میتھیو آرنلڈ کے نظریات
میتھیو آرنلڈ 1822ء میں پیدا ہوا تھا۔ (ارسطو سے ایلیٹ تک صفحہ 411)اس کے والد ٹامس آرنلڈا اپنے زمانے کے ماہر تعلیم تھے۔ میتھیو آرنلڈ آکسفورڈ میں شاعری کے پروفیسر کے عہدے پر فائز تھا۔ میتھیو آرنلڈ سانت بیو سے متاثر تھا۔
میتھیو آرنلڈ انگریزی ادب کے لیے وہی کام کرنا چاہتا تھا جو سانت بیو نے فرانسیسی ادب کےلیے کیا تھا۔میتھیو آرنلڈ نے ادب و شاعری کو تنقید حیات کا نام دیا ہے۔
میتھیو آرنلڈ نے شاعری میں موضوع کی اہمیت پر زور دیا ہے اور رومانی شاعری کے انتہا پسندانہ رویہ کو مطعون کیا ہے۔
میتھیو آرنلڈ کا کہنا ہے کہ نقاد کو نہ تو کلاسیکیوں کے بندھے ٹکے اصولوں کی لکیر کا فقیر ہونا چاہیے اور نہ رومانیوں کی طرح سارے اصولوں سے بالاتر ہونا چاہیے۔
میتھیو آرنلڈ نے مطالعہ شاعری میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ شاعری کا مستقبل بہت روشن ہے۔اس دور میں جب عقائد متزلزل اور مذہب و فلسفہ بے اثر ہیں۔
شاعری ہی انسان کو تسکین دے گی اور ان دونوں کی جگہ لے لے گی۔ لیکن یہ کام وہی شاعری کر سکتی ہے جو اعلیٰ ہو۔ شاعری کو اعلیٰ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا معیار بلند ہو۔ نقاد کا کام یہ ہے کہ وہ ایسی شاعری کے لیے راہ ہموار کرے۔
میتھیو آرنلڈ شاعری کے کیے تنقید حیات کے الفاظ استعمال کر کے ارسطو کے لفظ نقل اور کولرج کے لفظ تخیل کو رد کرتا ہے۔
میتھیو آرنلڈ غیر جانب داری پر زور دیتا ہے۔میتھیو آرنلڈ ادب کو ایک سمندر تصور کرتا ہے جس میں ہر ملک اور ہر قوم کے ادب اگر گر رہے ہیں ۔میتھیو آرنلڈ تمام یورپ کے ادب کو ایک ہی تاریخی ارتقا کے تسلسل میں دیکھتا ہے۔
آرنلڈ کے نزدیک ادب کی تاریخ میں دو قسم کے دور آتے ہیں۔آرنلڈ شاعری کو فلسفہ و مذہب کا بدل سمجھتا ہے۔میتھیو آرنلڈ کے نزدیک شاعری کا مقصد اخلاقی ہے۔آرنلڈ کے مطابق شاعری تین قسم کی ہوتی ہے۔
آرنلڈ تیسری قسم کی شاعری کا نمائندہ شیکسپیر کو بتاتا ہے۔
میتھیو آرنلڈ شاعری کو پرکھنے کے لیے کسوٹی کا اصول بھی پیش کرتا ہے۔میتھیو آرنلڈ عظیم شاعری کو پہچاننے کے لیے فکری سنجیدگی کا اصول وضع کرتا ہے ۔میتھیو آرنلڈ کو چوسر اور برنس میں فکری سنجید گی نظر نہیں آتی ہے۔شیکسپیر، ملٹن اور اسپینسر گرے میں نظر آتی ہے۔
آرنلڈ تمام یورپ کے شاعروں کا تنقید حیات کے اصول سے مطالعہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سےگوئٹے اسے اس دور کا سب سے بڑا شاعر اور عظیم ترین نقاد نظر آتا ہے۔آرنلڈ شاعری کو موضوع کے لحاظ سے اہمیت دیتا ہے۔
میتھیو آرنلڈ کایہ فقرہ All depends on the subject انیسویں صدی کی تنقید پر حاوی ہے۔ میتھیو آرنلڈ نے اپنے عمر کے آخری حصے میں شاعری کو تنقید کا تابع اور پھر تنقید کو کلچر اور مذہب کا تابع بنانے پر زور دیا تھا ۔آرنلڈ کا عقیدہ یہ تھا کہ تنقید کی اصلاح کا کام کلچر سے شروع کرنا چاہیے۔
آرنلڈ کہتا ہے کہ ادب تنقید حیات ہے اور تنقید کا منصب یہ ہے کہ وہ زندگی کے تمام حالات و عوامل کا جائزہ لے۔
آرنلڈ کے نزدیک کلچر "بہترین” کے مطالعے کا نام ہے۔آرنلڈ کے نزدیک تنقید کا کام یہ ہے کہ وہ غیر جانبداری کے ساتھ تعصب سے بلند ہو کر دنیا میںجو بہترین خیالات پیش ہوئے ہیں، سیکھے اور انھیں پھیلائے۔
آرنلڈ کے نزدیک اشیا کو نہیں بلکہ خیالات کو آگے بڑھانا ہے۔آرنلڈ اپنے دور کے انگریزی سماج کی خود بینی اور تنگ نظری کو برا کہتا ہے ۔
آرنلڈ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمیں کلاسیکیت کو دوبارہ دریافت کرنا چاہیے۔فرانسیسی ادب آرنلڈ کے نزدیک کلاسیکی روح سے زیادہ قریب تھا۔
ٹی ایس ایلیٹ آرنلڈ کو کلاسیکی نقاد اور کولرج کو رومانی نقاد کہتا ہے۔میتھیو آرنلڈ کے مطابق شاعر کو مفکر ہونا ضروری ہے۔سانت بیو کی طرح آرنلڈ بھی تنقید کو ایک فن بنا دیتا ہے جو تخلیق سے کسی طرح کم اہمیت نہیں ہے۔
آرنلڈ ہیئت اور مواد کے درمیان توازن پر زور دیتا ہے۔آرنلڈ کے دو مضامین بہت اہم ہیں:
(1) شاعری کا مطالعہ
(2) تنقید کا منصب۔
میتھو آرنلڈ کل یورپی ادب کو ایک اکائی مانتا ہے اور اسے ایسے سمندر سے تشبیہ دیتا ہے جس میں چاروں طرف سے دریا آکر گرتے اور ختم ہو جاتے ہیں ۔
میتھیو آرنلڈ نے تخلیقی شعور کی بنیاد پر گوئٹے کو بائرن پر ترجیح دی ہے۔
مزید یہ بھی پڑھیں: میتھیو آرنلڈ کے حالات اور افکار pdf
بشکریہ ضیائے اردو نوٹ
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں