قرۃ العین حیدر کے سوانحی حالات از روفین نیاز

قرۃ العین حیدر کے سوانحی حالات

انسانی فکر کی تشکیل و تعمیر اور اس کی نشو نما میں گھر ،ماحول، معاشرہ اور سماجی وسیاسی حالات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔  انسان جس ماحول میں پیدا ہوتا ہے وہی وہ  پلتا  پڑھتا  اور پروان چڑھتا ہے۔  اس کے دل ودماغ  اور فکر کی راہیں اسی معاشرے اور ماحول سے تربیت اخذ کرتی ہے اور اس کا ذہنی نشونما  انہیں خطوط پر تشکیل پاتا ہے۔  جو اس معاشرے اور ماحول ماحول کا چلن ہوتا ہے۔

دوسری اہم بات اس وراثت کی ہوتی ہے جو اسے اپنے والدین سے ملتی ہے۔  اس طرح کسی بھی شخصیت کے فکر کی تعمیر میں وراثت ، ماحول ، معاشرہ  اور  سماجی وسیاسی حالات کا رول ہوتا ہے۔  گھریلو ماحول اور تربیت کا اثر کبھی کبھی دوسرے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے ۔

لہٰذا کسی  بھی ہم مصنف کی فکری پس منظر کا مطالعہ ان تمام باتوں کے تجزے کے  بغیر ممکن نہیں ہوتا۔جہاں تک قرۃ العین حیدر کی فکری پس منظر کا تعلق ہے تو اس کی تعمیر و تشکیل میں خود ان کے ماحول اور معاشرے کی بڑی اہمیت ہے۔ جس کا اعتراف خود قرۃ العین حیدر نے کیا ہے:

’’یہ تو ہزاروں بار دہرائی ہوئی بات ہے کہ انسان کے خیالات اور کردار کی تشکیل میں اس کی پرورش ، اس کے ذہنی اور شعوری پس منظر اور اس کے گھرانے کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔‘‘(۱)

 قرۃ العین حیدر نے جس ماحول اور جس گھرانے میں آ نکھ کھولی ۔ وہ جاگیردارانہ ماحول تھا۔وہ اپنی جاگردارانہ روایات کے باوجود بیدار ذہن اور روشن خیال دور  تھا۔ روشن خیالی کا یہ دور تھا   کہ قرۃ العین حیدر کے پردادا  جو خود  پابند شرع مسلمان تھے۔ علمائے دین کے فتوے دینے کے باوجود کہ انگریزی تعلیم حرام ہے اپنے بچوں کو دیوبند مدرسے میں روانہ کرنے کے بجائے انگریزی تعلیم دلوائی۔ 

گھریلو ماحول ترقی پسند ہونے کے باوجود اسلام پرورتھا ۔اور اسلامی روایات کا پاس لحاظ پورے طور سے رکھا جاتا تھا چونکہ روشن خیال لوگ تھے اس لیے بہت سی توہمات اور  پرانی رسومات   خرافات تصور کرتے تھے لیکن روزہ نماز کی سختی سے پابندی کی جاتی تھی۔ 

 قرۃ العین حیدر کی والدہ مسلک کے اعتبار سے شیعہ تھیں لیکن ماتم کو درست نہیں مانتی تھیں اور ان کی دادا یہال اور  ننیھال دونوں جگہ شیعہ سنی فرقوں کا  ملا جلا ماحول تھا۔  دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی ضروری تھی اس لیے قرۃ العین حیدر کو بھی ایک طرف کانونٹ  میں تعلیم دلوائی گئی تو دوسری طرف گھر پر مولوی رکھ کر قران کی تعلیم دلوائی گئی اور نماز کی توقید بھی کی گئی۔

’’جاگیردارانہ نظام بہت سی خامیوں سے پر ہونے کے باوجود بہت سی خوبیوں کا مجموعہ بھی تھا۔اس نظام کو  قرۃ العین حیدر نے اپنی انکھوں سے ٹوٹتے  ہوئے دیکھا اور اس سے براہ راست متاثر ہوئیں۔  اس نظام کو ٹوٹنے کا مصنفہ کو شدت شدید رنج تھا دوسری طرف ہندوستان میں آزادی کی  جدوجہد تیز ہو چکی تھی ترقی پسند تحریک اپنی شباب پر تھی۔‘‘(۲)

یہ بھی پڑھیں: قرۃ العین حیدر اردو فکشن کے تناظر میں مقالہ pdf

۱۹۴۷ءمیں ملک آازاد ہوا۔  اس کے بعد ملک دو حصوں میں تقسیم ہوا ۔ فسادات ہوئے جس نے ملکی اتحاد پر کاری ضرب لگائی مخلوط کلچر تباہ ہوا۔  ایک ساتھ رہنے والی دو قوموں کے درمیان منافرت *  پیدا ہو گئی۔  سماجی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گیا اور ایک نئے سماج کا وجود عمل میں آیا۔ 

پوری ہندوستان کی فضا اس سے متاثر ہوئی ۔ یہ تمام تبدیلیاں اس وقت وجود میں آئی جب قرۃ العین حیدر عقل اور شعور کی پختگی کی منزلوں میں قدم رکھ رہی تھی اور ان کے فکر و شعور کی راہیں متعین ہونے والی تھی۔ 

لہٰذا ان کے گھر میں موجود دو طرح نظاموں کے ٹکراؤ نے ان کے ذہنی اور فکری نظام کو سوچنے اور سمجھنے کی راہیں متعین کیں۔  اگرچہ یہ راہ ہمیشہ ایک سی نہیں بلکہ وقت اور حالات کے  تحت ان میں تبدیلیاں ہوتی رہیں البتہ جو سوچ پہلے  ان کے فکر کا حصہ تھی ان میں تبدیلی آئی اور یہ تبدیلیاں ان کے اندر زمانہ  شناسی اور عصری آگاہی کی دین تھی۔

  شروع میں انہوں نے رومانیت یعنی  رومانوی افسانہ نگار کی حیثیت سے ادب کی دنیا میں قدم رکھا لہٰذا رومانیت میں حقیقت کی امیزش ہوئی اور رومان کے پردے میں زندگی کے حقائق کو پیش کرنے کا  عمل شروع ہوا۔

’’ستاروں سے آگے‘‘،’’روشنی کی  رفتارا‘‘ تک قرۃ العین حیدر کا سفر ان کے فکری میلانات اور رجحانات کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔  جن میں  ان کی فکری میلانات  کی تبدیلیاں اور اس  سے پیدا ہونے والی پختگی بھی ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔

 قرۃ العین کے اگرچہ ایک محدود زندگی کے ایک محدود پہلو کو افسانوں اور ناولوں کا موضوع بنایا ہے لیکن انہوں نے زندگی کے گوناگوں مسائل سے بھی آنکھیں  نہیں چرائی۔  سچائی،  ایمانداری اور انسان دوستی کے سلسلے میں جو درس قرۃ العین حیدر کو دیا گیا اس سے ان کا دل و دماغ کافی متاثر ہوا اور انہوں نے اس پر عمل کر کے دوسروں کو بھی سچائی ،  ایمانداری اور انسان دوستی کا سبق دیا ۔

’’انہوں نے کرداروں کے ذریعے بھی اپنے افسانوں اور ناولوں میں ان خیالات کا اظہار کیا۔‘‘(۳)

ماخذ: قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں کردار نگاری ،مقالہ برائے بی ایس ادبیات ِاُردو

م

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں