امام بخش ناسخ کی غزل گوئی

امام بخش ناسخ کی غزل گوئی کی خصوصیات

اردو غزل کے نامور شاعروں میں بے شک ناسخ کا شمار نہیں لیکن ان کے بغیر اردو غزل کا ذکر کسی طرح مکمل نہیں ہو سکتا۔ ہماری زبان کے بہت سے غزل گو شاعر ہیں ، ناسخ جن کی خاک پا کو بھی نہیں پہنچتے لیکن غزل گوئی کے فن میں انھوں نے جس استادی کا مظاہرہ کیا وہ آج تک ہمارا کوئی شاعر نہیں کرسکا۔

ناسخ کا رنگ سخن ان کے اپنے زمانے میں اتنا مقبول تھا کہ بڑے بڑے شاعروں نے اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا اور اپنانے کی کوشش کی مگر اسے اپنانا آسان نہ تھا کسی کو اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی مومن اور غالب غزل کے کیسے لاجواب شاعر ہیں۔

دونوں ہی نے ناسخ کی پیروی کرنی چاہی مگر ناکام رہے۔ مومن سے زیادہ غالب پر ناسخ کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ ایک شعر میں کلام میر کی پسندیدگی کے سلسلے میں وہ بہت فخر سے ناسخ کی ہمنوائی کرتے ہیں۔

غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ

آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

غالب نے اپنے بہت سے شعروں اور بہت سی غزلوں کو قلم زد کر کے ایک منتخب دیوان مرتب کیا تھا مگر اس منتخب دیوان میں بھی بہت سے ایسے اشعار ملتے ہیں جن پر ناسخ کی پر مچھائیں صاف نظرآتی ہے۔

ناسخ اپنے عہد کے ادبی ڈکٹیٹر تھے۔ یہ بات بار بار کہی گئی اور بالکل سچ کہی گئی ۔ اردو شاعری کی دنیا پر ایک مدت تک ان کی حکمرانی قائم رہی۔ زبان و بیان کے بارے میں ان کے فیصلے حرف آخر کا حکم رکھتے تھے۔

جو بات ان کی زبان سے نکل گئی بس وہی سند تھی۔ ناسخ در اصل شاعر سے زیادہ مصلح زبان تھے اور اصلاح زبان کے سلسلے میں ان کی کوششیں اور کاوشیں نا قابل فراموش ہیں ۔

ان کی اس کوشش نے ایک تحریک کی شکل اختیار کی اور کامیاب ہوئی کیونکہ یہ اپنے زمانے کا تقاضا تھی ۔ اس میں شک نہیں کہ اصلاح کی دھن میں ناسخ نے بہت سے اچھے لفظوں کو بھی خارج کر دیا جس سے زبان کا دائرہ تنگ اور الفاظ کا ذخیرہ محدود ہو گیا لیکن بہت سے ثقیل الفاظ دور ہوئے تو زبان کا بو جبل پن کم ہو گیا۔

یہ ایک الگ بحث ہے اور یہاں اس کا موقع بھی نہیں کہ ناسخ کی اصلاحی تحریک میں کیا خوبیاں تھیں اور کیا خرابیاں لیکن اتنا عرض کرنا بہر حال ضروری ہے کہ اس تحریک نے اردو زبان ادب پر ایک گہرا نقش چھوڑا۔ انھوں نے اصلاح زبان کے سلسلے میں جو اصول مرتب کیے ان پر بڑی حد تک خود بھی عمل کیا اور اپنے شاگردوں سے بھی عمل کرایا۔

اور ان شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ زبان کے معاملے میں ناسخ نے راہبری کی زبر دست خدمت انجام دی اسی لیے وہ استاد الاساتذ کہلائے۔ ڈاکٹر شبیہ الحسن تحریر فرماتے ہیں۔ ناسخ کو ان کے عہد میں استاذ الاساتذہ سمجھا جاتا تھا۔

جب شاعروں میں غزل خوانی کی نوبت ان تک پہنچتی تھی تو ان کے نمودار شاگردوں اور قدر دانوں میں سے کوئی شخص اسی لقب کے ساتھ حاضرین مشاعرہ کو متوجہ کرتا تھا۔

بے شک ان کے استاد ہونے میں کسی طرح کا مشبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اردو زبان نے ان سے بڑے غزل گو پیدا کیے ہیں مگر ان سے بڑا استاد اب تک نہیں پیدا کیا ہے ۔”

یہی وجہ ہے کہ میر، غالب، اقبال جیسے شاعروں کے نام سے کوئی اسکول وابستہ نہیں جبکہ ناسخ اسکول کے نام سے ادب کا کون سا طالب علم نا واقف ہو گا ۔ آئیے اب یہ غور کریں کہ ناسخ اسکول سے کیا مراد ہے اور ناسخ کی شاعری کی خصوصیات کیا ہیں۔

شاعری کی تین صورت میں ہو سکتی ہیں۔ فکر و خیال کی شاعری ، جذبہ و احساس کی شاعری اور تیسرے نمبر پر وہ شاعری جس میں خیال جذ بہ بن جائے یا جذبہ و خیال گھل مل جائیں ۔ اور یہی سچی اور اصلی شاعری ہے۔ ناسخ کے یہاں جذبہ و احساس کی کمی ہے۔ یہی ان کی کمزوری ہے ۔

وہ خیال کے شاعر ہیں ، جز مبه شدید ہو سکتا ہے ، گہرا ہو سکتا ہے مگر اس میں پیچیدگی نہیں ہوئی۔ خیال کا معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ اس میں پیچیدگی اور الجھاوا سبھی کچھ ممکن ہے کسی خیال کی پیشکش کے لیے شاعر کو مختلف شعری وسائل سے کام لینا پڑتا ہے ۔

اگر یہ وسائل خیال کو سلجھانے میں معاون ہوں تو یہ خوبی ہے اور اگر خود اہم بن جائیں تو یہ عیب ہے یہی ناسخ کی کمزوری ہے۔ ان کے کلام میں صنعت گری حد سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان کے شعروں کی بڑی تعداد ایسی ہے کہ خیال کے بجائے لفظ ہمیں اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں اور ان کی شاعری محض لفظوں کا کھیل بن کر رہ جاتی ہے۔

دیکھیے چند شعر:

دن سیہ ، رات سیه ، ماه سیه ، سال سیاه

دل سیه بخت سیه، نامه اعمال سیاه

ایک میں اور ہیں یہ چار بلائیں کالی

خط سیر، زلف سیه، چشم سیہ، خال سیاه

ناسخ کے کلیات سے اس طرح کے صدہا اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں جن سے صاف پتا چلتا ہے کہ دماغ پر زور ڈال کے اور کوشش کرکے کوئی مضمون نکالا ہے ۔

مثلاً نازک مزاجوں کو منوں مٹی کے تلے دبے دیکھ کہ یہ خیال آتا ہے کہ جو لوگ کسی کی ذراسی بات برداشت نہ کر سکتے تھے انھوں نے مٹی کا اتنا وزن کیسے برداشت کر لیا۔ پھر بات اٹھنا اور وزن اٹھنا جیسے محاورات کا استعمال یہ بتاتا ہے کہ شاعر نے دماغ پر زور ڈال کے یہ مضمون پیدا کیا۔

یہ شاعری نہ ہوئی زور آزمائی اور کرتب بازی ہو گئی لیکن ان کے قلم سے بہت سے ایسے شعر بھی نکل گئے ہیں جن میں دلکشی پائی جاتی ہے اور کسی نہ کسی درجے میں وہ ہمیں متاثر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ آئیے ایسی چند مثالیں بھی دیکھتے چلیں۔

ہم خواب میں واں پہنچے تدبیر اسے کہتے ہیں

وہ نیند سے چونک اٹھے، تقدیر اسے کہتے ہیں

وہ مجھ سے گریزاں تھا، کل اس کو میں گھر اپنے

باتوں میں لگا لایا ، تقریر اسے کہتے ہیں

صنعتوں کی طرف ناسخ کا دل بہت کھینچتا ہے اور رعایت لفظی کے تو وہ خاص طور پر دلدادہ ہیں۔ اس لیے زیادہ تر ان کی شاعری شعبدہ بازی بن کر رہ گئی ہے پھر بھی بہت سے شعر گوارا ہیں اور بعض دلکش۔

ناسخ نے ایک شعر میں میر کا معتقد ہونے کا اعلان کیا ہے ۔ دوسرے اردو شاعروں کی طرح ناسخ نے بھی میر کی خدمت میں نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے لیکن میر سے ان کا مزاج میل نہیں کھاتا،

لیکن ناسخ کی جو شاعری اپنی انتہائی بلندیوں کو چھولیتی ہے وہ بھی کلام سودا کی ہمسری نہیں کر سکتی، ناسخ کا مشاہدہ وسیع ہے وہ اپنے اردگرد پھیلی دنیا کو گہری نظر سے دیکھتے ہیں لیکن یہاں بھی وہ سودا سے مات کھا جاتے ہیں۔

انھیں ذہنی مناسبت ہے تو سودا سے سودا کی خارجیت ، بلند آہنگی اور نشاطیہ لہجہ کسی نہ کسی حد تک ناسخ کے یہاں مل جاتا ہے

ناسخ کا کلام خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے۔ بے شک ان کے یہاں خامیاں زیادہ اور خوبیاں کم ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ ناسخ کے محاسن شعری کو جس حد تک سراہنے کی ضرورت تھی اس حد تک نہیں سراہا گیا۔ ناقدین ادب نے ان کے کلام میں عیب ہی زیادہ گنائے کسی نے کہا انھوں نے صرف گیارہ شعر کہے،

کسی نے گھٹا کے تعداد صرف ساڑھے تین کر دی اور کسی نے تو یہاں تک کہا کہ برسوں کی محنت اور سخت ریاضت کے باوجود وہ ایک بھی جاندار شعر نہ کہہ سکے۔یہ کہنا انصاف نہیں ہے کہ ناسخ کا کلیات لفاظی تصنع ، مبالغہ آرائی سے بھرا پڑا ہے۔ یہاں تک بندی ، فنی بازی گری اور شعبدہ بازی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا بلکہ اصلیت وہ ہے جس کی طرف ڈاکٹر شبیہ الحسن نے اشارہ کیا ہے :

(ان کے دیوان میں بہت سے ایسے شعر بھی موجود ہیں جنھیں سن کر میر اور غالب بھی کھلے دل سے داد دیں۔ صنائع اور بدائع کی اُس موسلا دھار بارش میں جو تمہیں ناسخ کے دیوان میں ملتی ہے ، جذبہ اور احساسات کی شدت کا کو ندا بھی اکثر نظر آجاتا ہے اور رعایت لفظی کے گرجتے ہوئے بادلوں میں گرمی دل کا پیدا کردہ بجلی کا لپیکا بھی دیکھائی دے جاتا ہے۔)

ناسخ کا شمار اردو کے عظیم شاعروں میں نہ سہی لیکن استادان فن میں انھیں ایک نمایاں مقام حاصل ہے اور اصلاح زبان کے سلسلے میں ان کا کارنامہ یقیناً یاد رکھنے کے قابل ہے

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں