قرۃالعین حیدر کی شخصی و ادبی تعارف

قرۃالعین حیدر کی شخصی و ادبی تعارف

 قرۃ العین حیدر دور جدید کے ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں میں سب سے بلند و بالا ادبی شخصیت کے حامل ہیں۔

 قرۃ العین حیدر ادبی دنیا میں ’’عینی‘‘،’’مس حیدر‘‘ اور’’بوم بوم ڈارلنگ‘‘ کے نام سے پکاری جاتی ہیں۔ قرۃ العین حیدر ایک عظیم افسانہ نگار اور  ناول نگار سجاد حیدر یلدرم  کی بیٹی ہے ۔ سجاد  حیدر یلدرم کثیرتصانیف ادیب ،ایک اچھے انشاء پرداز اور بہترین مترجم تھے۔ انہوں نے ترکی ادب کی تصانیف کا اردو میں ترجمہ کر کے اردو ادب کو ترکی کے ادب اور سرمایے سے آشنا کیا۔

 ان کے ناول اور افسانے بھی قابل اہمیت ہے ’’خیالستان اور حکایات و احساسات ‘‘ مضامین اور  افسانوں کے مجموعے ہیں۔ انہوں نے  طویل اور مختصر افسانے بھی لکھے ہیں۔  طویل اور مختصر ناولوںمیں ’’ثالث بالخیر‘‘، ’’زہرا‘‘،’’مطلوب  حسینا‘‘، ’’آسیب الفت‘‘اور ہما خانم ۔ تمقیدی مضامین میں ’’ناول نویسی‘‘اور ’’مولانا حالی کی شاعری پر تنقید‘‘قابل ذکر ہیں۔

 قرۃ العین حیدر کہ والدہ زہرا سجاد کو بھی ادب سے گہرا تعلق تھا۔  زہرا سجاد ادب ادب نسوا کی منفرد اور بلند پایا ناول نگار  بھی تھیں۔

ان کے  کے ناول’’اختر النساء بیگم‘‘، ’’ثریا‘‘ ،’’نجمہ جاں باز‘‘اور ’’آہ مظلوماں‘‘ شامل ہیں۔ جو کافی مقبول ہوئے۔  علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں بھی سرگرم رہتی تھیں۔  گویا قرۃ العین حیدر کو ذوق ادب وراثت میں ملی اور اس اسی علمی و ادبی ماحول میں ان کی شخصیت پروان چڑھی ۔

قرۃ العین حیدر کا تعلق سید گھرانے سے رہا ہے اور سلسلہ نصب زید شہید بن علی بن امام حسین سے ملتا ہے۔ ان کےآاباؤ اجداد وسط ایشیا کے مقام’’ترمذ‘‘ سے ہندوستان تشریف لائے اور ہندوستان کی صوبہ  یو پی کے ضلع بجنور  میں سکونت اختیار کی۔  چنانچہ ہندوستان  ان کا آبائی وطن ہے ۔قرۃ العین علمی اور زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔  جو کافی روشن خیال اور ترقی پسند بھی تھا۔  ان کے روشن خیال اور ترقی پسندی  ہی تھی  کہ ان کے خاندان میں خواتین بھی تعلیم یافتہ  اتھی۔

قرۃ العین حیدر کی پیدائش

 قرۃ العین حیدر ۲۰ جنوری ۱۹۲۷ءکو علی گڑھ میں پیدا ہوئی لیکن اس کی سن پیدائش میں ایک اختلاف پایا جاتا ہے ان کے زمانے کی مختلف ادیبوں نے قرۃ العین کی سن پیدائش کا ذکر یوں کیا ہے:

نند کشور  و کرم 

نند کشور و کرم نے اپنے مضمون میں بتایا کہ قرۃ العین حیدر ۲۰ جنوری ۱۹۲۶ءمیں پیدا ہوئی۔ اس مضمون کے حاشیے میں پروفیسر ارتضا کریم نے سن پیدائش سے متعلق وضاحت کی ہے  کہ قرۃ العین حیدر نے اپنی ذاتی خط میں مطلع کیا ہے کہ وہ علی گڑھ میں ۲۰ جنوری ۱۹۲۸ءمیں پیدا ہوئی۔

 پروفیسر گوپی چند نارنگ کے مطابق:

قرۃ العین حیدر کی پیدائش ۱۹۲۷ء میں علی گڑھ میں ایک روشن خیال مصنفین کے خاندان میں ہوئی تھی۔

لیکن قرۃ العین حیدر کی صحیح سن پیدائش ایک متوسط مسلم گھرانے میں ۲۰ جنوری ۱۹۲۷ءکو علی گڑھ میں ہوئی۔

قرۃ العین حیدر کے حوالے سے جملہ مواد یہاں پڑھیں

قرۃ العین حیدر کا سلسلہ تعلیم

 قرۃ العین حیدر کی زندگی کا بیشتر ابتدائی حصہ نکوبار  وغیرہ میں گزرا ابتدائی تعلیم دہرا دون کانو نٹ سکول میں حاصل کی ۱۱۔ گھیاری  منڈی لکھنو میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور لکھنو کی مشہور کالج از ابیلا تھوبرن میں سے بی۔اے  کی ڈگری حاصل کی۔

 لکھنو یونیورسٹی سے ۱۹۴۷ء میں ایم ۔اے انگریزی کی ڈگری حاصل کی۔ آرٹ اور مطالعہ کے بے حد شوقین تھی۔ مغربی موسیقی اور ڈرامے سے دلچسپی تھی ۔ ہندوستانی کلاسیکی  رقص اور مصوری بھی سیکھی۔ ۱۹۵۲ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے جدید انگریزی ادب کا کورس کیا ۔

تحصیل تربیت برائے  آرٹ

 قرۃ العین حیدر کو مصوری کا بھی بہت شوق تھا۔  اپنی اس شوق کو پورا کرنے اور مہارت حاصل کرنے کے لیے انہوں نے خاص تربیت حاصل کی ۔ اس کے تحت لکھنو کے مشہور آرٹسٹ’’ایل ایم سین‘‘ کی زیر تربیت رہی اور اس کے بعد مزید مہارت کے لیے اسکول آف آرٹ لندن سے حاصل کی۔  آپ مصوری کے ساتھ ساتھ موسیقی کا بھی شغف رکھتی تھی۔

  تعلیم کے دوران ہی موسیقی کی بہت ٹریننگ لی۔  نیز ہندوستانی کلاسکل موسیقی اور مغربی موسیقی کے معلومات حاصل کی ۔ اس کے علاوہ پیانوں کی تعلیم اس وقت کے مشہور ماہر پیانو استاد’’ فرنانڈیز اور ر وبن جونیئر‘‘ سے حاصل کی۔ صحافتی تعلیم کے حصول کی غرض سے قرۃ العین حیدر نے لندن کے’’ رجمنٹ اسٹریٹ پولی ٹیکنیک‘‘ ادارے میں داخلہ لیا لیکن کسی وجہ یہ کورس نامکمل  رہا۔

قرۃ العین حیدر کی اولین تخلیق

 قرۃ العین حیدر نے پہلی کہانی صرف چھ برس کی عمر میں لکھی۔  تا ہم ان کی یہ کہانی کہں شائع نہیں ہوئی۔  ان کی پہلی تخلیق ’’بی  چوہا  کی کہانی ان کی زبانی‘‘ہے۔  یہ ’’پھول‘‘رسالہ لاہور سے ۲۳ ستمبر۱۹۳۸ء  میں شائع ہوئی۔  اس دوران ان کی عمر صرف ۱۳ سال تھی ۔ 

قرۃ العین حیدر کا اولین مطبوعہ افسانہ اور ناول

 قرۃ العین حیدر نے لکھنا بہت بچپن میں ہی شروع کیا۔  غالباً’’۳۷ پھول اخبار‘‘میں پھر آل انڈیا ریڈیو کے لیے اسکرپٹ یعنی مضمون لکھے۔  ان  کا پہلا طنزیہ افسانہ’’لالا رخ ‘‘کے فرضی نام سے ۱۹۲۳ءمیں’’رسالہ ادیب‘‘دہلی میں شائع ہوا ۔اس کے بعد اپنے نام سے لکھنا شروع کیا اور پہلا افسانہ’’ یہ باتیں‘‘ ہمایو ن  لاہور میں شائع ہوا جبکہ ان کا پہلا ناول’’میرے بھی صنم خانے‘‘ہیں جومطبوعہ مکتب جدید لاہور سے طبع اول فروری ۱۹۴۹ءمیں شائع ہوا۔(۴)

قرۃ العین حیدر کا پاکستان ہجرت

’’والدین کی وفات کے بعد ۱۹۴۷ءمیں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی اور لاہور میں عارضی قیام کیا ۔ بعد میں بڑے بھائی مصطفی ٰحیدر کے ساتھ کراچی میں مسنتقل سکونت اختیار کی۔  وہاں سے ۱۹۱۵ءمیں لندن جا کر بقیہ تعلیم پوری کی۔ ۱۹۶۰ءمیں لندن سے ہندوستان واپس چلی گئی کچھ دن ممبئی میں قیام کیا لیکن بعد میں دہلی میں مقیم ں‘‘(۵)

قرۃ العین حیدر کی خدمات سرکاری ونیم سرکاری

۱۹۵۰ءمیں وزارت اطلاحات و نشریات کراچی میں انفارمیشن آفیسر مقرر ہوئی۔

 لندن میں پاکستان ہائی کمیشن میں پریس اتاشی کی حیثیت سے تعینات رہیں۔

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن میں انفارمیشن آفیسر رہیں۔

۱۹۵۶ء سے ۱۹۶۰ء تک  وزارت اطلاعات و نشریات میں ڈاکومنٹری فلموں کی پروڈیوسر کے علاوہ ’’پاکستان کواٹرلی‘‘کی  ایکٹنگ ایڈ سیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

۱۹۶۱ءمیں پاکستان سے بھارت منتقل ہوگئیں۔

۱۹۶۴ء سے ۱۹۶۸ءکے دوران وہ انگریزی مجلہ’’ امیرنٹ ممبئی‘‘ کی کیریئر ایڈیٹر رہیں۔

۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۵ءکے دوران وہ مشہور انگریزی ہفتہ وار مجلہ ’’السٹرینڈ ویکلی **آف انڈیا‘‘ کی مدیر ومعاون رہیں۔ سنٹرل بورڈ آف فلم  سنٹر کی ممبر رہیں۔

قرۃ العین حیدر کے اعزازات

۱۹۶۷ء میں انہیں افسانوی مجموعے’’پت جھڑ کیآاواز ‘‘پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا۔

۱۹۶۹ءمیں انہیں تراجم’’سویت لینڈ نروایواڈ ‘‘ عطا کیا گیا۔

 دسمبر ۱۹۸۱ءسے دسمبر ۱۹۸۲ءتک وہ شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ  یونیورسٹی میںوزٹیگ پروفیسر رہیں۔

۱۹۸۴ء میں ’’پدم شری‘‘اور ’’غالب‘‘ایورڈ دیا گیا۔

۱۹۹۰ء میں  انہیں ادبی خدمات پر ہندوستان کا سب سے بڑا اعزاز’’گیان پیٹھ ایوراڈ‘‘دیا گیا۔

قرۃ العین حیدر کے تصانیف

قرۃ العین حیدر کے مطبوعات  پر ایک نظر

۱۔ میرے بھی صنم خانے،مطبوعہ مکتبہ جدید، لاہور،طبع اول فروری ۱۹۴۹ء

۲۔ سفینہ غم دل،مطبوعہ مکتبہ جدید، لاہور،طبع اول،۱۹۵۲ء، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور

۳۔آگ کا دریا،مطبوعہ مکتبہ لاہور، طبع اول ۱۹۵۹ء

۴۔ آخری شب کے ہم سفر، چودھری اکیڈمی، لاہور، طبع اول ۱۹۷۹ء

۵۔ کار جہاں دراز ہے، دو جلدین، ایجوکیشنل پبلیکیشنگ ہاؤ س، دہلی ۲۰۰۱ء

۶۔ گردش رنگ چمن، مطبوعہ ، ایجوکیشنل پبلیکیشنگ ہاؤ س۱۹۸۴ء۔ مکتبہ  دانیال ،کراچی ۱۹۸۷ء

۷۔ چاندنی بیگم، مطبوعہ ، ، ایجوکیشنل پبلیکیشنگ ہاؤ س۱۹۷۹ء۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور ۱۹۹۰ء

ناولٹ

دلربا، سیتا ہرن، چائے کے باغ، اگلے جنم موہے بیٹیا نہ کیجو

پہلے تین ناولٹ پاکستان میں الگ لاگ بھی شائع ہوئے ہیں۔ 

۱۔ چائے کے باغ، مطبوعہ ،یونیورسل بلکس، لاہور ۱۹۷۳ء

۲۔ دلربا، مطبوعہ ،رابعی بک ہاؤ س، لاہور ۱۹۷۳ء

۳۔ سیتا ہرن، مطبوعہ ، مکتبہ اردو ادب لاہور

اس کے علاوہ یہ چاروں ناولٹ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے بھی شائع کئے ہیں۔ یہ نولٹ افسانوی مجموعہ ’’پت جھڑی کی آواز‘‘ میں شامل ہے۔ ،مطبوعہ ۱۹۶۷۔

متفرقات

سفرنامے

لندن لیڈر (سفر نامہ)، مطبوعہ نقوش شمار ۱۹۵۲ء

دکھلائے لے جا کے تجھے مصر کا بازار،مطبوعہ، بہترین سفرنامے، لاہور، ۱۹۷۶ء

خضر سوچتا ہے (ایک بابی تمثیل)

کوہ ماوند(سفر نامہ ایران)، اردو ادب لاہور، ۱۹۷۹ء

گل گشت(سفر نامہ روس) اردو ادب لاہور

جہاں دیگر(سفر نامہ)، مطبوعہ ،اردو ادب لاہور

پیکچر گیلری(مضامین)،مطبوعہ لاہور، طبعہ اول ۱۹۸۴ء

بچوں کا ادب

قرۃ العین حیدر نے بچوں کے لیے بھی کام کیا ہے۔  جن میں زیادہ تر تراجم شامل ہیں۔

بھیڑکے  بچے

لومڑی کے بچے

میاں ڈھینچو کے بچے

بہادر

شیر خان

ہرن کے بچے

ادب میں آمد و حیثیت

 قرۃ العین حیدر ایک بہترین فنکاراتھی ساتھ ہی بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال تھی۔ ان کا مطالعہ عمیق اور مشاہدہ دقیقتھا۔  عظیم ورثہ ادب کی مالک تھی۔  ان کا ادبی سرمایہ افسانے، ناول، ناولٹ، رپورتاژ، خاکے،تنقیدی مضامین ، اطفال  ادب ،مترجم اور طبع ذاد  کہانیوں پر مشتمل ہے۔

 انہوں نے اپنے ادبی و تحقیقی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔  ان کا پہلا افسانہ’’ باتیں‘‘ ہے۔ اس کے بعد ان کے چار افسانوی  مجموعے شائع ہوئی جو حسب ذیل ہےیں۔

ستاروں سے اگے ۱۹۴۷ء

 شیشے کا گھر ۱۹۵۴ء

پت جھڑ کی آاواز ۱۹۶۷ء

روشنی کی رفتار ۱۹۸۲ء

بعد اذاں ۲۰۰۰ءمیں ان کے  افسانوں کا کلیات’’ آئینہ‘‘دو جلدوں میں شائع ہوا اور وفات سے قبل ان کا افسانوی مجموعہ’’قندیل چین‘‘۲۰۰۷ءمیں شائع ہوا۔

 قرۃ العین حیدر بنیادی طور پر ناول نگار ہی ہے۔  انہوں نے کئی کامیاب ناول لکھے۔’’آگ کا دریا‘‘ جیسا شکار ناول ان کے ناول نگاری کے میدان میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی ناول نگاری کی ابتدا ء ۱۹۴۹ءمیں ’’میرے صنم خانے‘‘ناول سے ہوئی۔

اس کے بعد مختلف موضوعات پر انہوں نے دیگر چھ ناول لکھے۔ اس کے علاوہ ’’سفینہ غم ‘‘۱۹۵۶ء،’’آخری شب کے ہمسفر‘‘۱۹۷۹ء، ’’گردشی زندگی‘‘۱۹۸۷ء شائع ہوئے۔ انہوں نے نالٹ اور بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں۔

 قرۃ العین حیدر نے کئی تصانیف و نگارشات  جو ان کی والدہ اور دیگر رشتہ داروں کی تھیں، ساتھ ہی اپنی زندگی کی حسین و خوشگوار یادیں جو تحریر ی شکل میں تھیں  انہیں اکٹھا کر کے ترتیب دیا اور مخصوص عنوانات کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کیے۔  ان تصانیف کیفہرست درجہ ذیل ہے

۱۔دامان باغباں(مجموعہ خطوط، ۲۰۰۳ء)

۲۔ کف گل فروش اول ۲۰۰۴ء

۳۔ ہوائے چمن میں خیمہ گل( کلیات نظر سجاد حیدر،۲۰۰۴ء)

۴۔گزشتہ برسوں کی برف (نظر سجاد حیدر کا روزنامچہ  ایام گزشتہ ۲۰۰۷ء

۵۔ تخلیقات (مجموعہ  انشائیہ، سید افضل علی)

 قرۃ العین حیدر انگریزی زبان سے بھی گہری واقفیت رکھتی تھی۔  انگریزی زبان کی بیشتر نگارشات اور تخلیقات کا ترجمہ کر کے اردو ادب کے سرمائے میں بھی اضافہ  کیا۔  ان کی انگریزی سے متراجم تصانیف حسب زیل ہیں۔

۱۔ہمیں  چراغ ہمیں پرواانے (از ہنری جیمس)

۲۔ آپس کی گیت ( واسل بائی کوف)

۳۔ ماں کی کھیتی (از جنگیز اعتماد وف)

۴۔ ٓدمی کا مقدر ( از میخائل شولو کوف)

تلاش (از ٹرومین کاپوٹ)

یودکیہ (ایرا یانودا)

علالت اور وفات

قرۃ العین حیدر آخری ایام میں بے حد کمزور ہو گئی تھیں۔  ہسپتال میں الوئیڈ ایوبی کے کیلاش ہسپتال کے آئی۔سی۔یو  داخل ہوئی تھیں۔

 جہاں بذریعہ نلی  انہیں غذا دی جاتی تھی آخری لمحات میں ان پر بے ہوشی طاری ہو گئی تھی ۔ بالاآخر ۲۱ اگست ۲۰۱۷ءکو ان کی وفات کی خبر ملی۔

 اس ناقابل پراموش ادیبہ کو جامعہ ملیہ  اسلامیہ دہلی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔  یقیناً  ان عظیم شخصیت کی موت نے سب کو غمگین کر دیا لیکن موت ایک ایسے اٹل حقیقت ہے کہ کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکتا۔  زندگی و موت تو برحق نظام قدرت ہے پ۔ فنکار اپنے فن سے ہی زندہ و پائندہ ہے ۔ ۲۱ اگست ۲۰۰۷ء  کا دن ہم سب کے لیے نہایت جب غمناک رہا۔ ہمارے ادب کا تابندہ اور روشن ستارہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔

خراج عقیدت

 قرۃ العین حیدر کی انتقال کے بعد ان کی شخصیت ،ذات و صفات اور فکر و فن پر مبنی مضامین بے شمار شائع ہوئے اور کئی سیمینار منعقد ہوئے اور کتابیں شائع ہوئیں، جن میں اس  عہد کے ادیب و قلم کار حضرات نے خراج پیش کر کے قرۃ العین حیدر سے ہے اپنی عقیدت و خلوص کا اظہار کیا ہے۔

پروفیسر  ساجدہ

’’پروفیسر ساجدہ نے اپنے  مضمون میں یوں اظہار عقیدت کیا ہے کہ ’’عینی ‘‘ بھی قرۃ العین حیدر بھی یہ دار صحن* یعنی یہ دنیا چھوڑ کر مالک حقیقی سے جاملیں۔ دہلی اداس ہے ،اہل ادب کا حلقہ سوگوار اور غمگین ہے۔ہزاروں دلوں میں ان کی یاد اور لاکھوں ذہنوں میں ان کی لازوال تحریروں کا نقش ہے۔‘‘

ھما حیدر

’’قرۃ العین حیدر کی بھانجی محترمہ ھما حیدر کے مطابق قرۃ العین حیدر کا اس جہان فانی سے جانا اردو ادب بلکہ ہندوستانی ادب کے لیے بھی ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔‘‘(۹)

شمس الرحمن فاروقی

’’شمس الرحمن فاروقی نے کہا کہ قرۃالعین حیدر کے دریائے حیات نے اپنا رخ موڑ لیتا ہے۔لیکن اس کے لائے ہوئے لعل  اور گہری کی روشنی ہمارے دل و دماغ اور ہمارے دلوں کو مدتوں آباد کرتی رہے گی۔‘‘

’’سورجہماری محفل سے اٹھ کر چلا گیا لیکن
ہماری آنکھوں میں اس کا نور اب بھی روشن ہے ‘‘

بقول بیدل:

’’خورشید خرافروغے بہ نظر ماند
دریا بکنار دگر افتاد و گہر ماند‘‘

قرۃ العین حیدر آج ہمارے درمیان  نہیں رہیں مگر ان کے خیالات ، افکار اور تحریریں ہمارے ساتھ ہیں ۔  یہ  متاع بے بہا کوچ ش*ر  کے باوجود روشنی کے ایک مینار کی طرح شب ** میں رہ دکھاتا رہے گا جو خیالات کے اژدہام، مسائل کے جم غفیر اور مشکلات کے اندھیری شب میں روشنی پھیلاتا رہے گا۔

حوالہ جات

۱۔ تانیثیت اور قرۃ العین حیدو، اعجاز الرحمٰن،عرشیہ پبلی کیشنز دہلی،ص ۵۰

۲۔ تانیثیت اور قرۃ العین حیدو، اعجاز الرحمٰن،عرشیہ پبلی کیشنز دہلی،ص ۵۳

۳۔ ایضاً، ص ۵۶

۴۔افسانوی ادب، گوہر نوید کاٹلنگ،ص ۱۷۹

۵۔ ایضاً ،ص ۱۸۰

۶۔ ایضاً، ص ۸۳۔۸۱

۷۔ایضاً، ص ۸۳۔۸۱

۸۔ اردو کی ناول نگار خواتین، داکتر سید جاوید اختر، سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور،ص ۱۲۴

۹ایضاً، ص ۱۲۵

۱۰۔ قرۃ العین حیدر کا فن، عبد الغنی م**،پبلی کیشنزہاؤس،دہلی،ص ۸،۹

۱۱۔ قرۃ العین حیدر کا فن اور شخصیت، ڈاکٹر صاحب علی، ص ۶۲

ماخذ: قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں کردار نگاری مقالہ pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں

Scroll to Top