فردوس بریں کا خلاصہ

فردوس بریں کا خلاصہ

شرر فردوس برین کا آغاز اس زمانی تعین کے ساتھ کرتے ہیں:
اب تو سنہ 651 ہجری ہے مگر اس سے ڈیڑھ سو سال پیشتر ” فرقہ باطنیہ اور اس کی تحریک پانچویں صدی ہجری کے عالم اسلام پر سیاہ آندھی کے مانند چھا گئی تھی۔

اس کا بانی حسن بن صباح اس دور کی معروف شخصیت ہے جس کی زندگی میں ہی باطنی تحریک سلطنت کا روپ دھار چکی تھی ۔

ڈیڑھ سو سال بعد رکن الدین خور شاہ اس خاندان کا چشم و چراغ قلعہ التمونت کے تخت زرین پر متمکن ہے بلکہ مذہبی مقتدائی کا تاج بھی زیب سر کیے ہوئے ہے۔

طرح طرح کے سیاسی انقلابات ہونے کے باوجو د سلطنت باطنیہ اپنی جگہ قائم ہے۔ اس کا قیام جن تدبیروں سے ہے، وہ نوع بنوع ہیں۔

فردوس بریں کا فنی اور فکری جائزہ

انھیں میں سے ایک یہ ہے کہ جو بھی سیاسی و مذہبی رہ نما با طنین کے خلاف زبان کھولتا ہے، باطنی رہ نما اپنے جو شیلے لیکن سادہ لوح مقتدیوں کے ذریعے اسے اپنے راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔

ان باطنی رہ نماؤں کے مرید کہا جاسکتا ہے کہ قاف تا قاف پھیلے ہوئے ہیں ۔ شیخ وجودی ان رہ نماؤں میں الجزیرہ علاوہ خورشاہ کے سب پر فوقیت رکھتا ہے۔

کاظم جنوبی جیسے نہ جانے اس کے کتنے لیفٹینینٹ ہیں۔

اس سیاسی ، سماجی اور نفسیاتی فضا میں شہر آمل کا ایک نوجوان حسین اپنی منظور نظر زمرد کے ساتھ حج بیت اللہ کے ارادے سے نکلتا ہے۔

فردوس بریں کا تنقیدی جائزہ

کوہ طالقان کے دامن میں نہر دو رنجان کے کنارے ایک دشوار گزار گھاٹی کو عبور کر کے یہ جوڑا اس مرغزار میں پہنچتا ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہاں پر یوں کے غول پھرا کرتے ہیں اور پریوں کے ان غولوں کے ہاتھوں میں زمرد کا بھائی موسیٰ و ہیں قبر میں لیٹا موت کی گہری نیند سو رہا ہے۔

زمرد، بھائی کی قبر پر فاتحہ پڑھے بغیر آگے نہیں جاسکتی اور جب فاتحہ پڑھ چکتی ہے تو پریوں کا غول نظر آتا ہے ۔

جس کے نتیجے میں دونوں بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ ہوش میں آکر حسین موسیٰ کی قبر کے پاس ہی ایک اور قبر دیکھتا ہے، جس پر زمرد کا نام کندہ ہے۔

رد عمل کے طور پر حسین غم و اندوہ سے زندہ درگور ہو جاتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ اسی قبر پر رو رو کر اپنا بھی خاتمہ کر لے گا۔

خاصی مدت کے بعد اسے زمرد کا خط ملتا ہے جس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ وہ فوراً شہر حلب جائے اور شیخ وجودی سے مل کر ان کے احکام کی بے چون و چرا تحمیل کرے۔

حسین زمرد کے اس جنت سے آئے خط کو دیکھ کر شیخ وجودی کی بارگاہ میں پہنچتا ہے اور شیخ وجودی کے اشارے اور کہنے پر اپنے چاچا امام نجم الدین نیشا پوری کو قتل کراتا ہے۔

اس کار عظیم کے صلے میں حسین کوہ طالقان کے دامن اور قلعہ الموت کے پہلو میں آباد
فردوسِ بریں کی سیر کرتا ہے اور حوران فردوس کے درمیان زمرد سے بھی ملاقات کرتا ہے ۔

کار پروازان فردوس بریں ءشیش پلا کر نہایت ہوشیاری سے حسین کو جلد عالم عناصر میں پہنچا دیتے ہیں ۔

حسین کا جذبہ کہ وہ کسی بھی قیمت پر فردوس بریں میں زمرد سے جا ملے انتہائی شدید ہو۔

عبد الحلیم شرر کی تاریخی ناول نگاری فردوس بریں کے تناظر میں

شیخ وجودی اس جذبہ سے فائدہ اٹھا کر اس بار حسین سے دمشق کے عالم امام نصری بن احمد کو قتل کرواتا ہے۔

حسین اس کے صلے میں فردوس بریں میں داخل ہونے کے لیے ضد کرتا ہے جس پر شیخ وجودی اسے خور شاہ کے نام ایک خط دیتا ہے۔

حسین خط لے کر خور شاہ کے دربار میں جاتا ہے جہاں سے اس کی حق گوئی کو گستاخی قرار دے کر نکال دیا جاتا ہے۔

مایوسی حسین پھر زمرد کی قبر کا مجاور بن جاتا ہے۔

یہاں کچھ دن بعد اسے زمرد کے دو خط ملتے ہیں۔ ایک اس کے نام اور دوسرا بلقان خاتون کے نام ۔ اس کے نام کے خط میں مرقوم ہے کہ اسے فوراً شہر قراقر پہنچ کر دوسرا خط شہزادی بلقان خاتون کو مکمل تنہائی میں دینا چاہیے ۔

بلقان خاتون ہلاکو خان کی بہن اور ترکستان کے شہنشاہ منقو خان کی بنت عم ہے۔

عبد الحلیم شرر کا تعارف

مزید یہ کہ بلقان کے باپ چغتائی خان کی ہلاکت ایک باطنی فدائی کے خنجر ہی سے کچھ دن پہلے ہو چکی ہے۔ حسین بلقان کے پاس خط لے کر جاتا ہے ۔

خط پڑھ کر بلقان پانچ سو سواروں کو ساتھ لے حسین کی رہنمائی میں جبل طالقان کی طرف روانہ ہوتی ہے۔

بالآخر طالقان پہنچ کر موسیٰ اور زمرد کے قبر کے پاس پہنچتی ہے اور پھر فردوس بریں کے خفیہ دروازے پر جا پہنچتی ہے۔

یہ رمضان کی 27یں تاریخ تھی یعنی عید قائم قیامت کا دن۔

دور و نزدیک کےتمام رہ نما، شیخ وجودی، کاظم جنوبی اور تمام دوران غلامی بہشتی قریب ہی قلعہ التمونت میں موجود تھے ۔

جہاں خورشاہ اپنا اور تحریک باطنی کا سالانہ جشن منا رہا تھا جنت میں داخل ہونے کے بعد زمرد اپنی محسنہ بلقان کا خیر مقدم کرتی ہے اور جنت کے تمام بھیدوں کا پردہ بھی فاش کرتی ہے۔

ادھر چند گھنٹوں بعد ہلاکو خان بھی اپنا لشکر لے کر داخل جنت ہوتا ہے۔ زمرد بلقان اور ہلاکو فاش ان کی سپاہ سمیت قلعہ، التمونت میں پہنچاتی ہے۔

خورشاہ کے جلسہ عیش میں دفعہ کہرام مچ جاتا ہے۔ یہی نہیں ٹھیک اسی وقت ہلاکو خاں کا فرستادہ طوبی خاں ایک لشکر لے کر قلعے کے صدر دروازے پر یورش کرتا ہے اور کاظم جنوبی کیفر کردار کو پنچتا ہے۔

شخ وجودی کی موت واقعی عبرت خیز ہوتی ہے۔ خورشا کی بیکسی اس کی جان بخشی کراتی ہے اور اسے زندہ نمونہ عبرت بنانے کے لیے ترکستان بھیج دیا جاتا ہے اور یوں اس فردوس بریں اس ملاء اعلی کو زمین کے ساتھ ہموار کر دیا جاتا ہے۔

باطنیت کی شہ رگ کٹ جاتی ہے۔ قلعه التمونت خالی ہونے سے پہلے شیخ نصیرالدین طوسی زمرد اور حسین کا نکاح پڑھاتے ہیں۔

بعد ازاں یہ دونوں حج کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ واپس آکر کچھ دن آمل میں رہتے ہیں اور پھر باقی مانده زندگی قراقرم پہنچ کر بلغان کے پاس گزار دیتے ہیں۔

بشکریہ ضیائے اردو نوٹس

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں