مستنصر حسین تارڑ کا ناول راکھ کا تجزیہ

مستنصر حسین تارڑ کا ناول راکھ کا تجزیہ

DEPARTMENT URDUStudent Name ZAHOOR ALAMReg# SU-20-01-136-009Program: PhD UrduCourse: Tehqeeq ka FanTeacher: Prof Dr Imtiaz

"مستنصر حسین تارڑ” سفرنامہ نگاری کے میدان میں اپنے فن کا لوہا منوا کر جب ناول نگاری جیسے وسیع کینوس رکھنے والے فن کی طرف آئے تو یہاں بھی لازاوال ادب پارے اردو ادب کے دامن میں ڈال گئے۔ان کے کئی ایک ناول اردو ناول کے ناقدین سے ڈھیروں داد وصول کر چکے ہیں جن میں ،پیار کا پہلا شہر،بہاؤ، قلعہ جنگی اور راکھ وغیرہ شامل ہیں۔یہاں ہم ان کے ناول راکھ کے حوالے سے گفتگو کریں گے جسے 1999 میں بہترین ناول کے زمرے میں وزیر اعظم ادبی ایواڈ کا مستحق گردانا گیا۔

گیبرئل گارشیا مارکیز نے ناول کو بجا طور پر خفیہ کوڈ میں بیان کی گئی حقیقت قرار دیا ہے یعنی ناول وقت کے سلگتے، سیاسی،سماجی،اور تہذیبی حقائق کو Coded انداز میں بیان کرنے کا عمل ہے اور یقناً ایک ایسی بسیط صنف ہے جو اپنے وسیع اور تہہ دار کینوس میں عہد کی تمام تر احساساتی آویزشوں کو آسانی سے جذب کر لیتی ہے۔

جب ہم مستنصر حسین تارڑ کے ناول "راکھ” کا مطالعہ کرتے ہیں تو پہلی حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ تارڑ کی یہ تحریر ایک دانشورانہ کوہ پیمائی ہے جس میں فکری تسلسل اور وحدتِ نمو کی خصوصیت وجود ہےجو کہ یقیناًایک بسیط طرز احساس کی دین ہے۔وطن عزیز کی پہلی نصف صدی سے زائد سیاسی سماجی اور تہذیبی تاریخ کو ناول کے پیکر میں ڈھال دیاگیا ہے۔

اس میں موجود ایسے سفاک حقائق بھی ناول نگار کے نوک قلم پر آگئیں ہیں جو بظاہر تو معمولی دکھائی دیتی ہیں مگر دراصل یہ اس وطن پر گزری وہ قیامتیں ہیں جنھیں شاید خالصتاً کسی تاریخ کی کتاب میں نہیں سمویا جا سکتا۔یہ اس ناول کا ایک نمایاں پہلو ہے لیکن اس کے علاوہ بھی اس ناول کے چند چھپے پہلو ہیں جنھیں افسانوی ناقدین نے قابل اعتنا نہیں سمجھا۔

اس ناول کا کینوس Cosmic ہے اور ناول کی اپیل آفاقی ہے۔ ناول کا انداز اور اسلوب Pictorial Tale ہے۔ایسے مقامات پر ناول نگار مستنصر پر ڈراما نگار مستنصر غالب دکھائی دیتاہے۔ایک منظر کے دھندلانے سے پہلے اس پر دوسرا منظر اوور لیپ کرنا شروع کردیتاہے۔

ناول کے پلاٹ میں اتفاقات اور حوادث کو ایک پُر اسرار نہ دکھائی دینے والے عنصر کی طرف منسوب کرکے ناول نگار نے دوستو فسکی، وکٹر ہیگو، اور گارشیا مارکیز کے اسلوبِ نگارش کی یاد تازہ کردی ہے۔ناول کے پلاٹ میں کہانی پن عنصر کم ہے۔اس میں شعور کی رو یقیناً موجود ہے لیکن اس سطح اور شدت کے ساتھ نہیں جس طعح کے ورجینا ولف کے ناولوں میں پائی جاتی ہے۔

ناول میں کسی بھی مقام پر نہ تو ماورا واقعیت کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا انداز سپاٹ اور ہموار ہے بلکہ ناول نگار نے اپنے اسلوب نگارش میں Flash Back کی تکنیک کو بڑی کامیابی سے برتا ہے۔ حیوانیت بمقابلہ انسانیت دنیا بھر کے ادب فلسفے اور نفسیات کا ایک اہم موضوع ہے۔تارڑ نے اس ناول میں اس تھیم کی نئی جہات کو دریافت کیا ہے۔

شناخت کا بحران ،تشخص کی تلاش،کرداری کجی ،عمل کی نا استواری،ناپائیداری ،تنگ نظری اور تعصب کی آگ اور بحیرہ روم کو بار بار عبور کرنا اس ناول کا مستقل خیال ہے۔اس کے علاوہ دستبرداری اور جنسی نامردانگی اس ناول کی دوسری اہم تھیمز ہیں۔ناول نگار یقیناً یہ بات اچھی طرح جانتاہے کہ جنسی مردانگی کی کیفیت بعض اوقات تخلیق ،روحانی اور تخیلی قوت میں بدل جاتی ہے۔

دوسرے مغربی پاکستانی آفسروں کی طرح "مردان”کو اس طرح کی صورت حال کا سامنا سابق مشرقی پاکستان میں ہوتاہے اور ایسا یقیناً ان سخت ترین صدمات کی وجہ سے ہوا ہے۔جو مردان اور دوسرے آفسروں کی اپنی فوجی زندگی میں دیکھنا پڑ ے۔سابق مشرقی پاکستان نے ایک مجموعی پاگل پن کو جنم دیا۔اس سے Impotence کا جنم لینا ناگزیر تھا۔مشاہد کی Impotence بھی ذہنی نوعیت کی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یورپ میں کھلے مواقع ہونے کے باوجود وہ Tom Jones بننے کی کوشش نہیں کرتا۔اس کی نامردانگی کا سلسلہ اس انگریز لڑکی تک وسیع ہوتا چلا گیاہے جو اس کی مردانہ وجاہت کی اسیر تھی لیکن اس کے درمیان جنسی ملاپ کسی صورت بھی نارمل اور نیچر ل نہیں تھا۔

ناول کی بارے میں ایک سوال بھی پڑھنے والوں کے ذہنوں میں جنم لیتاہے کہ آیا”راکھ”ایک المیہ ہے ؟ارسطو کے اصولوں پر پرکھا جائے تو یہ المیہ نہیں ہے لیکن اگر ہم المیے کا وہ مفہوم اخذ کریں جو فرائڈ نے وضع کیا ہے تو یہ ناول ہر زاویے سے المیہقرار پائے گا۔یہاں ناول کی خصوصیت کا تذکرہ بھی ناگزیر ہے کہ اس میں وہ تمام المیاتی رفعتیں موجود ہیں جو شیکسپئر کے King Lear کا خاصہ ہیں۔

دنیا کی بے ثباتی اور زند گی کی لایعنیت کا مرکزی خیال بھی ناول کی رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ناول میں کئی مقامات ایسے بھی آتے ہیں جہاں یاسیت اور قنوطیت کی کیفیت نمایاں ظاہر ہوتی ہے مگر تارڑ کے نقطۂ نظر کا یہ میوہ کسی Absurd دنشوروں سے مستعار نہیں بلکہ اس کی بجائے یہ خوابوں اور آدرشوں کی راکھ ہے جو اسے اپنے اردگرد بکھری دکھائی دیتی ہے۔اس کی وجہ سے اس نے یہ نقطۂ نظر اختیار کیا ہے۔

ناول کی ابتدائیہ غیر روایتی، وسط روایتی اور گرافک ہے۔اس کے اختتام پر قنوطیت کی کیفیت کا غلبہ ہے۔ناول نگار کے جادوئی حقیقت نگار قلم نے ناول کو Fact اور Fiction حسین امتزاج بنا دیا ہے۔ہمارے خیال میں اس کا مرکزی موضوع انسانی وجود کی کم مائیگی کے بالمقابل وقت کی لامحدود قوت ہے۔

جس کی وسعتوں کو کسی پیمانے سے ماپا نہیں جا سکتا۔وقت جو کہ ایک برق رفتار گریز پا اور سیال حقیت ہے اور جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ، ؎ ہر ایک سے آشنا ہوں لیکن جدا جدا رسم و راہ میری کسی کا راکب، کسی کا مرکب، کسی کو عبرت کا تازیانہوقت فرد اور معاشرے کے چہرے پر اس کی فرد عمل کے حوالے سے ان مٹ نقوش ثبت کر جاتاہے ۔

ناول نگار نے اسی نقطۂ نظر کو تخیل سے ایک زندہ ادبی شاہکا ر میں منتقل کردیاہے۔اس ناول کی کہانی واقعات کی بجائے کرداروں کے توسط سے آگے بڑھتی ہے۔کہانی واقعات کا ہی مجموعہ نہیں ہوتی اس کیفیت کا نام بھی ہے جو کردار کے تحت الشعور میں واقع ہو رہی ہو۔

ان میں سے کچھ کردار مثلاًمشاہد، مردا، زاہد کالیا، ڈاکٹر ارشد فاطمہ، برگیتا، سی ڈی حسین وغیرہ ناول نگار کے ذہن کی تخلیق ہیںاور کچھ کردار جیسا کہ سعادت حسن منٹو، مولانا صلاح الدین احمد،خورشید شاہد، ملک معراج خالد، جنرل یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، اے کے نیازی، ٹکا خان، بلیک بیوٹی اور جنرل ضیاء الحق جانے پہچانے کردار ہیں۔

ان میں بعض Idealists تو ہیں لیکن Utopians نہیں وہ یہ تو چاہتے ہیں کہ چیزیں مختلف Shapeاختیار کریں لیکن وہ نہیں جانتے کہ کس طرح؟بعض اوقات وہ شکست کھاجاتے ہیں لیکن پھر فوراً ہی سنبھل جاتے ہیں اور Impudent Activist بن جاتے ہیں۔ ہارڈی کے کرداروں کی طرح ان میں سے بعض کردارایسے ہیں جن میں تباہی کے جراثیم موجود ہیں۔اس ناول کے بعض کردار عام عوام کی سطح سے ہٹ کرہیں۔

یہ کردار اپنی ذات میں جزیرے ہیں یہ معاشرے سے گھل مل جاتے ہیں پھر بھی اپنی شناخت برقرار رکھتے ہیں۔اس ناول کے بعض کرداروں کا المیہ یہ ہےیہ ان لوگوں کے درمیان گھرے ہوئے ہیں جن کی حسیات مکمل طور پر مشروط ہیں۔وہ نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں۔

شاید اس لیے کہ وہ حقیقت کا سامنا نہیں کر سکتے ۔وہ چاہتے ہیں کہ جب تک وقت اور حالات اجازت دیں وہ اس غیر حقیقی ماحول میں ہی زندگی بسر کرتے رہیں۔تارڑ صاحب نے مرکزی کردار مشاہد کی زندگی کے واقعات کی کڑیاں ناول کے درمیانی حصے سے ملاتے ہوئے اس کا شب و روز کا احوال سنایا ہے۔

مشاہد نے زندگی بسر نہیں کی بلکہ زندگی نے اسے بسر کیا ۔حالات اور واقعات نے اسے مختلف سانحات سے گزار کر ایک مخصوص شناخت عطا کردی ہے۔مشاہد ناول کا واحد مرکزی کردار ہے جسے ہم سرتاپا جانتے ہیں۔اس کا بچپن اتنا تفصیلی بیان ہوا ہے کہ ہم اسے Dickens کے کردارDavid Copperfield یا Pip یا پھر مارکیز کے ناول One Hundred Years Of Solitude کے Auyrliano Segundos کے برابر رکھ سکتے ہیں۔

مشاہد ایک ایسا کردار ہے جو بیک وقت دو دنیاؤں میں سفر کر رہا ہےایک بے چین روح کی طرح جو اندرون کا سفر اپنے باطن میں ہے طے کر رہا ہے۔دوسرا مایوسیوں اور فرائض سے بھری اس دنیا کا سفر۔ وہ ایک تغیر پذیر کردارRound Character)) ہے جو ہمارے سامنے کئی منزلیں طے کرتاہے۔ایک شرمیلے لڑکے سے ایک شریر لڑکا ایک اوریج طالب علم سے ایک ایسے Puppy کی صورت میں جسے انگلستان کی Bitches کے درمیان کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔

مشاہد کے علاوہ مردان، زاہد کالیا، ڈاکٹر ارشدفاطمہ اور مشاہد کی بیوی اس ناول کے جاندار ، متحرک اور فعال کردار ہیں۔جو اپنی تمام تر ذہنی اور جسمانی توانائیوں کے باوجود سماجی دباؤ کے سامنے اندر ہی اندر سلگتے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔

مردان بہت ے نفسیاتی پیچیدگیوں میں جکڑا ہوا کردار ہے۔مشاہد کے ساتھ مردان بھی اپنے کندھے پر اپنی صصلیب اٹھائے Site Of Crucification کی طرف بڑھ رہا ہے۔وقت کی ستم شعاریوں اور تاریخ کے جبر کا شکار بر گیتا، مشاہد اور مردان جیسے کردار اپنے ماضی سے جان نہیں چھڑا سکتے کہ وہ حساس ہیں اور ہر حساس آدمی ہونے کی سزا یہ ہوتی ہے کہ اس کا ماضی اس کے ساتھ چپک کر رہ جاتاہے اور وہ چاہتے ہیں بھی اس سے جان نہیں چھڑا سکتے۔

ناول کے کردار مردان اور زاہد کالیا ایسے معمے ہیں جو دائمی لعنت کے قفس میں مقید ہیں۔وہ اس قفس سے بار بار باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں جو حالات و واقعات نے ان کے ارد گرد بن دیا ہے۔زاہد کالیا ایک سرد و گرم چشید ہ کردار ہےجو بظاہر ایک عیاش اور لاپروا شخص کے روپ میں ہمارے سامنے آتاہے لیکن اس کے دل میں سرزمین وطن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔

حالات کت جبر نے اسے موقع پرستی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔زاہد کالیا کا کردار وقت حالات و واقعات کی چکی میں پس کر متشکل ہوا ہے۔ناول کے کرداروں میں ڈاکٹر ارشدایک ایسا کردار ہے جو اپنے آپ کوعام معاشرے سے کاٹنے کی کوشش کرتاہوئے ذات کے سیاہ غار میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتاہے لیکن Self Righteous معاشرے سے ایسا کرنے نہیں دیتا ناول میں ایک کردار تھانیدار شاہ صاحب کا بھی جو روزہ کرکھ کر نوجوانوں کو اپنی نگرانی میں ہندوؤں کا دکانیں لوٹنے کی اجازت دیتے ہیں اور اسےنہایت اجر و ثوات کاکام سمجھتے ہیں۔

یہ کردار سی ڈی حسین ہے جو اپنے عوام کا منتخب کردہ نام نہاد معزز نمائندہ ہے او رجو برکت مسیح کے خاندان کا مذہبی بنیادوں پر استحصال کرتاہے اور اسی استحصال پر اپنی دولت اور اقتدار کی بنیاد رکھتا ہے۔ناول نگار نے جس زوال آمادہ متعفن معاشرے کا نقشہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے وہ معاشرہ سی ڈی حسینوں کا معاشرہ ہے۔تھانیدا صاحبوں کامعاشرہ ہے اور زاہد کالیوں کا معاشرہ۔

"راکھ” ان غیر معمولی اور منفرد لوگوں کے بارے میں لکھا گیا ناول ہے جو اپنی اپنی آہنی دیوراروں میں مقید ہونے کے باوجود Non-Entity نہیں ہوتے بلکہ ہر لمحے اپنے ہونے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔یہ عالمی معیار کا ایک ایسا ناول ہے جسے محض پاکستان کی تاریخ تک محدود کردینا ایک بہت بڑی ناانصافی ہوگی۔

اس میں بے انت پھیلاؤ اور وسعت موجود ہے جو کہ زمانی بھی ہے اور مکانی بھی۔بعض اوقات قاری کے لیے اس پھیلاؤ کو سمیٹنا مشکل ہو جاتاہے۔ناول اپنی کاٹ تندی اور تیز دھار کی وجہ سے ہمارے ضمیر کو تکلیف دہ انداز میں جھنجھوڑتا ہے۔اس چیز کو ہم ناول کی اہم ترین خوبیوں میں شمار کرسکتے ہیں ۔

ناول نگار کے لہجے میں کہیں کہیں بے باک اور Boldness کا عنصر در آیا ہے لیکن شاید یہ ناول کے بین السطور فلسفہ حیات کا ناگزیر تقاضا ہے۔تارڑ نے اس ناول میں اردو نثر کو نئے اسلوب نئے قواعد سے روشناس کرایاہے۔اس نے ماضی جاری کے لیے ماضی استمراری کا Tense استعمال کرکے Continuity کو کسی حد تک ایک جگہ جامد کردیا ہے۔

جب ہم اس ناول کی مجموعی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کا عنوان "راکھ” ایک بامعنی علامت کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ مشاہدے کی گہرائی اور منظر نگاری کا عمل انتہائی شاندار ہے۔

مکالمہ نگاری کے لحاظ سے بھی یہ ایک کامیاب ناول ہے۔زاہد کالیا کے مکالمے جس سلیقے اور تواتر سے کہانی کی بنت میں شامل کیے گئے لہیں اس ناول کی فضا میں بیک وقت خوشگوار مزاح اور تحیر اور تشکیک کا امتزاج ہوگای ہے۔”راکھ” بلا شبہ ایک حیرت کدہ اور طلسم خانہ ہے۔

اس کی دہلیز پر قدم رکھنے والا اس کی حیرتوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ تارڑ کی تحریر میں اُزبک چشموں کی ٹھنڈک، ثمر قند و بخارا کے گلابی جاڑوں کی آنچ قازق بھیڑوں کی اون کی نرمی اور تاجک ندیوں کی روانی ہے۔اس ناول میں جمود اور عملی کے شکار معاشروں میں تحرک اور تموج پیدا کرنے کی بھر پور صلاحیت موجود ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں