فصاحت و بلاغت

فصاحت و بلاغت

فصاحت کی تعریف


فصاحت و بلاغت میں فصاحت سے مراد یہ ہے کہ لفظ یا محاورے یا فقرے کو اس طرح بولا یا لکھا جائے جس طرح مستند اہل زبان لکھتے یا بولتے ہیں۔

فصاحت کی وضاحت


فصاحت کا تصور زیادہ تر سماعی ہے اس کی بنیاد روز مرہ اہل زبان پر ہے۔

بلاغت کی تعریف اور وضاحت

بقول شمس الرحمن فاروقی بلاغت کسی علم کا نام نہیں ہے، بلکہ بلاغت ایک تصور ہے ۔ بلاغت اس صورت حال کی تصوراتی شکل کو کہا جاسکتا ہے جو زبان کو حسن اور خوبی کے ساتھ استعمال کرنے سے ظہور میں آتی ہے۔

بلاغت کی تعریف:
بلاغت کے لغوی معنی ہیں تیز زبانی”۔

وضاحت:

کلام میں جن علوم کے ذریعہ بلاغت کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔ ان علوم کو علوم بالاغت کہا جاتا ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہیں : (1) علم بیان (2) علم بدیع (3) علم عروض (4) علم قافیه

علم بیان


تعریف:
علم بیان وہ علم ہے جس میں ان طریقوں اور امکانات کا مطالعہ کیا جاتا ہے جن کے ذریعہ ایک ہی معنی (یعنی ایک ہی اطلاع یا ایک ہی معلومات یا ایک ہی علم) کو کئی طرح ادا کر کے سکتے ہیں۔

علم بدیع


تعریف:
یہ وہ علم ہے جس میں الفاظ کے معنوی اور صوری حسن اور ان طریقہ ہائے استعمال کا مطالعہ کیا جاتا ہے جن کے ذریعے کلام کی معنوی یا ظاہری خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔

علم عروض


تعریف :
"یہ وہ علم ہے جس میں زبان اور شعر کا مطالعہ ایک مخصوص طریقے سے کیا جاتا ہے۔”

علم قافیہ


” یہ وہ علم ہے جس میں ان الفاظ کی آپس میں موسیقیاتی ہم آہنگی کا مطالعہ ہوتا ہے جو مصرع کے آخر میں آتے ہیں اور تکرار صورت کے ذریعے شعر میں حسن پیدا کرتے ہیں۔”

یادر ہے کہ علم بیان کو علم ادب اور علم کتابت بھی کہتے ہیں اسی طرح علم بدیع کو علم معنی بھی کہتے ہیں۔

علم بیان کے اجزاء

وہ اجزائے ترکیبی جو کسی بھی سادہ بیان کو دل کش اور پر اثر بناتے ہیں (یعنی اس کا رشتہ بلاغت سے جوڑتے ہیں) حسب ذیل ہیں :
(1) تشبیہ
(2) استعاره
(3) مجاز مرسل
(4) کنایه

حقیقت

جب کسی لفظ سے اس کے وہی معنی مراد لیے جائیں جس کے لیے اسے وضع کیا گیا ہے تو اسے حقیقت کہتے ہیں۔

مجاز


جب کسی لفظ سے حقیقی معنی کے بجائے ایسے معنی مراد لیے جائیں جو لفظ کو لازم تو ہوں لیکن التزام یہ رکھا جائے کہ اس جگہ وہ لازم مراد نہیں تو اس لفظ کو مجاز کہتے ہیں۔

تشبیہ

تشبیہ کے معنی ہیں مشابہت ۔ جب کسی مشابہت کے باعث ایک چیز کو دوسری چیز کے مشابہ قرار دیا جائے تو (چاہے اس میں مشابہت کی وجہ کا اظہار ہو یا نہ ہو) تو اسے تشبیہ کہتے ہیں۔

جس چیز کو تشبیہ دی جائے اسے مشہ اور جس چیز سے تشبیہ دی جائے اسے مشہ بہ کہتے ہیں۔ مشبہ اور مشبہ بہ دونوں مل کر طرفین تشبیہ کہلاتے ہیں۔

اس مشترک وصف کو جس کی بنیاد پر تشبیہ دی جاتی ہے وجہ شبہ یا وجہ تشبیہ کہتے ہیں۔ ادوات تشبیہ سے مراد وہ الفاظ ہیں جس کا استعمال ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ تشبیہ دینے میں کیا جاتا ہے۔

تشبیہ کی مثال

ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے (میر)

اس شعر میں ہستی اور نمائش مشبہ حباب اور سراب مشبہ بہ اور سی ہی ادوات تشبیہ ہیں۔

استعارہ


استعارہ کے لغوی معنی مستعار لینا، ادھار لینا، ہیں۔

استعارہ مجاز کی ایک قسم ہے جس میں لفظ اپنے لغوی معنی کو ترک کر کے لسانی سیاق و سباق کے اعتبار سے نئے معنی مستعار لیتا ہے۔

یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ استعارہ اسے کہتے ہیں کہ کلام میں مشبہ کو حذف کر کے اس کی جگہ مشبہ بہ کو لایا جائے اور
اس سے مشبہ کا ارادہ کیا جائے جیسے
سنبل یا سانپ کو ذکر کر کے زلف معشوق مراد لیا جائے جیسے :

ہیں یاد وہ بے مثال آنکھیں

کیا ہیں تری او غزال آنکھیں

اس میں شاعر معشوق کا استعارہ غزال سے کیا ہے۔

یادر ہے کہ تشبیہ اور استعارہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ تشبیہ میں مشبہ کو مشبہ بہ کے مانند قرار دیا جاتا ہے جب کہ استعارہ میں مشبہ کو بعینہ مشبہ بہ قرار دے دیا جاتا ہے مثلاً

خوب صورت لڑکی کو دیکھ کر کوئی یہ کہے کہ میں نے
پھول جیسی لڑکی دیکھی تو ظاہر ہے یہ تشبیہ ہو گیا گریوں کہے کہ میں نے پھول دیکھا تو اسے استعارہ کہیں گے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ تشبیہ میں غلو کے ساتھ ایک چیز کو دوسری قرار دینے (مشبہ کو مشر به قرا دینے ) کو استعارہ کہتے ہیں۔ ت

شبیہ میں جسے مشبہ کہتے ہیں اس کی جگہ استعارہ میں مستعار لہ ہوتا ہے اور تشبیہ میں جسے مشبہ بہ کہتے ہیں وہ استعارہ میں مستعار منہ بن جاتا ہے۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ مل کر طرفین تشبیہ کہلاتے ہیں۔ تو یہاں مستعارلہ اور مستعار منہ مل کر طرفین استعاره کا نام پاتے ہیں۔

مجاز مرسل

"جب کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنی کے بجائے کسی قرینے کی بنا پر اس کے مجازی معنی میں استعمال کیا جائے اور حقیقی اور مجازی معنی میں تشبیہ کے علاوہ کوئی اور تعلق ہو ( مثلاً کل اور جز کا سبب اور مسیب کا ظرف اور مظروف کا) تو اسے مجاز مرسل کہا جاتا ہے۔

یادر ہے کہ اگر حقیقی اور مجاز معنی میں تشبیہ کا تعلق ہو تو اسے استعارہ کہیں گے ۔

مجاز مرسل کی مثال

جب ہاتھ اس کی نبض پہ رکھا طبیب نے

محسوس یہ کیا کہ بدن میں لگی ہے آگ

اس شعر میں ہاتھ یعنی کل بول کر انگلیاں یعنی جز مراد لیا گیا ہے ۔

کنایہ

لغت میں مخفی اشارہ یا پوشیدہ بات کہنے کو کہتے ہیں۔

علم بیان کی اصطلاح میں کنایہ یہ وہ لفظ ہے جس کے معنی حقیقی مراد نہ ہوں بلکہ معنی غیر حقیقی مراد ہوں اور اگر
حقیقی معنی بھی مراد لیے جائیں تو جائز ہو۔ کنایہ میں مزدم بول کر لازم مراد لی جاتی ہے۔

یادر ہے کہ کنایہ کے بر خلاف استعارہ میں حقیقی معنی مراد نہیں لیے جاسکتے ۔

کنایہ کی مثال

اس چمن میں طائر کم پر اگر میں ہوں تو کیا

دور ہے صیاد بھی اور آشیاں نزدیک ہے
(میر)

یہاں کم پر سے کم اڑنے والا مقصود ہے اور اگر اس سے مراد پروں کا مقدار تھوڑا ہونا لیا جائے تو بھی جائز ہے۔

(بشکریہ ضیائے اردو نوٹس ص 941)

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں