میر انیس سوانحی حالات اور شاعری

میر انیس کے سوانحی حالات

پیدائش

میر ببر علی انیس 1216 یا 1217ھ میں بمقام فیض آباد محلہ گلاب باڑی میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد رہتے تھے۔ اپنے والد کے سایئہ عاطفت تربیت پائی لکھنو میں اس وقت آئے جب اُن کے بڑے صاحبزادے میر نفیس پیدا ہو چکے تھے۔ چھوٹے بھائی انس ہمراہ تھے۔ ابتدا میں فیض آباد کے تعلقات بالکل منقطع نہیں ہوئے اس وجہ سے کہ باپ اور بھائی وہیں رہتے تھے۔

مگر جب بعد کو پورا خاندان لکھنو چلا آیا تو یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی ابتدائی کتابیں مولوی حیدر علی صاحب سے اور صدر مفتی میر عباس صاحب سے پڑھی تھیں ۔

مشاغل

ورزش کے بہت شائق تھے۔ اور فنون سپہ گری میر کاظم علی اور ان کے بیٹے میرا میر علی سے حاصل کیے جو اس فن میں اُس زمانہ کے استاد مانے جاتے تھے۔

فن سپہ گری سے بھی واقف تھے۔ فن سپہ گری کی معلومات جنگ کے مناظر وغیرہ دکھانے میں بہت کار آمد ثابت ہوئی ۔ حسن تناسب کے ایسے عاشق تھے کہ خواہ وہ انسان میں ہو یا کسی دوسری شے میں اُس کی دل سے قدر کرتے تھے۔

طبیعت میں خوداری

اُن کو اپنی عزت خاندانی پر بڑا فخر تھا اور خود داری اور عزت خاندانی کا ہمیشہ خیال رہتا تھا وضعدار بھی بہت بڑے تھے ملنے جلنے میں رکھ رکھاؤ کا بہت خیال رکھتے تھے ۔

ایک وقت معینہ پر لوگوں سے ملاقات کرتے تھے کوئی شخص حتیٰ کہ ان کے گھر والے بھی بغیر اطلاع اُن کے پاس نہیں آسکتے تھے۔ اُمرا سے بہت کھینچ کر ملتے تھے۔ یہاں تک کہ بادشاہ وقت کے یہاں بھی اُس وقت تک نہیں گئے جب تک کہ ایک معتمد شاہی اُن کو لیے نہ آیا۔

وہ اپنی عزت خاندانی اور عزت پیشہ کو سب باتوں پر مقدم سمجھتے تھے۔ آئین وضعداری کے بہت سختی سے پابند تھے جس کو انہوں نے اپنے اور اپنے احباب اور ملنے والوں کے واسطے مقرر کر لیا تھا۔

وضع اور لباس

وضع اور لباس بھی خاص تھا جس کو انہوں نے عمر بھر نبھایا لوگ جس طرح اُن کے کلام کی عزت کرتے تھے اسی طرح اُن کی پابندی وضع کے بھی قدر دان اور مداح تھے۔

ایک مرتبہ نواب شہور جنگ کا ایک رئیس حیدر آباد نے میر صاحب کی جوتیاں اٹھا کر ان کی پالکی میں رکھ دیں اور اس پران کو بڑا فخر و ناز تھا۔

یہ ان کے مزاج کی خود داری قناعت اور استغنا کا نتیجہ تھا کہ کبھی کسی کی تعریف میں یا روپیہ کے لالچ میں ایک حرف زبان سے نہیں کہا۔ البتہ امرائے لکھنو جو ہدایا و تحالف مداح آل رسول سمجھ کر پیش کرتے تھے اُس کو قبول بھی کر لیتے تھے۔

لکھنو سے محبت اور شہرت:میر انیس لکھنو سے تا انتزاع سلطنت کبھی باہر نہیں نکلے۔ جب کبھی باہر جانے کا ذکر ہوتا تو فرماتے کہ اس کلام کو اسی شہر کے لوگ خوب سمجھ سکتے ہیں اور کوئی اس کی قدر کیا کرے گا اور ہماری زبان کا لطف کیا اُٹھائے گا۔

لیکن تباہی لکھنو کے بعد پہلی مرتبہ 1859ء میں اور پھر 1860ء میں نواب قاسم علی خاں کی طلب اور اصرار سے پٹنہ عظیم آباد تشریف لے گئے اور واپسی میں بنارس میں بھی ایک مرتبہ ٹھہرے تھے۔ 1871 ء میں سید شریف حسین خاں کی تحریک اور نواب تہوار جنگ بہادر کے سخت اصرار سے دکن حیدر آباد گئے اور لوٹتے ہوئے اللہ آباد میں قیام کیا۔

اور ان سب مقامات پر اپنے معرکتہ آلا را مرثیوں سے لوگوں کو مستفیض اور داخل حسنات کیا جس مجلس میں پڑھتے لوگ اس کثرت سے جمع ہو جاتے تھے کہ باوجود سخت انتظام اور پہروں کے بھی چپہ بھر زمین سننے والوں سے خالی نہ رہتی تھی۔

جب دوسرے شہروں کا یہ حال تھا تو پھر خاص لکھنو کا کیا پوچھنا ہے جو قدردانی اور کمال کا سرچشمہ تھا۔

وفات

میر صاحب کا انتقال بعارضه بخار 1291 ء مطابق 1874ء میں ہوا۔ اور اپنے باغ ہی میں دفن ہوئے۔

میر انیس بحیثیت شاعر

میر صاحب خلقی شاعر تھے اور شاعری ورثہ میں پائی تھی کوئی خاندان اتنا ز بر دست سلسلہ مشہور اور قابل شعراء کا نہیں پیش کر سکتا۔ لہذا جو فخر میر صاحب کو اپنے خاندان پر تھا وہ بجا تھا۔ میر صاحب نے بچپن ہی میں جبکہ فیض آباد میں قیام تھا شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔

پہلے حزیں تخلص کرتے تھے شاید اس مناسبت سے کہ ان کے پردادا میرضاحک اور مشہور شاعر شیخ علی حزیں میں بہت ربط وضبط تھا۔

جب لکھنو آئے تو ان کے والد ان کو ناسخ کے پاس لے گئے ناسخ نے کہا کہ تخلص کو بدل دو چنانچہ ایسا ہی کیا انیس تخلص اختیار کیا۔

انیس نے کم سنی سے مرثیہ کہنا شروع کر دیا تھا اور تھوڑے ہی دنوں کی مشق میں درجہ کمال کو پہنچ گئے تھی۔ چنانچہ ان کی شہرت ان کے والد کے زمانہ میں ہو چکی تھی۔ جب خلیق اور ضمیر میدان مرثیہ گوئی سے ہٹ گئے تو دبیر و انیس کا زمانہ آیا جنہوں نے اس فن کو معراج کمال تک پہنچا دیا۔

تصانیف

میر صاحب نے ہزار ہا مرثیے، سلام، قطعات، رباعیاں لکھی ہیں۔ افسوس ہے کہ ان کا پورا کلام اب تک شائع نہیں ہوا مگر جس قدر چھپ چکا ہے پانچ جلدوں میں ہے۔

باقی ان کے اعزہ کے پاس محفوظ ہے۔ مشہور ہے کہ انہوں نے ڈھائی لاکھ شعر کہے تھے۔ جن میں کچھ غزلیں بھی تھیں ۔ جس طرح ان کا کلام لا جواب ہے اسی طرح ان کے پڑھنے کا طریقہ بھی بڑا لا جواب تھا ان کی آواز قد و قامت صورت۔ غرض ہر شے اس کام کے لیے موزوں واقع ہوئی تھی۔

پڑھنے کا طریقہ یہ تھا کہ بڑا آئینہ سامنے رکھ کر تنہائی میں بیٹھتے اور پڑھنے کی مشق کرتے تھے۔ میر انیس کا کلام ہموار ہے اور دوسرے شاعروں کی طرح رطب و یابس کا مجموعہ نہیں ہے۔ ادب اردو میں میر انیس ایک خاص مرتبہ رکھتے ہیں۔

بحیثیت شاعر کے ان کی جگہ صف اولین میں ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کو زبان اردو کے تمام شعراء سے بہترین اور کامل ترین سمجھتے ہیں اور ان کو ہندوستان کا شیکسپیئر اور خدائے سخن اور نظم اردو کا ہومر اور ورجل اور بالمیک خیال کرتے ہیں۔

آغا حشر کاشمیری کے سوانحی حالات اور ڈرامہ نگاری

متعلقہ سوالات اور جوابات

میر انیس کا اصل نام کیا ہے؟

میر ببر علی انیس

میر انیس کے اہم مشاغل ؟

ورزش اور سپہ گری

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں