قرۃ العین حیدر کی افسانہ نگاری

قرۃ العین حیدر کی افسانہ نگاری

قرۃ العین حیدر کا تعارف

قرۃ العین حیدر ۲۰ جنوری ۱۹۲۷ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سید سجاد حیدریلدرم اردو کے معروف افسانہ نگار اور والدہ نذر سجاد حیدر کا نام اولین ناول نگار خواتین کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔

قرۃ العین حیدر نے ابتدائی تعلیم دہرہ دون کانوینٹ سے حاصل کی۔ از بیلا تھوبرن آئی ٹی کالج سے بی اے اور لکھنو یونیورسٹی سے ۱۹۴۷ء میں ایم ۔اے انگریزی کیا ۔

ناول، افسانے اور رپورتاژ لکھے علاوہ ازیں مترجم اور مضمون نگار کی حیثیت سے بھی جانی جاتی ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ ” یہ باتیں” ہمایوں (لاہور) میں چھپا۔ قرۃ العین حیدر پاکستان بننے کے بعد کچھ عرصہ تک یہاں رہیں۔ وزارت اطلاعات و نشریات ( کراچی ) میں انفارمیشن آفیسر کے طور پر کام کیا۔

کچھ عرصہ پاکستانی ہائی کمیشن لندن میں بطور پریس اتاشی خدمات سرانجام دیں ۔ علاوہ ازیں پی آئی اے میں بطور انفارمیشن آفیسر تعینات رہیں ۔

وزارت اطلاعات و نشریات میں ڈاکومینٹری فلم پروڈیوسر اور پاکستان کوارٹر لی کی قائم مقام ایڈیٹر بھی رہیں ۔ ۲۱ را گست ۲۰۰۷ءکو دہلی میں انتقال ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: قرة العین حیدر کی ناول نگاری مقالہ از زیاد احمد pdf

قرۃ العین حیدر کی افسانہ نگاری

افسانوی مجموعی:

ستاروں سے آگے ۔ لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز ۲۰۰۲۰ء

قرۃ العین حیدر کی خوش قسمتی تھی کہ اُن کی پرورش معاشی اعتبار سے مضبوط علمی و ادبی گھرانے میں ہوئی تقسیم ہند سے قبل منظر عام پر آنے والا افسانوی مجموعہ "ستاروں سے آگئے” میں ان کے رشتےدار لڑکے لڑکیاں اور کلاس فیلوز کی زندگی کے رومانوس اور کانونٹ کا ماحول نظر آتا ہے ۔

ان کے افسانوں کی فضا رومانی اور ماحول خواب ناک ہے جس میں اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے زوئی، مولی پولی ، پوم پوم، جیمی ، ٹو ڈلز ، شوشو اور می می جیسے کردار ہیں ۔

ان کے افسانوں کے کردار کا نونٹ میں پڑھتے، میسوری، نینی تال، شملہ، دارجلنگ ، مری جیسے پرفضا مقامات پر گھومتے پھرتے ہیں۔ سوائے میں رقص کرتے ، موسیقی مصوری سے شدید لگاؤ رکھتے ، اسکیٹنگ ، آئس ہاکی اور سینما سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ تھری کیسل اور عبداللہ سگریٹ پیتے ہیں۔ انگریزی بولتے اور کتے پالتے ہیں ۔

اُن کے افسانوں کے نسوانی کردار فرانسیسی صوفوں، ایرانی قالینوں پر عمر بتانے والی بورژوا گلہریاں ہیں۔ قرۃ العین حیدر اعلیٰ طبقے کی روزمرہ زندگی کی جزئیات پیش کرتی ہیں۔ ڈاکٹر عبد المغنی ستاروں سے آگئے کے افسانوں پر رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

"ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ساری کہانیاں مس عینی کے ذاتی و خاندانی البم کی تصویریں ہیں ۔۔۔۔۔۔ ستاروں سے آگے زیادہ ترمس حیدر کی نوٹ بک ہے جسے ایڈٹ کیے بغیر انھوں نے جوں کی توں پبلشر کے
حوالے کر دیا ہے "۱۲

کرداروں کی بھر مار ہے۔ بورژوا طبقے اور گنگا جمنی تہذیب کے پڑھے لکھے نو نہال متوسط طبقے کی بھوک، قحط اور فلسفہ حیات کو سمجھنے کی بجائے اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ قرۃ العین حیدر نے اپنی دنیا کا جو نقشہ دکھایا ہے۔ اس کے بارے میں شہزاد منظر لکھتے ہیں:

"ستاروں سے آگے میں شامل افسانوں کے مطالعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سارے افسانے ان کے ناپختہ دور کے لکھے ہوئے ہیں۔

ان میں موضوع کا تنوع بیان کی ندرت، اسلوب کا انوکھا پن اور ایک مخصوص علاقے کی منظر نگاری اور فضا آفرینی اور گہری رومانیت تو ہے لیکن زندگی کی بصیرت اور گہرے سماجی اور تاریخی شعور کا فقدان ہے جو ان کے بعد کے افسانوں کا سب سے بڑا وصف بن گیا”

قرة العین حیدر کے افسانوں میں استحصال زدہ طبقوں اور جنگوں کے اثرات کا براہ راست ذکر نہیں ہے لیکن کامریڈ کرداروں کی جھلکیاں اور غلام ہندوستان، انگریزوں کا تسلط اور نو آبادیاتی نظام قائم ہونے کی وجوہات کی طرف اشارے ضرور ملتے ہیں ۔

دوسری جنگ عظیم میں لقمہ اجل بن جانے والے کرداروں کے سوگواران کا ذکر ہے۔ ان کے رومانوی افسانوں کے کردار اعلیٰ سول سروس اور ایئر فورس میں ہیں ۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:

مزدور پتھر کوٹ رہے ہیں تاکہ سامراجی مشینیں اور موٹریں ان کو روندتی ہوئی گزریں ۔ جہانِ نو! اف اس سے زیادہ پرانی بات اور کیا ہوگی“

قرۃ العین حیدر کا تعلق علم دوست اور ادب دوست گھرانے سے تھا ان کے والد نے ترکی ادب سے تراجم کیے۔ قرۃ العین حیدر کا عالمی ادبیات کے حوالے اپنا مطالعہ بھی وسیع تھا۔ اُن کے افسانوں کے بعض حصوں پر ترجمے کا گمان ہوتا ہے۔ چند مثالیں دیکھیے :

"سرخ سینگوں اور لمبی دم والے شیطان کی نواسی” ۱۸

"کامل بلی اُٹھو "19

"قہوہ پیوگی پیاری” ۱۲۰

"سرخ ہونٹوں والی چوہیا”

قرة العین حیدر کے ابتدائی دور کے افسانوں میں ماحول، فضا اور ڈکشن میں اکثر یکسانیت کا احساس ہوتا ہے۔ چوں کہ ان کا اپنا تعلق معاشرے کے اس طبقے سے تھا جو پُر آسائش زندگی گزارتا ہے اس لیے ان کا میل جول اٹھنا بیٹھنا مشاہدہ اس طبقے کی زندگی کے حوالے سے زیادہ گہرا تھا۔

”ستاروں سے آگئے میں یہی محدود ماحول دکھایا گیا ہے ۔ وارث علوی قرۃ العین حیدر کے ابتدائی دور کے افسانوں کے بارے میں رقم طراز ہیں:

"ستاروں سے آگے میں ایک ہی افسانہ ہے جسے مس حیدر بار بار لکھتی رہی ہیں ۔ آپ اس کتاب کو پچاس بار پڑھ جائے کوئی ایک افسانہ دوسرے افسانوں سے الگ ہو کر آپ کے ذہن پر کوئی ایسا پا ئیدار نقش نہیں بنائے گا جس کے کردار کہانی یا اُسلوب کے حوالے سے آپ ایسی گفتگو کر سکیں جو صرف اسی

سے مختص ہو۔ ان افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ بہت مشکل اور بے ثمر ہے اور ان پر صرف تاثراتی گفتگو ممکن ہے” ۲۲

ستاروں سے آگئے کے مطالعے کے بعد وارث علوی کی اس رائے سے مکمل اتفاق کیا جا سکتا ہے ۔

”ستاروں سے آگئے کے افسانے پڑھ کر بحیثیت مجموعی یہی تاثر قائم ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ قرہ العین حیدر کا فن ارتقائی منازل طے کرتا نظر آتا ہے ۔ انھوں نے ستاروں سے آگئے کے مخصوص ماحول سے باہر نکل وسیع تر دنیا کو اپنی بصیرت افروز آنکھ سے دیکھا۔

ان کے بعد کے دور کے افسانوں میں رومانوی رجحان کے ساتھ تاریخی و تہذیبی شعور کی آمیزش نظر آتی ہے۔ قرۃ العین حیدر نے زمان و مکان کی حدود کو توڑ کر ماضی و حال کے درمیان تطبیق پیدا کی ہے۔

ان کے افسانوں میں ماضی کی یاد آوری اور علامتی و اساطیری رجحان دیکھا جا سکتا ہے ۔ آزاد تلازمہ خیال اور شعور کی رو کے ساتھ تاریخی سفران کے افسانوں کا موضوع بنا ہے۔

قرۃ العین حیدر پر انگریزی ادب کے مطالعے براہ راست اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔

ماخذ: ص 108، اردو افسانے کی روایت اور پاکستانی خواتین افسانہ نگار مقالہ | pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں