قرۃ العین حیدر کی تعارف، سوانح حیات، ادبی خدمات اور ناول آگ کا دریا کا تنقیدی جائزہ

قرۃ العین حیدر کے سوانح حیات

قرة العین حیدر

قرة العین حیدر ۲۰ جنوری ۱۹۲۷ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے والد سید سجاد حیدر یلدرم اور والدہ نذر سجاد حیدر کا شمار اردو کے مشہور و معروف ادیبوں میں ہوتا ہے۔ ان کے والدین اپنے زمانے کے بہت روشن خیال اور ترقی پسند ادیب تھے ۔ سجاد حیدر یلدرم نے اپنے تراجم اور طبع زاد افسانوں کے ذریعہ اردو میں جدید طرز کے افسانے کی داغ بیل ڈالی۔ وہ رومانیت کے بانی مانے جاتے ہیں، ان کے افسانوں اور مضامین کے مجموعے خیالستان اور حکایات و احساسات ، طویل اور مخصر ناول ثالث بالخیر زہرا، آسیب الفت، هما خانم ، دوست کا خط غربت و وطن ، حضرت دل کی سوانح عمری وغیرہ ہیں ۔

والدہ نذر سجاد دیار مشہور فکشن رائٹر تھیں ۔ جن کے قسط وار ناول اور افسا نے بنت الباقر کے قلمی نام سے تہذیب نسواں، پھول اور دیگر رسائل میں شائع ہوتے تھے۔ کچھ عرصے تک پھول اور تہذیب نسواں کی انھوں نے ادارت بھی کی۔ اختر النساء بیگم ، ثریا ، جاں باز ، حرماں نصیب اور آہ مظلوماں ان کے اہم ناول ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے بہت سے افسانے بھی لکھے ، جیسے بعد میں قرۃ العین حیدر نے مرتب کر کے شائع کیا۔ والد کی ملازمت کی وجہ سے قرۃ العین کی ابتدائی تعلیم با ضابطہ کسی اسکول میں نہیں ہوئی۔ کبھی دہرہ دون ، کبھی علی گڑھ کبھی لاہور اور کبھی لکھنو کے مختلف اسکولوں سے انھوں نے تعلیم حاصل کی ۔ اردو میں پرائیوٹ میٹرک کا امتحان پاس کیا مگر ۱۹۴۱ء میں بنارس ہندو یونیورسٹی سے انھوں نے دوبارہ میٹرک پاس کیا۔ اس کے بعد لکھنو چلی گئیں اور از بیلا تھومس کالج سے انٹر کا امتحان پاس کیا۔ انٹر کے بعد دہلی کے اندر پرستھ کالج سے بی اے اور ۱۹۴۷ء میں لکھنو یو نیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا۔ مصوری کا شوق بچپن سے تھا۔ لہذا اپنے شوق کے لیے ایم اے کے دوران گورنمنٹ اسکول آف آرٹ لکھنو کی شام کی کلاس میں داخلہ لیا۔ پھر بعد میں ہیدر لینز اسکول آف لندن (لندن) سے مصوری کی اعلی تعلیم حاصل کی۔ اس کے علاوہ کیمبرج یونیورسٹی کے ایک اسکول سے جدید انگریزی ادب کا مختصر کورس کیا۔ تقسیم ہند کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان ہجرت کر گیا۔ مگر ۱۹۶۱ء میں قرۃ العین حیدر دوبارہ ہندوستان واپس آگئیں۔ اور ہیں مستقل سکونت اختیار کر لی ۔ ۲۱ اگست ۲۰۰۵ء کو نوئیڈا کے کیلاش اسپتال میں ان کا انتقال ہوا۔

قرۃ العین حیدر کے ادبی خدمات

قرۃ العین حیدر نے اردو نثر کی بیشتر اصناف پر طبع آزمائی کی۔ انھوں نے افسانہ، ناول، ناولٹ، رپورتاژ، خاکہ تنقیدی اور اصلاحی مضامین اور تراجم کے علاوہ بچوں کے لیے طبع زاد کہانیاں لکھیں اور کچھ کہانیوں کے اردو میں ترجمے بھی کیے۔ ان کی تحریریں ادبی اور فنی خصوصیات کے سبب ادب میں ایک منفرد مقام کی حامل ہیں۔

بقول مصنفہ پہلی کہانی انھوں نے چھ یا سات سال کی عمر میں لکھی ۔ کہانی کا عنوان کاٹھ گودام کا اسٹیشن ‏تھا۔لیکن یہ کہانی کہیں شائع نہیں ہوئی۔ اسے مصنفہ کی ابتدائی کوشش قرار دی جاسکتی ہے۔ قرۃ العین حیدر نے ادبی زندگی کا آغاز بچوں کے رسائل میں کہانیاں لکھ کر کیا۔ ان کی پہلی شائع ہونے والی کہانی چاکلیٹ کا قلعہ، بنات لاہور سے ۱۹۳۹ء میں شائع ہوئی۔ ۱۹۳۳ ء تک وہ بچوں کے رسائل میں کہانیاں لکھتی رہیں۔ قرة العین حیدر کا پہلا افسانہ ایک شام جسے مصنفہ خود ایک طنز یہ اسکرپٹ کہتی ہیں ادیب میں نومبر ۱۹۴۲ء میں لالہ رخ کے فرضی نام سے شائع ہوا۔ اس کے بعد کچھ افسانے انھوں نے بنت سجاد حیدر یلدرم کے نام سے لکھے۔ افسانہ ارادے جو جون ۱۹۴۴ء میں ادیب میں شائع ہوا تھا، قرۃ العین حیدر کے اصل نام سے شائع ہوا ۔ انھوں نے ستر پچھتر کے قریب افسانے لکھے ۔ ۱۹۴۷ء میں انکا ۱۴ افسانوں کا پہلا مجموعے ستاروں کے آگے کے عنوان سے شائع ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ چھ اور افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔ ۱۹۵۴ء میں شیشے کا گھر (جس میں ۱۲ افسانے ہیں ) پت جھڑ کی آواز ۱۹۶۷ء میں (جس میں ۸ افسانے ہیں ) روشنی کی رفتار ۱۹۸۲ء میں (جس میں ۱۸ افسانے ہیں ) جگنوؤں کی دنیا ۱۹۹۰ ء میں، (جس میں 8 افسانے ہیں ) ۱۹۶۸ء میں فصل گل آئی یا اجل آئی (۸) افسانے ) یاد کی ایک دھنگ چلے کے نام سے (۱۴ افسانے) افسانوی مجموعے شائع ہوئے تقسیم وطن ، فسادات اور ہجرت کے المناک واقعات نے ان کے ذہن پر بہت گہرا اثر ڈالا تھا، جس کی جھلک ان کی تحریروں میں جا بجا نظر آتی ہے۔ قرۃ العین حیدر کا پہلا ناول میرے بھی صنم خانے (۱۹۳۹ء) تقسیم ہند کے المیے پر بنی ہے۔ اسے زوال آدم خاکی کی کہانی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ انھوں نے اس ناول کا عنوان اقبال کے اس شعر سے اخذ کیا تھا۔ میرے بھی صنم خانے تیرے بھی صنم خانے، دونوں کے صنم خاکی دونوں کے صنم فانی اس کے علاوہ انھوں نے سفینہ غم دل (۱۹۵۳ء) آگ کا دریا (۱۹۵۹ء) آخر شب کے ہم سفر (۱۹۷۱) کار جہاں دراز ہے ( اول ) (۱۹۷۷ء) کار جہاں دراز ہے (دوم) (۱۹۷۹ء) گردش رنگ چمن (۱۹۸۷ء) چاندنی بیگم (۱۹۹۰ء) شاہ راہ صریر جو کہ کار جہاں دراز کی تیسری جلد (۲۰۰۲) وغیرہ ناول لکھے ۔

قرۃ العین حیدر کے ناول”آگ کا دریا” کا تنقیدی جائزہ

قرۃ العین حیدر کی تحریریں اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ ان کی شہرت کی بڑی وجہ ان کا لافانی ناول آگ کا دریا ہے۔ آگ کا دریا ڈھائی ہزار سال کی تہذیب کی کہانی ہے۔ قرۃ العین پہلی خاتون ہیں جنھوں نے وقت کو اپنی کہانی کا موضوع بنایا اور شعور کی رو کی ابتدا اردو ادب میں کی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کر قرة العین نے یہ ناول ور جینا و ولف کے ناول Orlando سے متاثر ہو کر لکھا۔ لیکن قرۃ العین اس بات سے انکار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے یہ ناول لکھنے کے بعد ور جینا ولف کو پڑھا تھا مگر ساتھ ہی اپنی آپ بیتی میں وہ یہ بھی لکھتی ہیں:‏” کچھ عرصے بعد کراچی پہنچ کر پہلی بار ایک عزیز نے ورجینا وولف کی و ‏ to the light house میں پڑھنے کو دی اور وہ مجھے بے انتہا پسند آئی۔ اس زمانے میں جدید انگریزی ادب سے ایسی دلچسپ پیدا ہوئی اور اسے مع ور جینا ودلچ بہت پڑھا” آگ کا دریا ناول میں قرۃ العین حیدر نے بدھ ازم ، صوفی ازم اور مارکس ازم کی روشنی میں ہندوستانی تہذیب وتمدن پر روشنی ڈالی ہے ۔ یہ ناول ہندوستانی تہذیب کے مختلف ادوار پر مشتمل ہے۔ ویدک دور سے مسلمانوں کی آمد(مغلیہ دور ) تک، زوال مغلیہ عہد سے فیض آباد اور لکھنو کی سلطنت تک، ۱۸۵۷ء سے انگریزی سامراجیت تک، آزادی کی تحریک اور تقسیم کے بعد ہونے والے واقعات اور بیسویں صدی کے بدلتے ہوئے ہندوستان کے واقعات تک قرۃ العین حیدر کے اس ناول سے ان کی تاریخ، تہذیب،فلسفے، مابعد الطبعیات ، تصوف اور سیاسی نظریات کے متعلق ان کی وسیع معلومات کا اندازہ ہوتا ہے۔

تحریر کا خلاصہ

قرۃ العین کے افسانوں اور ناولوں میں ان کے مطالعے کی وسعت کے تحت عالم گیر تناظر اور فکر کی گہرائی صاف نظر آتی ہے۔ وقت ، تاریخ اور نسائی کردار ان کے یہاں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ قرۃ العین کے ناولوں اور افسانوں میں قدیم سے لے کر جدید عہد تک کی عورتوں کے مختلف روپ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آگ کا دریا کے مرکزی کردار چھپا اور نرملا سے آخر شب کے ہم سفر کی دیپالی سرکار اور او مارائے تک کے ‏نسوانی کردار بہت باوقار اور مردوں کے کندھے سے کندھا ملا کر چلتے ہیں۔ آگ کا دریا میں چمپا کے کردار کے ذریعے ترقہ قرۃ العین حیدر نے خالص مشرقی عورت کے کردار کی عکاسی کی ہے، جو اپنی تمام خصوصیات کی بنیاد پر مغربی تہذیب سے بالکل مختلف نظر آتی ہے۔قرة العین حیدر نے عورتوں پر ہونے والے ظلم و استحصال، تنہائی ، بے بسی ، مردوں کے بنائے ہوئے اصول و ضوابط کو گہرائی سے محسوس کیا تھا اور ان کو خوبصورت انداز میں اپنے ناولوں اور افسانوں میں پیشکیا۔ اس کے علاوہ ان کی تحریروں میں مشرقی و مغربی تہذیبوں کی عکاسی اور جاگیردارانہ نظام کی خوبیوں اور خامیوں کا بیان بڑی بے باکی سے ملتا ہے۔ انھوں نے عہد حاضر کی زندگی کے مسائل اور کشمکش یعنی غریبی،فسادات ، بڑھتی ہوئی آبادی ظلم وستم ہجرت ، مظلوم عورتوں کے مسائل کو بہت موثر انداز میں پیش کیا۔ ان کی تحریروں میں پلاٹ سازی، کردار نگاری ، جذبات نگاری ، منظر نگاری، جزئیات نگاری ملتی ہے اس کےعلاوہ ان کا اسلوب ادبی اور فنی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس لیے ان کی تحریروں کو سمجھنے کے لیے وسیع مطالعہ اور گہرے مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ قرۃ العین حیدر کی تحریروں کا ایک نمایاں وصف ان کا تاریخی شعور ہے، جس کو انھوں نے مختلف صورتوں میں پیش کیا ہے۔ ناول اور افسانوں کے علاوہ قرۃ العین حیدر نے چھ ناولٹ سیتا ہرن ( ۱۹۲۰ء) چائے کے باغ (۱۹۶۷ء) ہاؤسنگ سوسائٹی (۱۹۶۶) اگلے جنمموہے بٹیانہ کیجیو (۱۹۷۷ ) دلر با (۱۹۷۶) فصل گل آئی یا اجل آئی بھی لکھے ہیں۔

بشکریہ: ڈاکٹر فوزیہ، اردو کی خواتین تنقید نگاروں کے ادبی خدمات، مقالہ برائے پی۔ایچ۔ڈی اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں