مشتاق احمد یوسفی حیات و شخصیت کے چند پہلو
مشتاق احمد یوسفی کا شمار اردو کے ایک بلند پایہ اور قابل قدر ادیب ، صاحب طرز نثر نگار اور صف اول کے مزاح نگار کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ اگر چہ ان کی تصانیف کی تعداد زیادہ نہیں صرف پانچ ہے لیکن محض کثرت تصانیف، عمدگی معیار کی ضامن نہیں ہوتی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمہ جہت موضوعات پر اظہار خیال ، مواد کی نیرنگی اور زبان اسلوب پر مہارت اور کمال نے انہی پانچ تصانیف پر انھیں
اردو کا عظیم انشائیہ نگار اور عہد حاضر کا بہترین طنز و مزاح نگار تسلیم کر لیا ہے۔مشتاق احمد یوسفی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نہایت ذہین و فطین اور محنتی طالب علم تھے ، انھوں نے اس یونیورسٹی سے قانون میں گریجویشن ( ایل ایل بی ) اور فلسفہ میں ایم اے کیا تھا۔
اس زمانے میں علی گڑھ کے طلبا اپنی ذہانت و طباعی ، حاضر دماغی، حاضر جوابی اور دور اندیشی میں یکتا اور تحریر و تقریر، سیاست و خطابت اور اسپورٹس وغیرہ میں ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ مشتاق احمد یوسفی ان میں سے بہترین صفات سے بدرجہ اتم متصف تھے لہذا علی گڑھ سے واپس جانے کے بعد اپنی عملی اور پیشہ ورانہ زندگی میں ترقی کرتے کرتے وہ ملکی و بین الاقوامی سطح کی گراں مایہ شخصیت اور بے بدل ادیب بن گئے ۔
اس لیے یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مختصر ترین حالات زندگی اور شخصیت کی تعمیر میں کارفرما بعض عناصر کی مربوط شکل میں نشاندہی کر دی جائے ۔مشتاق احمد یوسفی راجستھان کے قصبہ ٹوٹک کے رہنے والے تھے۔ ان کے مورث اعلیٰ کئی صدی قبل افغانستان سے ہندوستان کے شہر جے پور، راجستھان میں آکر بس گئے تھے ( راجستھان کو اس زمانے میں راجپوتانہ کہا جاتا تھا ) اور تبھی سے ان کے آبا و اجداد وہیں رہائش پذیر تھے۔
ددھیالی اعتبار سے مشتاق احمد یوسفزئی پٹھان تھے۔ یوسف زئی پشتون کا سب سے بڑا اور مشہور قبیلہ ہے۔ یوسفی کے والد کا نام عبد الکریم خان یوسف زئی اور دادا کا نام ملنگ خان یوسف زئی تھا۔ یوسف زئی کی خاندانی نسب کے سبب مشتاق احمد کے نام کے ساتھ یوسفی کا اضافہ ہوا۔ والدہ محترم کا نام مسعود جہاں تھا ننھیلی سلسلے سے یوسفی نومسلم راجپوت ( راٹھور ) تھے۔
ان کی اصل زبان مارواڑی تھی جو اردو سے خاصی مختلف تھی لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آکر یہاں کی خستہ و شائستہ اور معیاری اردو کے ماحول میں رہنے کے سبب وہ اس کی شیرینی سے بہت متاثر ہوئے ۔ انھوں نے اردو زبان سیکھنے اور اسے اپنا بنانے میں بہت صحت و ریاضت کی۔ جبلی طور پر وہ غیر معمولی اکتسابی قوت کے مالک تھے ۔ لغت و فرہنگ کو انھوں نے اپنا دیرینہ رفیق خاص بنا لیا تھا اور زندگی بھر اس سے شغف رہا۔
خزانہ الفاظ میں مسلسل اضافے کے ساتھ ساتھ زبان و بیان اور اسلوب میں مہارت اور عروض، بیان اور بدیع سے بھی اچھی واقفیت پیدا کرتی تھی اور ان تمام وجوہ سے وہ اردو کے عظیم الشان ادیب اور صاحب طرز نثر نگار بن سکے۔مشتاق احمد یوسفی کا آبائی شہر جے پور تھا جو صدیوں پرانی را جاؤں ، مہارا جاؤں اور ان کے محلات کی مرتب منظم اور شاندار ریاست تھی اور اب یہ گلابی شہر پنک سٹی کہلاتا ہے۔ اس شہر کے مختلف دروازے ہیں مثلا چاند پول گیٹ ،
چار دروازہ ( جس میں بہت وسیع و عریض چورا ہے پر آمنے سامنے چاروں طرف ایک ایک گیٹ بنا ہوا ہے اس لیے اسے چار دروازہ کہتے ہیں ) ، اجمیری گیٹ اور سانگا نیری گیٹ وغیرہ۔ اسی سانگا نیری دروازے کے اندرونی علاقے میں مشتاق احمد یوسفی کے والد کی محل سرا تھی جس میں نسلوں سے ان کے آبا واجد اور ہائش پذیر تھے۔یوسفی کے والد عبد الکریم خان صاحب، اس دور کے ایک پڑھے لکھے ، ہوشیار، سمجھ دار اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے مقبول اور با اثر شخص تھے ۔
انھوں نے ۱۹۱۴ ء میں مہاراجہ کالج جے پورے ( جو اس وقت آگرہ یو نیورسٹی سے ملحق تھا ) بی اے کیا تھا ۔ وہ جے پور میونسپل بورڈ کے دو بار میئر ( چیئر مین ) بھی رہے تھے اور راجستھان اسمبلی کے ممبر (ایم ایل اے ) اور ریاست ٹونک کے پالیٹیکل سکریٹری بھی رہ چکے تھے۔
وہ بہت نیک متقی پرہیز گار، دیانتدار، پابند شریعت صاف گو، صاف دل، بے باک، بے ریا اور قائدانہ صفات کے حامل تھے۔ اثر ورسوخ کے اعتبار سے بھی ان کا گھرانہ معاشرہ میں ممتاز مقام رکھتا تھا ۔ مشتاق احمد کی شخصیت پر ان تمام اوصاف کا گہرا اثر پڑا ۔ ان کی ذاتی و اکتسابی صفات و خصوصیات اس پر مستزاد تھیں ۔
مشتاق احمد کی والدہ بھی سیدھی سادی، دیندار، نیک طبیعت ، خوش مزاج، پڑھی لکھی ، مطالعہ کی شوقین اور اچھا ذوق رکھنے والی خاتون تھیں۔ انھوں نے بچپن میں جو کتابیں پڑھی تھیں ان میں شوکت آرا بیگم ناول انھیں اتنا پسند آیا کہ بڑے ہو کر انھوں نے اس ناول کے کرداروں کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھے ۔
چنانچہ بڑے بیٹے یوسفی کا نام پیارے میاں اور مشتاق احمد ، چھوٹے بیٹے کا اچھنن اور ادریس رکھا ۔ دونوں بیٹیوں کے نام فردوس اور شوکت آرا بیگم رکھے ۔ایسے علمی و تہذیبی ماحول میں اتنی شاندار والدہ کے بطن سے ۴ را گست ۱۹۲۳ ء کو راجستھان کی تاریخی و علمی ریاست ٹونک میں مشتاق احمد یوسفی کی ولادت ہوئی ۔ اس ریاست کے قیام کو اس سال ( ۲۰۱۹ ء میں ) دوسو سال مکمل ہو رہے ہیں ۔
یعنی یوسفی کی پیدائش سے ۱۰۴ سال قبل اس ریاست کا با قاعدہ قیام عمل میں آچکا تھا۔ اس طرح اس آیسے (ریاست) کی ایک خاص علمی ، ادبی اور تاریخی حیثیت ہے۔ ٹونک میں ان کا مکان بہت وسیع وعریض حویلی کی شکل میں تھا۔ والدین محترمین کی سر پرستی کے۔۔۔
پروفیسر سید محمد ہاشم، رسالہ فکر و نظر، علی گڑھ
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں