اردو مثنوی تعریف، مفہوم، اقسام اور تفصیلی ارتقاء

اردو مثنوی تعریف، مفہوم، اقسام اور تفصیلی ارتقاء

مثنوی کا فن

مثنوی کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم

مثنوی کے لغوی معنی دو۔ دو کے ہیں۔مثنوی اس طویل نظم کو کہتے ہیں جس میں کوئی قصہ یا کوئی واقعہ تسلسل کے ساتھ بیان کیا گیا ہو۔

مثنوی ایک بیانیہ صنف ہے۔مثنوی کو بیانیہ شاعری کی معراج بھی کہا جاتا ہے۔

لفظ مثنوی عربی زبان کا لفظ ہے لیکن بحیثیت صنف سخن مثنوی کی ایجاد فارسی میں ہوئی ۔ اردو نے اسے فارسی ہی سے مستعار لیا۔

مثنوی کے خاص اوزان

مثنوی کے لیے سات اوزان مقرر ہیں ۔ مثلاً بحر ہزج ، رمل سریع ، خفیف ، متقارب، متدارک۔

مثنوی کی اقسام

عام طور سے رزمیہ مثنوی کے لیے بحر متقارب اور بزمیہ کے لیے بحر ہزج یا بحر سریع مستعمل ہے۔

جس مثنوی میں جنگ کا بیان ہو اسے رزمیہ مثنوی کہتے ہیں جیسے مثنوی علی نامہ ہے۔

جس مثنوی میں عشق و محبت کی داستان بیان ہوا اسے بزمیہ مثنوی کہتے ہیں جیسے : قطب مشتری۔

مثنوی کے عناصر

حمد و نعت ، مدح فرماں روائے وقت، تعریف شعر سخن، قصہ یا اصل موضوع ، خاتمہ۔

مثنوی کی فنی خصوصیات

حالی نے مثنوی کو سب سے زیادہ کارآمد صنف قرار دیا ہے۔فنی اعتبار سے مثنوی کا امتیاز ہر شعر کے مصرعوں کا ہم قافیہ ہوتا ہے۔

مثنوی میں ہر شعر کا قافیہ جدا جدا ہوتا ہے۔مثنوی میں اشعار کی تعداد مقرر نہیں ہوتی ہے۔

مثنوی میں غزل کی طرح ردیف و قوافی کی پابندی نہیں ہوتی ۔مثنوی کی خصوصیات میں سے ایک واقعات نگاری بھی ہے۔

اردو میں مثنوی کا آغاز و ارتقاء

دکن میں مثنوی

دیگر اصناف سخن کی طرح مثنوی کی ابتدا بھی دکن سے ہوئی ہے۔ محققین نے سب سے پہلا مثنوی نگار فخر دین نظامی کو اور پہلی مثنوی اس کی تصنیف کدم راؤ پدم راؤ کو قرار دیا ہے ۔

دکن میں مثنوی کا ارتقا:یادر ہے کہ دکن میں اردو شاعری کی باضابطہ ابتدا مثنوی نگاری سے ہی ہوئی تھی ۔ اردو میں سب سے پہلے دکن میں ہی مثنوی لکھی گئی تھی۔

بہمنی دور کی مثنویاں

فخردین نظامی کدم راؤ پدم راؤ (1421 اور 1435 کا درمیانی حصہ )

میراں جی شمس العشاق : خوش نامه، خوش نغز ، شہاد التحقیقسید شاہ

اشرف بیابانی: لازم المبتدی، واحد باری نوسر ہار ( واقعہ کربلا سے متعلق )

عادل شاہی دور ( بیجاپور ) کی مثنویاں

برہان الدین جانم: ارشاد نامه، حجت البقاء، وصیت الهادی، بشارت الذکر ، منفعت الایمان اور پنج گنج۔

عبدل: ابراہیم نامه (1021ھ 1603 ، ابراہیم عادل شاہ ثانی معروف به جگت گرو کے فرمائش )

مرزا محمد مغیم مقیمی: چندر بدن ومہیار، فتح نامہ بکھیری (رزمیہ مثنوی)

امین: بہرام اور حسن بانوسید حسن شوقی: فتح نامہ نظام شاہ، میزبانی نامہ۔

سید شاہ محی الدین صنعتی : قصہ بے نظیر ، گلدستہ عشق۔

کمال خان رستمی: خاور نامہ (اردو کی سب سے طویل مثنوی 24 ہزار اشعار اور 222 عنوانات پر مشتمل)

ملک خوشنود: یوسف زلیخا، بازار حسن، هشت بهشت (جنت سنگار )

محمد نصرت نصرتی: گلشن عشق (1068 هـ 1657ء عشقیہ مثنوی)،علی نامہ (1076ھ 1665ء رزمیہ مثنوی)، تاریخ اسکندری (فتح نامہ بہلول خان 1083ھ 1672ء)

سید میراں ہاشمی: معراج نامه، عشقیه مثنوی، مثنوی یوسف زلیخا۔قطب شاہی دور ( گولکنڈہ) کی مثنویاں:‏قطب الدین قادری فیروز بیدری: پرت نامه۔

شیخ احمد شریف گجراتی: یوسف زلینخا، لیلی مجنوں۔ملا اسد الله وجهی : قطب مشتری۔

شیخ بہاء الدین غواصی : مینا ستونی ، سیف الملوک و بدیع الجمال ، طوطی نامه۔

ابن نشاطی : پھول بن (1744 اشعار پر مشتمل )طبعی : بهرام و گل اندام۔

احمد جنیدی: ماه پیکر

مغل دور کی مثنویاں

‏شاه حسن ذوقی: وصال العاشقین ، نزہت العاشقین

قاضی محمود بحری: من لگن ( موضوع تصوف 1112 1700ء)

سید محمد خان عشرتی: دیپک پتنگ ، چت لگن۔

سید محمد واله موسوی: طالب و موہنی۔

ولی ویلوری: روضته الشهدا۔

سید محمد فراقی : مراة المحشر۔

شاه عشق الله عاشق : اشارت الغافلین۔

سید اشرف : جنگ نامه حیدر۔ولی دکنی در تعریف شہر سورت۔

سراج اورنگ آبادی: بوستان خیال ( عشقیه مثنوی) ، سوز و گداز ، مناجات، ناله هجر، نامه شوق، احوال فراق، خط بندگی، مطلب دل، حمد باری تعالی ، مناجات ، در نعت حضرت رسالت۔

شمالی ہند میں مثنوی کا ارتقاء

یادر ہے کہ شمالی ہند کی پہلی مکمل و مستند مثنوی افضل کی بکٹ کہانی ہے۔

محمد افضل افضل : بکٹ کہانی۔عبدالله امین: فقہ ہندی۔

محبوب عالم عرف شیخ جیون: محشر نامه ،دردنامه۔ اسماعیل امروہی: تولد نامہ، بی بی فاطمه، قصه معجزه انار۔

فائز دہلوی: مناجات، در مدح شاہ ولایت، تعریف، پنکھٹ ، تعریف، ہولی ، در وصف بھنگیڑن ، درگاه قطب، رقعه، در وصف حسن، رقعہ، رقعه محبوب، تعریف جو گن، بیان میلہ مہتہ، در وصف کاچھن ، تعریف بتولن، تعریف نهان، نگبود، ماکن، گوجری۔

ظہور الدین حاتم : مثنوی سراپا، ساقی نامه، وصف قهوه، وصف تمباکو وحقہ، مثنوی بهاریه مسمی به بزم عشرت۔شاه آیت اللہ جوہری: گوہر جوہری۔

جعفر زٹلی: ظفر نامہ اورنگ زیب شاہ عالم گیر بادشاہ غازی، در صفت پیری ، صفت جلوس اعظم شاه، بعد عالم گیر، مرثیہ اور نگ زیب ، سپس نامہ، طوطی نامہ۔

محمد فقیه دردمند: ساقی نامه – شاہ مبارک آبرو: آرائش معشوق ، موعظت۔

سودا: قصہ پر شیشہ گروز رگر پسر ( شقیه مثنوی)۔

میرا: (نو مثنویاں) خواب و خیال، معاملات عشق، دریائے عشق ، شعلہ عشق ، جوش عشق ۔

نجات ، نور الا نظار، شرح حال، مثنوی در مرح راشد صاحب، مثنوی مدحیه، مثنوی عابد که دو زوجه داشت، حکایت در بیان احوال تاجر، حکایت در بیان تاجر، اس شہر میں اچکا ہے۔میر اثر: خواب و خیال۔

میر حسن : 12 مثنویاں ، سحر البیان:

غلام ہمدانی مصحفی: (20 مثنویاں) طفل حجام، ہجو چار پائی، در ہجو افراط کھٹمل، وصف اجوائن خراسانی، جذبه عشق در افراط سرما، در افراط گرما، در افراط ائش، شعلۂ شوق، در ہجو مکانے ، گلزار شہادت، مرغ نامه، قوم یشیخ ، بحر المحبت وغیرہ۔

جرات: (32) مثنویاں): نامۂ عاشق بجانب معشوق، مثنوی کارستان الفت، مثنوی شعله شوق، مثنوی حسن و عشق، مکتوب چل قلم لکھ شکایت جاناں ، مثنوی سرایاے عشق ، مثنوی ہجو نزلہ و زکام، مثنوی در هجو خارش، مثنوی در ہجو کریلا بھانڈ وغیرہ۔

انشا: (آٹھ مثنویاں ) مرغ نامہ، مثنوی زنبور ، مثنوی مگس ، ہجویشہ، مثنوی مگس، شکایت نامه مثنوی فیل۔

پنڈت دیا شنکر نسیم: گلزار نسیم۔

تصدق حسین شوق لکھنوی: فریب عشق، بہار عشق ، زہر عشق۔

ناسح: نظم سراج۔غالب : مثنوی در صفت انبه۔

مزید یہ بھی پڑھیں: امام بخش ناسخ کی غزل گوئی

مومن: (12) مثنویاں ) شکایت ستم ، قصہ غم ، قول غمگیں ، کف آتشیں ، حسنین مغموم، آہ زاری مظلوم۔

واجد علی شاہ: دریائے عشق، افسانه عشق، بحر الفت۔امیر مینائی: ابر کرم نور تجلی ، کارنامه عشرت۔تسلیم: شام غریباں، صبح خنداں۔

داغ دہلوی: فریاد داغ،شوق قدوائی ، ترانه شوق ، حسن بهار، برسات، عالم خیال۔

حفیظ جالندھری:شاہنامہ اسلاممحمد حسین آزاد: شب قدر، ابر کرم۔نظم طبا طبائی: ساقی نامہ۔

محسن کاکوروی: (5 مثنویاں ) صبح تجلی، چراغ کعبہ، شفاعت و نجات، فغان محسن، نگارستان الفت۔حالی: شکوہ ہند، برکھارت۔شاد: (آٹھ مثنویاں ) نالۂ شاد، فغان دل کش، نوید ہند، نالہ دلکش۔

بشکریہ ضیائے اردو نوٹس

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں