فورٹ ولیم کالج تعارف پس منظر ، آغاز، مقاصد، مصنفین اور خدمات

فورٹ ولیم کالج تعارف پس منظر ، آغاز، مقاصد، اساتذہ اور خدمات

فورٹ ولیم کالج کا تعارف

فورٹ ولیم کالج انیسویں صدی کا ادارہ تھا۔

فورٹ ولیم کالج کی بنیاد انگریز گورنر جنرل مارکوئیس ولزلی نے 10 جولائی 1800 ء مطابق 17 صفر 1215ھ کو رکھی تھی ۔

اسی دن کالج کے قواعد و ضوابط بھی تیار و منظور کر دیے گئے تھے اور ساتھ ہی ابتدا میں یہ بھی واضح کر دیا گیا تھا

کہ گورنر جنرل کے حکم خاص سے ٹیپو سلطان کی شکست اور انگریزوں کی شاندار فتح (4) مئی 1799ء) کی پہلی سالگرہ کی یادگار کے طور پر کالج کے قیام کی تاریخ 4 مئی 1800 و درج کی جائے ۔

اسی لیے فورٹ ولیم کالج کی قیام کی تاریخ 4 مئی 1800ء مانا جاتا ہے ۔

فورٹ ولیم کالج کی ابتدا اور نیشنل سیمیزی سے ہوئی تھی جو گل کرسٹ کی سربراہی میں 1799ء میں قائم کیا گیا تھا۔

فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد اور نینٹل سیمیزی بند کر دیا گیا تھا۔

ولزلی کو کالج قائم کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ اس نے کورٹ آف ڈائرکٹر سے اس کی پینشن کی منظوری بھی نہیں لی تھی۔

جب یہ مسئلہ کورٹ کے سامنے آیا تھا تو کورٹ نے 15 جون 1802ء کو فورٹ ولیم کالج بند کرنے اور اور نینٹل سیمیزی چالو کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔

1800 ء میں کالج کے قیام کے وقت ولزلی نے کالج کے مقاصد میں مشرقی زبانوں کے علاوہ قانون، تاریخ ، سائنس، مذہبیات ، تجارت اور یورپ کی جدید زبانوں کی تعلیم بھی شامل کی تھی۔

1802ء میں ولزلی کے حکومت انگلستان کو بھیجے ہوئے خط کے بعد کورٹ نے کالج کو تو بحال رکھا تھا مگر کالج کو صرف علوم شرقیہ اور دیسی زبانوں کی تعلیم کے لیے مخصوص و محدود کر دیا تھا۔

فورٹ ولیم کالج کو لارڈ ڈلہوزی کے حکم سے 24 جنوری 1854ء کو بند کیا گیا تھا۔

فورٹ ولیم کالج کے مقاصد

فورٹ ولیم کالج کے پیش نظر اساسی مقصد انگریز ملازمین کو ہندوستانی زبان اور تہذیب و تمدن سے واقف کرانا تھا ۔

مزید یہ بھی پڑھیں: فورٹ ولیم کالج pdf

فورٹ ولیم کالج سے متعلق دیگر اہم معلومات

فورٹ ولیم کالج رائٹرز بلڈ نگ کلکتہ میں قائم کیا گیا تھا۔

فورٹ ولیم کالج کا پہلا ٹرم 6 فروری 1801ء کو شروع ہوا تھا ۔

فورٹ ولیم کالج کے پرنسپل اور نائب پرنسپل کے منصب کو پرووسٹ اور نائب پرووسٹ کا نام دیا گیا تھا۔

فورٹ ولیم کالج کے پرووسٹ یعنی پرنسپل اور نائب پرووسٹ یعنی نائب پرنسپل ہونے کے لیے چرچ آف انگلینڈ کا پادری ہونا لازی قرار دیا گیا تھا۔

یعنی کالج کی پرنسپل صرف پادری ہی بن سکتا تھا۔

فورٹ ولیم کالج کے تمام طلبہ کے لیے آسمانی عبادت (Divine Service) لازمی قرار دی گئی تھی ۔

فورٹ ولیم کالج کا پرووسٹ (پرنسپل ) پادری ریورنڈ ڈیوڈ براؤن تھا۔

عام خیال یہی رہا ہے کہ گل کرسٹ کالج کا پہلا پرنسپل تھا۔

لیکن محمد عتیق صدیقی کی تحقیقات نے اسے غلط ثابت کر دیا ہے۔ گل کرسٹ شعبہ اردو کا پروفیسر تھا۔

پرنسپل ایک پادری ریورنڈ ڈیوڈ
براؤن تھا۔ ( اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ از سلیم اختر صفحہ 148)

فورٹ ولیم کالج کے شعبہ ہندوستانی کے پہلے پروفیسر و صدر جان گل کرسٹ تھے ۔

ولزلی نے جان گل کرسٹ کو شعبہ ہندوستانی کا پروفیسر 18 اگست 1800ء کو مقرر کیا تھا اور وہ 23 فروری 1804ء تک ہندوستانی شعبہ کے پروفیسر رہے تھے۔

گل کرسٹ کے انگلستان لوٹنے کے بعد شعبۂ ہندوستانی کا دوسرا پروفیسر کپتان جیمس مویٹ کو ان کی جگہ مقرر کیا گیا تھا ۔ ( تاریخ ادب اردو از جمیل جالبی صفحه 516 ، جلد سوم )

کپتان جیمس مویٹ کے بعد ان کی جگہ پر ولیم ہنٹر کو 22 فروری 1808 کو شعبہ ہندوستانی کا پروفیسر مقرر کیا گیا تھا۔ ( تاریخ ادب اردو از جمیل جالبی، صفحہ 517 ، جلد سوم )

کپتان جان ولیم ٹیلر کا تقرر صدر و پروفیسر شعبہ ہندوستانی کی حیثیت سے 23 فروری 1808 کو ہوا تھا جہاں وہ مئی 1823ء تک رہے تھے۔

فورٹ ولیم کالج سے وابستہ انگریز پروفیسرز اور اساتذہ: جان گل کرسٹ ، جیمس مویت، ولیم ہنٹر،کپتان جان ولیم ٹیلر ، ٹامس رو بک۔

فورٹ ولیم کالج کے شعبہ ہندوستانی کے پہلے میر منشی میر بہادر علی حسینی تھے۔

اردو فارسی شعبے کا پہلا نائب میرمنشی ایک بنگالی ہندو ترنی چند ر مترا تھا۔

ہندوستانی کے شعبے کے لیے اس زمانے کے چودہ نامور اردو ہندی ادیبوں کی خدمات حاصل کی
گئی تھیں۔

پروفیسر عربی جون بیلی کی تنخواہ سولہ سو روپے ماہوار تھی اور ایک ہزار روپے اسے عربی مترجم کی حیثیت سے بھی ملتا تھا۔

گل کرسٹ کی تنخواہ سو روپے اور میر امن کی چالیس روپے ماہوار تھی۔

فورٹ ولیم کالج میں میر منشی کو دو سو روپے، نائب میر منشی کو 80 روپے منشی کو 40 روپے اور نائب منشی کو 30 روپے ماہوار دیے جاتے تھے ۔
(اردو ادب کی تاریخ از جمیل جلبی، صفحہ 410، جلد تین)

1802 میں شعبۂ ہندوستانی کے عملے کی تعداد 48 تک پہنچ گئی تھی۔

فورٹ ولیم کالج نے میر کی کلیات 1811ء میں میر حسن کی مثنوی سحر البیان 1802ء میں اور دیوان سوز 1810ء میں نئے ٹائپ میں شائع کیا تھا۔

میر شیر علی افسوس کی کتاب باغ اردو جو گلستان سعدی کا اردو ترجمہ ہے فورٹ ولیم کالج کی پہلی مطبوعہ کتاب ہے۔

فورٹ ولیم کالج میں جتنے منشی ملازم ہوئے تھے ان میں صرف شیر علی افسوس اور مظہر علی خان دلا قابل ذکر شاعر تھے۔

فورٹ ولیم کالج کے مصنفین (تعارف و خدمات )

جان گل کرسٹ

گل کرسٹ کا پورا نام جان بارتھ وک گل کرسٹ تھا۔ (1759-1841ء)

گل کرسٹ ایڈنبرا ( اسکاٹ لینڈ ) کا باشندہ تھا۔

گل کرسٹ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھا۔

گل کرسٹ نے طب کی تعلیم ایڈنبرا یونیورسٹی سے حاصل کی تھی ۔

گل کرسٹ ایسٹ انڈیا کمپنی میں ڈاکٹر کی حیثیت سے ملازم ہو کر ہندوستان آیا تھا۔

گل کرسٹ نے لغت و قواعد پر تین جلدوں میں اپنی تصنیف پیش کر کے اپنے دور میں لغت اور قواعد کے میدان میں سب سے اہم کام کیا ہے۔

ولزلی کی تحریک پر گل کرسٹ نے رائٹرز بلڈ نگ کلکتہ ، اور نینٹل سیمی نری کے نام سے 1799ء میں ایک مدرسہ قائم کیا تھا ۔

جہاں نوارد ملازمین کمپنی کو ہندوستانی وفاری کی تعلیم دی جاتی تھی۔

27 مئی 1800ء کو یہ مدرسہ بند کر دیا گیا تھا اور ولزلی نے اس کی جگہ فورٹ ولیم کالج قائم کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔

ولزلی نے گل کرسٹ کو شعبہ ہندوستانی کا پروفیسر 18 اگست 1800ء کو مقرر کیا تھا۔

گل کرسٹ نے صرف چار سال فورٹ ولیم کالج میں خدمات انجام دی تھیں ۔

فورٹ ولیم کالج آکر گل کرسٹ نے کالج کونسل کی اجازت کے بغیر بارہ کتابیں تیار کرائی تھیں۔

اور کلکتہ کے مختلف چھاپہ خانوں میں بانٹ دی تھیں تا کہ وہ جلد از جلد انھیں طبع کر دیں۔

گل کرسٹ نے کتابوں کی اشاعت کے لیے ہندوستانی پریس کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا۔

گل کرسٹ نے مشرقی زبانوں کی طباعت کے لیے یورپی اصولوں کو سامنے رکھ ٹائپ میں بہت
سی تبدیلیاں کی تھیں۔

گل کرسٹ ہندوستانی کے لیے رومن رسم الخط کا حامی تھا۔

گل کرسٹ نے رومن رسم الخط میں بھی ایسی تبدیلیاں کی تھیں جن سے اردو/ ہندی کی مخصوص آواز میں واضح کی جاسکتی تھیں۔

جو احسان ولی نے اردو شاعری پر جیا تھا وہی احسان گلکرسٹ نے اردو نثر پر کیا ہے ۔“ (مولوی عبدالحق )

ہندوستانی کو طباعت کی سطح پر جدید دور میں داخل کرنے کا کام گل کرسٹ نے کیا تھا۔

گل کرسٹ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے سامنے اردو زبان کو سرکاری زبان بنائے جانے کی تجویز پیش کی تھی۔

گل کرسٹ کے انگلستان لوٹ جانے کے بعد اس کے تجویز پر عمل کرتے ہوئے 1832 ء میں
اردو سرکاری زبان قرار دی گئی تھی ۔

ہندوستانی زبان کی جو کتابیں گل کرسٹ نے لکھوائی تھیں ان کی تعداد کم و بیش ساٹھ تھی ۔ ( تاریخ اردو ادب از جمیل جالبی، صفحہ 415، تیسری جلد)

گل کرسٹ نے خرابی صحت کی بنیاد پر 23 فروری 1804ء کو استعفا دیا تھا ۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے انگلستان میں Oriental Institute یعنی ادارہ شرقیہ میں گل کرسٹ کو اردو کا پروفیسر مقرر کیا تھا۔

گل کرسٹ انگریزی زبان کا شاعر بھی تھا۔ اس کی نظمیں عبادت بریلوی نے مرتب و شائع کر دی ہیں۔

ہندوستان میں قیام کے دوران (1782-1804ء) گل کرسٹ نے ہندوستانی، یعنی اردو زبان سے متعلق سترہ کتابیں لکھی تھیں ( تاریخ ادب اردو از جمیل جالبی صفحه 417 جلد سوم )

گل کرسٹ کی کتابیں:

ڈکشنری، انگلش اینڈ ہندوستانیانگریزی ہندوستانی۔

لغت : اس لغت میں انگریزی لفظ کے اردو معنی رومن وارد و رسم الخط میں درج کیے گئے ہیں ۔ ہر لفظ کی اصل اس لغت میں بتائی گئی ہے کہ لفظ کسی زبان کا ہے۔

گرامر اوف دی ہندوستانی لینگویج :
اس میں گلکرسٹ نے ہندوستانی زبان کی قواعد اور صرف ونحو کے اصول، زبان سیکھنے اور سکھانے کے لیے بیان کیے ہیں ۔

اپنیڈ کس:
یہ تالیف گل کرسٹ کی لغت اور قواعد کا ضمیمہ ہے جس میں معنی رومن رسم الخط میں درج کیے گئے ہیں۔

دی اور نینٹل لنگوسٹ : اس میں عام فہم زبان میں ہندوستان کی مقبول عام زبان کا تعارف کرایا گیا۔

تحریر بشکریہ ضیائے اردو نوٹس ص 846

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں