ناصر کاظمی ایک تاثراتی مطالعہ

ناصر کاظمی ایک تاثراتی مطالعہ

ایک غزل گو کی حیثیت سے ناصر کاظمی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس دور میں جب غزل، نثری غزل ، ٹیڈی غزل اور آزاد غزل کے موڑ تک آپہنچی تھی۔ ناصر کاظمی اپنے مخصوص رنگ کی غزل کہتے رہے۔ ناصر کاظمی کی غزل کا آہنگ، اس کا داخلی ماحول، اس کا جمالیاتی ذائقہ، اس سے بندے ہوئے موضوعات اور تجربات کی تمام تر فضا اپنے نئے پن کے باوجود غزل کی مانوس روائت کو مسترد نہیں کرتی ۔

اس سلسلے میں بیشتر نئے شعرا کے برعکس ناصر کاظمی کا اختیار یہ رہا کہ انہوں نے غزل کی روایت کے سب سے بڑے نام میر تقی میر کو اپنے بنیادی سرچشمہ کی حیثیت دی۔ میر پر ناصر کاظمی کا مضمون جو بنائے تازہ کے نام سے شائع ہوا تھا اب ایک تاریخی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔ اس مضمون میں ناصر کاظمی نے میر کے عہد کو ایک رات سے تعبیر کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ میر کے عہد کی رات ہمارے اپنے عہد کی رات سے آملی ہے۔

اس رات میں ناصر کاظمی کو یادوں کے بہت سے قافلے گم ہوتے ہوئے دکھائی دئیے۔ غزل کے وسیلے سے ناصر کاظمی کی ساری تخلیقی جد و جہد انہیں گم کشتہ یادوں کی بازیافت کی جدو جہد ہے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا ۔

مل ہی جائے گا رفتگاں کا سراغ

یونہی پھرتے رہو اداس اداس

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ناصر کاظمی میر کو اپنا ideal قرار دینے کے باوجود نئے غزل گو کیوں کہلائے؟ ان کی غزل کی لسانی، حسی اور فکری تانے بانے میں وہ کون سے عناصر شامل ہیں جو انہیں میر سے بھی قریب کرتے ہیں۔

اور نئے عہد کی حیثیت سے بھی اس سلسلے میں ناصر کاظمی کی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ میر کو اپنا سر چشمہ فیض قرار دینے کے باوجود وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ میر کی شاعری کا شب چراغ آج کی بدلی ہوئی ذہنی اور جذباتی فضا میں بہت دور تک ہمیں راستہ نہیں دکھا سکتا اس فضا کا احاطہ ہم اپنی انفرادی بصیرت کی روشنی میں ہی کر سکتے رہیں۔ میر کے تجربے اور اپنے تجربے میں ناصر کاظمی کو اشتراک کی صورتیں دو سطحوں پر دکھائی دیں۔

ایک تو ہندوستان کی تقسیم کے ساتھ ہجرت کی سطح جس سے ناصر کاظمی عملاً دو چار ہوئے۔ دوسری معاصر عہد کی ابتری اور انتشار سے بھری ہوئی زندگی کی سطح جس پر ناصر کاظمی کو میر کے اجڑے ہوئے عہد کی پر چھائیاں نظر آئیں اس طرح یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ میر سے ایک لمبے زمانی فاصلے کے باوجود ناصر کاظمی نے میر کے تجربوں میں اپنے بنیادی تجربوں کا عکس ڈونڈھ نکالا۔

پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ ناصر کاظمی میر کی ہی طرح گہری کیفیتوں کے یا خود اپنے لفظوں میں دھیان کی لہروں کے شاعر تھے۔ میر کی طرح ناصر کاظمی کی غزل بھی ناصر کاظمی کی غزل میں بھی ہمیں احساس اور خیال کی زبردست وحدت ملتی ہے ۔

"برگ نے” کے پیش لفظ میں ناصر کاظمی نے لکھا تھا کہ نالہ آفریں کے دل پر جو کچھ بھی گذرے اگر اس کا نالہ نغمے میں نہیں ڈھلتا تو محض چیخ پکار ہے۔ یہی رویہ ہمیں اپنی بلند ترین صورت میں میر صاحب کے یہاں بھی دکھائی دیتا ہے۔

ناصر کاظمی نے اپنے عہد کے انتشار اور ابتری کا ذکر یا اپنے ذاتی اور اجتماعی آشوب کا احاطہ ایک ایسے اسلوب میں کیا ہے جو نرم اور دھیما ہے۔ تقسیم اور فسادات کے موضوع پر "برگ نے” میں پوری پوری غزلیں شامل ہیں لیکن ان غزلوں کو پڑھتے وقت یہ خیال ہوتا ہے کہ ان میں جو تجربہ موضوع بنا ہے وہ ناصر کاظمی کے احساس کو متحرک کرنے کے بعد روپوش ہو گیا ہے۔

ہم اسے ناصر کاظمی کی گہری اداسی کے حوالے سے صرف محسوس کر سکتے ہیں۔ میر کے علاوہ اپنے پیش رووں میں ناصر کاظمی فراق کے بھی بہت قائل تھے۔ انہوں نے فراق کا ایک انتخاب بھی غزل کے نام سے ترتیب دیا تھا۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ فراق کی شاعری اپنی نئی لفظیات ، اپنے اکھڑے اکھڑے لہجے، اپنے نئے شعور اور ایک بدلے ہوئے تخلیقی ادراک کے باوجود غزل کی روایت سے متصادم نہیں ہوتی۔

یہ اپنی روایت کے بعض عناصر کو رد کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے کئی عناصر کی توسیع بھی کرتی ہے۔ فراق نے بھی ناصر کاظمی کی طرح روایتی غزل کو اندر سے بدلنے کی کوشش کی تھی۔ اور ایسے تجربوں سے گریز کیا تھا جو غزل کے مانوس لہجے سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔

ناصر کاظمی کے ایک معاصر نے میر پرستی کو یہ کہتے ہوئے طنز کا نشانہ بھی بنایانہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب کوٹ پتلون پہن کر کئی بابو نکلے لیکن معترض نے یہ حقیقت فراموش کر دی کہ لباس کی تبدیلی سے شخصیت تبدیل نہیں ہو جاتی۔

ناصر کاظمی کا عہد مختلف تھا ، اس کے ذہنی اور روحانی مطالبات مختلف تھے ، اس کے مسائل اور موضوعات مختلف تھے۔ اس کا زمانی اور مکانی پس منظر مختلف تھا۔ لیکن ناصر کاظمی کا طرز احساس ان تمام اختلافات کے باوجود میر کے طرز احساس سے ایک گہری مماثلت رکھتا تھا۔

ان مماثلتوں سے اتنے زادمویے نکلتے ہیں کہ اگر ان سب کا جائزہ لیا جائے تو میر اور ناصر کاظمی کے رابطوں پر ایک پوری کتاب تیار کی جاسکتی ہے۔ میں یہاں اس بحث میں مزید الجھنا نہیں چاہتا۔ میں تو صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میر کے فیضان نے ناصر کاظمی کو اپنے زمانے کے ادراک کا راستہ کس طرح دکھایا۔

"برگ نے” ، دیوان، پہلی بارش اور نشاط خواب کے اشعار پر اگر ہم ایک سرسری نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ناصر کاظمی رفتگاں کی یاد سے وابستگی کے باوجود اپنے عہد کی کیفیاتکا کتنا گہرا شعور رکھتے تھے، تقسیم، ہجرت اور فسادات پر ان کے اشعار ملاحظہ ہوں ۔

کانٹےچھوڑ گئی آندھی

لے گئی اچھے اچھے پھول

مؤلف: محد سہیل بھٹی

یہ بی پڑھیں: ناصر کاظمی حیات اور ادبی خدمات pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں