ممتاز شیریں کی افسانہ نگاری

ممتاز شیریں کی افسانہ نگاری

ممتاز شیریں ستمبر ۱۹۲۳ء کو جنوبی ہند کے شہر ہند و پور میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام قاضی عبد الغفور تھا۔ ممتاز شیریں کی ابتدائی تعلیم وتربیت نانا نانی کے پاس میسور میں ہوئی۔ انھوں نے تیرہ سال کی عمر میں میٹرک کیا۔ ۱۹۲۳ء میں بی اے کے فوراً بعد صمد شاہین سے شادی ہو گئی۔

ممتاز شیریں ۱۹۵۴ء میں انگلینڈ گیں وہاں اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے جدید انگریزی ادب میں کورس کیا۔ ۱۹۵۵ء میں کراچی یونی ورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا۔ ممتاز شیریں نے صمد شاہین کے ساتھ مل کر رسالہ نیا دور کا اجرا کیا۔ ان کا پہلا افسانہ انگڑائی ساقی میں شائع ہوا۔ ممتاز شیریں کو اپنے شوہر کے ساتھ کئی ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ مارچ ۱۹۷۳ء کو کینسر کے مرض کے باعث انتقال کر کئیں ۔

افسانوی مجموئے:

اپنی نکگریا ۔ لاہور: مکتبہ جدید ، ۱۹۶۹ء
میگھ ملھار: کراچی : لارک پبلی کیشنز شرز ۱۹۶۲ء

ممتاز شیریں کا شمار اردو کے اہم ناقدوں میں ہوتا ہے ۔ ممتاز شیریں نے افسانہ نگاری کے میدان میں بھی اپنی فنکارا نہ صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں لیکن اردو کے بیشتر ناقدین ان کے تنقیدی مقام و مرتبے کے قائل ہیں اور ان کی اسی حیثیت کو فوقیت دیتے ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ بطور افسانہ نگار ان کا مقام و مرتبہ معین کرتے ہوئے ان کے اپنے تنقیدی نظریات و تصورات کو سامنے رکھا گیا ہے۔

اس سلسلے میں یہ امر بھی اہمیت کا حامل ہے کہ انھوں نے اپنے افسانوی مجموعوں کے آغاز میں طویل دیباچے لکھ کر اپنے فکرو فن کا خود تجزیہ کیا ہے۔ انھوں نے بحیثیت نقاد اپنے تنقیدی و نظریات کے عملی اطلاق کا اعتراف کیا ہے اور اپنی وسیع معلومات اور مطالعے کی روشنی میں تکنیکی تجربات کی کوشش کی توضیح پیش کیا ہے۔

اپنی نگریا افسانے از ممتاز شیریں | pdf

محمد سلیم الرحمن ممتاز شیریں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ افسانہ لکھتے وقت انکو جو دشواری پیش آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ شعوری طور پر کئی چیزیں اپنے ذہن پر طاری کریتی ہیں۔ خیر کا احساس، علامت نگاری، منصوبہ سازی اور عصری ادبی تقاضوں کو افسانے تحریر کرتے وقت پیش نگاہ رکھتی ہیں وہ بھی اپنے آپ کو نہیں چھوڑتیں بلکہ عجیب عجیب معلومات کی سخت بندشوں
کے ساتھ مسلک رکھتی ہیں۔

ممتاز شیریں کے دو افسانوی مجموعوں "اپنی نگر یا” اور "میکھ ملھار” میں افسانوں کی کل تعداد بارہ ہے جس میں محدوده نوعیت کے موضوعات ہیں۔ ان موضوعات میں سے بھی بعض میں پآسانی مماثلت تلاش کی جاسکتی ہے۔ ان کے ہاں تین غالب رجحانات دیکھے جاسکتے ہیں۔ پہلا مضبوط اور مستحکم رجحان ازدواجی زندگی کی پیش کش ہے جس کے بارے میں محمد حسن عسکری نے کہا تھا کہ ایک لحاظ سے تو ان کے افسانے شادی کے ادارے کا پروپیگنڈا ہیں3 ۔

ان کے اس رجحان کے حامل افسانوں میں مرد دیوتا کی مانند ہے اور عورت اس کی خدمت میں داسی کی طرح پیش پیش رہتی ہے۔ یہ مشرق کی روایتی عورت کا وہ روپ ہے جس میں مجازی خدا کے لیے خلوص، ایثار، اور وفا کے جذبے لٹا کر زندگی کو جنت بنانے کی خواہش شدت سے جنم لیتی ہے۔ آئینہ ، گھنیری بدلیوں میں، اپنی نگریا ” ، ” رانی” شکست ، آندھی میں چراغ ” کی داسیوں کے نام جدا لیکن والہا نہ اُلفت کا انداز یکساں ہے۔ ممتاز شیریں کے ہاں رشتہ ازدواج میں منسلک فریقین میں سے عورت کی ترجیحات محسوسات اور اس کی فطری رومان پسندی کا عکس افسانوں میں جھلکتا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ کیجیے:

"اب وہ بھی اُسے تڑپائے گی ۔ وہ بھاگ کر دالان میں جا چپھی، وہ اُسے کمرے میں نہ پا کر کتنا مضطرب ہو جائے گا۔ وہ بھی دن بھر اُس سے دور رہ کر کتنا بےچین رہا ہوگا۔ وہ اُسے دیوانہ وار سب کمروں میں ڈھونڈتا پھرے گا۔ پھر جب وہ دالان میں مل جائے گی تو کتنی بے تابی سے اسے اپنے بازؤں میں جکڑے گا کچھ دیر تک وہ کچھ بول ہی نہ سکے گا۔ پھر وہ جھک کر آہستہ سے کہے گا نجمی میری جان !” 4

ڈاکٹر فردوس انور قاضی ممتاز شیریں کے انداز تحریر کے متعلق لکھتی ہیں کہ ممتاز شیریں کا اگر کوئی اپنا انداز، رجحان یا رنگ ہے تو وہ رومانیت ہے۔ 2

ازدواجی زندگی کا ایک رخ عورت کا ماں کے منصب پر فائز ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں کفارہ “ اور ” آندھی میں چراغ ” کے عنوان سے دو افسانے لکھے گئے ہیں۔ اگر چہ ان کہانیوں کی پیش کش کا انداز اور انجام مختلف ہے۔ اس کے با وجود آندھی میں چراغ ” موضوعاتی اعتبار سے کفارہ کی توسیعی شکل محسوس ہوتا ہے ۔

کفارہ اساطیر کے ذریعے تخلیقی عمل مکمل کرنے کی سعی ہے۔ یہ ممتاز شیریں کے ذاتی المیے پر مبنی کہانی ہے ۔ ممتاز شیریں کا کہنا ہے کہ کفارہ “ میں ایک خالص ذاتی تجربہ ، ایک وسیع تر مفہوم کا حامل ہو گیا ہے اس میں ایک ذاتی المیے کو تاریخی اور اساطیری تلمیحات میں پھیلا کر گناہ اور کفارے کے مذہبی احساس پر منتج کیا گیا ہے ۔ 1

کفارہ میں ماں ( جو کہ ممتاز شیریں خود ہیں ) دوران زچگی اپنا بچہ کھو دیتی ہے اور آندھی میں چراغ “ میں بچے کے ساتھ عورت بھی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے ۔

بچے ممتاز شیریں کے ہاں دوسر رجحان سماجی اور معاشی تضادات کے حوالے سے نظر آتا ہے۔ ان کے بعض افسانوں میں ترقی پسندوں کے شعوری و لاشعوری اثرات نظر آتے ہیں ۔ اس ضمن میں ان کے افسانے شکست ، رانی ” آندھی میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔

شیریں کتھا ممتاز شیریں کی آپ بیتی افسانے مترجم افسانے اور خطوط | pdf

اردو افسانے کی روایت اور پاکستانی خواتین افسانہ نگار ص 312

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں