موضوع۔فیض احمد فیض کی شاعری پر ایک نظر،کتاب کا نام۔بنیادی اردو۔،کورس کوڈ۔9001،مرتب کردہ۔Hafiza Maryam.
فیض احمد فیض کی شاعری پر ایک نظر
فیض احمد فیض کی شاعری میں عمل کی تحریک ملتی ہے۔ سخت کوشی اور بلند ہمتی کا بھی پیغام ہے۔ انھوں نے وطن سے محبت کا درس دیا۔ وہ ایک آئیڈیل کا خواب دیکھ رہے تھے، جس کی خاطر انھوں نے قربانیاں بھی دیں۔ وہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے رہے مگر وہ الوالعزمی کے ساتھ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے کھڑے رہے۔
فیض کی شاعری حقیقت اور رومان کا حسین امتزاج ہے۔وہ رومانوی شاعربھی تھے مگر حقیقت نگاری بھی ان کی شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے۔ انھوں نے کلاسیکی غزل میں نئے موضوعات پیش کیے۔ ان کی زبان اور استعارات پرانے ہیں مگر ان کی موضوعاتی جہتیں بالکل نئی ہیں۔ فیض نے زبان کو ایک نیا ذ ائقہ عطا کیا:
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
فیض نے انقلابی طرز کی شاعری کی جس میں انھوں نے حکمرانوں اور ظلم کرنے والوں کو للکارا ہے۔ فیض نے مظلوم سے ہم دردی کا درس دیا ہے۔
اے خاک نشینوں اُٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آپہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
رومان اور انقلاب کا یہ امتزاج اتنی شدت سے پہلی بار اردو شاعری میں آیا۔ فیض کی انقلابیت کو ان کی رومانویت نے غنائیت اور شگفتگی عطا کی جس کی وجہ سے ان کا کلام نعرہ نہیں بنتا۔ اکثر شعرا نے انقلابی شاعری کی مگر جذب و جوش میں اتنا آگے نکل گئے کہ شاعری ہاتھ سے نکل گئی۔ فیض کی شاعری اصل میں گیت ہے جورنگینی حسن اور نزاکت خیال سے جلوہ گر ہوتا
ہے۔
سلام لکھتا ہے شاعر تمھارے حسن کے نام
بکھر گیا جو کبھی رنگ پیرہن سر بام
نکھر گٸ ہے کبھی صبح، دوپہر کبھی شام
کہیں جو کامت زیبا یہ سج گئی ہے قبا
چمن سرو، و تنویر سنور گئے ہیں تمام
نی بساط تغزل جب ڈبو لیے دل نے
تمہارے سایہ رخسار و لب میں ساغر وجام
فیض نے اپنے انقلابی خیالات میں بغاوت سے زیادہ انقلابی شعور عطا کیا۔ ان کا شعور عزت و ناموس کی بحالی اور جہالت، اور بھوک اور غربت کے خلاف برسر پیکار نظر آتا ہے۔ فیض کا پیغام محبت اور نئے سماج کے خوابوں سے مزین ہے۔
وہ اپنی راہ کی ہر رکاوٹ کے خلاف لکھتے رہے۔ یہ رکاو ٹ ہر اس شخص کے لیے موجود رہتی ہیں جو معاشرے میں نئے خوابوں کی تکمیل چاہتا ہے جس میں عزت و ناموس اور وقار کی زندگی کا مطالبہ شامل ہے۔ فیض کی شاعری ایسے ہی مزاحمت کاروں کے لیے آج بھی موثروانقلاب آمیز ہے۔
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے پہلے جسم و جاں بچا کے چلے