میر شناسی کے اہم رحجانات

کتاب کا نام۔۔۔۔میر و غالب کا خصوصی مطالعہ
کوڈ۔۔۔ 5611
صفحہ۔۔۔178 تا 181
موضوع۔۔میر شناسی کے اہم رجحانات

میر شناسی کے اہم رجحانات
مرتب۔۔۔۔ اقصیٰ طارق

میر شناسی کے اہم رحجانات

ناقدین اور محققین نے میر شناسی کے اہم رجحانات کا تعین کرتے ہوئے میر کی عشقیہ شاعری پر خصوصی توجہ دی ہے۔ میر کے کلام میں بلاشبہ فطری سوز و گداز اور بے پناہ تاثیر پائی جاتی ہے۔

یہ سوز و گداز اور اثر انگیزی کی غیر معمولی صلاحیت ان کے عشق کی وسیع ترکیفیات کی دین ہے۔ میر کے عشق میں جو شدت اور ہمہ گیری پائی جاتی ہے۔وہ اردو زبان کے کسی دوسرے شاعر کے حصے میں نہیں آئی ۔ میر نے عشق اور غم عشق کو نہایت مؤثر و دل کش پیرائے میں بیان کیا ہے کیونکہ عشق ان کی شخصیت کا اساسی رویہ تھا اور ان کے لیے ایک ذاتی تجربے کی حیثیت رکھتا تھا۔

مزید برآں اپنی ابتدائی پرورش کے دوران میں ہی تصوف کی تعلیم کی وجہ سے وہ عشق حقیقی کی گہرائیوں کا کسی حد تک اندازہ کر چکے تھے۔ میر کا گھرانہ فقیری اور درویشی کی روایات سے گہرے طور پر منسلک تھا۔ ذکر میر میں آیا ہے کہ ان کے والد اپنے بیٹے کو عشق کی تلقین کیا کرتے تھے۔

میر کے منہ بولے چچا میر امان اللہ بھی درویشانہ صفات سے متصف تھے۔ میرے بچپن میں بزرگوں اور گوشہ نشیں فقیروں کی صحبت سے بھی فیض یاب ہوتے رہے تھے ۔ وہ عشق مجازی میں گرفتار ہونے سے پہلے ہی عشق حقیقی کی تعلیمات اور اس کے سوز و گداز سے کسی حد تک واقف ہو چکے تھے۔

چنانچہ عشق ہی وہ مرکزی نقطہ ہے ۔جس کے گردان کی شاعری دائرہ در دائرہ پھیلی ہوئی ہے۔ عشق ان کی شاعری کا بنیادی محرک ہے۔ اگر چہ ان کے عشق مجازی کا سلسلہ معشق حقیقی کے اسرار و معارف تک پھیلا ہوا ہے لیکن ان کے عشق مجازی میں تند و تیز جذبات کی وہ ساری گرمی موجود ہے۔ جو گوشت پوست کی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔

ان کی عشقیہ شاعری میں جسم کی آنچ بھی ہے اور روح کی مستی بھی ۔ در اصل عشق ان کے نزدیک زندگی گزارنے کا ایک قرینہ ہے۔

یہ ان کے لیے ایک مسلک کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے ہاں ایسے اشعار کی کثرت ہے جن میں انھوں نے اپنا نظر یہ مشق بیان کیا ہے۔ ان کی شخصیت میں صداقت ، خلوص و پاکیزگی ، ایثار و قربانی، درد اور شستگی کے جو عناصر پائے جاتے ہیں، وہ ان کے نظر یہ عشق کے پیدا کردہ ہیں۔

ان کے ہاں عشق ایک وضع داری بن کر زندگی کی ایک اعلیٰ قدر کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ عشقیہ رویوں کی وجہ سے وہ خود کو دیر و حرم کی حد بندی سے علاحدہ کر لیتے ہیں۔ اس طرح ان کے ہاں عشق دردمند انسانیت کی آواز بن کر ابھرتا ہے۔ ان کا عشق فرد کو جذبات کی تہذیب سکھاتا ہے۔ اور ایک

نظام اخلاق کی شکل میں سامنے آتا ہے :

دور بیٹها غبار میں اس سے

عشق بن یہ ادب نہیں آتا

کوہکن کیا پیار کاٹے گا

پردے میں زور آزما ہے عشق

ہر قدم پر تھی اس کی منزل لیک
سر سے سودائے جستجو نہ گیا

فردوس کو بھی آنکھ اٹھا دیکھتے نہیں

کس درجہ سیر چشم ہیں کوئے بتاں کے لوگ

خاک آدم ہی ہے تمام زمیں

پاؤں کو ہم سنبھال رکھتے ہیں

خدا ساز تھا آزر بت تراش

ہم اپنے تئیں آدمی تو بنائیں

میر کے عشقیہ رویوں کو سمجھنے کے لیے جہاں ان کی غزلیات کا مطالعہ ضروری ہے وہاں ان کی عشقیہ مثنویات ، خاص کر ان کی سوانحی مثنویات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ میر کی سیرت و شخصیت کے بعض پہلو جو غزلوں میں نمایاں نہیں ہو سکے۔وہ ان کی مثنویوں میں کھل کر سامنے آتے ہیں۔

میرشناسی کے سلسلے میں ان کی مثنویات بھی اپنی ایک اہمیت رکھتی ہیں۔ ان مثنویوں میں میر کے انداز فکر و نظر کے بہت سے خد و خال روشن ہوئے ہیں ۔ یہ مثنویاں میر کے اصل محرکات شعری کی اساس فراہم کرتی ہیں۔ ان کے مطالعے سے میر کی پیچیدہ شخصیت کی وہ ساری گرہیں کھل جاتی ہیں جو میر شناسی کے سلسلہ میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔

عشق ( کیا حقیقی و کیا مجازی ) میر کے خمیر کا جزو اعظم ہے۔ میر شناسی کے سلسلہ میں سب سے زیادہ اہمیت ان کے عشق اور عشقیہ تصورات کی ہے۔ عشق کا انتہائی خوبصورت بیان غزلوں کے ساتھ ساتھ ان کی مثنویوں میں بھی ملتا ہے۔

عشقیہ جذبات کی تصویر کشی اور اثر انگیزی ان کے کلام کا امتیازی وصف ہے۔ ان کی مثنویوں کے عشقیہ اشعار میں بھی ہمہ گیری ، اثر آفرینی اور گھلاوٹ ملتی ہے۔ انھوں نے تقریبا ہر عشقیہ مثنوی کے آغاز میں عشق کی ماہیت و کیفیت پر روشنی ڈالی ہے۔ ان اشعار سے ان کے تصور عشق کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں :

محبت نے ظلمت سے گاڑھا ہے نور

نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور

محبت ہی اس کارخانے میں ہے

محبت ہی سب کچھ زمانے میں ہے

محبت سے ہے انتظام جہاں

محبت سے گردش میں ہے آسماں ( مثنوی معله عشق)

کہیں عشق خلوت میں وحدت کے ہے

کہیں عشق پردے میں کثرت کے ہے

کہیں عشق عاشق ہے، معشوق ہے

کہیں خالق و خلق و مخلوق ہے

( مثنوی ” فعله عشق)

عشق ہی عشق ہے نہیں ہے کچھ

عشق بن تم کہو کہیں ہے کچھ

ر حقیقت نہ پوچھو کیا ہے عشق

حق اگر سمجھو تو خدا ہے عشق
عشق تھا جو رسول ہو آیا
ان نے پیغام عشق پہنچا یا
عشق مولا کہیں، نبی ہے کہیں
عشق عالی جناب رکھتا ہے

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں