مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کا خلاصہ اور تنقیدی جائزہ

مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کا خلاصہ اور تنقیدی جائزہ

مثنوی کدم راؤ پدم کا تنقیدی جائزہ

نظامی بیدری اور کدم راؤ پدم راؤزمانہ تصنیف 825 ھ اور 839 ھ مطابق 1421ء 1435 ء کا درمیانی حصہ)مثنوی کدم راؤ پدم راؤ اردو زبان کی پہلی طبع زاد مثنوی ہے۔

مثنوی کدم راؤ پدم راؤ بہمنی دور کے پہلے شاعر فخردین نظامی کی تخلیق ہے جس کا تخلص نظامی ہے۔جمیل جالبی کے مطابق نظامی سلطان احمد شاہ بہمنی (نواں بادشاہ) کے دور میں بیدر میں سکونت پذیر تھے۔

نصیر الدین ہاشمی کے مطابق نظامی سلطان احمد شاہ کے درباری شاعر تھے۔مثنوی کدم راؤ پدم راؤ احمد شاہ بہمنی کے دور ہی میں لکھی گئی ۔

اس کا زمانہ تصنیف 825ھ 1421ء اور 839ھ 1435 ء کا درمیانی حصہ ہے۔مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کا تعارف سب سے پہلے مجلہ معارف میں نصیر الدین ہاشمی نے کرایا اور اس کا نام بھی تجویز کیا۔

مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کو جمیل جالبی نے ترتیب دے کر ایک طویل مقدمے کے ساتھ 1973 ء میں انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی سے شائع کرایا تھا۔

مثنوی کدم راؤ پدم راؤ میں اشعار کی تعداد 1032 ہے اور 1033 واں شعر نا مکمل ہے۔

یہ مثنوی بحر متقارب مثمن محذوف الاآخر فعولن فعولن فعل یا فعول کے وزن میں لکھی گئی ہے۔مثنوی کدم راؤ پدم راؤ میں ہندی اور مقامی الفاظ کی بہتات ہے۔

مثنوی کدم راؤ پدم راؤ بحر متقارب مثمن محذوف الآخر یا مقصور الآخر یعنی فعول فعولن فعول میں ہے۔مثنوی کدم راؤ پدم راؤ میں ہندی اور مقامی الفاظ کی بہتات ہے۔

جمیل جالبی نے کدم راؤ پدم راؤ کی اولیت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے: "اس دور کی سب سے پہلی تصنیف جو اب تک دریافت ہوئی ہے فخر دین نظام کی کرمراؤ پدم راؤ ہے۔

"مثنوی کے دو مرکزی کرداروں کے نام پر اسے کدم راؤ پدم راؤ نام دے دیا گیا ہے۔مثنوی کدم راؤ پدم راؤ میں اہم کردار کدم راؤ پدم راؤ اور اکھر نا تھ جوگی ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں: اردو مثنوی تعریف، مفہوم، اقسام اور تفصیلی ارتقاء

مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کا خلاصہ

اس مثنوی کا قصہ کدم راؤ اور پدم راؤ کے کرداروں پر مشتمل ہے ۔

کدم راؤ ہیرا نگر کا راجا ہے اور پدم راؤ اس کا وزیر جو ایک ناگ ہے اور کدم راؤ کی عنایت سے اس کے سر پر پدم بھی موجود ہے۔

ایک دن کی بات ہے کہ کدم راؤ دیکھتا ہے کہ ایک اعلاذات کی ناگنی ایک ادنی سے سانپ کو ڈیال سے جوٹ یعنی میل کھا رہی ہے۔

یہ ماجرا دیکھ کر کدم راؤ آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور تلوار سے سانپ کو مار دیتا ہے جس سے ناگنی کی بھی دم کٹ جاتی ہے۔ اور وہ پاس کی ایک جھاڑی میں چلی جاتی ہے۔ کرم را ؤ وہاں سے پژمردہ ملول ہو کر اپنے محل میں آتا ہے اور چپ چاپ اپنے بستر پر لیٹ جاتا ہے۔

رانی جب کدم کی یہ حالت دیکھتی ہے تو وہ اس کے پاس جا کر اس کی اداسی کا سبب پوچھتی ہے۔

رانی کے بہت اصرار کے بعد وہ اس سے ناگنی اور کوڑیال کا چشم دید واقعہ سناتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ عورت ذات کی وفاداری سے اس کا بھروسہ اٹھ گیا ہے۔

رانی کدم راؤ کو بہت سمجھاتی ہے کہ ہر عورت ایک جیسی نہیں ہوتی ۔

وہ تو ہمیشہ اس کی وفادار داسی بن کر رہی ہے لیکن رانی کی باتوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے اور وہ دنیا سے بیزار ہو جاتا ہے اور جوگیوں اور سنیاسیوں کی صحبت اختیار کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔

وہ لوگوں سے کسی با کمال جوگی کو ڈھونڈھ کر لانے کا حکم دیتا ہے۔ لوگ اکھر ناتھ نام کے جوگی کو اس کے پاس لاتے ہیں۔

اکھر ناتھ اس کے سامنے اپنا کمال دکھاتا ہے اور لوہے کو سونا بنا دیتا ہے ۔ کدم راؤ اس سے بہت خوش ہوتا ہے اور اسے انعام و اکرام سے نوازتا ہے اور اس سے یہ فن سکھانے کی فرمائش کرتا ہے۔

جوگی اکھر ناتھ کدم راؤ کو دھنور پید اور امر بید سکھاتا ہے۔ اور راجا سے ایک طوطا لانے کو کہتا ہے۔ راجا محل سے رانی کے پالے ہوئے طوطے کو پھل کھلاتے ہوئے جوگی کے پاس لاتا ہے ۔

جو گی اکھر نا تھ سے اپنی روح کو کدم راؤ کے جسم میں اور کدم راؤ کی روح کو طوطے کے جسم میں منتقل کر دیتا ہے۔ اور خود جوگی اکھر ناتھ را جا بن کر حکومت کرنے لگتا ہے۔

کدم راؤ طوطا بن کر ادھر ادھر مارا مارا پھرتا ہے۔ ایک دن اڑتے اڑتے اسے اپنا محل نظر آتا ہے اور وہ محل میں پدم راؤ کے پاس آتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ وہ راجا کدم راؤ ہے لیکن پدم راؤ کو اس کی بات پر یقین نہیں آتا ہے۔

تب وہ اس سے ساری راز و نیاز کی باتیں بتاتا ہے جو صرف کدم راؤ اور پدم راؤ ہی کو معلوم ہوتی ہیں۔

یہ سن کر پدم راؤ اپنا پھن کدم راؤ کے قدموں میں ڈال دیتا ہے اور دونوں آپس میں راز و نیاز کی باتیں کرتے ہیں۔

ایک رات جب اکھر ناتھ گہری نیند میں سو رہا ہوتا ہے تو پدم راؤ چپکے سے اس کے انگوٹھے میں ڈس لیتا ہے جس سے اس کی موت ہو جاتی ہے۔

کرم راؤ امر بید کی مدد سے پھر اپنے جسم میں اپنی روح منتقل کر لیتا ہے اور اپنے اصلی روپ میں آکر اپنی حکومت سنبھال لیتا ہے۔

اس خوشی میں چھ مہینے تک جشن منانے کا سلسلہ جارہی رہتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دیاشنکر نسیم کا تنقیدی شعور مثنوی گلزار نسیم کے حوالے سے آرٹیکل pdf

بشکریہ ضیائے اردو نوٹس

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں