میرا جی سوانح اور شخصیت
میراجی کی سوانح
میرا جی کا اصل نام محمد ثناء اللہ ڈار تھا۔ والد کا نام منشی مہتاب دین تھا، جو ریلوے میں سب انجینئر کے عہدے پر فائز تھے اور ملازمت کے سلسلے میں مختلف علاقوں اور مختلف شہروں میں قیام پذیر رہتے تھے۔ میرا جی کی پیدائش ۲۵ مئی ۱۹۱۲ ء کو لاہور میں ہوئی۔
والد کی ملازمت کی وجہ سے کسی جگہ جم کر ان کی تعلیم نہ ہو سکی اور وہ میٹرک بھی پاس نہ کر سکے۔ اس ابتدائی زمانے میں وہ سفر جو انہوں نے اپنے والدین کے ساتھ گجرات، ملتان، بلوچستان، سکھر دھا بے جی اور لاہور وغیرہ کے کیے ان کی شاعری اور فکر و نظر پر بہت اثر انداز ہوئے اور اس کا اعتراف وہ خود اپنی تحریروں میںاعلانیہ کرتے ہیں۔
میرا جی نے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا میں ساحری ، تخلص اختیار کیا مگر ایک ہندو بنگالی لڑکی میر اسین سے ناکام عشق کرنے کے بعد میرا جی تخلص کرنے لگے۔ اپنی ہزلیہ شاعری میں لندھور تخلص استعمال کرتے تھے۔ نثر میں بسنت سہائے اور بشیر چند کے فرضی نام اختیار کیے ۔ ن۔ م۔ راشد نے میرا جی کو ادبی گاندھی کا نام دیا تھا۔
شاعری اور نثر نویسی کے علاوہ انہوں نے ادبی دنیا ساقی دہلی، خیال بمبئی میں ادارت اور نائب ادارت کے علاوہ آل انڈیا ریڈیو دہلی میں بھی کام کیا۔ ۳ نومبر ۱۹۴۹ء کو بمبئی کے کنگ ایڈورڈ ہسپتال میں انتہائی بے بسی، کسمپرسی کے عالم میں وفات پائی اور بمبئی کے قبرستان میرن لائن میں دفن ہوئے ۔ جنازے میں صرف چار آدمی شریک ہوئے۔
میرا جی کی شخصیت
میرا جی بلا شب بیسویں صدی کے ربع دوم کے ذہین وفطین اور سمجھدار شاعروں میں سے ہیں لیکن شاعری پر کچھ کہنے سے پہلے ان کی شخصیت کے چند پہلو زیر نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ ان کی شخصیت کے انہی پہلوؤں نے ان کی شاعری پر براہ راست اور بالواسطہ اثر ڈالا ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی ان کے بارے میں رقم طراز ہیں: ”میرا جی کی ذات سے ایسے ایسے واقعات وابستہ ہیں کہ ان کی ذات عام آدمی کے لیے ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔ ان کا حلیہ اور حرکات و سکنات ایسی تھیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے سلسلہ ملامتیہ میں بیعت کر لی ہے۔ لمبے لمبے بال بڑی بڑی مونچھیں،
گلے میں ایک سو ایک موٹے دانوں کی دو گز لمبی مالا شیروانی جس کی کہنیاں ہمیشہ پھٹی ہوئی ہوتی تھیں ۔ اوپر نیچے بیک وقت تین پتلونیں اوپر کی جب میلی ہوگئی تو نیچے کی اوپر اور اوپر کی نیچے بدل جاتی ۔ شیروانی کی دونوں جیبوں میں بہت کچھ ہوتا تھا۔ کچھ دھلے ہوئے چیتھڑے ایک پائپ ایک کاغذ میں پائپ کا دیسی تمبا کو پان کی ڈبیا، ہومیو پیتھک دوائیں …”
میرا جی کے کم و بیش ہر ناقد اور تذکرہ نگار نے ان کی شخصیت کے بارے میں مختلف اور پر اسرار باتیں لکھی ہیں۔ ان تمام کی روشنی میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ میرا جی یا تو ایک ابنارمل انسان تھے یا بہت ہی چالاک اور شاطر کہ جس نے دوسروں کو دھوکے میں رکھنے کے لیے اپنے ارد گرد ایک پُر اسرار جال سا بن رکھا تھا۔
ان کے ایک اور وقائع نویس اور ناقد اعجاز احمد ان کی شخصیت کا تجزیہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
"بدن لاغر حلیہ غلیظ سیاہ اور سفید بالوں کی لمبی اور میلی لٹیں آپس میں یوں گتھی ہوئی کہ پُر اسرار راکھ کا ڈھیر لگے۔ چہرہ ستا ہوا آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں مگر تیکھی اور چمکیلی آواز پاٹ دار لہجہ تحکمانہ انگلیوں میں چھلے ہاتھوں میں مداریوں جیسے گولے جن پہ وہ سگرٹ کی خالی ڈبیوں میں سے نکال نکال کر چمکدار پنیاں چپکا تا رہتا تھا،
حتیٰ کہ وہ چاندی کے لگتے ۔ گفتگو میں جھوٹ بولنے کا مرض ذہن قتل اور خودکشی کے غضبناک خیالوں سے آٹا ہوا، تخیل گھناؤ نے جنسی افعال کے عکسوں سے پُر زندگی کے آخری سالوں میں اس نے اپنے آپ پہ کمال عیاری کے ساتھ ایسی ہیئت طاری کر لی تھی کہ دیکھنے والا اسے کچھ بھی سمجھ سکتا تھا۔ سادھو، نیوراتی, مجرم کسی فیکٹری کا ادنی ملازم, چلتی پھرتی لاش!
جب اس نے جوانی میں ہی انتقال کیا تو مرنے کی عمر اس کی ابھی نہ تھی مگر جینا اس کے ہو چکا تھا اور شاید بے معنی بھی اس کی زندگ یکی داستان دکھوں کی ایک پیچی ہے جس میں ہر رنگ کی کترن ملے گی اور شخصیت میں جھوٹ چالاکی ذہانت، علم عیاری درد سب کچھ ہے ایک شرابی افیونی اوباش شخص جو جنسی خود تشفی کا مریض تھا جس کی غلاظت، کمینگی اور محتاجی کے قصے بےشمار ہیں۔ اضداد کی اس پوٹ کے بارے میں وثوق کے ساتھ بہت کم باتیں کہیں جاسکتی ہیں۔”
اس طویل اقتباس سے میراجی کے بارے میں ہمیں بہت کچھ معلوم ہو جاتا ہے۔ وہ ایک غیر ذمہ دار اور بزعم خود وسیع المشرب انسان تھے جن کے نزدیک نہ مذہب کی کچھ اہمیت تھی اور نہ نیکی بدی کا کچھ مقام ! انہوں نے اپنی زندگی کو جس ڈگر پر ڈھالا تھا وہ نہ صرف خود ان کے لیے بلکہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی باعث عبرت اور بعض اوقات قابل رحم تھی۔ وہ ایک مغلوب الجنس انسان تھے جس کے پیش نظر کوئی ضابطہ اخلاق نہ ہو۔
شراب نوشی افیون خوری ، بھنگ نوشی وغیرہ وہ ان کے خیال میں کوئی قابل مواخذہ اعمال نہ تھے۔ زندگی بھر وہ خود اپنے ہاتھوں جوہر حیات کو مٹھیاں بھر بھر کے لٹاتے رہے اور کبھی شرم ساری کا احساس تک نہ کیا لیکن ہمیں یہاں میرا جی کو بہ حیثیت ایک شخص کے بجائے بہ حیثیت ایک شاعر کےدیکھنا چاہئے۔
مزید یہ بھی پڑھیں: میرا جی نقادوں کی نظر میں pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں