سعادت حسن منٹو کی حالات زندگی

خاندانی پس منظر

Summary of the post

The content reflects the life of Saadat Hasan Manto and his family. It covers various aspects such as his background,personal life, and his wife and children

سعادت حسن منٹوا ارمئی ۱۹۲۱ء میں ضلع لدھیانہ ( پنجاب ) میں پیدا ہوئے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کشمیر النسل تھا۔ ان کے آباؤ اجداد ۱۸ ہویں صدی کے اواخر اور 19 ویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ترک وطن کر کے پنجاب آئے ۔ اور لاہور کو اپنا جائے مسکن بنا لیا ۔

زیادہ تر کشمیریوں کی طرح شالبانی کو اپنا ذریعہ معاش بنایا ۔ ہجرت کرنے والوں میں پہلا نام خواجہ رحمت اللہ کا آتا ہے جنہوں نے لاہور میں سکونت اختیار کی اور اپنے کاروبار کی توسیع کے پیش نظر امرتسر کو مستقل طور پر اپنے رہنے کی جگہ بنالی اور پشت ہا پشت تک یہیں آباد رہے جب منٹو باشعور ہوئے تو وہاں منٹوؤں کا ایک پورا محلہ آباد ہو چکا تھا ۔ جو کوچہ وکیلاں کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس محلہ کا نام کو چہ وکیلاں اس لئے رکھا گیا کہ ان کے خاندان والے پیشہ تجارت چھوڑ کر پیشہ قانون اختیار کر چکے تھے اس خاندان کے پہلے بزرگ خواجہ رحمت اللہ کے سلسلے میں بیگم صفیہ منٹو نے ڈاکٹر برج برہمی کو جو تفصیلات مہیا کی ہیں۔


منٹو کے والد مولوی غلام حسن ۳ رفروری ۱۹۳۳ ء کو ستر سال کی عمر میں اس دار فانی سے رحلت فرما گئے ان کے انتقال کے وقت سعادت حسن کی عمر صرف بیس برس کی تھی ۔

منٹو کے والد نے دو شادیاں کی تھیں پہلی بیوی جان بی بی ( بڑی بیگم ) سے دس اولاد ہوئیں جن میں سے تین لڑکے اور سات لڑکیاں تھیں لڑکوں کے اسمائے گرامی محمد حسن ، سعید حسن اور سلیم حسن ہیں یہ تینوں منٹو کے سوتیلے بھائی تھے جن کی تعلیم ولایت میں ہوئی تھی ۔ وہ منٹو سے عمر میں بہت بڑے اور زیادہ تعلیم یافتہ تھے محمد حسن اور سعید حسن دونوں بیرسٹر تھے انہوں نے دو سال بمبئی میں پریکٹس کرنے کے بعد جزائر فجی میں پریکٹس شروع کر دی محمد حسن داڑھی رکھتے تھے انہیں حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی تھی لیکن منٹو ہر لحاظ سے ان تینوں سے مختلف تھے زندگی کا بیشتر حصہ تنگ دستی اور فاقہ کشی میں گذرا ۔ شراب پینا ان کے معمول میں تھا روشن خیال ہونے کی وجہ سے خدا کے وجود کا بھی انکار کرتے تھے گویا منٹو اور ان کے
بھائیوں میں کافی تضاد تھا چنانچہ کرشن چند ر لکھتے ہیں :


"منٹو وہ سب کچھ ہے جو اس کے بڑے بھائی نہیں ہیں”


منٹو کے بڑے بھائیوں نے کبھی ان سے چھوٹے بھائیوں ایسا سلوک نہیں کیا ۔۔۔۔۔والد کی سخت گیر طبیعت اور بھائیوں کی بے مروتی نے ان کی زندگی میں زہر گھول دیا تھا جس کا اثر ان کی تحریروں پر بھی ہے۔

منٹو اپنے والد کی دوسری بیوی چھوٹی بیگم سے تھے ان کا اصلی نام سردار بیگم تھا۔ کابل کی رہنے والی تھیں جہاں سے ان کا خاندان لاہور آگیا تھا سردار بیگم بچپن میں ہی یتیم ہو چکی تھیں اور ان کا عقد ہدایت اللہ نام کے شخص سے ہو چکا تھا۔ یہ شادی کسی وجہ سے کامیاب نہ رہ سکی اور لاہور ہی میں مولوی غلام حسن کے ساتھ ان کا دوبارہ عقد ہوا۔ ان سے منٹو اور ناصرہ اقبال پیدا ہوئے ناصرہ اقبال عمر میں منٹو سے کافی بڑی تھیں ۔ منٹو اپنی بے راہ روی کی وجہ سے ان سے بہت ڈرتے تھے وہ بمبئی میں ماہم میں رہتی تھیں ۔ منٹو کی والدہ صوم و صلوۃ کی پابند ، نیک دل اور نرم مزاج خاتون تھیںبقول منٹو :

"وہ بے حد نرم دل تھیں”

منٹو کشمیر النسل تھے ان کے آباؤ اجداد ، پنڈت نہرو اور علامہ اقبال کی طرح کشمیری پنڈت تھے ان کا تعلق برہمن کی سارسوات شاخ سے تھا اور ترک کشمیر کے بعد وہ پنجاب میں مقیم ہو گئے تھے منٹو کو کشمیری پنڈت ہونے کی وجہ سے ہی بے حد عقیدت رکھتے تھے وہ اپنے کشمیری ہونے کا دوستوں سے فخر یہ ذکر بھی کرتے تھے منٹو نے نہرو کے نام ایک خط میں کشمیری پنڈت ہونے کا ذکر یوں کیا ہے :

"میں آپ کا پنڈت بھائی ہوں ۔“تو ہم دونوں میں ایک چیز مشترک ہے کہ آپ کشمیری ہیں اور میں بھی آپ نہرو ہیں۔۔۔۔

خانگی زندگی

صفیہ بیگم سے منٹو کی شادی ان کی ماں اور ان کی بہن کی کوششوں کا ثمرہ تھا۔ شادی کے سلسلہ میں جب منٹو کی والدہ بھی آئیں تو ناصرہ اقبال کے یہاں ہی ٹھہریں تھیں منٹو کی حالت پر رحم کھاتے ہوئے یہ شادی کرائی گئی تھی ۔

منٹو اپنی بیوی صفیہ بیگم پر جان چھڑکتے تھے وہ اپنے احباب یعنی عصمت چغتائی ، شیام ، اشوک کمار اور شوکت حسین رضوی ( نور جہاں کے شوہر ) کے یہاں ضرور لے جایا کرتے تھے ان سبھی سے اچھے مراسم اور گھر یلو تعلقات تھے اشوک کمار کو منٹو جب پہلی بار اپنے گھر لائے تو اپنی بیوی سے ان کا تعارف کراتے ہوئے انہوں نے کہا:

یہ میری بیوی ہے ۔ دادامنی ۔ ہاتھ ملاؤ اس سے سفیہ اور اشوک دونوں جھینپ گئے ۔

میں نے اشوک کمار کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ ” ہاتھ ملاؤ دادامنی ، شرماتے کیا ہو۔۔۔

اولاد اور گھریلو زندگی

منٹو کی گھریلو زندگی قابل رشک تھی وہ اپنی بیوی اور اولاد سے بے انتہا پیار کرتے تھے ان کی تین بچیاں یعنی نکہت ، نزہت اور نصرت تھیں اور ایک بچہ عارف تھا عارف کا انتقال ڈیڑھ سال کی عمر میں ہوا۔ یہ واقعہ دہلی کا تھا منٹو نے اس واقعہ پر ایک دل ہلا دینے والا افسانہ ”خالد میاں“ لکھا ہے عصمت چغتائی نے میرا دوست ، میرا دشمن میں عارف کی موت کا منٹو کے حوالہ سے تفصیلی ذکر کیا ہے :

"ہسنے لگا بس صفیہ کو کچھ نہیں کرنا پڑتا تھا۔ دودھ پلانے کے سوا اس کا کوئی کام نہیں کرتی ۔ رات کو بس روئی رہتی ۔ میں چپ چاپ بچے کو دودھ پلوا لیتا ۔ اسے خبر نہ ہوتی ۔ مگر وہ مرگیا منٹو … یقین کیجئے چھ سات دن کا تھا کہ میں اسے اپنے پاس سلانےلگا میں اسے خود تیل مل کر نہلاتا ۔ تین مہینے کا بھی نہیں تھا کہ ٹھٹھے مار کر”

وفات

منٹو کے انتقال کے سات سال بعد صفیہ بیگم کا بھی انتقال ۶۲ سال کی عمر میں ہو گیا ۔ ان کی تینوں بیٹیاں نکہت ( اب نکہت پٹیل ) نزہت ( اب نزہت ارشد فاروقی ) اور نصرت ( اب نصرت شاہد جلال ) اللہ کے فضل سے باحیات ہیں ۔

دوران مطالعہ سب سے زیادہ زیر مطالعہ مقالہ، مقالہ برائے پی ایچ ڈی، منٹو کی افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ،مقالہ نگار:فیض الرحمن یہ مقالہ اپنی اصلی حالت میں ٹیم پروفیسر آف اردو کے ساتھ موجود ہے، مزید معلومات کے لیے رابطہ کیجیے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں