فیض احمد فیض سوانح و شخصیت
موضوعات کی فہرست
فیض احمد فیض کا تعارف
قیامِ پاکستان کےبعداردکےجس شاعرکواندرون وبیرون ملک سب سےزیادہ مقبولیت حاصل ہوئی وہ فیض احمد فیض ہی تھے۔انھوں نےجب شاعری کی ابتداکی توبیسویں صدی عیسوی میں شاعری کی افق پراس صدی کےسب سےقدآورشاعرعلامہ محمداقباؔل فتاب بن کرجگمگارہےتھے۔ساتھ ساتھ جوش ملیح آبادی اوراخترشیرانی کاچرچابھی تھا۔جدیدنظم نگاری کےعلاوہ برصغیرکی پوری فضامیں قومی آزادی کی جدوجہداپنےعروج پرتھی،اس کےعلاوہ سیاسی فضابھی گرم تھی۔اس دوران فؔیض نےاپنی شاعری کاآغازرومانی فضاتلےکیااورپھرترقی پسندتحریک کےزیراثراپنی انقلابی سوچ بھی واکی۔اس حوالےسےان کی شاعری رومان اورانقلاب کےسنگم پرآپہنچی۔قیام پاکستان کےبعدانھوں نےاپنی شاعری میں نئےملکی مسائل،عوامی دکھ ودرداورلوگوں کی تکالیف کواپنی شاعری کاموضوع کچھ اس ڈھنگ سےبنایاکہ ان کی شاعری کاسیاسی رنگ اوربھی نکھرکرسامنےآگیا۔وہ ساری زندگی اس منزل کی تلاش میں رہےجس کاسب لوگوں نےاورانھوں نےخواب دیکھاتھا،اس لیےتوانھوں نےاپنی نظموں میں یہ تلخی بیان کی ہےکہ یہ داغ داغ اجالہ،یہ شب گزیدہ سحر،یہ وہ سحرتونہیں جس کاہم نےخواب دیکھاتھا،جس کی ہم نےخواہش کی تھی۔انھوں نےاپنی شاعری میں لوگوں کواس بات کی تلقین کی ہےکہ رکو،ابھی شب کی گرانی وتلخی ٹلی نہیں اوروہ گھڑی جسےہم نجاتِ دیدہ ودل سمجھتےہیں ،ابھی نہیں آئی۔وہ ساری زندگی اس منزل کی تلاش میں رہےجس کی انھیں اُمیدتھی لیکن اس کےباوجودانھوں نےلیلائےوطن سےعشق کےجذبوں کوکم نہیں کیا۔ایک حوالےسےہم یوں بھی کہہ سکتےہیں کہ ان کی شاعری نےمحسوساتی سطح پرسیاستِ پاکستان کےنشیب وفرازکی ایک قسم کی تاریخ رقم کی ہے۔فیض احمدفیض نےپاکستانی ادب اورتہذیب وثقافت پراپنےگہرےنقوش ثبت کیےہیں،انھوں نےایک بھرپورزندگی گزاری،انھوں نےایک شاعر،صحافی،نثرنگار،ڈاکومنٹری وفلم پروڈیوسر،تجزیہ نگار،معلم،مفکر،دانش ور،ثقافتی کارکن اورسب سےبڑ ھ کرایک انسان کی حیثیت سےاپنےعہدپرگہرےاثرات چھوڑےہیں۔
اس مختصراًتمہیدکےبعدفیض صاحب کی سوانح وشخصیت سےآگاہی حاصل کرتےہیں تاکہ ان کی شاعری اورشخصیت واہوجائیں۔
فیض احمد فیض کا خاندانی پس منظر
فیض احمد فیض کےپرداداکانام سربلندخان تھا،ان کےاجدادسلسلہ نسب کےحوالے سے سہارنپور کے راجپوت فرمانرواسین پال سےملتےہیں۔فیض احمد فیض کےداداکانام صاحبزادہ خان تھا۔اس حوالے سے فیؔض،اخترجمال سےایک انٹرویومیں کہتے ہیں:
’’کسی زمانےمیں ایک راجپوت راجہ ہواکرتاتھا۔اس کانام سین پال تھا۔اس کاتعلق سہارنپورسےتھا۔اس کی اولادمیں ایک نےاسلام قبول کرلیا۔ ہمارے والدکاتعلق اسی شاخ میں سےہے۔ہمارےپرداداکانام سربلندخاں اور دادا صاحبزادہ خاں اوروالدکانام سلطان محمدخاں تھا۔‘‘(۱)
فیض احمد فیض کےناناعدالت خاں کےنام سےجانےجاتےتھے۔اوروہ ایک زمیندارتھے،اس حوالےسےان کی والدہ کاتعلق ایک زمیندارگھرانےسےتھا۔اخترجمال کےمطابق:
’’ہماری دوسری والدہ کاتعلق ایک گاؤں جسمڑسےتھا،جونارودال تحصیل میں ہےزمیندارخاندان کی تھیں۔‘‘(۲)
جہاں تک فیض احمد فیض کےآبائی ذریعہ معاش کاتعلق ہےتوآبائی حوالےسےان کاذریعہ معاش کاشت کاری تھی لیکن فیؔض کےوالدصاحب کاشت کاری کی بجائےتعلیم کی طرف توجہ دیتےتھے۔انھوں نےدستورِزمانہ کےعین مطابق عربی،فارسی اورانگریزی تعلیم حاصل کرکےاعلیٰ تعلیمی سندحاصل کی۔وہ ایک فارسی دان تھے،اس کااندازہ ہم اس واقعےسےبخوبی لگاسکتےہیں کہ ایک مرتبہ افغانیوں کی وفدکی آمدپرانھوں بطورترجمان فرائض تفویض کیےگئےاورانھوں نےترجمانی کافریضہ بخوبی انجام دیا۔ان کی گفتگواورفارسی زبان پرعبورسےوفدکےارکان بہت زیادہ متاثرہوئے،لہٰذاانھوں نےفیض کے والد سے درخواست کی کہ فیض کوان کےساتھ کابل بھیج دیاجائےان کےوالدنےپیش کش قبول کی اوریوں وہ کابل چلےگئے۔وہاں وائی افغانستان امیرمحمدعبدالرحمٰن نےان کی اعلیٰ قابلیت کےاعتراف کےطورانھیں شہزادی کااتالیق مقررکردیا۔اس کےعلاوہ وہ سفیرِافغان کی حیثیت سےتین سال تک لندن میں مقیم رہے،اسی سال بیرسٹری کاامتحان پاس کرکےامیرمحمدعبدالرحمن کی بھتیجی کےساتھ ازداوج کے رشتے میں منسلک ہوگئے۔فیض احمدفؔیض کےوالدبھی حکومت افغانستان کےخصوصی مشیر تھے اور ایک دفعہ انھیں سلطنت کاتختہ الٹنےمیں بھی ملوث کیاگیاجس کی بناپروہ راتوں رات بھاگ کرسیالکوٹ آئےاوروہاں پروکالت شروع کی۔
فؔیض کےوالدایک بزرگ شخصیت کےمالک تھے،وہ ابتداہی سےااعلیٰ صلاحیتیوں کےمالک تھے،اس بناپرانھیں افغان حکومت میں ایک اعلیٰ عہدےتک رسائی ممکن ہوئی۔فیض کےوالدکی حالٹ زندگی کومختصراًبیان کرنامقصودہےکیوں کہ اتنےبڑےشاعرپران کےوالدکےاثرات مسلم ہیں۔اس کےبعدانھیں بھی بطورلندن کےمشیرافغان ولندن معاملات سلجھانےکےلیےاس عہدےپرفائض کیا گیا۔وہ اعلیٰ ادبی ذوق رکھنےوالےاورشعروادب سےشغف رکھتےتھے۔اس زمانےکےمقبول شعرااقبالؔ سمیت سب سےان کےگہرےمراسم تھے۔علامہ چوں کہ ان کےہم وطن تھےجس کی وجہ سےان سےتعلقات اوربھی گہرےتھے،فیض ایک انٹرویومیں کہتےہیں:
’’ایک تووہ(علامہ اقبال)ہم وطن تھے،دوسرےوہ میرےوالدکےدوست بھی تھےاس لیےدونوں ہم عصرتھےاوریہاں انگلستان میں بھی وہ ایک ساتھ رہتےتھے۔‘‘(۳)
اس کےعلاوہ سرعبدالقادر،آفتاب احمد،ڈاکٹرضیاءالدین،علامہ سلیمان ندوی اورجیب شیروانی وغیرہ سےگہرےمراسم تھے۔وہ ملیّ اورسماجی سرگرمیوں میں بھی شرکت کرتےتھےلہٰذاعلی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کےممبر،انجمن حمایت اسلام کےسرکردہ ممبراوراسلامیہ سیالکوٹ کےصدرتھے۔انھیں انگریزی،اردواورفارسی زبان پرنہ صرف قدرت حاصل تھی بلکہ تینوں زبانوں میں ان کی تصانیف بھی موجودہیں۔انھوں وائی افغانستان کی سوانح عمری انگریزی زبان میں لکھی،دختروزیرکےنام سےانگریزی سےاردومیں ایک ناول بھی ترجمہ کیااورافغانستان کےدستوری قوانین بھی تحریرکی،اس حوالے سے فقیر وحیدالدین سلیم رقم طرازہیں:
’’اردوانگریزی میں کئی کتابیں تصنیف کیں۔افغانستان کےدستوری قوانین اورانگریزی میں ایک ناولThe Wazir’s Daughterجس کااردوترجمہ دختروزیرکےنام سےشائع ہوا۔‘‘(۴)
بالآخردسمبر۱۹۳۱ءمیں فیض کےوالدکااچانک اختلاج کادورہ پڑنےسےانتقال ہوگیا،ان کی موت کامنظربڑادردناک تھاکیوں کہ اس دن فیض کی ہمشیرہ کی شادی کی تیاریوں میں گزرگئی اورجب بسترپردرازہوئےتوموت کی نیندسوگئے۔
فیض احمد فیض صدی نمبر منتخب مضامین pdf
فیض احمد فیض کا آبائی گھر
فیض احمد فیض صاحب کی زندگی کےحالات وکوائف کوبہت سےلوگوں نےتحریرکیاہے،لیکن ان میں اہم ماہنامہ افکارفیض نمبر(۱۹۶۵ء)،ڈاکٹرایوب مرزاکی کتاب’’ہم کہ ٹھہرےاجنبی‘‘اورمختلف موقعوں پر فیض احمدفؔیض نےجوانٹرویووغیرہ جن کی بنیادپردیگرلوگوں نےاورخودہم نےبھی ان کےسوانحی حالات قلم بندکیے۔یہاں ان تمام ماخذات سےاستفادہ کیاجائےگا۔
اس حوالےسےان کاآبائی مکان ضلع سیالکوٹ کاقصبہ کالاقادرہے۔اس قصبےکی معیشت آس پاس علاقوں کی طرح زراعت ہی تھی۔اس کےعلاوہ ان کےدادااوروالدجن کے حوالے سے پچھلے صفحات میں بحث ہوچکی ہےپرمزیدبحث کی ضرورت نہیں۔
فیض احمد فیض کی پیدائش
فؔیض کی تاریخ پیدائش تعلیمی اسنادمیں ۷جنوری تحریرکی گئی ہےجب کہ ان کی مصدقہ تاریخ پیدائش ۱۳فروری ۱۹۱۱ءہے۔فؔیض نے۱۹۶۳ءمیں لندن میں ڈاکٹرعبادت بریلوی اورپروفیسررالف رسل کواس موضوع پرانٹرویودیتےہوئےکہاتھاکہ:
’’ولادت تومیری سیالکوٹ کی ہے،تاریخ ولادت مجھےخودنہیں معلوم۔ایک ہم نےفرضی بنارکھی ہے۔‘‘(۵)
اس کےبعدان سےسوال کیاگیاکہ ٹھیک ہےوہی بتادیجئےتوانھوں نےکہا:
’’۷جنوری ۱۹۱۱ءہےلیکن یہ محض اسکول کےسرٹیفیکیٹ سےنقل کی گئی ہےاورمیں نےسناہےکہ اس زمانےمیں اسکول میں جوتاریخ لکھی جاتی تھیں وہ سب جعلی ہوتی تھیں اس لیےکہ وہ اس حساب سےلکھی جاتی تھیں کہ فلاں عمرمیں آدمی میٹرک پاس کرےگا،اس کےبعدانگریزی یاسرکاری نوکری کےلےیاس کی عمرکم ہونی چاہیے۔‘‘(۶)
لیکن افکارکےفیض نمبرکی اشاعت کےموقعےپر۱۶اپریل ۱۹۶۵ءکومدیرصہبالکھنوی کوفیض نےایک خط میں اس کی وضاحت کرتےہوئےلکھاتھاکہ:
’’تاریخ پیدائش اسکول کی کاغذات میں ۷جنوری ۱۹۱۱ءاورکہیں ۷جنوری ۱۹۱۲ءبھی درج ہے۔میں نےحال ہی میں ایک دوست سےفرمائش کی تھی کہ وہ سیالکوٹ کےدفتربلدیہ سےپیدائش کےاندراجات کاریکارڈیکھ کرصحیح تاریخ پیدائش معلوم کرنےکی کوشش کریں۔ان کی تحقیق کےمطابق بلدیہ کاغذات میں ۱۳فروری ۱۹۱۱ءتاریخ پیدائش درج ہے۔‘‘(۷)
یہی وجہ ہےکہ ان کی مصدقہ تاریخ پیدائش ۱۳ فروری ۱۹۱۱ءٹھہرتی ہےاوراسی دن کوان کاسالگرہ منایاجاتاہے۔
فیض احمد فیض کی تعلیم وتربیت
ان کےابتدائی تعلیم کاآغازبھی گھرہی سےہوا،جہاں انھوں نےاردو،فارسی اورقرآن حکیم کی تعلیم حاصل کی۔۱۹۱۵ءمیں انھیں اسلامیہ مدرسہ اور۱۹۱۶ءمیں اسکاچ مشن اسکول میں داخل کیاگیا۔یہاں انھوں نےمولوی ابراہیم سیالکوٹی سےباقاعدہ علوم مشرقی کی تعلیم حاصل کی۔فیض نےجہاں کہیں اپنےبچپن کاتذکرہ کیاہےتواپنےاس مشفق استادکاذکرضروربالضرورکیاہے۔مولوی صاحب اس زمانےمیں بڑےباکمال وعلمی شخصیت مانےجاتےتھےاوربطورایک استادپورےعلاقےمیں ان کی بہت عزت کی جاتی تھی۔اسی اسکول میں ان کےایک اوراستادشمس العلماءمولوی میرحسن بھی پڑھاتےتھے،جن کےشاگردوں سرفہرست علامہ اقبال کااسم ہی آتاہے۔فیض نےان سےعربی صرف ونحوکی باقاعدہ دروس لیےاوراس تعلق پرانھیں زندگی بھرنازرہا۔۱۹۲۷ءمیں انھوں نےاسکاچ مشن ہائی اسکول سےاول درجےکےمیٹرک کاامتحان پاس کیاجب کہ ۱۹۲۹ءمیں مرےکالج سیالکوٹ سےایف اےاوریوں لاہورمیں ان کی تعلیم وتربیت کاآغازہوا۔
انھوں نےجب گورنمنٹ کالج لاہورمیں داخلہ لیاتوایک طرف ان کےہاں نام وراساتذہ کاتعلیمی سندتودوسری جانب علامہ اقبال کاسفارشی خط تھا،یہ تاریخی خط ان کےوالدنےعلامہ اقبال سےفارسی کےپروفیسرقاضی فضل الحق کولکھوایاتھا،یہاں سےگورنمنٹ کالج لاہورنےان پراپنےدرازعلمی دروازےکھولےجہاں سےنہ صرف وہ اعلیٰ تعلیمی سندحاصل کرکےنکلےبلکہ ایک شعروادب، صحافت، درس وتدریس،ثقافت اورسیاست کےشعبوں میں انھوں نےبہت کام کیااورساتھ ساتھ مقبول بھی ہوئے۔گورنمنٹ کالج لاہورسےانھوں نے۱۹۳۱ءمیں بی اےاورعربی میں بھی بی اےآنرزکی ڈگری حاصل کی۔
اس کےبعدعربی زبان وادب کی طرف بھی متوجہ ہوئےجس کی تصدیق کئی انٹرویوزمیں ان کےقریبی دوستوں نےکی ہے۔لندن میں دوبرس قیام کےدوران سلسلہ وارمضامین بھی تحریرکیےاوران میں سےایک مضمون مولوی محمدشفیع کی یادمیں بھی تھاجس میں شعبہ عربی میں داخلہ لینےکےحوالےسےفؔیض نےلکھاہے۔
دوران طالب علمی نوکری
فیض احمدفؔیض نےابھی گورنمنٹ کالج لاہورمیں زیرتعلیم ہی تھےکہ ان کےوالدجہان سےرخصت ہوگئےلہٰذاگھرکاسارابوجھ ان کےکاندھوں پہ پڑگیا۔گھرو ں میں رہےسہےپیسےقرض داروں کےنذرہوگئےلیکن وہ ہرحال میں اپناتعلیمی سلسلہ منقطع نہیں کرناچاہتےتھے،ان کی زندگی میں یہ دن مالی لحاظ سےنہایت مشکل وکٹھن تھے۔اپنی ۶۵ویں سالگرہ کےموقعےپر۱۹۶۷ءکولائل پورمیں تقریر کرتے ہوئےان دنوں کےبارےمیں کہاتھاکہ:
’’ہمارےوالدکاانتقال ہوگیااورفاقہ مستی کےدن آگئے۔ہماری سمجھ میں نہ آتاتھاکہ اپنی تعلیم کس طرح جاری رکھیں۔بالکل قلاش تھے۔گورنمنٹ کالج لاہورکی تعلیم بھی مہنگی تھی۔وہاں پڑھنےکےلیےکافی سرمایہ درکار ہوتا تھا۔ ان دنوں لائل پورمیں ایک خاص امدادی فنڈہوتاتھاجسےقلعہ فنڈ کہتے تھے۔ جب ہم پہ افتادآپڑی توہم نےتعلیم جاری رکھنےکےلیےمالی امدادکی درخواست دی جومنظورہوگئی اورہمیں اتناوظیفہ ملنےلگاکہ اپنی بقیہ تعلیم کےلیےگھرسےکچھ لیناہی نہ پڑے۔‘‘(۸)
وہ ایک تجارتی ادارےمیں لکھنےپڑھنےکاکام بھی ان دنوں کرتےتھے،اس حوالےسےان کےمہربان وہم جماعت دوست شیرمحمدحمیدلکھتےہیں:
’’کالج کےاوقات کےبعدہمارازیادہ وقت اکٹھاگزرتا۔صرف شب خوابی کےلیےفیض اپنےمکان پرچلےجاتے۔یہ علم مجھےبہت بعدمیں ہواکہ ان دنوں رات کےچندگھنٹےوہ کسی پرائیوٹ تجارتی ادارے میں لکھنےپڑھنےکاکام بھی کرتےرہےہیں جس سےجیب خرچ اورروزمرہ ضروریات کےلیے کچھ رقم کمالیتےتھے۔‘‘(۹)
اس اقتباس سےصاف ظاہرہےکہ اتنی مشکلات اورکٹھن دنوں کےباوجودانھوں نےہمت نہ ہاری اورنہ صرف اپنی تعلیم جاری رکھی بلکہ دیگراخراجات کےلیےبھی خودکومشکل میں ڈالااورمحنت سےجی نہیں چرایااس لیےانھیں اردوادب میں بڑامقام حاصل ہوا۔
فیض احمد فیض کی ابتدائی شاعری
سلطان محمدخان کےگھرکاماحول نہایت عملی وادبی تھااوریہاں سیالکوٹ ،اسی فضامیں فؔیض کی پرورش ہوئی۔اس ادبی فضاسےوہ ابتداہی میں متاثرہوئےاس حوالےسےانھوں اپنےانٹرویومیں کہاہےکہ میں نےتک بندی مولوی میرحسن کےزیراہتمام ایک مقابلےجس میں مصرع طرح دیاگیاتھامیں وہ انعام جیتاجوایک روپیہ تھالیکن اصل میں ان کی شاعری کی ابتداان کی ایک پڑوس کی حوالےسےمتعلق ہے۔یہاں پرمنشی راج نرائن ارمان دہلوی صاحب مشاعرہ منعقدکرتے،جہاں منشی سراج الدین جوعلامہ اقبال کےدوست تھےبھی تشریف فرماہوتے،لیکن وہ بڑےفقرہ بارتھےلہٰذافیض صاحب کہتےہیں کہ چھےمہینےمشاعرہ میں ابتدامیں میری ہمت نہ ہوئی لیکن بعدمیں ہم نےایک غزل سنائی جس کی منشی صاحب نےبہت ستائش کی۔
لیکن فؔیض نےاصل میں شاعری کاآغازگورنمنٹ کالج لاہورمیں کیاجس کےخوب صورت نمونےان کےپہلےمجموعے’’نقشِ فریادی‘‘میں ملتےہیں۔ان کی پہلی شائع ہونےوالی نظم ’’میرے معصوم قاتل‘‘کالج ہی کےمجلّےمیں ۱۹۲۹ءمیں شائع ہوئی تھی۔‘‘(۱۰)
فیض احمد فیض کی ازداجی زندگی
ان شادی تیس سال کی عمرمیں ایک جرمن خاتون ایلس کیتھرین جارج سےہوئی جومشہورادیب ڈاکٹردین محمدتاثیرکی اہلیہ کی حقیقی بہن ہیں۔فیض کےنوبھائی بہن تھے۔فیض کانکاح ۲۸ اکتوبر۱۹۴۱ءکوسری نگرمیں اسلامی قوانین کےمطابق شیخ محمدعبداللہ نےپڑھایا۔فیض احمدفیؔض کی والدہ نےاپنی بہوکانام کلثوم رکھا۔فیض کی شادی کے حوالےسےمرزاظفرالحسن لکھتےہیں:
’’فیؔض کی شادی۲۸ اکتوبر۱۹۴۱ءکوہوئی۔اس وقت وہ پہلی کالج آف کامرس لاہورمیں استادتھے۔ایلس فیضؔ کانام شادی سےپہلےایلس کیتھرین جارج تھا۔ان کےوالدمسٹرجارج کی لندن میں کتابوں کی دوکان تھی۔ایلس کی بڑی بہن کریس کی شادی ڈاکٹرتاثیرسےہوئی تھی وہ ایم اےاوکالج امرتسر کےپرنسپل تھے۔فیضؔ اسی کالج میں ۵۳۹۱ءمیں انگریزی ادب پڑھاتے تھے۔۔۔‘‘(۱۱)
فیضؔ کی دولڑکیاں ہیں، فیض کی شادی کےایک سال بعدایک لڑکی ولادت ہوئی جس کانام سلیمہ رکھا،تین سال بعدان کی دوسری بیٹی منیزہ کی پیدائش ہوئی۔
ترقی پسندتحریک سےوابستگی،مدیراورجیل کےاحوال
امرتسرمیں ان کی ملاقات ترقی پسندتحریک کےبانی سیدسجادظہیرسےہوئی۔وہ ہم خیال ادباوشعراکی کھوج میں تھےکہ امرتسرمیں صاحبزادہ محمودالظفراوربیگم ڈاکٹررشیدہ جہاں سےملے،ان کی وساطت سےفیض کی ملاقات سجادظہیرسےہوئی۔اس وقت فیض کی شاعری کےبارےمیں مذکورہ اشخاص کوپتہ نہیں تھاوہ صرف اتناجانتےتھےکہ ایک نوجوان ہےجوکہ انگریزی ادب سے لگاؤ رکھتا ہے اورترقی پسندخیالات کاحامل ہے۔اس زمانےمیں فیض نےاپناتخلص فیؔض بھی استعمال نہیں کیاتھا۔امرتسرکےقیام کےدوران ہی فیض نےمارکسزم کامطالعہ کیااورترقی پسندرجحانات سےفکروشاعری کی آب یاری کی۔یہیں ان کی ملاقات مارکسسٹ دانش وروں اورادیبوں سےہوئی جن کےقرب اورخوداپنی فکرونظرمیں تبدیلی آئی اوران کی شخصیت پراس کےدوررس اثرات مرتب ہوئے۔اردوادب کی یہ مثلث ہندوستان کےبڑےبڑےمرکزوں دہلی،کلکتہ،لکھنواورلاہورکی ہنگامہ پرورزندگی کےترقی پسندادب کےلیےنیافال ثابت ہوا۔مارکسزم سےوابستگی کایہ بیج آگےچل کرگھنےدرخت کی شکل اختیارکرتاگیااوران کی زندگی کی آخری سانسوں تک یہی نظریہ ان کےہاں جھلکتاہے۔
اس کےعلاوہ انھوں نےکئی اخبارات کی ادارت بھی کی۔ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘کی ادارت بھی انھوں نےکی۔ادبی لطیف نےان کی ادارت کےزمانےمیں جدیداورترقی پسندادب کےفروغ میں نمایاں حصہ لیا،وہ نے۱۹۳۸ءسے۱۹۴۲ءتک ادب لطیف سےمنسلک رہے۔اس کےبعدمیاں افتخارالدین نےایک فرم پروگریسوپیپرزلمیٹڈکےنام سےقائم کی،پھرانھوں نےپاکستان ٹائمزکی بنیادڈالی اوران کی نظرفیض پرپڑی اورفیض کودعوت دی جسےانھوں نےقبول کیا۔پاکستان ٹائمنزکی اشاعت کےتقریباًایک سال بعدپی پی ایل کادوسراپرچہ روزنامہ ۴مارچ ۱۹۴۸ءکوشائع ہوا،۲۰ جنوری ۱۹۵۷ءکولیل ونہارکےنام سےممتازہفت روزہ لاہورسےجاری ہوا۔فیض نےان کی مدیرکی حیثیت سےفرائض انجام دیے۔اس کےعلاوہ روزنامہ’’امروز‘‘کےچیف ایڈیٹربھی مقررہوئے۔تنقیدکے میدان میں بھی انھوں نےاہم کرداراداکیا۔
۹مارچ ۱۹۵۱ءکوپاکستان کےوزیراعظم لیاقت علی خاں نےہنگامی صورت حال میں ریڈیوپاکستان سےتقریرکی جس میں سازش کےحوالےسےبات کی گئی تھی۔اس وقت یہ عجیب قسم کی فوجی بغاوت تھی جس کی خودفوج کوبھی علم نہیں تھا۔اس ضمن میں راولپنڈی سازش کیس میں گرفتارشدگان کوسزاسنائی گئی۔فیض نےخودایک انٹرویومیں اس حوالےسےکہاہےکہ چوں کہ ہم فوج میں ملازم رہ چکےتھے،لہٰذاہم دوستوں نےفیصلہ کیاکہ ملک کےحالات ابتداسےاب تک جاری ہےلیکن نہ قانون ہےنہ آئین اورنہ کوئی نظام ،لہٰذا ہم نےصرف یہ کہاکہ ملک کےحالات کیسےہونےچاہیے،اورکس طرح ہونےچاہیےوغیرہ لیکن حکومت کاتختہ الٹنےکی ہرگزبات نہیں ہوئی تھی اورساتھ ساتھ ساری منصوبہ بندی انھوں کی تھی اوریوں فیض کوبھی موردالزام ٹھہرایاگیا۔لیکن راولپنڈی سازش کیس کی جونوعیت رہی اس میں جنرل اکبرخان اوربیگم کےساتھ فیض کابھی رابطہ بہرحال تھااوراس خصوصی تعلق کی بناپرفیض کانام بھی اس میں آگیا۔خودفیض نےبھی اعتراف کیاہےکہ ملکی حالات کی وجہ سےانھوں نےکئی افسروں سےتعلق رکھا،اورکسی ایک خاص موقعےپرپرمیجرجنرل اکبرخان نےایکشن پلان بنایابھی تھامگراس پرعملدرآمدکافیصلہ نہیں ہوا۔اسی بناپرراولپنڈی سازش کیس کےتمام ملزمان نےکسی بھی قسم کےجرم کااعتراف نہیں کیا۔لیکن اس کےپس منظرمیں عالمی طاقتوں کےکھیل کوبھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔ان کی قیدکی مدت مارچ ۱۹۵۱ءسے۱۹۵۵ءتک تھی۔
فیض احمد فیض کے تصانیف
شعری مجموعے:
نقش فریادی،زندان نامہ،دست صبا،دست تہ سنگ،سروادی سینا،شام شہریاراں،مرےدل مرے مسافر،نسخہ ہائےوفا(کلیات)۔
نثر:
میزان،صلیبیں مرےدریچےمیں،متاع لوح وقلم،سفرنامہ کیوبا،ہماری قومی ثقافت،مہ وسال آشنائی،انتخاب پیام مشرق(ترجمہ)۔
فیض احمد فیض کی وفات
وفات سےتین دن قبل انھوں نےاپنےاہل خاندان کوکہاتھاکہ میں اپنےآبائی گاؤں جہاں وہ کھیلاکوداتھااورجہاں انھوں نےاپنابچپن گزاراتھاجاناچاہتےہیں،لہٰذا۱۷نومبرکووہ کالاقادرگئےاوراپنوں سےملےاوروہاں سےلاہورواپسی پراچانک ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔
۱۹نومبربروزدشنبہ کی رات انھیں شدیددمہ کادورہ پڑنےمیوااسپتال لےجایاگیا۔انھیں انتہائی نگہداشت میں رکھاگیالیکن ڈاکٹروں کی کوششیں ناکام ہوئیں اورحرکت قلب بندہوجانےسےسہ پہرڈیڑھ بجےخالق حقیقی سےجاملے۔فیض کی موت کی خبرجنگل کی آگ کی طرح پوری دنیامیں پھیل گئی،ان کی میت ان کےچھوٹےداماحمیدہاشمی کےگھرماڈل ٹاؤن لائی گئی اوریہاں سےدوسرےروزصبح گیارہ بجےان کاجنازہ ماڈل ٹاؤن کےقبرستان لےجایاگیاجہاں حفیؔظ جالندھری کی آکری آرام گاہ کےچندقدم فاصلےپرانھیں دفنایاگیا۔ریڈیوپاکستان کےساتھ تمام بڑےریڈیواسٹیشنوں نےان کی انتقال کی خبرنشرکی،ان میں وائس آف امریکہ،بی بی سی،آل انڈیاریڈیواورریڈیوماسکووغیرہ شامل ہیں۔فیض احمدفیؔض کی موت پرتعزیتی پیغام بھیجنےوالوں میں دانش ور،ادبی حلقے،مزدوراورسبھی طبقےشامل ہیں۔
حوالہ جات
۱۔اخترجمال،بشمولہ’’خون دل کی کشید‘‘،مرتب ظفرالحسن،بھائی کی کہانی بہن کی زبانی،ص ۳۹
۲۔ایضاً،ص ۴۰
۳۔افکارفیض نمبرپاکستان،۱۹۶۵ء،ص ۶۷۰
۴۔ایضاً،ص ۲۲۴
۵۔فیض احمدفیض،متاع لوح وقلم،مکتبہ دانیال،کراچی،۱۹۷۳ء،ص ۱۱۳
۶۔ایضاً،ص ۱۱۳
۷۔صہبالکھنوی،فیض مستندحالات،مشمولہ افکارفیض نمبر،مکتبہ افکار،کراچی،۱۹۶۵ء،ص ۲۵
۸۔فیض احمدفیض،زلف کی اسیری،زنجیرکی اسیری،مشمولہ خون دل کی کشید،مرتبہ مرزاظفرالحسن،مکتبہ اسلوب،کراچی،۱۹۸۳ء،ص ۱۸
۹۔شیرمحمدحمید،فیض سےمیری رفاقت کی چندیادیں،مشمولہ افکارفیض نمبر،مکتبہ افکار،کراچی،ص ۲۰۳
۱۰۔اشفاق حسین،فیض ایک جائزہ،ادارہ یارگارغالب،کراچی،۱۹۷۷ء،ص ۳۷
۱۱۔مرزاظفرالحسن،عمرگذشتہ کی کتاب،۱۹۷۸ء،کراچی،ص ۵۹،۶۰
بی ایس اردو کے ایک مقالے سے ماخوذ پہلا باب
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں