محمد حسین آزاد کی حالات زندگی، خاندانی پس منظر، ادبی کارنامے اور تنقیدی نظریات
موضوعات کی فہرست
محمد حسین آزاد کی حالات زندگی (1830-1910) اور خاندان پس منظر
نام محمد حسین تھا اور آزاد تخلص۔آزادز والحجہ 1245ھ مطابق 10 جون 1830 کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔ آزاد کا انتقال 22 جنوری 1910 کو لاہور میں ہوا اور حالی نے قطعہ تاریخ وفات کہا ہے ۔
آزاد کا خاندان ایران سے کشمیر آیا تھا اور شاہ عالم ثانی آفتاب کے عہد میں دہلی آگیا تھا۔
آزاد کے دادا کا نام محمد اکبر والد کا محمد باقر اور والدہ کا امانی بیگم تھا۔محمد باقر دلی کالج میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہیں 1828ء میں مدرس مقرر ہوئے تھے ۔
محمد باقر نے ایک اخبار دہلی اخبار کے نام سے 1836ء میں جاری کیا تھا جسے اردو کا پہلا اخبار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جو 10 مئی 1840 سے نام میں ذراسی تبدیلی کے ساتھ دہلی اردو اخبار کے نام سے شائع ہونے لگا تھا۔
20 اپریل 1848 سے دہلی اردو اخبار پرمحمد حسین (آزاد) کا نام مہتمیم کی حیثیت سے آنا شروع ہوا تھا۔ 12 جولائی 1857ء کو بہادر شاہ ظفر کی تجویز پر دہلی اردو اخبار کا نام بدل کر اخبار الظفر رکھ دیا گیا تھا۔
محمد باقر پر دہلی کالج کے پرنسپل مسٹر راس ٹیلر کےقتل کے الزام کی وجہ سے دہلی اردو اخبار 13 ستمبر 1857ء کو بند ہوا تھا۔
محمد باقر جمیل جالبی کے مطابق اس قتل کے الزام کی وجہ سے پھانسی پر چڑھائے گئے تھے اور نورالحسن نقوی کے مطابق انھیں گولی مار کر موت کی سزادی گئی تھی۔
محمد باقر جمیل شیخ ابراہیم ذوق کی شاگردی اختیار کی تھی اور سفر ایران سے واپس آکر ان تھک محنت کر کے دیوان ذوق مرتب کر کے اسے اپنےخرچ سے چھپوایا تھا۔
آزاد پہلی اور آخری بار ایران 1885 میں گئے تھے۔ حکومت ہند نے محمد حسین آزاد کو شمس العلما کا خطاب 1887 میں دیا تھا۔
آزاد جون 1890 کو ملازمت سے سبکدوش ہوئے تھے اور 6 جون سے پچاس روپے ماہوار ان کی پنشن مقرر ہوگئی تھی۔
30 اگست 1892ء کو گورنر جنرل کی سفارش پر وزیر ہند نے 75 روپے ماہوار کی خصوصی پنشن اور منظور ہوئی تھی۔آزاد کے چودہ بچے ہوئے تھے مگر صرف ایک آغا محمد ابراہیم زندہ بچے تھے۔
آزاد کو اردو کا پہلا تاریخ نویس مانا جاتا ہے۔
محمد حسین آزاد کے ادبی کارنامے
محمد حسین آزاد کے کارنامے آب حیات 1880: پہلا ایڈیشن 1880 ، دوسرا ایڈیشن 1883 آب حیات اردو شعرا کا تذکرہ ہے جس سے ایک طرف ادبی تاریخ نویسی کا راستہ کھلتا ہے اوردوسری طرف اردو زبان کی عہد بہ عہد ترقی کی تصویر سامنے آتی ہے۔
در بارا کبری 1898
اس میں جلال الدین اکبر بادشاہ ہندوستان اور اس کے دربار کے جلیل القدر امرا کے حالات و واقعات درج ہیں۔ ہے۔
سخن دان فارس
یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ اردو زبان میں فارسی زبان وقواعد سے متعلق ۔
ڈرامہ اکبر 1922
اس میں شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں کی داستان عشق کو اردو ڈرامے کے روپ میں پیش کیا گیا ہے
سیر ایران
آزاد نے سفر ایران کے دوران جو روزنامچہ یاداشتوں کے طور پر لکھا تھا تا کہ بعد میں اس کی بنیاد پر اپنا سفر نامہ لکھ سکیں۔ اسے آزاد کے پوتے نے ان کی وفات کے بعد لاہور میں ایران پر دیے ہوئے کلچر کے ساتھ سیران ایران کے نام سے شائع کیا ۔
دیوان ذوق 1832
اس میں 3412 غزلیں ہیں ۔ آزاد کے دیوان ذوق کا خاتمہ ان الفاظ میں ہوتا ہے کہ الہی تو جانتا ہے آزاد نے جو کچھ کیا نیک نیت اور پاک عقیدت سے کیا ہے اور تیرے حکم سے کیا ہے اس خدمت کو قبول کر ۔
مکاتیب آزاد
مقالات مولانا محمد حسین آزاد، مرتب: آنا محمد باقر (تین جلدیں) آزاد کی شاعری کے دو مجموعے ہیں۔
نظم آزاد 1899
یہ مجموعہ جدید اردو شاعری کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
(دلچسپ جملہ)نظم آزاد کے سرورق پر لکھا ہے کہ "نظم آزاد جو حسن و عشق کی قید سے آزاد ہے ۔” مجموع نظم آزاد ہی میں مثنوی شب قدر اور وہ لیکچر جو 15 اگست کو نظم اور کلام موزوں کے باب میں خیالات کے موضوع پر انجمن پنجاب کے جلسہ میں دیا گیا تھا شامل ہے ۔
خم کدہ آزاد 1932
اس میں وہ غزلیات ، قطعات اور قصائد شامل ہیں جو آزاد نے نظم آزاد سے پہلے کہے تھے اور جو رنگ قدیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس مجموعے میں جذب دوری کے عنوان سے ایک آزاد نظم بھی شامل ہے۔
آزاد کی نظمیں
شب قدر، صبح امید ، حب وطن، خواب امن، دار انصاف، وداع انصاف، تشنج قناعت، ابر کرم ، جذب دوری، پیاری بلی ، خطاب به قلم ، دوستی، نوطرز مرصع ، الوالعزمی۔
محمد حسین آزاد کی تنقیدی نظریات
شعر کے متعلق آزاد کی رائے ہے کہ "شعر ایک پر تو روح القدس کا اور فیضان رحمت الہی کا ہے کہ اہل دل کی طبیعت پر نزول کرتا ہے ۔”
آزاد شعر کو خیالی باتوں کا مجموعہ اور گلزار فصاحت کا پھول بتاتے ہیں ۔آزاد کا کہنا ہے کہ ہمارا شاعر اپنے ملک کی چیزوں کو نظر انداز کر کے ملک سے باہر نظر دوڑاتا ہے۔
اسے دجلہ و فرات تو نظر آتے ہیں گنگا جمنا دکھائی نہیں دیتیں۔ نسرین نسترن، شمشاد و صنوبر اسے بھاتے ہیں مگر گلاب، چمپا، چمیلی کی اسے خبر نہیں ۔
محمد حسین آزاد کے متعلق مختلف آرا و خیالات
کلیم الدین احمد نے آزاد کی تنقید کا سب سے بڑا عیب ان کی انشا پردازی کو بتایا ہے ۔
محمد حسین آزاد نے اردو تنقید نگاری کی بنیاد رکھی مگر ٹیڑھی ۔ پھر بھی یہ کیا کم ہے کہ انھوں نے بنیاد رکھی تو( ڈاکٹر احسن فاروقی )
آزاد میں تنقید کا مادہ بالکل نہیں تھا ۔ ( کلیم الدین احمد)
رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے کہ آزاد کی عبارت میں بھاشا کی سادگی اور بے تکلفی، انگریزی کی صاف گوئی اور فارسی کی حسن کاری سب یک جان ہو گئی ہے۔
شبلی نے آزاد نے آزاد کے بارے لکھا ہے ا ہے کہ آزاد گپ بھی ہاانک دے تو وحی معلوم ہوتی ہے ۔
"محمد حسین آزاد نثر میں شاعری کرتے ہیں اور شاعری کرتے ہوئے نثر لکھتے ہیں۔ (رام بابو سکسینہ )۔
مزید یہ بھی پڑھیں: محمد حسین آزاد کے تنقیدی نظریات آب حیات کے حوالے سے مقالہ،شہناز.pdf
بشکریہ ضیائے اردو نوٹ
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں