فیض احمد فیض کی نظم نگاری

فیض احمد فیض کی نظم نگاری کا تنقیدی جائزہ

ملک عزیز میں طلوع آزادی کے وقت اقلیم نظم اردو میں جن شعراء کا طوطی بولتا تھا ان میں فیض احمد فیض کو ایک نمائندہ شاعر کی حیثیت حاصل تھی۔

1957 تک کے دور میں فیض کے تین مجموعے نقش فریادی ،دست صبا اور زندان نامہ منظر عام پر آچکے تھے۔دشت سنگ کا کچھ حصہ پہلے مارشل لاء میں اُن کے کو دوبارہ پابند سلاسل ہونے تک کا ہے، اس باب متعلق ہے۔

فیض نے آزادی کے ساتھ بہت سی ایسی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں جو ان کے ادبی، ملک کے آورش کی پیدا کرو تھیں لیکن آزادی کے ساتھ ہی اطمینان و مسرت کی فضاء کے بجائے ہندوستان و پاکستان کی دھرتی خون سے لال اور دونوں ملکوں کی فضا قلم اور خوف سے مسموم اور تاریک دکھائی دینے لگی تو انہوں نے "صبح آزادی” میں اپنے تاثرات کا اظہار یوں کیا ؟

یہ داغ داغ اجالایه شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل

کہیں تو ہو گا شب مست موج کا ساحل

اس انداز نظر کی تعمیر و تشکیل کا پس منظر اُن کے روزنامہ امروز ۴ مارچ ۱۹۷۸ ء کے اداریے سے بخوبی واضح ہوتا ہے۔

(ایک سمت ایک نیا ملک آزادی کی ترنگ میں چراغاں کا اہتمام کر رہا تھا۔ تو دوسری طرف لا تعداد گھروں میں مسرت اور اطمینان کے چراغ گل ہو رہے تھے۔ ۔ ہمارا نیا آزاد ملک ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے پایا تھا کہ اس یکے بعد دیگرے کئی پہاڑ ٹوٹے )

فیض احمد فیض ترقی پسند مصنفین کی تحریک کے سرگرم شعراء میں سے تھے جن کے بارے میں ڈاکٹر عقیل احمد صدیقی فرماتے ہیں۔

(ترقی پسند ادیوں نے آزادی کا استقبال نہیں کیا کہ وہ اشترا کی سماج” کا خواب دیکھ رہے تھے جبکہ پاکستان میں آزادی کے بعد ایک نئی مذہییت نے سر ابھارا۔ (۱۵)

تقسیم کے فوراً بعد کے حالات کی نا گواریت کو ترقی پسند شعراء نے بورژوا طبقے کی عیاری ومکاری سے تعبیر کیا۔ ڈاکٹر ساجد امجد نے اس نظم پر بحث کرتے ہوئے فیض کے اس دور کی نظم نگاری کے بارے میں لکھا ہے کہ:

(یه عزم یہ تبدیلی وہ نہیں جو پاکستان کی نظریاتی بنیادوں سے تعلق رکھتی ہے یہ ایک اشتراکی انقلاب کی طرف بڑھنے کے لیے تیاری کا عمل ہے۔ (۱۲)

لیکن اشتراکیت کے لیبل کے بنا پر ان کی نظم کاصرف ایک ہی رخ متعین کرنا قرین انصاف نہیں ۔ ڈاکٹر فتح محمد ملک نے اس نظم کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

(حیرت ہے کہ آزادی کو داغ داغ اجالا اور الحب گزیدہ سحر سے تعبیر کرنے پر چین بجںیں ہونے والوں کو اس انداز بیان میں پاکستان سے گہری اور اٹوٹ محبت کیوں نظر نہ آئی ۔ (۱۷))

یہ بھی پڑھیں: فیض احمد فیض صدی نمبر منتخب مضامین pdf

وہ آگے چل کر مختلف حوالوں سے بالآخر انہیں سچا اور کھرا پاکستانی ثابت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ:

(اس الزام تراشی کا اصل محرک فیض کی عوام روستی ہے ۔ (۱۸))

فیض کو راولپنڈی سازش کیس کے الزام میں ۹ مارچ ۱۹۵۱ء سے اپریل ۱۹۵۵ تک قید میں رہنا پڑا اور ستمبر ۱۹۵۵ ء میں ان کو رہائی ملی لیکن مارشل لا جے نفاذ سے کچھ ہی عرصہ بعد دسمبر ۱۹۵۸ء میں دوبار و قید کر دیے گئے اور اپریل ۱۹۵۹ء میں رہا ہوئے۔ (19)

اُن کی حبسیہ نظمیں ساقی گلفام اور لیلیٰ وطن سے محبت اور ارباب بست و کشاد کی حکمت عملیوں پر تنقید کی عمدہ مثالیں ہیں۔رومانیت:فیض کی شاعری میں اشتراکی عناصر کی فراوانی تو اپنی جگہ موجود ہے لیکن اس میں رومانیت کا عنصر وحید نسیم سے انہیں اردو شاعری کا حافظ” کا خطاب دلواتا ہے۔ (۲۰)

انقلاب اور جمالیتا کا امتزاج:فیض نے انقلابی آہنگ اور جمالیاتی احساس کے حسین امتزاج سے ایک نیا شعری رچاؤ پیدا کیا ہے۔ دست صبا’ کی نظموں میں سے دو عشق ، اے دل بیتاب ٹھہر ، اگست ۱۹۵۲ء نثار میں تری گلیوں کے ، زندان کی ایک شام ، زندان کی ایک صبح اور یاد میں اُن کا جمالیاتی احساس جھلکتا ہے لیکن اس کے پردے سے ارضی حقائق بھی دلربا اور نادر انداز میں دکھائی دیتے ہیں

جبکہ ترانہ لوح و قلم اور مقتل خالصتاً اشترا کی آدرش کی تحمیل کے لیے اپنی راہ کی ہر رکاوٹ کو پھلانگنے کی دعوت دیتی ہیں۔ لیکن طبعی رومان پسندی ان کے مزاج پر غالب ہے۔ ن م راشد انکی سماجی حقیقت پسندی اور شاعری میں اُن کے سیاسی نظریے کو محض نام نہاد قرار دیتے ہیں:

(فیض کسی خاص سیاسی فلسفے کا حامل شاعر نہیں ہیں اور نہ وہ کسی صورت میں بھی اس سیاسی نظریے کو فارمولے یا نعرے میں تبدیل کرتے ہیں۔

دوسرے یہ کہ وہ طبعی طور پر رومان پسند ہیں اور ہر کوئی ان کی شاعری سے رومان پسندی اور نام نہاد سماجی حقیقت پسندی کے ٹکراؤ کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ نیز وہ ان باتوں کے استعمال سے بچتے ہیں جو ترقی پسندوں اور مارکسی نظریات کے حامل شاعروں اور ادیبوں کا طرہ امتیاز ہیں ۔ (۱۲) )

دست صبا اور زندان نامہ کے مطالعے سے یہ عیاں ہے کہ فیض کی نظم میں اختر شیرانی کی رومانیت کی تقلید معنوی بھی جذبے کی لطیف احساس کیفیت لیے موجود ہے اور اس جذباتی فضا پر نظریاتی حدت سایہ کناں ہے جو معاشرتی انسان کے داخل کو متحرک کر ہی ہے۔

فیض نے زبان و بیان اور ہیت کے قابل ذکر نئے تجربے بہت کم کیے ہیں چنانچہ اس کا اعترف انہوں نے خود بھی نقش فریادی کے دیباچے میں کیا ہے اس دور میں اس کے آزاد نظمیں بہت کم لکھی ہیں اُن کی ایک آزاد نظم ملاقات کے بارے میں پروفیسر عرش صدیقی کچھ اس طرح رقمطراز ہیں:

مزید یہ بھی پڑھیں: فیض احمد فیض کا تعارف اور ا ن کی شاعری کی خصوصیات pdf

فیض نے ‏Run-on-lines کا ایک تجربہ نظم ملاقات میں کیا جو ناکام رہا۔ یہی نظم اگر با قاعدہ طور پر آزاد ہوتی تو اس کا لطف زیادہ ہوتا ۔ اس نے موسیقی کا عام معیار سامنے رکھا ہے)جبکہ اس نظم کے بارے میں حمید نسیم نے لکھا ہے کہ آفاقی عظمت کی نظم ملاقات ہے جہاں ذات اور کائنات مدغم ہو جاتی ہے ہیں ۔ (۲۳)

نظم فیض کے مزید فکری وفنی ارتقائی مراحل کا ذکر اگلے ابواب میں کیا جائیگا۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں