میر تقی میر کی غزل کا تعارف
میر تقی میر کی غزل گوئی کی خصوصیات
ایک فارسی شاعر نے اپنے قطعے میں یہ مضمون ادا کیا کہ شاعری میں تین پیمبر گزرے ہیں : فردوسی انوری اور سعدی اصل قطعہ یہ ہے۔
سننے والے نے پوچھا ” اور حافظ ؟ ” وہ تو خدائے سخن تھا ۔ یہ شاعر نے برجستہ جواب دیا۔
یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد میر کے ایک پرستار رقم طراز ہیں کہ جو رتبہ فارسی شاعری میں حافظ کا ہے بالکل وہی اردو شاعری میں میر کا ہے ۔ بلاشبہ وہ اردو شاعری کے خدائے سخن ہیں ۔
اس رائے کی تائید اس لطیفے سے بھی ہوتی ہے جو مولانا عمحالی نے ایک جگہ بیان کیا ہے مفتی صدر الدین آزدہ کے مکان پر چند احباب جمع تھے۔ ان میں مومن و شیفتہ بھی تھے ۔ اس محفل میں میر کا یہ شعر پڑھا گیا۔
شعر کی بے انتہا تعریف ہوئی اور سب کو یہ خیال ہوا کہ اس قافیے کو ہرشخص اپنے اپنے سلیقے اور فکر کے موافق باندھ کر دیکھائے ۔ سب قلم دوات اور کاغذ لے کر الگ الگ بیٹھ گئے اور اس قافیے میں شعر کہنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس وقت ایک اور دوست تشریف لائے۔
یہ منظر دیکھ کر حیران ہوئے پوچھا کیا ہو رہاہے ؟ جواب ملا قل ہو اللہ کا جواب لکھا جا رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جس طرح کلام اللہ کا جواب لکھنا انسان کے بس کی بات نہیں اسی طرح کلام میر کا جواب بھی ممکن نہیں۔ اردو کے بڑے بڑے شاعروں نے میر کی شاعرانہ عظمت و حکمت کا عراف کیا ہے ۔ غالب فرماتے ہیں۔
ریختے کے تمھیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
ایک اور شعر:
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد غیر نہیں
ذوق بھی کمال میر کے معترف ہیں۔
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
ہر بڑے فنکار کو اپنی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ میر بھی جا بجا اپنے کلام پر فخر کرتے نظر آتے ہیں۔ فرماتے ہیں۔
ریختہ خوب ہی کہتا ہے جو انصاف کرو
ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے
معتقد کون نہیں میر کی استادی کا
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تا حشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا
اگر چہ گوشہ نشیں ہوں میں شاعروں میں میر
پہ میرے شعر نے روے زمیں تمام لیا
بلکہ یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ:
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
اور اس میں شک نہیں کہ اپنے زمانے سے لے کر ہمارے زمانے تک اردو غزل کی دنیا پر میر چھائے ہوئے ہیں۔
آئی۔ اے رچرڈ سن کا قول ہے کہ کوئی فن پارہ اپنی تخلیق کے سو سال بعد تک زندہ رہے تو یہ اس کی عظمت کی دلیل ہے۔ دو صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود میر کی غزل آج بھی ترو تازہ ہے بلکہ اس کی کشمش میں کچھ اور اضافہ ہو گیا ہے۔
میر کی عظمت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔ آئے اب اس عظمت کا راز جاننے کی کوشش کریں۔
مزید یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر کی شخصیت و شاعری کا نفسیاتی مطالعہ pdf مقالہ
غالب کی غزل گوئی کی خصوصیات
غالب کی غزل کا فکری عنصر
یہ بات اکثر کہی گئی ہے کہ کلام میر میں فکر کا عصر نا پید ہے اور ان کی شاعری صرف جذبات کی شاعری ہے۔ شاعری اور خاص طور پر غزل میں فلسفہ و پیغام کی گنجایش کم ہی ہے کیونکہ غزل کا آرٹ رمز و ایما اور اشارے کنارے کا آرٹ ہے اور اشاروں میں کسی فلسفے کا پیش کر دینا آسان کام نہیں۔
اقبال جیسے شاعر کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں کہ انھوں نے غزل میں ایک پیچیدہ اور مربوط فلسفہ کامیابی کے ساتھ پیش کر کے دکھا دیا۔
انسان کو خدا تعالٰی نے دو اہم صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ وہ غور و فکر بھی کرتا ہے اور محسوس بھی کرتا ہے پہلی قوت کا نام ہے ادراک اور دوسری کا احساس ہے ، شاعری میں ان دونوں کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ اعلیٰ درجے کی شاعری میں فکر و ادراک اور جذبہ و احساس گھل مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔
بڑا شاعر زندگی کی حقیقتوں پر غور کرتا ہے اور انھیں شعر میں پیش کرنے سے پہلے جذبہ و احساس کی شکل دے دیتا ہے۔ میر نے یہ فرض بڑی ہنر مندی سے ادا کیا ۔ بے شک میر میں عقلی تجزیے کی ایسی صلاحیت نہ تھی جیسی مثلاً غالب میں ہے۔ لیکن یہ نہیں کہ وہ سوچتے نہ ہوں اور زندگی کی حقیقتوں پر غور نہ کرتے ہوں۔
مثلاً کسی شیشے کے کارخانے کو دیکھ کر انھیں محسوس ہوتا ہے کہ پھونک مارنے میں ذراسی بے احتیاطی مصنوعات کی شکل بگا ڑ دیتی ہے ، اس کے ساتھ ہی انھیں معاملات دنیا کا خیال آتا ہے کہ یہاں بھی پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوتا ہے۔ ذرا غافل ہوئے اور کام بگڑا، کہتے ہیں۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کم
آفاق کی اس کارگر شیشہ گری کا
اس غزل کے دو اور شعر ہیں جن سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ شاعر غور کرنے اور نتیجہ نکالنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہے، ملاحظہ فرمائیے۔
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پر یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یا ہر سفری کا
میر کے حیات میں اس کی اور مثالیں بھی مل جائیں گی مگر حقیقت یہ ہے کہ تفکر کی مثالیں ان کے یہاں کم ہیں۔ میر در اصل جذبات کے شاعر ہیں، کوئی خیال ان کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے تو وہ فوراً اسے شعر کے سانچے میں نہیں ڈھال دیتے۔
یہ خیال ان کے دماغ میں پکتا اور پگھلتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ جذبہ اور احساس کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور آخر کار تاثیر سے لبریز شعر کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔
مثلاً وہ موت کی حقیقت پر غور کر کے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ موت زندگی کا انتقام نہیں بلکہ تھک کر ذرا دیر دم لینا ہے تاکہ مسافر تازہ دم ہو کر سفر جاری رکھ سکے۔
مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی اگے چلیں گے دم لے کر
یا یہ شعر
الٰہی کیسے ہوتے ہیں جنہیں ہے زندگی خواہش
ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے
میر کی غزل کا موضوع
جو شاعر کسی مخصوص نظریے یا کسی خاص فلسفے کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں عام طور پر ان کی شاعری تازگی سے محروم ہو جاتی ہے اور اسے پڑھ کر ایک طرح کی تنگی کا احساس ہوتا ہے۔ میر کسی خاص نظریے کے شاعر نہیں اور وہ زندگی کو کسی مخصوص عینک سے نہیں دیکھتے۔ زندگی میں پیش آنے والا ہر چھوٹا بڑا تجربہ ان کے دل پر اثر کرتا ہے اور کسی شعر کی بنیاد بن جاتا ہے ۔
اس طرح میر اپنی شاعری میں بہت سے تجربات پیش کرنے میں کامیاب ہیں اور ان میں بڑی تعداد ان تجربات کی ہے جو عشق و عاشقی سے متعلق ہیں۔ یہ واردات وہ ہے جو ہردل پر کبھی نہ کبھی ضرور گزرتی ہے ۔ اس لیے میر کی شاعری میں ہر دل کو اپنی کہانی سنائی دیتی ہے۔
میر اپنی آپ بیتی سناتے ہیں اور سننے والے کو وہ اپنی آپ بیتی معلوم ہوتی ہے ۔ اس لیے تو کہا گیا کہ میر نے آپ بیتی کو جگ بیتی بنا دیا۔
مزید یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر کى غزل گوئی کے امتيازى پہلو pdf
میر کی غزل گوئی کی زبان
ورڈزورتھ شاعری کے لیے بول چال کی عام زبان کو پسند کرتا ہے میر نے اپنی شاعری میں ایسی زبان استعمال کی ہے۔ میر کی اس خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے پر وفیسر نور الحسن نقوی رقم طراز ہیں :
(میر شعر نہیں کہتے باتیں کرتے ہیں، وہ باتیں جو سننے والے کو ایسی لگئیں جیسے پہلے سے اس کے دل میں موجود تھیں، انداز ایسا جیسے بے تکلف دوست اپنے دوست سے رازونیا میں محو ہو۔ لہجہ سرگوشی کا ، زبان عام بول چال کی ۔)
میر کے کلیات میں ان گنت ایسے شعر موجود ہیں جن پر بات چیت کا گمان ہوتا ہے۔ اور میر کو اپنی اس خصوصیت پر ناز ہے کتنے فخر سے کہتے ہیں۔
باتیں ہماری یاد رہیں، پھر باتیں ایسی نہ سنے گا
مگر یہاں ایک نکتے کا ذہن نشین کر لینا ضروری ہے ۔ شاعر بول چال کی زبان کو استعمال ضرور کرتا ہےمگر اسے شعری زبان بنا لیتا ہے۔ یہ کام آسان نہیں ۔ عام بول چال کی زبان کو شعر کی زبان بنانے کے لیے شعری وسائل سے کام لینا پڑتا ہے۔
مطلب یہ کہ شاعر کہیں استعارہ و تشبیہ کا سہارا لیتا ہے، کہیں رمز و کنایے کا کہیں صنعت سے کام لیتا ہے تو کہیں پیکر تراشی سے ۔ باپ کی وفات کے بعد میر کو اپنی کسمپرسی کا احساس ہوا تو ایک جگہ تو انھوں نے اس خیال کو تقریبا نثر کے انداز میں ادا کر دیا کہ:
اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا اپنے ہاں سدا
مشفق کوئی نہیں ہے کوئی مہرباں نہیں
دوسری جگہ یہی تجربہ شعری انداز اختیار کر لیتا ہے ۔
اب جہاں آفتاب میں ہم ہیں
یاں کبھو سرو و گل کے سایے تھے
افتاب سے مراد ہے دھوپ ۔ شاعر جب یہ کہتا ہے کہ میں دھوپ میں کھڑا ہوا ہوں تو مطلب یہ ہے کہ زمانے کے شدائد جھیل رہا ہوں اور جب کہتا ہے کہ کبھی میرے سر پہ پھولوں اور خوبصورت پودوں کا سایہ تھا تو کہنا یہ چاہتا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب مجھے ہر طرح کی آسایش میسر تھی ۔
گویا دھوپ اور سایہ دو استعارے ہیں۔ ایک جگہ پھول کی بے ثباتی دکھانی مقصود ہے تو فرماتے ہیں۔
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
یہ شعر پیکر تراشی کا بہترین نمونہ ہے۔ پھول اور کلی دونوں نے جاندار کرداروں کی شکل اختیار کر لی ہے ۔ اسے تجسیم کہتے ہیں کلی کا جسم نہایت معنی خیز ہے۔ پہلے تو یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ شاعر کا سوال بڑا مضحیکہ خیز تھا۔
کھلی اس احمقانہ سوال کا جواب کیا دیتی ، طنز سے مسکرادی کیونکہ پھول کی زندگی اتنی مختصر ہے کہ اس کے بارے میں کچھ پوچھنا نادانی ہے۔ دوسرا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ کھکی کے مسکرانے میں بس ایک پل لگتا ہے ۔
اشارہ یہ کہ جتنی دیر کی میری مسکراہٹ ہے اس اتنی ہی پھول کی زندگی ہے.
اب ملاحظہ ہوں بات چیت کی زبان میں میر کے چند شعر:
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
میر کی غزل میں غنائیت
موسیقی یا ترنم شاعری کے لیے بے حد ضروری ہے۔ جس طرح اچھی نثر کی خوبی یہ ہے کہ اسے بلند آواز سے پڑھا جائے تو کانوں کو حظ یعنی لطف حاصل ہو اسی طرح اچھی شاعری اسے کہیں گے جسے گایا جاسکے کو لرج کے نزدیک نثر کی تعریف ہے الفاظ بہترین ترتیب کے ساتھ اور شعر کی تعریف بہترین الفاظ بہترین ترتیب کے ساتھ ،
شعر کے لیے شاعر پہلے تو بہترین لفظوں کا انتخاب کرتا ہے، پھر انھیں بہترین ترتیب کے ساتھ پیش کر دیتا ہے۔
میر کو لفظوں کے انتخاب اور ان کی ترتیب دونوں کا ہنر خوب آتا ہے ۔ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ موسیقی کے فن میں ماہر ہیں۔ بہت غور و فکر کے بعد وہ لفظوں کا انتخاب کرتے ہیں اور انھیں اس طرح شعر میں بٹھاتے ہیں کہ دلکش ترنم پیدا ہو۔ کبھی کبھی لفظوں کی تکرار سے خوشگوار آہنگ پیدا کرتے ہیں۔
اشعار میر کی نغمگی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اسما کم اور افعال زیادہ استعمال کرتے ہیں بعض شعروں میں ایک سے زیادہ نحوی اکائیاں ہیں اور یہ بات طے شدہ ہے کہ افعال سے نغمگی پیدا ہوتی ہے۔ اب دیکھیے اس کی مثالیں۔
عشق ہمارے خیال پڑا ہے / خواب گیا / آرام گیا
دل کا جانا ٹھیر گیا ہے/ صبح گیا / یا شام گیا
غرض نغمگی و موسیقیت میر کی شاعری کا ایک امتیازی نشان ہے۔ اسے ان کی صناعی اور شاعرانہ مہارت ہی کہا جاسکتا ہے کہ بھدا اور ثقیل لفظ بھی ان کے ہاتھ میں پہنچ کر موم ہو جاتا ہے اور وہ جس طرح چاہتے ہیں اسے استعمال کرتے ہیں ۔
اس نغمگی کا دوسرا راز یہ ہے کہ میر کے کلام میں طویل مصوتوں کا استعمال زیادہ ہے اور تعمیری بات یہ کہ فارسی عربی کی صغیری آوازوں کے ساتھ دیسی ہکار آوازوں کی آمیزش نے کلام میر کی موسیقیت میں اضافہ کیا ہے۔
میر کی غزل میں فارسی تراکیب کا استعمال
غالب کی فارسی ترکیبوں پر برابر اعتراض ہوتا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ غالب نے متعدد تراکیب کلام میر سے لی ہیں، میر نے دو دو اور تین تین اضافتوں والی تراکیب استعمال کی ہیں مگر یہ شعروں میں اس طرح کھپ گئی ہیں کہ کسی کو ان کے وجود کا احساس تک نہیں ہوتا دیکھے۔
ہنگامہ گرم کن جو دل ناصبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شور نشور تھا
میر کی غزل میں پیکر تراشی
لفظوں کے ذریعے تصویر بنانا یعنی پیکر تراشی کلام میر کا وصف خاص ہے۔ یہ ایک ایسا شعری وسیلہ ہے جس سے کوئی حالت یا کوئی منظر قاری کے پیش نظر ہو جاتا ہے ۔ ظاہر ہے دیکھیں ہوئی چیز سنی ہوئی چیز سے زیادہ دلکش و پر اثر ہوتی ہے۔
میر اس راز سے بھی واقف ہیں اور فن پیکر تراشی سے متعلق ان کی معلومات بھی غیر معمولی ہیں۔ اس لیے میر کے کلام میں شعری پیکر ہر طرف بکھرے نظر آتے ہیں۔ یہاں دو ایک شعر مثال کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔
رات محفل میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
میر تقی میر کی غزل میں تشبیہات و استعارات
پیکر سازی میں استعارہ اور تشبیہہ بہت معاون ہوتے ہیں شاعر اپنے محبوب کو چاند کہتا ہے تو چاند کی تصویر آنکھوں میں کھنچ جاتی ہے۔
میر کے یہاں تشبیہیں زیادہ اور استعارہ کم ملتے ہیں کیونکہ تشبیہہ سے وضاحت پیدا ہوتی ہے اور استعارے میں ایک طرح کا ابہام پایا جاتا ہے میر تشبیہات کا بھی ایسی انتخاب کرتے ہیں جن تک آسانی سے ذہن کی رسائی ہو جائے ۔ دیکھیے اس کی چند مثالیں ۔
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
میر کی غزل میں سوز و گداز
میر نے ایک شعر می اپنی قلمی تصویر ان لفظوں میں کھینچی ہے ۔
قامت خمیده رنگ شکستہ بدن نزار
تیرا تو میر غم میں عجب حال ہو گیا
اور اس میں شک نہیں کہ غموں نے میر کو نڈھال کر دیا تھا ۔ ہوش نہ سنبھال پائے تھے کہ باپ اور منہ بولتث چچا نے داغ مفارقت دیا۔ سوتیلے بھائی نے دشمنوں کا سا سلوک کیا۔ دہلی پہنچ کے خان آرزو کے گھر پناہ لی۔ سوتیلے بھائی نے انھیں بھی ایسا دشمن بنا دیا کہ جان کے درپے ہو گئے۔ ان کا گھر چھوڑ کے در بدر آوارہ پھرتے آخر کار غوں کا ایسا نرغہ ہوا کہ ذہنی توازن کھو بیٹھے۔
زندگی میں کئی بار ایسے موقعے آئے کہ ایک ایک کے دروازے پر دستک دی اور ایک ایک کے آگے ہاتھ پھیلایا مگر یہ آشفتہ حالی کاوہ زمانہ تھا کہ کوئی کسی کے کام نہ آسکتا تھا۔ ہر جگہ سے ناکام لوٹے۔ یہی حالات تھے جنہوں نے چڑ چڑا اور بد مزاج بنا دیا تھا۔ مندرجہ ذیل بند اسی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔
حالت تو یہ کہ مجھ کو غموں سے نہیں فراغ
دل سوزش درونی سے جلتا ہے جوں چراغ
مجنوں گورکھپوری نے کہا ہے کہ غم واندوہ کے شاعر سے سرور و انبساط کے شاعر کا رتبہ بلند ہوتا ہے۔
اس رائے کے درست ہونے میں شک نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حزنیہ شاعری نشاطیہ شاعری سے زیادہ پر اثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ میر کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنے غم کو آفاقی غم بنا کر پیش کیا ہے۔
نتیجہ یہ کہ پڑھنے والے کو ان کا غم اپنا غم معلوم ہوتا ہے اور کلام میر کا دائرہ اثر بہت وسیع ہو جاتا ہے ۔ میر کے غم کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ تمہیں پسپا نہیں کرتا ، حوصلہ بڑھاتا ہے اور حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت عطا کرتا ہے۔ بقول سید عبد اللہ میر اپنے شعروں میں غم کا اظہار تو جا بجا کرتے ہیں مگر اس لیے کہ ہم اس کے تلے دب نہ جائیں وہ برابر میں سہارا دیتے رہتے ہیں۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں