فراق گورکھپوری کی شخصیت شاعری اور مختلف ناقدین کے آراء

فراق گورکھپوری کی شخصیت شاعری اور مختلف ناقدین کے آراء

فراق گورکھپوری کی شخصیت

فراق گورکھپوری(1982- 28 اگست 1896ء)

فراق کا نام رگھوپتی سہائے تھا اور فراق تخلص۔

فراق 28 اگست 1896 میں بنواریار بانس گاؤں ضلع گورکھپور کے کپور میں پیدا ہوئے تھے۔

فراق کا انتقال 1982ء میں دہلی میں حرکت قلب رکنے کی وجہ سے ہوا ۔

والد کا نام گورکھ پر شاد تھا اور عبرت تخلص اور پیشہ وکالت۔

فراق کے والدہ کا نام دلاری دیوی تھا۔

فراق کے شاعری کے پہلے استاد پروفیسر ناصری پھر سیم خیر آبادی اور ریاض خیر آبادی ہیں ۔

فراق نے بی۔ اے الہ آباد یونیورسٹی سے کیا تھا۔

فراق کا پی سی ایس میں انتخاب 1919 میں ہوا تھا۔

فراق یوجی سی کی طرف سے نیشنل پروفیسر 1959ء میں ہوئے تھے ۔

فراق تحریک آزادی میں شریک ہوئے تھے جس کی پاداش میں 1920 میں ڈھائی سال قید کی سزا ہوئی تھی۔

جیل میں فراق کی ملاقات عارف ہنسوی، حکیم آشفته، مولانا احمد علی ، حسرت موہانی اور مولانا ابوالکلام سے ہوئی تھی۔

فراق گورکھپوری کی شاعری

فراق کے کلام میں ہندوستانی دیو مالائی عناصر کا اثر سب سے زیادہ ہے۔ بقول فراق انھوں نے 19 برس کے ہونے کے بعد شاعری شروع کی یعنی 1916 میں ان کی شاعری کا آغاز ہوا تھا۔

فراق مصحفی کے دلدادہ تھے ۔

فراق نے میر مصحفی ، ذوق، داغ اور ناسخ کا اثر قبول کیا ہے۔ فراق اردو کے علاوہ انگریزی، ہندی اور سنسکرت ادب سے بھی گہری واقفیت رکھتے تھے ۔

دیو مالائی عناصر فراق کی شاعری میں جابجا نظر آتے ہیں۔ فراق کی شاعری کا لب ولہجہ سکون ، بری اور ٹھنڈک سے پہچان لیا جاتا ہے ۔

لہلہاٹیں ، رسمساہٹیں ملگجاہٹیں جیسے الفاظ فراق نے وضع کیے تھے۔

فراق کی غزلوں میں انگریزی کی شعری روایت کا پر تو نظر آتا ہے۔

فراق کی شاعری کی بڑی خصوصیت رومانی نیم خوابی کی کیفیت ہے۔

فراق کے کلام کی اہم خصوصیات جنسیت، جمالیات ، فطرت پرستی اور ہندوستانیت ہے۔

فراق کے کلام میں ہندوستانی صنمیات کا سب سے زیادہ اثر ہے۔

فراق نے جمالیاتی رباعیاں کہی ہیں۔

فراق اردو کے تاثراتی نقاد ہیں۔

اعزازات و انعامات

فراق کو گل نغمہ پر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ 1962 میں ملا تھا۔

فراق کو پدم بھوشن اور سوویت لینڈ نہروایوارڈ 1968 میں ملا تھا۔

فراق کو گل نغمہ پر گیان پیٹھ ایوارڈ 1969 میں ملا تھا۔

فراق کو اتر پردیش اردو اکادمی ایوارڈ گل نغمہ پر 1961 میں ملا تھا۔

فراق کو ساہتیہ اکادمی فیلوشپ 1970 میں ملی تھی۔

فراق کے بارے میں مختلف آرا و خیالات

محمد حسن نے فراق کو اردو شاعری کا "آسکر وائلڈ” کہا ہے ۔

محمد حسن نے فراق کو اردو ادب کا جانسن کہا ہے۔

کامل قریشی نے فراق کو حسن و عشق کا رسیا کہا ہے ۔

فراق نے اردو میں ہندوستانی دیو مالائی تصور جمال کی ترجمانی کی ہے۔ ( گوپی چند نارنگ)

فراق حسن و جمال کی بولتی ہوئی روح کے شاعر ہیں۔ ( گوپی چند نارنگ )

فراق جیسی چند جامع شخصیتیں روز روز نہیں پیدا ہوا کرتیں۔ ( مجنوں گورکھپوری )

اردو شاعری میں آنے والی شخصیت فراق کی ہے ۔ ( اصغر گونڈوی )

میں فراق کو اردو غزل کا ایک اہم ستون تسلیم کرتا ہوں ۔ ( کلیم الدین احمد )

فراق نے اردو شاعری کی طاق میں ہندوستانیت اور آفاقیت کی شمع روشن کی ۔ (سلام سندیلوی)

دنیا سے جاتے ہوئے غزل کو فراق کے ذمے کیے جارہا ہوں ۔ ( یگانہ چنگیزی )

فراق کی شاعری حقیقی شاعری کی بہترین مثال ہے ۔ (یگانہ چنگیزی )

اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ آج کے شعراء میں سب سے درخشاں مستقبل کس کا ہے تو میں تنہا فراق کا نام لوں گا۔ (نیاز فتح پوری )

فراق کو میں اس صدی کے موجودہ پچاس سال کے منفر اور متاز غزل گویوں کی صف میں جگہ دیتا ہوں۔

فریل کا جو آئندہ رنگ و آہنگ ہوگا اس میں فراق کا بڑا حصہ ہوگا۔ (رشید احمد صدیقی)

فراق کی یہ خوبی ہے کہ انھوں نے احساس جمال و حیات وکائنات سمجھنے کے لیے بطور قدر استعمال کیا ہے اور ایسے جذبے اور فکر میں ڈوبے ہوئے نغموں کو ایسے آتشیں احساس کے ساتھ جگایا ہے کر شعلہ سا لپک جائے ہے اور ہم تھوڑی دیر کے لیے نئی آگاہیوں کی ایک حسین دنیا میں پہنچ
جاتے ہیں۔ (خواجہ احمد فاروقی ) ۔

راشد اور فیض کے بعد جدید نظم نگاری کے معیار پر صرف فراق کی نظمیں پورا اترتی ہیں۔
(عزیز احمد)

جب ہم لوگوں کو بھول جائیں گے اس وقت بھی فراق کی یاد تازہ رہے گی ۔ ( جگر مراد آبادی )

پنے فراق کو میں قرنوں سے جانتا اور ان کے اخلاق کا لوہا مانتا ہوں ۔ مسائل علم و ادب پر جب وہ زبان کھولتے ہیں لفظ و معنی کے لاکھوں موتی پر دلیتے ہیں ۔ ( جوش ملیح آبادی )

جو شخص یہ نہیں تسلیم کرتا کہ فراق کی عظیم شخصیت ہندوستان کے ماتھے پر ٹیکہ اور زبان کی آبرو اور شاعر کی مانگ کا صندل ہے وہ خدا کی قسم کورے مادر زاد ہے ۔ ( جوش ملیح آبادی )

مزید یہ بھی پڑھیں: فراق گورکھپوری شخصیت اور فن pdf مقالہ

بشکریہ ضیائے اردو نوٹس

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں