میر تقی میر کی شاعری کے موضوعات

کتاب کا نام….میر و غالب کا خصوصی مطالعہ 1
کورس کوڈ ۔۔۔۔۔5611
موضوع ۔۔۔۔۔ میر تقی میر کی شاعری کے موضوعات
صفحہ نمبر ۔۔۔111 112
مرتب کردہ ۔۔۔۔الیانا کلیم 🌼

میر تقی میر کی شاعری کے موضوعات

میر نے زندگی کے ہر رنگ کو قبول کیا ہے۔ ان کے ہاں تجربہ حیات کی کثرت اور شخصیت کی ہمہ گیری موجود ہے۔ ان کی کلیات میں شاید ہی کوئی ایسا تجربہ، احساس یا جذبہ ہو جس میں ان کے خون جگر کی آمیزش نہ ہوئی ہو اور جو ذاتی ہونے کے باوجود آفاقی رویہ اپنے اندر نہ رکھتا ہو۔ میر نے تو شاعر ہونے کے باوجود معاشی اور اقتصادی عدم مساوات طبقاتی تقسیم اور معاشرے پر اس کے اثرات وغیرہ کو بھی شاعرانہ صلح عطا کی ہے:

قصر و مکان و جنت ایکوں کو سب جگہ ہے

ایکوں کو جا نہیں ہے، دنیا عجب جگہ ہے

خوب رو اب نہیں ہیں گندم گوں
میر ہندوستاں میں کال پڑا

ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکر پریشاں کہاں کہاں میری

ظاہر ہے معاشی مسئلہ انسانی زندگی کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ میں تو انسان کی تو جہات کا محور و مرکز سمجھتے ہیں لہذا انسانوں کے مسائل سے چاہے وہ معاشی ناہمواری ہی سے متعلق کیوں نہ ہوں، کیسے صرف نظر کر سکتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر از ڈاکٹر عبادت بریلوی | pdf

میر نے اپنی ذات ، اپنے قارئین اور زندگی کے درمیان گہرا رشتہ پیدا کرنے کے لیے بڑی کٹھن منزلوں کو طے کیا ہے ۔ اسی لیے میر کے ہاں بعض ایسے تصورات ملتے ہیں، جن کا تعلق اجتماعی اخلاق اور عملی زندگی کے حاصلات سے ہے ۔

وہ زندگی اور اس کے حقائق کے بارے میں ذاتی تجربہ اور مشاہدہ رکھنے کی وجہ سے احساسات و نظریات کا ایک بڑا ذخیرہ رکھتے ہیں، جو اپنی صداقت کی وجہ سے دائی قدروں کا حامل ہے۔ زندگی کے متعلق ان کے احساسات اور فکریات کی بنیاد عملی افادیت کے مختلف پہلوؤں پر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر تعارف اور غزل گوئی

عملی نقطہ نظر سے زندگی نہ صرف غم واندوہ کا نام ہے اور نہ صرف عیش و نشاط کا غم و نشاط تو زندگی کی مختلف کیفیتیں ہیں۔ ان کے ہاں یہ بات اکثر آئی ہے کہ زندگی میں جگر کا وی کے بغیر نام دری مشکل سے ملتی ہے۔ جستجو اور طلب کامیابی کی شرط اول ہے۔

راستے کی عدم موجودگی کے باوجود پیکر عمل شخص اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے۔ زندگی اگر چہ مختصر ہے مگر اس کو عمل سے حسین بنایا جا سکتا ہے ۔ انسان کو ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے چاہئیں کہ اسے مدتوں یاد رکھا جائے:

بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو

ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

مختصر یہ کہ یوں تو میر کے ہاں مربوط فلسفیانہ خیالات کا کوئی نظام نہیں ملتا۔ وہ فلسفی شاعر نہ تھے تا ہم بقول محب عارفی ” میر ایک اعلی درجے کے ملکر شاعر تھے اور ان کی تخلیقی شخصیت پر بڑی طاقتور تحقیقی جہات کا غلبہ تھا۔”

(۵) ان کے اعلیٰ درجے کے فکری اشعار خارجی مظاہر کے عقب میں چھپے حقائق کے ادراک کی والہا نہ طلب سے معرض اظہار میں آتے ہیں۔ یہ اشعار مفکرانہ احساس کے نئے نئے زاویئے اپنے میں رکھتے ہیں اور حکیمانہ معنویت کے حامل ہیں۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں