کتاب کا نام—-میر و غالب کا خصوصی مطالعہ
کورس کوڈ—-5611
صفحہ نمبر—–102 تا 104
موضوع – – – میر کا صوفیانہ لب ولہجہ
مرتب کردہ—- ہاجرہ شاہ
میر کا صوفیانہ لب ولہجہ
میر اپنے آپ کو ایک صوفی اور فقیر و درویش کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ انھوں نے ذکر میر کے ابتدائی حصے میں صوفیوں کا ذکر بڑی عقیدت سے کیا ہے اور ان کی طرف کچھ ایسے اقوال بھی منسوب کیے ہیں جو خود ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میر صوفی یا فقیر و درویش نہ تھے۔ وہ تارک دنیا بھی نہ تھے ۔
یہ بھی پڑھیں: جدید اردو غزل پر میر کے غزل کے اثرات
انھیں محض فلسفی یا دنیا سے بیزار بھی نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم وہ ذہنی طور پر تصوف سے متعلق ضرور تھے۔ کیونکہ یہ ان کی بچپن کی تربیت سماجی اور ذاتی حالات اور افتاد طبع سے مناسبت رکھتا ہے۔
چنانچہ میر کے ہاں جن موضوعات پر غور و فکر اور حکیمانہ رویہ ماتا ہے ان میں سے کچھ تصوف اور مابعد الطبیعیات سے متعلق ہیں۔ اگر چہ انداز بیان میر کا اپنا ہے البتہ بعض موضوعات ایسے بھی ہیں جن کو ان کے ذاتی نور و فکر کے حاصلات کہا جا سکتا ہے۔ میر کے ہاں جو روایتی صوفیانہ اور مابعد الطبیعیاتی مضامین ملتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: میر بحیثیت میر شناس
ڈاکٹر سید عبد اللہ نے "نقد میر میں ان کی بالتفصیل نشان دہی کی ہے۔ ان موضوعات میں وحدت الوجود، بنفس انسانی ، وجود ، عالم، خدا اور خود کا صوفیانہ تصور ، بندے اور خدا کا تعلق ، شرف انسانی اور انسان کی فرشتوں پر فضیلت وغیرہ نمایاں ہیں۔
ان موضوعات کے بیان میں بھی میر نے موت سماجی اور معاشرتی تضادات سماج اور انسان کی بوالعجیہیاں وغیرہ کے موضوعات میں عقلی اور فکری تجزیوں کے ذریعے بعض ایسے حقائق دریافت کیسے ہیں جو ان سے خاص ہیں۔
جہاں تک روایتی صوفیانہ اور مابعد الطبیعیاتی موضوعات کا تعلق ہے میر کے خیالات کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا کا اور اک انسانی فہم کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔
خدا کی ہستی کا ثبوت اس کی صفات سے ملاتا ہے۔ خدا کے سلسلہ میں اہم مسئلہ توحید کا ہے ۔ میر عام صوفیا کی طرح وحدت الوجود اور صوفیانہ توحید کے قائل ہیں:
تصوف میں جب ڈال دیتے ہیں بات
خدا رس کہیں ہیں یہ توحید ہے
مظاہر سب اس کے ہیں ظاہر ہے وہ
تکلف ہے یاں جو چھپاتے ہیں لوگ
صوفیا نہ توحید میں کائنات میں خدا کے سوا کوئی موجود نہیں یعنی لا موجود الا اللہ
میر بھی اسی عقیدے کو تسلیم کرتے ہیں :
گل و آئینہ کیا، خورشید و مه کیا
جدھر دیکھا تدھر تیرا ہی رو تھا
ہے ما سوا کیا جو میر کہیے
آگاہ سارے اس سے ہیں آگاہ
باغ و بہار و نگہت گل پھول سب ہی تو ہے
یاروں کی ہیں نظر میں، یہ رنگ سارے تیرے
میر وحدت الوجود کے ساتھ ساتھ وحدت الشہود کی طرف بھی میلان رکھتے ہیں :
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
جلوے ہیں اس کے، شانیں ہیں اس کی
کیا روز، کیا خور، کیا رات کیا ماہ
کہتے ہیں کوئی صورت بن معنی یاں نہیں ہے
یہ وجہ ہے کہ عارف منہ دیکھتا ہے سب کا
میر کے نزدیک ( اور صوفیا کے نزدیک بھی ) یہ عالم خدا کی ذات کا ایک جزو ہے، جسے خدا نے اپنے شوق ظہور میں اپنی گل سے جدا کر کے وجود عطا کیا اور اس پر اپنا عکس ڈال کر اسے حیات سے بہرہ ور کیا۔ اسی کا نام عالم امکان ہے۔
جس کا وجود ہے ضرور مگر عارضی ہے ۔ یہ اس معنی میں موہوم بھی ہے کہ مستقل اور مطلق وجود تو موجود حقیقی کا ہے، باقی جو کچھ ہے عارضی اور اضافی ہے۔ اصل وجود اس ذات مطلق کا ہے باقی سارے وجود محض عکس ہیں۔ یہ عالم آئینہ ہے جس میں ذات حقیقی جلوہ گر ہے :
عالم آئینہ ہے جس کا وہ مصور بے مثل
ہائے کیا صورتیں پردے میں بناتا ہے میاں
لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتی راز نہاں ہوں
عالم کسی حکیم کا باندھا طلسم ہے
کچھ ہو تو اعتبار بھی ہو کائنات کا
یہ تو ہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا