قیام پاکستان میں اردو ادب کا حصہ

قیام پاکستان میں اردو ادب کا حصہ

اردو داب کے پاکستانی دور کا تعارف

اردو ادب کے پاکستانی دور کے تاریخی پس منظر کا جائز لیں تو اسکا نقطہ آغاز سرسید کی تحریک نظر آتی ہے۔ یہ زمانہ قومی اصلاح کا زمانہ تھا۔ چنانچہ معاشرتی زندگی ، ادب ، تہذیب، ثقافت ، تعلیم غرض ہر شعبہ میں اصلاحات کی کوششیں کی جارہی تھیں ۔

جس طرح آج تصور پاکستان کی قدامت کا سراغ سرسید احمد خاں کی بعض تحریروں اور تقریریں میں تلاش کیا جاتا ہے ، اسی طرح ان کے رفیق کار مولانا حالی نے شاعری میں قومی دورد سموکر جس شاعری کا آغاز کیا۔

اس نے اردو ادب میں قومی شاعری کی داغ بیل ڈالی۔ اس سلسلے میں ان کی طویل نظم مدد جذر اسلام (جس کا پہلے بھی ذکر آچکا ہے اور جو مسدس حالی کے نام سے ۱۸۹ء میں شائع ہوتمئی ) ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس کے علاوہ حالی نے اپنی غزلوں میں بھی قومی مقاصد اور ملی تقاضوں کی تصویر کشی کی۔

اگر چہ زمانے کی روش کے مطابق حالی نے اپنی غزلوں کا آغاز روایتی شاعری سے کیا تھا لیکن سرسید کی تحریک میں شامل ہونے کے بعد پرانے انداز کی شاعری کو ترک کر کے انہوں نے اپنی غزلوں میں قومی اور اخلاقی نوعیت کے مضامین شامل کرنے شروع کر دیئے اور اس طرح نظم کی مانند اردو غزل میں بھی ایک نئے رنگ سخن کی بنیاد رکھی ۔

مولانا حالی اور اردو میں قومی شاعری کا آغاز

قومی شاعری کے جس سلسلے کا مولانا حالی نے آغا کیا تھا ، اس کے اثرات ان کی ذات تک ہی محدود نہ رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1857ء کے بعد محکم انگریزی حکومت کے خلاف جدوجہد کا تصور ناممکنات میں سے تھالیکن موجودہ صدی کے آغاز میں برصغیرکے باشندوں نے ہزار پابندیوں کے باوجود زبان کھولنی شروع کردی تھی ۔

30 دسمبر 1906ء کو جب نواب وقار الملک اور نواب سلیم اللہ کی کوششوں سے ڈھاکہ میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا تو مسلمانوں کواپنے لئے ایک جداگانہ پلیٹ فارم بھی مل گیا اور جب 1913ء میں قائد اعظم مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تو اس جماعت کے تن مردہ میں اپنی ولولہ انگیز قیادت سے جان ڈال دی ۔

قومی شاعری میں مولانا شبلی نعمانی اور اکبر الہ آبادی کا کردار

حالی کے معاصرین مولانا شبلی نعمانی اور اکبر الہ آبادی نے بھی قومی شاعری کی روایت کو آگے بڑھایا۔

بالخصوص اکبرالہ آبادی نے مسلمانوں میں مغرب پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو تشویش کی نظروں سے دیکھا اور اپنی طنزیہ شاعری کے ذریعے اس رجحان کی شدید مخالفت کی۔ قومی درد اسلامی حمیت کا احساس اور مشرقی تہذیب و تمدن کی پاکیزہ اور بلند اقدار سے محبت ، اکبر کی شاعری کے نمایاں عناصر ہیں۔

شبلی نعمانی کے بلند پایہ علمی کارناموں اور تصانیف نے اب اگرچہ ان کی شاعرانہ حیثیت کو کچھ دبا سا دیا ہے لیکن جہاں تک قومی شاعری کا تعلق ہے۔ شبلی بھی اپنے نامور معاصرین میں کسی سے کم نہیں ہیں ۔

چنانچہ حالی کی مانند شبلی نے بھی تماشائے غیرت کے نام سے قومی درد پر مبنی ایک ایک مسدس لکھا جو اپنے زمانے میں بہت مقبول ہوا۔ اس کے علاوہ شہر آشوب اسلام، مثنوی صبح امید، کفران نعمت جیسی نظموں میں شبلی نے مختلف انداز میں مسلمانوں کے عظیم ماضی اور موجودہ قومی تنزل کے ساتھ ساتھ انگریزوں کے ظلم اور جر پر بھی موثر طریقے سے روشنی ڈالی ہے ۔

سرسید، حالی، شبلی اور اکبرالہ آبادی کے خیالات و تصورات نے ہی در حقیقت قومی شاعری کی ان روایات کی تشکیل کی جن کی آنے والے شعراء نے پیروی کی ہے اور یہی وہ قومی شاعری کی رویایت تھی جو علامہ اقبال کی شاعری میں اپنے درجہ کمال پر پہنچ گئی۔

حالی اور اکبر تو اس بنا پراور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں کہ علامہ اقبال ان ہی کی روایے کو لے کر آگے گئے تھے اس لئے کسی نقاد نے کہا ہے کہ اگر حالی نہ ہوتے تھے ےو اکبر اور اقبال بھی نہ ہوتے۔

قومی شاعری میں محمد علی جوہر کا کردار

حالی اور آکبر کے بعد جو شعراء آتے ہیں جو آزادی کی تحریوں میں شریک تھے اور جن کا مسلمانوں کے اہم قومی لیڈروں میں شمار ہوتا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ اس ضمن میں مولانا محمد علی جوہر مولانا ظفر علی خان اور حسرت موہانی کا نام بطور خاص لیا جا سکتا ہے ۔

مولانا محمد علی جوہر، تحریک خلافت کے نامور قائدین میں سے تھے اور ایک شعلہ بیان مقرر کی حیثیت سے ان کی شہرت انگلستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ اپنے وقت کے بہترین صحافی بھی تھے۔ اگر چہ سیاسی مصروفیات کی بنا پر وہ شاعری کے لئے بہت زیادہ وقت نہ نکال سکے لیکن سیاسی حالات و مسائل پر انہوں نے جو کچھ بھی لکھا وہ مقدار میں نسبتاً کم ہونے کے باوجود قومی شاعری میں اہم اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے ان کا مجموعہ کلام "کلام جوہر” کے نام سے چھپا ہے ۔

قومی شاعری اور مولانا ظفر علی خان

مولانا حالی کی طرح مولا نا جو ہر بھی غزل میں قومی مضامین بڑی خوبصورتی سے ادا کر جاتے تھے ۔مولانا ظفر علی خان مسلم لیگ کے ممتاز لیڈر اور روزنامہ زمیندار (لاہور) کے مالک اور ایڈیٹر تھے۔

ان کی سیاسی نظمیں زمیندار میں شائع ہوتی تھیں۔ مولانا ظفر علی خان کی شاعرانہ صلاحیتیں ان کی سیاسی زندگی اور صحافتی تقاضوں کے تابع رہیں۔ ایک طرف وہ قومی اور ملی موضوعات پر درد انگیز اشعار کہہ سکتے تھے تو دوسری طرف سیاسی مسائل پر پرجوش نظمیں بھی لکھ سکتے تھے۔

انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین اور نظریہ پاکستان کی مخالف قوتوں کو اپنے بھر پور طنز کا نشانہ بنایا ہے، چمنستان نگارستان اور بہارستان ان کے معروف شعری مجموعے ہیں۔

قومی شاعری میں حسرت موہانی کا کردار

حسرت موہانی کی حق گوئی اور بے باکی نے اب ایک مثالی صورت اختیار کر لی تھی ۔ چنانچہ یہ کیسے ممکن تھا کہ جس ملک کے حصول کے لئے وہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے، اپنی شاعری کو اس کا آئینہ نہ بناتے۔ چنانچہ حضرت نے بھی غزل میں قومی مسائل کو داخل کیا ۔

حسرت بھی ظفر علی خاں کی طرح مسلم لیگ کے ممتاز اور نمایاں لیڈروں میں سے تھے بلکہ تقسیم ملک کے بعد انہوں نے پاکستان آنے سے محض اس بنا پر انکار کر دیا کہ وہ بھارت میں رہ کر وہاں کے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرنا چاہتے تھے۔

مجموعی جائزہ

اب تک صرف چند بہت اہم شعراء کا ذکر کیا گیا۔

قومی نقطہ نظر کے لحاظ سے گذشتہ ایک صدی کی شاعری کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً تمام معروف شعرا کے یہاں کسی نہ کسی صورت میں قوم کے سیاسی ، سماجی ، اقتصادی اور مذہبی مسائل کے بارے میں گہری آگہی ملتی ہے۔

جن شعراء کا طوالت کی بنا پر ذکر نہ کیاگیا لیکن جنہوں نے بہت اچھی قومی شاعری کی ان میں اسمعیل میرٹھی ، آغا حشر کاشمیری، غلام بھیک نیرنگ، سیماب اکبر آبادی اور جوش ملیح آبادی وغیرہ کی صورت میں کئی ایسے شعراء ملتے ہیں جنہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے قومی شعور کو ابھارنے کی کوشش کی ۔

1940ء میں جب لاہور میں قرار داد پاکستان منظور کرلی گئی تومسلمانوں کے سامنے پاکستان کی صورت میں اب ایک واضح نصب العین تھا جس کے حصول کے لئے اگر ایک طرف قائد اعظم محمدعلی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلم لیگ سرگرم عمل ہوگئی تو دوسری طرف عوام نے بھی ہر مکن طریقہ پر خود کوپاکستان کے نصب العین سے ہم آہنگ کر لیا۔

ان حالات میں جبکہ برصغیر کی سیاست پاکستان کے حصول کی صورت میں ایک نئی منزل کی طرف گامزن تھی ، لیڈروں کے ساتھ ساتھ صحافیوں ، ادیبوں اور شاعروں نے بھی اپنے قلم قوم اور پاکستان کے لئے وقف کر دیئے۔

چنانچہ حصول پاکستان کی جدوجہد کے ساتھ برسوں میں جن شعرا یا ادیبوں اور دانشوروں نے اپنی بہترین تخلیقی اور ذہنی صلاحیتوں کو پاکستان کی منزل پانے کے لئے وقف کر دیا بلا شبہ آج ان کی گنتی ناممکن ہے ۔ ان شعرا اور ادباء کی کاوشوں کے تذکرے کے لئے بلاشبہ ایک علیحدہ تصنیف کی ضرورت ہے ۔

حصول پاکستان کے لئے جو نظمیں لکھی گئیں ان میں اور مولانا حالی یا مولانا شبلی کی قومی نظموں کے سلسلے میں یہ بنیادی فرق ملحوظ رکھنا چاہئیے کہ 1857ء کے بعد کے شعراء کے یہاں قومی ماتم ، عظمت رفتہ کا نوحہ اور بالعموم یاس و نا امیدی ملتی ہے جبکہ 1940ء اور 1947ء کے درمیان لکھی گئی قومی شاعری میں جوش و جذبہ امید اور امنگ کا اظہار ہوتا ہے۔ یہاں بغاوت کا ولولہ بھی ہے اور مستقبل کے بارے میں خوشگوار امیدیں بھی ۔

جادہ عمل پر گامزن کرنے والے ترانے بھی ہیں اور قائد اعظم کی محبت میں سرشار ہو کر کہے گئے مدحیہ اشعار بھی ۔ غرض ان سات برسوں میں اردو شاعری ایک انقلابی کروٹ لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

اگرچہ اس شاعری کا سب سے بڑا محرک اقبال کی شاعری ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس شاعری اور خود اقبال کی شاعری کے پس منظر میں حالی ، شبلی اور اکبر جیسی ممتاز شخصیات بھی موجود تھیں ۔یہ تھی قیام پاکستان سے پہلے ادب کی صورت حال – چودہ اگست 1947ء کو پاکستان کا پرچم لہرایا۔ اور دنیا میں ایک نئی اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آیا ۔

آج پاکستان میں اردو زبان وادب کا مطالعہ، اردو ادب کی تاریخ سے الگ اور منقطع نہیں ہو سکتا کہ آج کا ہر ادیب تجدید ہونے کے باوجود قدیم بھی ہے کہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لئے وہ ادب کی جن اصناف کا انتخاب کرتا ہے ، وہ صدیوں کے تخلیقی ورثہ کی امین ہیں ۔ یوں دیکھیں تو اردو ادب کا پاکستانی دور جس تاریخی پس منظر کا حامل ہے وہ درحقیقت ان ہی ادبی روایات اور عظیم تخلیقی شخصیتوں سے عبارت ہے جن سے اردو ادب کی تاریخ نے تشکیل پائی ہے۔

پاکستانی ادب 1، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد،ص 7

یہ بھی پڑھیں : جدید اردو نظم آغاز سے قیام پاکستان تک مختصر جائزہ pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں