مثنوی قطب مشتری کا خلاصہ اور تنقیدی جائزہ

مثنوی قطب مشتری کا خلاصہ اور تنقیدی جائزہ

ملا اسد اللہ و جہی

(پیدائش 1566ء ۔ وفات 1659ء)نام اسد اللہ اور خلص و جہی تھا۔ملا وجہی کے تخلص کے سلسلے میں ڈاکٹر جمیل جالبی کا مانا ہے کہ انہوں نے وجہی، وجیہی اور وجیہہ تینوں تخلص استعمال کیے ہیں ۔

جمیل جالبی کے مطابق قطب مشتری میں ہر جگہ تخلص وجیہی آیا ہے لیکن سب رس میں ہر جگہ وجہی لکھا ہے۔وجہی ابراہیم قطب شاہ کے دور میں گولکنڈہ میں 1566ء میں پیدا ہوئے۔

وجہی نے اپنے ایک فارسی شعر میں اپنی جائے پیدائش ہندوستان اور آبائی وطن خراسان بتایا ہے۔جمیل جالبی کے مطابق وجہی کی تاریخ وفات 1070ھ مطابق 1659ء ہے۔

وجیی محمد قلی قطب شاہ کا درباری شاعر تھا۔قلی قطب شاہ نے وجہی کو ملک الشعرا کے اعزاز سے نوازا تھا۔

وجہی نے چار بادشاہوں یعنی

(1) ابراہیم قطب شاہ

(2) محمد قلی قطب شاہ

(3) محمد قطب شاه

(4) عبد اللہ قطب شاہ کا زمانہ دیکھا تھا۔وجہی کو نظم و نثر دونوں پر یکساں قدرت حاصل تھی۔

سب رس میں وجہی نے اپنی زبان کو زبان ہندوستان کہا ہے۔طبعی وجہی کا بہت بڑا مداح تھا۔

وجہی کے کارنامے

(1) قطب مشتری 1018ھ 1609 گولکنڈہ کی پہلی طبع زاد مثنوی ہے۔

(2) سب رس 1045ھ 1635 اردو کی پہلی نثری تمثیلی کتاب ہے ۔

(3) تاج الحقائق کو بھی مولوی عبدالحق نے وجہی کی نثری تصنیف قرار دیا ہے لیکن کسی نے یہ تحقیق پیش کی ہے کہ یہ گجرات کے ایک بزرگ شاہ وجہ اللہ کا کارنامہ ہے۔

ان کے علاوہ ایک فارسی دیوان دیوان و جہیہ ہے۔

قطب مشتری کا تنقیدی جائزہ

(1018ھ مطابق 1609ء)قطب مشتری گولکنڈہ کی پہلی طبع زاد مثنوی ہے۔

قطب مشتری ملا اسد اللہ جہی نے 1018ھ مطابق 1609ء میں بادشاہ یعنی قلی قطب شاہ کیفرمائش پر لکھی۔

وجہی نے اس کا سن تصنیف مندرجہ ذیل شعر میں بیان کیا ہے:

تمام اس کیا دیس بار امنے

سنہ یک ہزار ہور اٹھارا منے

1018چونکہ اس مثنوی میں قلی قطب شاہ اور مشتری کے عشق کی داستان ہے۔ اس لیے اس کا نام قطب مشتری رکھا گیا ہے۔

قطب مشتری کو سب سے سے پہلے مولوی عبد الحق نے مرتب کیا۔مثنوی قطب مشتری میں فن شاعری کے متعلق ایک باب بعنوان "در شرح شعر گوید” بھی ہے۔

مثنوی قطب مشتری میں قصے کے درمیان کئی غزلیں اور رباعیاں بھی ہیں ۔ یہ غزلیں قطب شاہ اور مشتری کے لیے لکھی گئی ہیں۔ اور یہ غزلیں ہندی گیتوں کے رنگ میں ہیں۔

ملا وجہی نے قطب مشتری میں فرضی داستان کو بیان کیا ہے ۔ لیکن حقیقی واقعہ اس سے مختلف ہے۔

مثنوی قطب مشتری میں شہزادے کا نام قطب ہے اور اسی مناسبت سے مشتری، زہرہ ، عطارد،‏ مریخ، مہتاب بہت سے نام ہیں جو کہ سیاروں کے نام ہیں۔

قطب مشتری کو وجہی نے صرف 12 دن میں مکمل کیا تھا ۔

مثنوی قطب مشتری کے کردار بھی 12 ہیں ۔ابراہیم قطب شاہ ہیرو کے والد ہیں۔

محمد قلی قطب شاہ ہیرو ہے۔مشتری ہیروئن ہے جو مثنوی میں بنگالے کی شہزادی ہے۔

زیرہ جو حضرت داؤد سے زیادہ خوش الحان ہے، مشتری کی بہن ہے اور ساتھ ہی مریخ خاں کی محبوبہ بھی۔

مریخ خاں جو حلب کے بادشاہ ، شاہ سرطان کے وزیر اعظم اسد خاں کا بیٹا ہے۔

عطارد جو اپنے زمانے کا لاثانی مصور ، ہیرو کا راز دار اور مشیر ہے جس کی رہنمائی سے قطب شاہ اور مشتری کے درمیان کٹھن منزلیں طے پاتی ہیں۔

اسد خان جو حلب کے بادشاہ کا وزیر اعظم اور مریخ کا باپ ہے۔

شاہ سرطان حلب کا بادشاہ ہے۔

میروان: مشتری کی دائی اور رازدار ہے۔

مہتاب پری: جو شہزادہ پر عاشق ہوئی تھی

۔سلکھن پری جو کہ مہتاب پری کی کنیز اور رازدار ہے وہ مہتاب کی خدمت میں ستارہ بن کر رہتی تھی۔

مریخ خان: را کشش کے قید میں تھا۔قلی قطب شاه: مریخ خاں کے ساتھ بنگالہ روانہ ہوا تھا۔

بکٹ پہاڑ: جہاں پر ایک بڑا اژدھا رہا رہتا تھا۔

قلعه: جہاں ایک راکشش رہتا تھا جس میں سمندر جیسی سات خندقیں تھیں۔

شہزادہ بارہ افراد کو لے کر قلعہ کی طرف روانہ ہوا تھا۔شہزادے نے خنجر سے اژدہے کو مارا تھا۔

شہزادہ اور عطار د سوداگر بن کر سفر پر روانہ ہوئے تھے۔

قطعہ گلستان جو پریوں کا علاقہ ہے یہاں مہتاب پری شہزادے پر عاشق ہو جاتی ہے۔

شہزادہ نے مہتاب پری کو اپنی انگوٹھی نشانی کے طور پر دی تھی ۔

مشتری عطارد کے ساتھ اپنی پسند کے سیاہ گھوڑے پر سوار ہو کر شہزادے سے ملنے گئی تھی۔

قطب مشتری کے قصے کی حقیقت

حقیقی واقعہ مختصراً یوں ہے کہ گولکنڈہ سے تقریباً چھ میل کے فاصلے پر ایک بستی چچلم کے نام سے آباد تھی جہاں اب چار مینار، جامع مسجد ، مکہ مسجد، لاز بازار اور شاہ علی بنڈہ وغیرہ واقع ہے۔ قطب شاہ زمانہ شہزادگی میں گھوڑے پر سوار ہو کر یہاں اکثر شکار و تفریح کے لیے آیا کرتا تھا۔

اس زمانے میں اس کی نظر بھاگمتی پر پڑی اور وہ اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر فریفتہ ہوگیا ۔ پھر اس کا معمول بن گیا اور وہ روزانہ تفریح کے بہانے یہاں آنے لگا۔

ایک دفعہ موسم برسات میں رود موسی میں بڑی طغیانی آئی جب وقت مقررہ پر وہ قلعہ سے نکل کر ندی کے کنارے پہنچا تو دیکھا کہ ندی زور و شور سے بہہ رہی ہے۔ اور اس کا ندی پار کرنا امر محال ہے لیکن جذبہ عشق سچا تھا۔

اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ گھوڑے کو دریا میں ڈال دیا اور اپنے محبوب سے جا ملا۔

اس واقعہ کی اطلاع جب شہزادہ کے والد ابراہیم قطب شاہ کو ملی تو وہ پریشان ہو گیا اور اس نے فوری حکم دیا کہ موسی ندی پر ایک پل تعمیر کیا جائے چنانچہ موجودہ پرانا پل 1986ء اس واقعہ مشق کی یادگار ہے۔

شہزادہ جب بادشاہ ہوا تو اس نے بھاگمتی سے شادی کر لی اور اس کی محبت میں 1998ء میں ایک نئے شہر کی بنیاد ڈالی۔

بھاگمتی کے نام پر اس نے اس نئے شہر کا نام بھاگ نگر رکھا۔ اور شادی کے بعد محمد قلی قطب شاہ نے بھاگمتی کو رواج کے مطابق مشتری کا خطاب دیا۔

وجہی نے مثنوی میں اصل واقعات کو ذرا سا بدل کر بیان کیا ہے اور یہ تبدیلیاں بھی قلی قطب شاہ کی ہی خواہش پر کی گئی ہیں۔

قطب مشتری کا خلاصہ

ابراہیم قطب شاہ کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ دعاؤں کے بعد ایک چاند سا بیٹا پیدا ہوا۔ جوان ہوا تو اس کے حسن اور بہادری کی دھوم مچ گئی۔ ایک رات خواب میں اس نے ایک پری رو کو دیکھا اور ہزار جان سے خوابوں کی شہزادی پر عاشق ہو گیا ۔

اب جو آنکھ کھلی تو عجب عالم تھا۔ سوائے رونے کے اسے کوئی چیز نہیں بھاتی تھی۔ بادشاہ کو معلوم ہوا تو بہت پریشان ہوا۔ شہزادے کے لیے کرنا ٹک ، گجرات ، چین اور ایران کی دوشیزاؤں کو جمع کیا اور کہا:

قطب شہ کوں جو کوئی تہ رجھائے گی بڑا مرتبہ سب میں وہ پائے گی لیکن شہزادہ پر کسی کا جادو نہ چلا۔ بادشاہ نے شہزادہ سے کرید کرید کر پوچھا تو اس نے خواب کا واقعہ سنایا ۔

اب تو بادشاہ کو اور فکر دامن گیر ہوئی اس نے مشورہ کے لیے عطارد کو طلب کیا ۔

عطارد اپنے زمانے کالا ثانی مصور اور ساری دنیا کا سفر کیے ہوئے تھا جس کا دلچسپ مشغلہ عورتوں کی تصویر میں جمع کرنا تھا۔

بادشاہ کی بات سن کر عطارد نے کہا کہ اس وقت دنیا کی حسین ترین دوشیزہ بنگالے کی شہزادی مشتری ہے۔ اس کی ایک بہن زہرہ ہے جو حضرت داؤد سے زیادہ خوش الحان ہے۔ اس نے کہا کہ مشتری کی ایک تصویر بھی اس کے پاس ہے۔ تصویر لا کر بادشاہ کو دکھائی ۔ بادشاہ نے شہزادہ کو دکھائی ۔

شہزادہ تصویر دیکھ کر پہچان گیا کہ یہی وہ خوابوں کی پری ہے ۔ اب شہزادہ اور عطارد سوداگر بن کر سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔

کہیں پہاڑ جیسے اثر دیوں سے مقابلہ ہوتا ہے کہیں عامل و عابد سے ملاقات ہوتی ہے اور کہیں بادشاہ مغرب کی بیٹی سے۔ چلتے چلتے ایک ایسے مقام سے بھی گزرتے ہیں جہاں ایک راکشش رہتا تھا۔ شہزادہ اس کے قلعے کی طرف جاتا ہے تو وہاں اسے ایک آدم زاد ملتا ہے۔ وہ اسے بتاتا ہے کہ یہ راکشش جہاں بھی آدم زاد کو دیکھتا ہے پکڑ لیتا ہے اسے بھی اس نے قید کر رکھا ہے ۔

اور وہ حلب کے بادشاہ سرطان خان کے وزیر اعظم اسد خان کا بیٹا ہے ۔ مریخ خان نام ہے ۔ خواب میں ایک پری رو کو دیکھ کر عاشق و دیوانہ ہو گیا ہے۔

اور اسی پری رو کی تلاش میں جس کا نام زہرہ ہے اور جو بنگالے کی شہزادی ہے ، نکالا ہے۔ جو لوگ ساتھ تھے وہ دغا دے گئے ۔

اب میں اکیلا اس خرابے میں قید ہوں۔ پوچھنے پرمحمد قلی نے بھی اپنا حال بیان کیا اور کہا کہ اب ہم دونوں دوست ہیں۔ اور ان دو مچھلیوں کی طرح ہیں جو ایک ہی جال میں پھنس گئی ہوں۔

ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ سامنے سے راکشش آتا دکھائی دیتا ہے۔ شہزادہ آیتہ الکری کا حصار باندھتا ہے۔ اور جنگ کر کے راکشش کو قتل کر دیتا ہے۔

اب پھر یہ سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ اور قلعہ گلستان میں پہنچتے ہیں جو پریوں کا علاقہ ہے۔ یہاں مہتاب پری شہزادہ پر عاشق ہو جاتی ہے۔

اور شہزادے کو محل میں بلاتی ہے۔ شہزادہ دوران ملاقات راکشش کو ہلاک کرنے کا واقعہ بیان کرتا ہے۔

یہ سن کر مہتاب پری خوش ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ آج وہبھی آزاد ہوگئی ہے۔ اس پر محفل عیش کا حکم دیا جاتا ہے اور شراب کا دور چلتا ہے ۔

شہزادہ مہتاب پری کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول ہو جاتا ہے تو عطارد قطب شاہ سے بنگالہ جانے کی اجازت طلب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ جلد شہزادہ کو وہاں بلوائے گا۔

عطارد بنگالہ پہنچتا ہے اور شہزادی کے محل کے قریب ایک جگہ پر مصوری شروع کر دیتا ہے۔ اس کے کمال فن کی شہرت سارے ملک میں پھیل جاتی ہے اور مشتری اسے بلوا کر محل کو آراستہ کرنے کا حکم دیتی ہے۔

عطارد دن رات لگ کر محل کو آراستہ کرتا ہے۔ مشتری دیکھتی ہے تو دنگ رہ جاتی ہے۔

اتنے میں اس کی نظر ایک تصویر پر پڑتی ہے جسے دیکھ کر مشتری دیوانی سی ہو جاتی ہے۔ اور پوچھتی ہے کہ یہ کس کی تصویر ہے؟ عطارد بتاتا ہے کہ قطب شاہ کی تصویر ہے لیکن ایک پری اس پر عاشق ہو گئی ہے۔

مشتری یہ سن کر رونے لگتی ہے عطار د یہ دیکھ کر کہتا ہے کہ وہ اسے جلد بلوا دے گا۔ اور شہزادے کو بلوانے کے لیے ایک آدمی بھیجتا ہے۔

جیسے ہی شہزادے کو اطلاع ملتی ہے وہ مہتاب پری سے اجازت لے کر روانہ ہو جاتا ہے مہتاب پری اسے بطور نشانی ترنگ بادپا گھوڑا دیتی ہے۔ بنگالہ پہنچ کر مشتری سے ملاقات ہوئی ہے۔

شراب کا دور چلتا ہے اور دونوں اتنے مست ہو جاتے ہیں کہ عطارد کو کہنا پڑتا ہے کہ اسے شہزادے!

تر امال ہے توں اُتا دل نہ کر

شهزاده قطب شاہ مریخ خان کا حال بھی بیان کرتا ہے اور طے ہوتا ہے کہ زہرہ سے شادی کر کے بنگالہ کی بادشاہی مریخ خان کو دے دی جائے۔

اس کے بعد قطب شاہ مشتری کے ہمراہ دکن روانہ ہوتا ہے۔ اور وہاں دونوں کی شادی دھوم دھام سے ہوتی ہے ۔

اور باپ قطب شاہ کو اپنی سلطنت دے دیتا ہے۔ اس طرح بقول وجہی :

ملے قطب ہور مشتری ایک ٹھارہوا

آج جگ میں آنند بے شمار

یہ بھی پڑھیں: سب رس کا خلاصہ اور تنقیدی جائزہ

تحریر بشکریہ ضیائے اردو نوٹس

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں