موضوعات کی فہرست
خلاصہ اور فکری جائزہ
فکری وفنی تجزیہ:اس افسانے کا مرکزی کردار ممد بھائی ایک علامتی کردار ہے اور اس کردار کے تمام کے تمام مکالمے استعاراتی ہیں اور یہ افسانہ حقیقت نگاری اور واقعیت نگاری کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ اس افسانے کا مرکزی خیال انسان دوستی اور اخلاقی رواداری ہے۔ ممد بھائی کا تعارف کراتے ہوئے منٹو لکھتے ہیں:
"ممد بھائی رام پور کا رہنے والا تھا۔ اول درجے کا پھیکیت، گتکے اور بنوٹ کے فن کا ماہر ۔ اس کے بارے میں عرب گلی میں بے شمار حکایتیں مشہور تھیں۔ ایسے چھری مارتا ہے کہ جس کے لگتی ہے کہ اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔ "
اس تعارف کے بعد ممد بھائی کا جو تصور ابھرتا ہے۔ غریبوں کا ساتھی، ناداروں کا دوست، کمزوروں کا مددگار۔۔ دو ایک چھریرے بدن کا آدمی ہے جس کی قیصر ولیم ( جرمنی کا بادشاہ) کی سی مونچھیں ہیں اس کی شخصیت اور انفرادیت کی ترجمان ہیں۔ ممد بھائی اپنی شلوار کے نیفے میں ایک ایسا آب دار خنجر اڑس کر رکھتا ہے جو استرے کی طرح شیو (Shave) کر سکتا ہے۔ یہ خنجر نیام میں نہیں ہوتا کھلا رہتا ہے بالکل ننگا اس کے پیٹ کے ساتھ اس کی نوک اتنی تیکھی ہے کہ اگر باتیں کرتے ہوئے جھکتے وقت اس سے ذراسی غلطی ہو جائے تو ممد بھائی کا کام ایک دم تمام ہو کے رہ جائے۔
منٹو بھی اسی کی "قلمرو” میں ایک کھولی کا مکین ہے ۔ وہ بیمار پڑا ہے اکیلا بے یارو مددگار اس کی حالت بہت غیر ہے۔ پریشان ہے کہ کیا کرے کہ ممد بھائی آدھمکتا ہے۔ وہ اس کی بیماری سے آگاہ ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی قلمرو میں کوئی بیمار ہو اور وہ نہ آئے وہ دشمنوں کے لیے موت ہے تو دوستوں کو زندگی بخشتا ہے۔ ڈاکٹر کو بلاتا ہے۔ ڈاکٹر تسلی دیتا ہے کہ مریض کو صرف ملیریا ہے۔ انجکشن لگاتا ہوں جلد ٹھیک ہو جائے گا۔ ڈاکٹر نے اپنا بیک کھولا اور ٹیکہ لگانے کے لیے سرنج نکالی۔ٹھہر ٹھہرو ممد بھائی چیخ اٹھا۔میں کسی کے سوئی لگتے نہیں دیکھ سکتا۔“
بظاہر وہ ایک ظالم بے رحم اور سنگدل قاتل مگر رحم دل اتنا کہ کسی کو سوئی لکھتے نہیں دیکھ سکتا اسے یہ کیسے گوارا تھا کہ ڈاکٹر سوئی بھی چھوئے اور پیسے بھی لے اور پھر پیسے لینے کے لیے منٹو ہی رہ گیا ہے ۔ اس شفقت اور مہربانی پر جب منٹو اس سے اس کی وجہ پوچھتا ہے کہ تم کو میرے بارے میں کیسے پتہ چلا تو وہ کہتا ہے۔ ممد بھائی کو کیا ومٹو (منٹو) بھائی کی مالی حالت کا علم نہیں تھا:
"سالا ہم کیا نہیں جانتا۔ تم امرتسر کا رہنے والا ہے کشمیری ہے۔ تم نے بسم اللہ ہوٹل کے دس روپے دینے ہیں ۔ بھنڈی۔۔۔۔ پھونک چکے ہو ۔میں پانی پانی ہو گیا۔”
ممد بھائی دادا (بدمعاش ) نہیں ۔ عرب گلی اور اس کے مضافات کا رابن ہڈ ہے ۔ اس کی کرخت مونچھیں، تیز خنجر ۔ درشت لہجہ اس کی انسانیت کو چھپانے کا روپ چھل ہے ۔ وہ ان لوگوں میں سے ہے جو نہیں چاہتے کہ ڈھول گلے میں ڈال کر اپنی ہمدردی کا اعلان کرتے پھر ہیں ۔ یہ لوگ دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہیں چپ چاپ ممد بھائی نا دار عورتوں کی مدد کرتا ہے مقروض ادیبوں کے قرضے چکاتا ہے۔ لاوارث مریضوں کے ہاں ڈاکٹر بھجواتا ہے اورصبح وشام ان کی عیادت کو آتا ہے مگر اس کے نام سے محتاج خانہ منسوب نہیں ۔ کسی ہسپتال کے وارڈ میں اس کے نام کا کتبہ نظر نہیں آتا اور اگر ومٹو بھائی نہ ہوتا تو سوائے چند موالیوں کے اس کا نام بھی کسی کو معلوم نہ ہوتا۔ ہاں پولیس کے روز نامچے میں ایک ایک شخص ممد بھائی کا نام ہے۔ جس نے ایک آدمی کو قتل کر دیا تھا۔
منٹو کے مطابق عرب گلی کی ایک عمر رسیدہ عورت شےین بھائی ممد کے پاس آہ وزاری کرتی ہوئی آتی ہے اور اسے طعنہ دے کر کہتی ہے تم اچھے اس علاقہ کے دادا ہو کہ تیری موجودگی میں ایک غنڈے نے میری بیٹی کی عزت لوٹ لی ۔ لعنت ہو تم پر کہ تم گھر میں بیٹے ہو۔ ممد بھائی نے استفسار کیا کہ اب تو کیا چاہتی ہے؟ بڑھیا نے جواب دیا میں یہ چاہتی ہوں کہ تم اس حرامزادے کا پیٹ چاک کر دو ۔“
ممد بھائی نے اپنے نیفے سے خنجر نکالا، اس پر انگوٹھا پھیر کر اس کی دھار دیکھی اور کہا:
” جا تیرا کام ہو جائے گا“
اور اس کا کام ہو گیا اور آدھ گھنٹے بعد اسے قتل کر دیا گیا۔ محممد بھائی گرفتار ہوا مگر کوئی چشم دید گواہ نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے روز وہ ضمانت پر رہا ہو کر آگیا۔ جب منٹو سے ملاقات ہوئی تو قدرے بجھا بجھا سا تھا کہنے لگا:
"و مٹو صاحب ! مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ سالا دیر سے مرا۔ چھر امارنے سے مجھ سے غلطی ہوگئی ۔ ہاتھ ٹیڑھا پڑ گیا ۔ … جس کا مجھے افسوس ہے ۔“ بقول ابو سعید قریشی ”
وہ ایک رحمدل جلاد ہے۔ اسے اس بات کا دکھ ہے کہ وہ اس سلیقے سے قتل نہ کر سکا اور مرنے والا اذیت ناک موت مرا۔ممد بھائی اب عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ وہ قید نہیں ہونا چاہتا کیونکہ اس کے مشیروں کو اندیشہ ہے کہ اس کی خوفناک مونچھیں ھج کو اس کے خلاف فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیں گی۔ چنانچہ دوسرے دن ممد بھائی نے اپنی جان سے عزیز مونچھیں منڈوا دیں کیونکہ اس کی عزت خطرے میں تھی ۔۔۔۔۔ لیکن دوسروں کے مشورے پر ۔”
عدالت نے اسے تڑی پار (صوبہ بدر) کی سزا دی لیکن اسے اس بات کا غم نہ تھا غم تھا تو اس بات کا کہ سزا مونچھوں کے ساتھ کیوں نہ ہوا۔اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جو اس کے مونچھوں بغیر چہرے پر کچھ عجیب دکھائی دے رہے تھے۔ ممد بھائی جیسا آدمی شاید پہلے کبھی بھی رویا ہوگا لیکن بہت ممکن ہے کہ مونچھوں کے احساس نے اس کے آنسوؤں کو آنکھ سے ٹپکہنے نہ دیا مونچھوں کے بہروپ کے بغیر اسکا نرم ونازک دل ننگا ہو گیا ہے شہر بھی چھوٹا اور مونچھیں بھی گئیں۔ مونچھوں کے بغیر اس کے چہرے کے نرم و نازک خد و خال عریاں ہو جائیں گے۔ اس کا دل عریاں ہو جائے گا اور یہ اس کے آئین کے خلاف ہے کہ آدمی اپنی دردمندی کا سائین بورڈ (Sign Board) ماتھے پر لگائے پھرے۔ اس کے علاوہ شاید اسے ایک اور بات کا بھی احساس ہے حالانکہ اس کا اس نے اظہار نہیں کیا اس کو کمال صفائی سے چھپا گیا ہے وہ یہ کہ اسے شہر بدر کر دیا گیا یہ کہتا ہے : "ان کو یہ غم نہیں، یہاں رہیں یا کسی اور جگہ ۔۔۔۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ اسے اس کا غم ہے ۔۔۔۔۔ کم از کم منٹو کو اسکا ضرور غم ہے ۔”
فنی جائزہ
فنی لحاظ سے ممند بھائی کوئی بہت بلند پایہ افسانہ نہیں۔ ممد بھائی کا کردارا اتنا صاف شفاف اور روشن نہیں ۔۔۔۔۔ کچھ دھندلا سا اور الجھا ہوا لگتا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ منٹو اس کے کردار کے ساتھ کما حقہ انصاف نہیں کر سکا لیکن منٹو کے شیطان فرشتوں میں اس کا اہم مقام ہے ۔ممد بھائی منٹو کا جانا پہچانا کردار ہے۔ منٹو نے اس کی کردار نگاری میں ذرا بھی ذہن پر زور نہیں ڈالا ۔ اس نے بڑی بے تکلفی سے اس کو پیش کر دیا ہے ایسے کردار عجوبہ نہیں ہوتے جو دوسروں کے کام آتے ہیں لیکن ان کی شخصیت کا پیچ وخم دلچسپ ہوتا ہے۔ یہ کہانی اردو ادب میں اپنے انجام کی وجہ سے زندہ رہے گی۔
ممد بھائی کا مونچھیں کٹوانا اور پھر اس پر تاسف کرنا، یہی اس کردار میں جان ڈالتا ہے۔
” اس افسانے میں کردار کی سچوایشن (Situation) ایجاد کرنے میں منٹو کا تخیل سو فیصد کامیاب رہا ہے ۔ پلاٹ میں برجستگی اور شائستگی ہے ۔ مکالمات تکلف اور تصنع سے عاری ہیں اور پورے کا پورا افسانہ عامیانہ اور بازاری زبان میں لکھا گیا ہے۔ تمام کردار اور خصوصاً اس افسانے کا مرکزی کردار ممد بھائی اپنے طبقے کی زبان بولتا ہے اور اسی لیے منٹو نے اس سے وہی باتیں کرائی ہیں جو ایسے لوگ انہی حالات میں کرتے ہیں۔ اس گفتگو میں بمبئی کے خاص ماحول اور خاص فضا کی مہک رچی بسی ہے اور اس مخصوص ماحول کی کمال تصویر کشی بھی کی ہے۔ یہی وہ خوبی ہے کہ جس کی بنا پر منٹو اپنے تمام ہم عصر افسانہ نگاروں میں منفر د ہے۔
مند بھائی ایک علامتی کردار ہے اور اس کردار کے سب مکالمے استعاراتی ہیں اور یہ افسانہ حقیقت نگاری اور واقعیت نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ حقیقت نگاری اگر اپنی منطقی انتہا کو پہنچ جائے تو یہ واقعیت نگاری کہلاتی ہے اور جب حقیقت نگاری اور واقعیت نگاری کے تناظر میں اظہار ممکن نہ رہے تو علامتی انداز اختیار کرنا پڑتا ہے۔علامتی کردار علامتی گفتار اور علامت ہی معیار اچھائی کو موثر اور بہتر ثابت کرنے کے لیے بڑے کرداروں کے منہ سے کلمہ خیر نکلوانا پڑتا ہے۔ یہی وہ تھیم (Theme) ہے جو کہ اس افسانے کے اندر موجود ہے۔ منٹو نے اپنے اس افسانے میں سماج کے ایک گھناؤنے کردار ممد بھائی ( بمبئی کا دادا) کو اچھائی اور خیر کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ وہ اپنے علاقے کا بہت بڑا بد معاش ہے مگر علاقے کے لوگوں کا سب سے بڑا خیر خواہ اور ہمدرد ہے۔ اسے علاقے کے لوگوں کے بارے میں ہر قسم کی معلومات اور ان کی نقل وحمل کی خبر ہے۔ وہ سب کی خوشیوں غموں اور مصائب و پریشانیوں میں ان کے کام آتا ہے مگر ہے وہ ایک دادا ایک غنڈہ۔ وہ لوگ اس کی درازی عمر کی دعائیں مانگتے ہیں۔ کیا عملی زندگی میں ایسا کردار میسر ہے؟ ہرگز نہیں ۔ یہ تو ایک فرشتہ صفت نیک طینت شخص کا کردار ہے جو کہ علامت کے طور پر منٹو نے افسانے میں استعمال کیا ہے۔منٹو نے اس افسانے میں بمبئی کی شناص فضا اور ماحول کی ترجمانی کی ہے اور اس نے اس افسانے میں اپنی مخصوص لفظیات کا بھی مظاہرہ کیا ہے جس کا وہ نہ صرف موجد ہے بلکہ اس کا ماہر بھی تھا۔ اس افسانے میں ممد سے جس زبان میں گفتگو کرائی و منٹو ہی قلم بند کر سکتاتھا۔ کم سے کم الفاظ میں بڑی سے بڑی بات کو دوٹوک الفاظ میں بیان کر دینا منٹو کی امتیازی وصف ہے۔ اس کے افسانوں میں عام طور پر عامیانہ زبان استعمال ہوئی ہے اظہار و ابلاغ کا یہ انداز منٹو کا خود ایجاد کردہ ہے۔ یہ اپنے کرداروں کی نفسیات سے بخوبی آگاہ ہے اور ان کی نفسیات اور نفسیاتی ضرورتوں کے مطابق ہی گفتگو کرتا ہے۔ اس کی عامیانہ زبان میں سادگی تو تھی ہی لیکن پر کاری بھی موجود تھی۔ اس افسانے کے مرکزی کردار ممد کی زبانی ایک مکالمہ ملاحظہ ہو:
"ممد بھائی کی مونچھیں تھر تھرائی ۔۔۔۔۔ اور مممد بھائی تم سے کہتا ہے کہ انشاء اللہ کوئی تمہیں تنگ نہیں کرے گا۔”
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں