ناول راجہ گدھ کا تنقیدی جائزہ | از ڈاکٹر شاہینہ یوسف

ناول راجہ گدھ کا تنقیدی جائزہ

ناول راجہ بانو قدسیہ کا شاہکار ناول ہے جو ۱۹۸۱ء میں لکھا گیا۔ اس ناول کو اگر بانو قدسیہ کے فن کی معراج کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ یہی وہ ناول ہے جس نے بانو قدسیہ کو اردو ناول نگاری میں وہ مقام عطا کیا جس کی تمنا ہر ذی عزت کو ہوتی ہے۔ اس ناول کے موضوع کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کے بارے میں مصنفہ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ :

۔” اس ناول کا موضوع رزق حرام اور حلال کا مسئلہ ہے”” سوال: جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ، راجہ گدھ کا مرکزی خیال رزق حلال کے اسلامی تصور سے عبارت ہے۔

انفرادی سطح پر فرد اور اجتماعی سطح پر معاشرہ اخلاقی اور روحانی زوال سے اس لیے دو چار ہے کہ رزق حرام مل رہا ہے۔ بانو قدسیہ جی ہاں اس ناول کا بنیادی خیال یہیں ہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ استدلال کی سطح پر ہی صحیح لیکن ہمارے لیے اہل مغرب کو رزق حلال کی اہمیت سمجھانا اور قائل کرنا ممکن نہیں ہے۔ مذہب کے بہت سے احکامات ایسے ہیں جن کا ادراک محال ہے۔ اس لئے ادب میں ماننے کا مقام ہے، جاننے کا نہیں ۔۔۔۔۔

میں نے اپنے ناول میں یہی کہنا چاہا ہے کہ اگر ہم مغرب کے اثرات سے نکل کر رزق حلال کے عادی ہو جائیں تو صرف اسی ایک تبدیلی کے زیر اثر ہماری معاشرتی زندگی سے تمام خرابیاں دور ہو سکتی ہیں ۔ کیوں کہ انسانی زندگی میں ان تمام ہے چینیوں کا سبب ، جو بالا آخر لوگوں کو جرائم اور خود کشی کی طرف مائل کرتا ہے، رزق حرام ہے۔ میں نے ناول میں رزق حرام کے مختلف روپ دکھائے ہیں ۔ زنا بھی اس کا ایک روپ ہے، جو انسان کو آخر کار مایوسی اور ناکامی کے اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔ "

اگر اس ناول کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس کا آغاز ایم ۔ اے کے سوشالوجی کے تعارفی کلاس سے ہوتا ہے۔ اس ناول میں مرکزی کردار کی حیثیت قیوم کو حاصل ہے یا یوں بھی کہے تو غلط نہ ہوگا کہ اس ناول میں راوی کی حیثیت قیوم کو حاصل ہے ناول میں مصنفہ نے بڑے حسین پیرائے میں نو جوان کرداروں جن میں قیوم ، آفتاب، سیمی وغیرہ کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے۔

ان کے ذریعے پاکستانی معاشرے کی تصویریشی کر کے ذہنی ، سماجی ، مذہبی ، اخلاقی اعتبار سے انتشار میں مبتلا معاشرے کو پیش کیا ہے ۔ سیمی اور آفتاب کی محبت کی داستان کہانی کے شروع میں ابھاری گئی ہے لیکن آفتاب کے گھر والے سیمی کو نا پسند کرتے ہیں اور اس طرح آفتاب کی شادی اپنی کزن سے ہو جاتی ہے اور اس حادثے سے سیمی جو کہ آفتاب کو دل و جان سے چاہ رہی ہوتی ہے آخر کار موت سے ہمکنار ہو کر ابدی نیند سو جاتی ہے۔

راجہ گدھ میں مرکزی کردار کی حیثیت جو کہ قوم کو حاصل ہے۔ وہ اپنی تنہائی مٹانے کے لیے پہلے سیمی جو کہ آفتاب کی محبوبہ ہوتی ہے سے جنسی تعلقات بڑھاتا ہے، پھر عابدہ، امتل اور آخر میں وہ حلال طریقے سے روشن سے شادی کرتا ہے لیکن یہاں پر بھی حلال رزق اس کو حرام کی صورت میں مل جاتا ہے۔

عین شادی والے دن روشن اُسے اپنے شکم میں پل رہے نا جائز بچے کی خبر دیتی ہے اور قیوم یہ خبر سنتے ہی احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر خالد اشرف راجہ گدھ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

"راجہ گدھ ایسے فرد کی کہانی ہے جو زودحسی اور کمزور شخصیت کی بنا پر اپنے ارد گرد کے انبوہ میں ایڈ جسٹ نہیں ہو پاتا اور اپنے احساس کمتری پر فتح حاصل کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے مختلف عورتوں کا سہارا لیتا ہے مگر کوئی سہارا مستقل ثابت نہیں ہوتا ۔”

بانو قدسیہ نے جانوروں کی عدالت کو ناول میں اس طرح ضم کیا ہے کہ مصنفہ کی علمی صلاحیت ابھر کر سامنے آئی ہے۔ سیمی جو کہ نسوانی کرداروں میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے وہ اپنے والدین سے اس طرح بےزار ہے کہ وہ ہوسٹل میں پناہ گزیں ہے۔ اس کے والدین اگر چہ کافی امیر ہیں لیکن وہ اپنی بیٹی کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور وہ پیسے بٹورنے میں اس قدر مشغول ہیں کہ انہیں اپنی اولاد کی شادی تک کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں ۔ سیمی اپنے والدین کے بارے میں تلخ حقیقت کا اظہار قیوم سے ان الفاظ میں کرتی ہے:

"پاکستان کا اونچا بیوروکریٹ یہ تھوڑی سوچتا ہے کہ اس کی بیٹی کے کچھ مسائل ہیں۔ اس کے اپنے مسائل کی ذاتی کھپ اتنی زیادہ ہے کہ وہ کسی کے متعلق کچھ سوچ ہی نہیں سکتا ۔ جب پاپا صبح اٹھتے ہیں تو ان کے دماغ میں آفس فائلیں اپنی ساکھ، پوزیشن سٹیٹس ۔۔۔۔۔ ان گنت مسئلے ہوتے ہیں ۔ دفتر پہنچ کر دو کام نہیں کر سکتے، وہاں بھی فون کالز میٹنگیں ، میل ملاقاتی ، دفتری مسائل میں وقت گزرتا ہے ہے۔”

ناول کے آخر میں آفتاب اپنے بچے کے ساتھ لندن سے پاکستان لوٹ کر واپس آتا ہے ۔

وہ اپنے بچے کو سکائی ٹرسٹ کے پاس لے جانا چاہتا ہے کیوں کہ اس کے خیال میں افراہیم نارمل نہیں ہے لیکن قیوم آفتاب کو یہ بات سمجھانا چاہتا ہے کہ اس کا بچہ ابنارمل نہیں ہے، اس کی دیوانگی عام پاگلوں جیسی نہیں ہے کیوں کہ وہ ایسی چیزیں دیکھنے پر بھی قدرت رکھتا ہے جو عام انسان نہیں دیکھ سکتا۔ قیوم آفتاب کو یہ بات سمجھاتا ہے کہ اس کا بیٹا افراہیم ابنارمل نہیں بلکہ سپر نارمل ہے ۔

قیوم دراصل خود بھی اسی قسم کی دیوانگی میں مبتلا ہوتا ہے اور وہ اپنی زبان سے آفتاب سے اس بات کا اظہار بھی کرتا ہے کہ وہ دیوانے پن کی پہلی سیڑھی پر کھڑا ہے جس کی آخری سیڑھی پر تمہارا بیٹا کھڑا ہے ۔ یعنی اُسے اللہ نے وہ سب عطا کیا ہے جو ہر ایک کے پاس نہیں ، گو کہ اگر ہم عام انسان کی بات کریں تو اُسے ایب نارمل سے سپر نارمل کی سیڑھیاں چڑھنے میں نہایت مشقت طے کرنی ہو گی تب جا کر انسانیت کا بھلا ہو سکتا ہے۔

راجہ گدھ ناول لکھ کر بانو قدسیہ نے ایک نئے تجربے سے اردو ناول کو روشناس کرایا۔ اس ناول کی کامیابی کا اعتراف غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی کرنے سے نہیں کترائے ۔ یعنی اس ناول کی کامیابی کی تعریف بانو قدسیہ کے شوہر اشفاق احمد بھی جگہ جگہ کرتے ہیں۔ وہ اس ناول کو ایک نئی طرح کا ناول قرار دے کر اسے آئندہ یا مستقبل میں لکھنے والوں کے لیے سوچ کے نئے زاویے کھولنے کا نسخہ قرار دیتے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ناول قاری کی سوچ کو بھی بلندیوں کی طرف لے جانے میں بارآور ثابت ہوگا۔

مرد اور عورت کی نفسیات کو سمجھنے کا ہنر بانو قدسیہ میں بدرجہ اتم موجود ہیں اور اگر انہیں انسانی نبض شناس بھی کہہ کر پکارا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ، ان کی یہی خوبی راجہ گدھ میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ بقول ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی:”بانو قدسیہ کو مرد اور عورت کے رشتوں کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کا شوق ہے ۔ وہ جگہ جگہ عورت اور مرد کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔

مرد و زن کے تعلق سے کئی جملے اپنے قطعی اور غیر مہذب ہوتے ہیں کہ انہیں الگ سے ترتیب دے دیا جائے تو کسی منظر سے اقوال زریں معلوم ہوں گے”بانو قدسیہ کے اگر اسلوب کی بات کی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہیں کہ اپنے منفرد اسلوب کی وجہ سے زبان و بیان کے استعمال کے سلسلے میں وہ مہارت رکھتی ہے یعنی اس ناول کی ہی اگر بات کی جائے تو بانو قدسیہ کے زبان و بیان کے جادو سے یہ ناول نہایت منفر د مقام حاصل کر گیا ہے ۔ مثلاً :

"ہم میں سے کون پاگل ہے؟ ، بول بتا ؟۔۔۔۔ پرندوں نے طوفان اٹھایا۔ ‘حاضرین ۔۔۔۔۔۔ ہم کسی پر الزام دھرنا نہیں چاہتے لیکن ان دنوں گدھ جاتی انوکھی اور نرالی باتیں کرتی ہے جب سیر ہو چکتی ہے تو پھر قے کرتی ہے اور پھر کھاتی ہے۔۔۔ ہم اسے اب کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ چاند راتوں میں اس کا دیوانہ پن بڑھ جاتا ہے اور یہ مرغزاروں کو چھوڑ کر بے آب و گیاہ بنجر زمینوں میں ایسے بھاگتی ہے جیسے کشتی باد مخالف کی سمت میں بھاگی جائے ۔

"ساتھ ہی ساتھ مصنفہ نے اس ناول میں تشبیہات و استعارات کا برملا اظہار کر کے ناول میں چاشنی اور تاثیر بھر دی ہیں مثلاً :

"پھر کالج کے طالب علموں کی وہ ٹولیاں بھی ہوتی ہیں جو لڑکیاں تاڑنے دکانوں کے تھڑوں کے پاس کھڑے ہوتے ہیں۔

ان کا براہ راست بازار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ وہ بڑے پتھروں کی طرح نظروں سے بازار کے بہاؤ روک لیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ دکانداروں کے بچے رشتہ دار اور بوڑھے بازار میں ملنے کی غرض سے آتے ہیں ۔ ان کا بھی خریداری سے تو کوئی سروکار نہیں ہوتا لیکن ان کی وجہ سے انار کلی کا راستہ تنگ پڑ جاتا ہے ۔ ٹریفک روک ک روک جاتا ہے اور انارکلی کی شکل داتا دربار کے عرس جیسی ہو جاتی ہے۔ "

اس کے علاوہ مصنفہ نے اس ناول میں طنز و مزاح کا بھی بھر پور استعمال کر کے معاشرے میں چھپی ہوئی برائیوں کو بے نقاب کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ خاص کر امتل سے ریڈیو اسٹیشن پر افسروں کی طنزیہ لہجے میں بات چیت کے ذریعے قاری معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کے تیں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مثلاً:

” میں نے اس کا موڈ بدلنے کی غرض سے کہا۔ سن چھیالیس کی جی۔۔۔۔۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ آگ لگنے کی وارداتیں عام تھیں ان دنوں ۔ اس وقت تمہاری عمر چودہ برس کی تو ہوگی ۔۔۔۔۔۔ میں نے ہنس کر کہا۔ کھلی جی ۔۔۔۔۔ کھلی چودہ کی ۔۔۔۔۔

اس حساب سے تم بیالیس کی ہوئیں ۔۔۔۔۔۔ دیکھ لو پارٹیشن کو کتنے سال ہو چکے ہیں ۔ میرا خیال تھا کہ وہ جھگڑا کرے گی اور اس کا موڈ ہلکا ہو جائے گا لیکن وہ خفیف ہو کر مسکرانے لگی اور بولی ۔۔۔۔ ایسے کھلے ریڈیوٹیشن پر عام ہوتے ہیں۔ آدمی تھیٹر کے واقعات سناتا ہے خاموش فلموں کے شارٹ بیان کرتا ہے اور عمر اپنی تییس سال بتاتا ہے۔”

اسی طرح اگر ہم اس ناول میں کردار نگاری کی بات کریں تو مصنفہ نے کرداروں کی پیش کش میں منفرد انداز اپنایا ہے۔

یعنی نہ صرف انسان حرام و حلال رزق کے بارے میں اس ناول میں اپنی رائے پیش کرتے ہیں بلکہ جانور بھی اس بحث میں پیچھے نہیں رہتے۔ ماحول کی منظر کشی کرنے پر بھی مصنفہ کو مہارت حاصل ہے اور اس خوبی کا ثبوت بھی اس ناول میں دیکھنے کو ملتا ہے مثلاً :

"تین طرف بنے ہوئے کمروں کے کچھ دروازے کھلے کچھ بند تھے….۔ لیکن سب کا پلستر کلر کی ہوا چاٹ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ جہاں ماں کا تخت پوش اینٹوں کے پایوں پر پڑا تھا۔ اس کے نیچے دو دو انچ شور کھڑا تھا ۔۔۔۔ سارے آنگن میں نوکیلی جھاڑیاں اُگ آئی تھیں نہ کہیں اناج تھا نہ پانی ۔۔۔۔ نارنگیوں کے کٹے ہوئے چاند سوکھے ہوئے گنوں کا انبار ، چار پائیاں، گھرمڑ نچی ۔۔۔۔۔ چارہ کاٹنے والی مشین، اماں کی پہاڑی بکریاں ۔۔۔۔۔۔ نویدیہلیاں ۔۔۔۔۔ چھوٹے چھوٹے لڑکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

ساتھ ہی ساتھ مکالموں کا صحیح طور استعمال بھی اس ناول کو ایک منفرد ناول بنوانے میں پیش پیش ہے ۔ اسی طرح مصنفہ نے ناول میں شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال کر کے اپنے منفرد اسلوب کی تشکیل کی ہے۔ اس تکنیک کے تحت قیوم یعنی کہانی کا راوی اپنے گاؤں کے ساتھ ساتھ اپنے بچپن کے دوست عزیز گاتن کے متعلق خود سے ہی گویا ہوتا ہے :

۔”عزیز گاتن کا اوپر والا ہونٹ پیدائشی کٹا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ اسی لیے وہ ہمیشہ ہنستا دکھائی دیتا۔ لیکن میں تو عزیز گاتن کو بچپن سے جانتا ہوں وہ چھوٹی عمر سے غلیظ باتیں سننے کا عادی ہو گیا تھا۔ پرانے بھٹے کے پاس جہاں مائی توبہ توبہ کی جھونپڑی تھی وہاں مجھے اور ہمبلی کو لے جا کر وہ ایسی ایسی گالیاں سکھاتا کہ ان کے معنی نہ سمجھتے ہوئے بھی ہم دونوں کے کان جلنے لگتے ۔”

یہ سچ ہے کہ مصنفہ نے اس ناول میں ایسے واقعات قلمبند کئے جو ہماری روزمرہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں یعنی جب انسان مُردار کھاتا ہے تو اس میں ایک طرح کی دیوانگی جنم لیتی ہے

جیسے رشوت ، جھوٹ ، دھو کہ وغیرہ۔ اس نظریے کو مصنفہ نے جانوروں کی عدالت میں بھی پیش کیا ہے جس سے ناول میں عجیب حُسن پیدا ہو گیا ہے۔علاوہ ازیں اس ناول میں مصنفہ نے امتل کے کردار کے ذریعے یہ بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ طوائفوں کے بھی اپنے حدود ہوتے ہیں جیسے کہ امتل طوائف ہونے کے باوجود عاشورہ کے عشرے کا کالا لباس زیب تن کرتی ہیں اور دعائیں مانگتی ہیں

اور آخر میں اس کی دعا تب رنگ لاتی ہیں جب اس کا قتل اس کا دیوانہ بیٹا کر دیتا ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی دُعا فورآ قبول ہو جاتی ہے اور اگر ہم اس ناول میں امتل جو کہ پیشہ سے طوائف تھی کی بات کریں تو اس کی موت سے پہلے ایک دن مانگی ہوئی دعا فوراً قبول ہو جاتی ہے جب وہ قیوم کی حاضری میں دُعا مانگتی ہے کہ اس کی موت کسی پیار کرنے والے کے ہاتھوں ہو کیونکہ اُسے لگتا تھا

کہ اگر وہ زندگی میں اپنے چاہنے والوں کے ساتھ نہ رہی جس کا اُسے بے حد دکھ تھا تو کم از کم وہ اپنے عزیز کے ہاتھوں مر جائے تا کہ اس کی موت حلال ہو۔اس ناول میں مصنفہ نے امتل کی زبانی اس حقیقت کو بھی اُجاگر کیا ہے کہ عورت جس کی فطرت میں خدا نے سجنا سنورنا شامل کر دیا ہے اگر اسے دنیا کا سارا آرام میسر رکھا جائے لیکن آرائش کا سامان میسر نہ ہو تو وہ سوکھنے لگتی ہے۔

غرض یہ ناول ہر لحاظ سے ایک منفر د ناول ہے اور اگر ایسا کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں کہ اگر بانو قدسیہ صرف ناول راجہ گدھ ہی تحریر کرتیں تب بھی اردو ادب میں ان کی اہمیت اتنی ہی ہوتی جتنی کہ آج ہے۔ واقعی بانو قدسیہ کا ناول ” راجہ گدھ” ےم داد اور تعریف کے لائق ہیں اور مصنفہ کو اس ناول نے اس مقام پر پہنچایا جسکی تمنا ہر ایک ادیب کی ہوتی ہے مگر یہ آرزو کسی کسی کی پوری ہوتی ہے۔

مزید اس میں پڑیں، بانو قدسیہ کے اسلوب میں علامتی عناصر راجہ گدھ کے خصوصی حوالے سے ، ص 14۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں