل تقسیم ہند اور بعد ازاں قیام پاکستان کے وقت کے مسلمانوں کی زبوں حالی کو بیان کرتی ہیں کہ اس دور کے مسلمانوں کا حال بے حد عجیب تھا۔
اگر چہ وہ ذہین تھے لیکن ان میں یکجہتی نہ تھی جو کہ کسی بھی معاشرے کو ترقی کی طرف لے جانے کے لیے اہم ہیں۔ اس دور کے مسلمان اپنی گرم جوشی کی وجہ سے تحریکوں کو جنم دے رہے تھے لیکن تحریکیں انفراردی ہوتی اس لیے ان کا صحیح اثر پیدا نہیں ہو پاتا تھا اور ان لوگوں کے نظریات اور خیالات میں بھی یکجہتی نہ تھی
اس لیے اس دور کے مسلمان ایک ہی سمت کی طرف پلٹے سے قاصر تھے۔ ان ہی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے اس دور کے مسلمان مغلیہ سلطنت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور اس خسارے کی وجہ سے وہ یکجہتی اور بھائی چارے کے خواب دیکھنے کے لیے ایک بار پھر مجبور ہو گئے تھے ورنہ صحیح معنوں میں یہ قوم ہر طرح سے زوال پذیری کا شکار ہو رہی تھی اور اخلاقی اور روحانی طور پر ان میں کچھباقی نہ رہا تھا۔
بانو قدسیہ نے اس ناول میں نہ صرف کانگڑہ کے پہاڑوں پر آباد لوگوں کی دلچسپیوں کو اجاگر کیا ہے بلکہ پہاڑوں پر رہنے والے لوگوں کی پوری تہذیب کو اپنی گرفت میں لے کر ان لوگوں کے رسم و رواج میل جول غرض پوری تہذیب کا احاطہ کیا ہے۔مصنفہ نے اس ناول میں لوگوں کے درمیان تعصب کو بھی اجاگر کیا ہے۔ دراصل ہندو مسلم معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کے تئیں شدید تعصب روا رکھتے ہیں۔
اگر چہ بظاہر دونوں مذاہب کے لوگ انسانیت اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں لیکن اصل میں وہ ایک دوسرے کے تئیں حد سے زیادہ نفرت رکھتے ہیں تیکنیکی اعتبار سے اس ناول کو ایک نئی ایجاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس ناول کے آغاز میں مصنفہ نے دو ایسی کہانیاں بیان کی ہیں جن کا آباد و یرانے کی اصل کہانی سے کوئی تعلق نہیں لیکن پھر بھی یہ ناول بانو قدسیہ کے عظیم ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
بانو قدسیہ کے اسلوب کی جہاں تک بات کی جائے تو جیسا پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ وہ ایک منفرد اسلوب رکھتی ہیں ۔ اگر چہ بانو قدسیہ خالص پاکستانی اردو ادیبہ تھیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کی زبان سے ہندی اور انگریزی زبان کے الفاظ بڑی سلیقہ مندی سے ادا ہوتے ہیں جس سے ان کی تحریریں خوش روبن جاتی ہے۔
اس ناول کی کردار نگاری کی اگر بات کی جائے تو مصنفہ نے اس ناول میں ایسے کرداروں کا انتخاب کیا ہے جو ہمارے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسی پریشانیوں میں مبتلا ہے جو پاکستان بنے کے بعد لوگوں کا مقدر ٹھرا لیکن اس سب کے باوجود ان میں سے چند کردار ایسے ہیں جو زندگی سے کوئی بھی شکوہ نہیں کرتے مثلاً:
( وہ پہاڑوں کی طرح ثابت قدم کھڑی تھی۔ دھوپ کی منطظر بادلوں سے گلے ملنے والی بارشوں سے آشنا، برفوں سے لد ھانے والی ہر موسم میں اس کے قدم محبت کی زمین میں گہرے جھے ہوئے تھے،)
اسی طرح منظر نگاری کو بھی مصنفہ نے اس ناول میں حسین پیرائے میں دکھایا ہے اور ان مناظر کی تصویر کشی اس طرح کی گئی ہے کہ قاری ان مناظر کا حصہ خود کو بھی تصور کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
(کانگڑہ کی بہت پرانی تہذیب ہے۔ یہ علاقہ اپنی جغرافیائی نوعیت کی وجہ سے قریب قریب نا قابل تسخیر رہا ہے۔ اس علاقے میں زیادہ تر راجپوت لوگ آباد ہیں۔ ان کے خاندان صدیوں سے یہاں رہتے ہیں۔ اب تو ان میں زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے ہیں لیکن مغلوں کے زمانے میں یہاں ٹھاکر اور رانے مونچھوں پر تاؤ دے کر پھرا کرتے ہیں۔)
ساتھ ہی ساتھ یہ ناول تکنیک کے لحاظ سے بھی بے مثال ہے۔ بقول ڈاکٹر انوار احمد :
(تکنیکی اور فنی لحاظ سے اس ناول میں کچھ حصے بنائے گئے ہیں۔ شہر لازوال کا شف کی کہانی اور پھر آباد ویرا منے جو دراصل اس ناول کا اصل حصہ ہے جو صفحہ ۲۹ سے ۵۷۶ تک محیط ہے، مگر یہ ایک دوسرے سے بے تعلق ہیں اور یوں احساس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی شاعر مشاعرے میں ایک غزل سے پہلے اپنے دو قطعات پیش کرتا ہے ۔
اسی طرح سے شاید اب کسی ناول سے پہلے دو کہانیاں بھی شامل کی جاسکتی ہیں سو شہر لازوال اور کاشف کی کہانی کا ناول میں وہی درجہ ہے، ناول کے اختتام پر توقع رکھی جاسکتی تھی کہ وہ کسی طرح پاٹ کر اس کے ابتدائی دوٹکڑوں سے کوئی معنوی رابطہ بنانے کی کوشش کریں گی۔ )
اسی طرح مصنفہ نے اس ناول میں زبان و بیان کے بھی حسین جلوے دکھا کر قاری کو موہ لیا ہے:
(پہلے انہوں نے سرفراز کو دو تین مرتبہ یوں دیکھا جیسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔ پھر کڑک کر بولے کیا مطلب؟ ہر انسان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ پیدائش سے لے کر لحد تک مطلب ہوتا ہے۔ جو وہاں عید گاہ نہ ہوئی تو عید پڑھنے کہاں جائیں گے؟ جو وہاں کوئی کلمہ گوہی نہ ہو تو ہمارا بھائی چارہ کس سے ہو گا ؟ راحیلہ شوکت کسی سے کھیلیں گے تمہاری بیوی کا کیا بنے گا۔ ۴۲)
علاوہ ازیں مصنفہ کے منفرد اسلوب کی تمام تر خصوصیات اس ناول میں دیکھنے کوملتی ہیں ۔
غرض بانو قدسیہ نے اس ناول میں ایک دردمند دل رکھنے والے انسان کی طرح مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کھیلی گئی خون کی ہولی کو بیان کیا ہے انہوں نے تقسیم ہند کے سانحے کو نہ صرف گاؤں اور شہروں کا سانحہ قرار دیا بلکہ پوری انسانیت ، تہذیب و تمدن کا سانحہ قرار دے کر اسے ایسی تباہی قرار دیا جس کا ازالہ شاید کبھی نہ ہو سکے گا۔
ماخذ: بانو قدسیہ کے اسلوب میں علامتی عناصر راجہ گدھ کے خصوصی حوالے سے مقالہ pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں