فسانہ عجائب کا تعارف اور تنقیدی جائزہ
مرزار جب علی بیگ سرور (ولادت لکھنو 200ھ انتقال 14 اپریل تا 14 مئی 1869 رام پور ) فسا نه عجائب” ( 1240 1825ء) کیونکہ میر امن کی باغ و بہار کے جواب میں لکھی لہذا وہ ہر معاملہ میں خود کو میر امن کے برعکس ثابت کرنے کی نفسیاتی الجھن میں گرفتار ر ہے۔
میرامن سلیس نگار تھے سرور نے گنجلک اسلوب اپنایا۔ میرا من کفایت لفظی کے قائل تو یہ اسراف کے وہ دہلی کا روزا یہ لکھنؤ کے خوش پوش۔
الغرض سرور نے دہلی بمقابلہ لکھنو کی صورت پیدا کر دی اور بقول وقار عظیم "سیدھی سادی بے ضرری سی بات” میں امن کی ایک بظاہر بے ضرری تعلی نے ادبی نزاع کی صورت اختیار کر لی چنانچہ فسانہ عجائب کو جہاں اہل لکھنو نے سر پر اٹھایا وہاں میر امن کے حمایتی بھی میدان جنگ میں اتر آئے
اور سید محمد فخر الدین حسین نحسن نے "گردش نحن (1859 / 1276ھ) لکھ کر سرور کی زبان میں سے کیڑے نکالے۔ اس کے جواب میں محمد جعفر علی شیون لکھنوی نے طلسم حیرت (1289/1872 ھ) لکھ کر مخالفین کے لتے لے – 1240ء میں فسانہ عجائب ضبط تحریر میں آنے کے 19 برس بعد یعنی 1259ھ میں (9) طبع کی گئی اور چھپتے ہی مقبول ہوگئی ۔
اشاعت 126ھ میں ہوئی۔ سرور کی زندگی ہی میں لکھنو سے متعدد بار طبع کی گئی ۔ رشید حسن خاں کی فراہم کردہ معلومات کے بموجب اس کے اتنے بریشن چھپے 1261 1263, 63, 1276، 1280،1283، 167دہ (مطبع محمدی کان پور ) 1276 1280 ھ اور 1283ھ نوں کشور ) (10) اور بقول رشید حسن خاں اتنی بار چھپی ہے کہ سب اشاعتوں کا گوشوارہ تیار کرنا مشکل ہے۔
اور یہ بھی کہ سرور نے پہلی ترنت (1259 ) کے بعد کئی بار اس پر نظر ثانی کی ہے اور ہر بار جہت سے لفظوں کو فقروں کو اور بہت سی عبارتوں کو بدل دیا ہے ۔ لطیفہ یہ ہے اسی تبدیلیوں کا کوئی ایک انداز نہیں 1280 ء میں چھپا یہ مصنف کا نظر ثانی کیا ہوا آخری ایڈیشن ہے ۔
بطور داستان فسانہ عجائب کی اہمت طبع ذاد ہونے کے علاوہ اسلوب کی بنا پر ہے۔ سرور نے فسانہ عجائب کا آغاز اس شعر سے کیا ہے۔مثل ہی سے نہ الفاظ تلازم ہے یہ خالی ہے ہر اک فقرہ کہانی کا گواہ بے مثالی ہےیہ شعر سرور کے استاد نوازش کا ہے۔ایسا مرصع اسلوب جس کے معنی جملے اور استعارات ذہن کو بعض اوقات الجھا بھی دیتے ہیں لہذا یہ اسلوب سادہ نگارش کے رسید کے لیے ضرورت سے زیادہ بگھاری ہوئی دال ہے تو مرصع کاری کے شیدائی کے لیے تشبیہات استعارات اور قوانی والی ایک اور باغ۔
رجب علی بیگ کا تعارف اور ادبی خدمات، فسانہ عجائب فکری و فنی جائزہ pdf
۔داستانی ادب میں فسانہ عجائب کو اختصار کی بنا پر بھی اہمیت حاصل ہے۔ اگر چہ باغ و بہار بھی مختصر ہے مگر وہ بنیادی طور پر چار بلکہ خواجہ سنگ پرست کا قصہ بھی شامل کر لیں تو پانچ غیر متعلق کہانیوں پر مشتمل ہے جنہیں بادشاہ کے حوالے سے مربوط کیا گیا ہے جبکہ فسانہ عجائب ایک ہی قصہ پر استوار ہے یوں یہ سنگل پلاٹ والے ناول کی فضا کے آس پاس ہو جاتی ہے۔
مافوق الفطرت کی وجہ سے اگر چہ کردار نگاری کا رنگ چوکھا نہ ہو۔ لیکن جزئیات نگاری میں سرور کسی سے بھی پیچھے نہیں بلکہ عبارت آرائی سے اس میں زبان کا لطف بھی پیدا کر دیتے ہیں۔
تفصیلات کے لیے رشید حسن خاں کی مرتبہ فسانہ عجائب ج”لاہور 1990 ملاحظہ کیجئے۔فسانہ عجائب” کے علاوہ سرور کی ” سر در سلطانی” (1264 – 1874ء) شگوفہ محبت” ( 1856ء) شر عشق (1856ء) شبستان سرور ” ( 1862ء) اور فسانہ عبرت (1852ء) بھی قابل ذکر ہیں، مگر اب ان کا نام میر امن کی مخالفت سے زندہ ہے جس کا منہ بولتا ثبوت فسانہ عجائب ہے۔
اردو ادب مختصر ترین تاریخ ڈاکٹر سلیم اختر
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں