غلام عباس کا افسانہ سایہ خلاصہ فنی اور فکری جائزہ

افسانہ سایہ بنیادی مباحث

غلام عباس کے افسانوی مجموعے جاڑے کی چاندنی میں شامل یہ افسانہ سایہ 1950ء میں لکھا گیا اور جنوری 1951ء کو نیا دور میں اشاعت پذیری کے لیے بھیجا گیا۔ اس افسانوی مجموعے جاڑے کی چاندنی میں شائع ہونے سے پہلے اس افسانے کا نام سائے تھا۔ جاڑے کی چاندنی 1960 ء میں منظر عام پر آیا۔

افسانہ سایہ کا خلاصہ

افسانہ سایہ ” غلام عباس کے معروف افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا مرکزی کردار ایک جہاں دیدہ ، سردو گرم کشیدہ اور سال خوردہ سبحان نامی شخص ہے، جو پچھلے پانچ سال سے ایک وکیل صاحب کے گھر کے سامنے اپنا ٹھیلہ لگا کر روٹی کا انتظام کیے ہوئے ہے۔ یہ ٹھیلہ ہی اس کی کل کائنات اور واحد ذریعہ معاش ہے۔ اس کے گاہکوں میں زیادہ تر گاہک وکیل صاحب کے اہل خانہ ہیں، جو اپنے گھر کی زیادہ تر اشیائے ضروریہ اس سے خریدتے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ آنے جانے والے راہ گیر کبھی کبھی اس کے گاہکوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ سبحان ! وکیل صاحب کے گھر کے افراد اور نوکروں اور ماماؤں تک سے اچھی واقفیت رکھتا ہے۔ گھر کے تمام افراد کا مزاج آشنا بھی ہے۔ وہ خود تجرد کی زندگی گزار رہا ہے، لیکن وکیل صاحب کے بچوں ، ان کے ملازموں، حتی که خود وکیل صاحب سے بھی ہنس بول کر وقت گزاری کرتا ہے۔ وکیل صاحب کے صاحبزادے کالج اور بچیاں سکول میں پڑھتے تھے۔ وکیل صاحب کے بیٹوں شمشاد اور مختار کے ساتھ ساتھ ان کے دوست ریاض سے بھی اس کی صاحب سلامت تھی۔ یہ تینوں اکھٹے شام کو ہاکی کھیلتے اور واپسی پر سبحان کے ٹھلے پر کھڑے ہو کر باہنی گپ شپ لگاتے۔ کبھی کبھار کسی موضوع پر گرماگرم بحث بھی ہو جاتی ۔ اس دوران وکیل صاحب کے مکان کی دوسری منزل پر جہاں ان کی بڑی بیٹی کا کمرہ تھا، بار بار ایک رنگین سایہ چقوں کے پیچھے کھڑے ہوکر حرکت کرتا۔ سبحان اس منظر سے خوب واقف تھا۔

وکیل صاحب کی بچیاں جوان تھیں ، لوگ باگ ان کے رشتوں کے لیے آتے رہتے اور جب یہ مہمان چلے جاتے تو سبحان بچوں اور گھر کے نوکروں سے باتوں باتوں میں اس بات کی ٹوہ لگانے کی کوشش کرتا کہ بات پکی ہوئی کہ نہیں۔ بالآخر وکیل صاحب کی بڑی صاحبزادی کی بات شہر کے ایک مشہور ڈاکٹر کے بیٹے کے ساتھ طے ہوگئی۔ لڑکا چونکہ بی۔ اے کا طالب علم تھا اس لیے امتحان سے فارغ ہوتے ہی شادی کی تاریخ طے ہو گئی ۔ شادی کی تیاریاں بڑے زور وشور سے شروع ہو گئیں ۔سبحان نے ایک بات خصوصیت سے نوٹ کی کہ بڑی صاحبزادی کی شادی کی تاریخ طے ہو جانے کے باوجود ریاض کی آمد کے وقت وہ رنگین سایہ چقوں کے پیچھے بدستور حرکت کرتا رہتا ہے اور ریاض بھی مختلف حیلے بہانوں سے مختار اور شمشاد کے ساتھ ٹھیلے کے پاس اپنے قیام کو طول دیتا رہتا۔ سبحان کو شک گزرا کہ کہیں لڑکی کو یہ رشتہ نا پسند تو نہیں ، بلکہ یہ شک اگلے چند دنوں میں یقین میں بدل گیا، جب اسے پتہ چلا کہ لڑکی کی طبیعت خراب رہنے لگی ہے ۔ وہ اکثر اپنے کمرے میں پڑی رہتی اور سکول جانا موقوف ہو گیا، البتہ ریاض کے آنے پر وہ سایہ چقتوں کے پیچھے متحرک ہوجاتا۔ سبحان جوانی میں اس تجربے سے گزر چکا تھا۔ وہ واردات محبت ہجر و وصال اور تانک جھانک کے مرحلوں سے گزر چکا تھا۔ ان گزرے لمحات کی یادیں اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیتیں۔ مختار اور شمشاد چونکہ اس تجربے سے نا آشنا تھے، اس لیے وہ ریاض کی نظروں کو نہ بھانپ سکے۔

مختصر یہ کہ شادی کا مرحلہ جوں جوں قریب آ رہا تھا، ان کی باجی ک طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی۔ ایک دن تو ڈاکٹر کو تین دفعہ بلوانا پڑا۔ اس دن تو لڑکی کا سسر خود جو شہر کا معروف ڈاکٹر تھا۔ خود آیا اور لڑکی کا معائنہ کیا۔ سارا دن اہل خانہ پریشان رہے، گھر پر بھی مایوس اور خاموشی طاری رہی۔ شام کو ریاض آیا تو شمشاد اور مختار نے بتایا کہ باجی کی طبیعت سخت خراب ہے اور ڈا کٹر کہتے ہیں کہ اگر آج کی رات خیریت سے گزرگئی تو پھراس کی زندگی کوکوئی اندیشہ نہیں۔ وہ دیر تک ٹھیلے پر کھڑے باتیں کرتے رہے۔ اوپر کمرے میں روشنی تھی مگر چوں کے پیچھے آج کوئی سایہ متحرک نہ ہوا۔ آج خلاف معمول سبحان نے ٹھیلا آدھی رات کو بند کیا اور سڑک کے کنارے چار پائی ڈال کر لیٹ گیا مگر اس کا دل طرح طرح کے اوہام کی آماجگاہ بنا رہا۔

افسانہ سایہ کا فکری و فنی و جائزہ

سایہ ایک شریف اور وضع دار مسلم گھرانے کی ایک لڑکی اور ایک لڑکے کے درمیان ایک ایسی خاموش محبت کی کہانی ہے جس سے اور کوئی واقف نہیں ، سوائے خوانچہ والے سبحان کے۔ زندگی اس گھر میں اپنی تمام تر سہولتوں اور آسانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ گھر میں خوشیاں ہیں، آزادی ہے، البتہ معاشرتی اقدار اور اخلاقی ضوابط کی پابندی پوری طرح موجود ہے۔ گھر سے باہر خوانچے والا گھر کے معاملات میں دلچسپی لیتا ہے۔ یہ سالخوردہ شخص مجرد ہے۔ آگے پیچھے کوئی نہیں، جوانی میں واردات عشق کا زخم خوردہ ہے۔ اس لیے اپنی مصروفیت اور اہل خانہ سے قلبی لگاؤ کی وجہ سے گھر کے معاملات میں اس کا دلچسپی لینا انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ گھر کے سب افراد خصوصاً نوجوان اگر چہ اپنے معمولات زندگی میں کافی آزاد ہیں، مگر اپنے جذبات واحساسات کے اظہار کے لیے معاشرتی معروضات اور اخلاقی امتناعات کے سامنے مجبور ہیں۔ جب جذبات و احساسات کو اظہار کا صیح رخ میسر نہیں آتا تو داخلی کشمکش اور تصادم فرد کی نفسی کیفیت کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ ایسی ہی کیفیت کو غلام عباس نے اپنے اس افسانے کا موضوع بنایا ہے ۔ وہ ایک سچا معقولیت پسند اور اخلاقی اقدار کا پاس دار فنکار ہے۔ شرافت اور شائستگی اس کی ذات کے بنیادی عناصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس افسانے میں اباحیت، جنسی آوارگی ، مفسد و پروازی اور پرورشن (Purversion) جو ہمارے افسانہ نگاروں کی پہلی ضرورت ہے اور اسے حقیقت پسندی کا گمراہ کن نام دیا گیا ہے، غلام عباس اس سے دور ہیں اور اس کہانی میں یہ سب کچھ باآسانی داخل ہو سکتا تھا، مگر رمز و کنایہ ادب کا قرینہ ہے اور غلام عباس نے اس قرینے سے نہایت نرم روی سے اس کہانی کو انجام تک پہنچایا ہے۔ افسانہ سایہ غلام عباس کے مشاہدے کی گہرائی، دروں بینی ، انسانی فطرت سے گہری آگاہی اور متوسط مسلمان گھرانوں سے وابستہ نوکروں، ماماؤں اور دیگر افراد کی نفسیات سے واقفیت کا پتہ دیتا ہے۔ ہمارے ارد گرد بکھرے اور پھیلے ہوئے حقائق اور ان کے پیچھے سرگرم عمل جو عوامل ہیں، انہیں نہ تو ہر آنکھ تنقیدی نگاہوں سے دیکھتی ہے اور نہ ہی انہیں دیکھنے کی فطری صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ کام صرف ایک حساس شخص یعنی ادیب کی نگاہ کر سکتی ہے اور ایک حساس ادیب کا قلم اس تاثر کو موثر پیرائے میں اس طرح پیش کرتا ہے کہ جو بھی اسے پڑھتا ہے اسے یہ اپنے دل کی آواز اور ذاتی تجربہ محسوس ہوتا ہے۔ ریاض جب ہاکی کھیلنے کے بعد شمشاد اور مختار کے گھر کے سامنے خواہ مخواہ اپنی گفتگو کو طول دیے جاتا ہے اور چقوں کے پیچھے سائے کا متحرک ہونا دراصل ایک جوابی عمل ہے۔ سلسلہ گفتگو اور سائے کی حرکت کے درمیان جو باہمی ربط ہے وہ عشق کی آگ کو جو پس منظر میں ہے، کو روشن رکھنے کا ایک وسیلہ ہے۔ ہمارے مشرقی معاشرہ میں معاشرتی آداب، شرم و حیا، وضع داری اور سماجی امتناعات کا دباؤ فطری تقاضوں کے زیر اثر پیدا ہو جانے والے عاشقانہ روابط کی استواری کو پس پردہ سے منظر عام پر آنے اور کھل کر کھیلنے کی اجازت نہیں دیتے ۔ یہ منٹو یا عصمت نہیں بلکہ غلام عباس ہے۔ اس نے اپنی کہانی میں ان آداب و ممانعات کی تضحیک کی ہے۔ نہ ان پر طنز کے تیر برسائے ہیں، اس نے تو اس معاشرتی حقیقت پر محض ایک اشارہ کیا ہے اور بس۔ ایک ذہین قاری اس لطیف اشارے کو سمجھ لیتا ہے۔سبحان عمر کے جس حصے میں ۔ معاشرتی ناہمواریوں پر کڑھنا ایک فطری امر ہے، کیونکہ انہیں ماضی کی نا آسودگیاں اور و محرومیاں یاد آتی ہیں تو ان کے دل میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ باوجود یکہ صورت واقعہ میں کوئی تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے مگر وہ خواہ مخواہ دلچسپی ضرور لیتے ہیں اور اندر ہی اندر ان کے ہاں ایک نا آسودگی جو ماضی کا حصہ ہے پورش پانے لگ جاتی ہے، اس بحران میں وہ بے چین اور پریشان ہوتے رہتے ہیں، اگر چہ اس صورت حال میں کوئی تبدیلی ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے ، پھر بھی اپنی بے جا دلچسپی سے اپنے کرب میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ واردات محبت اور ہجر و وصال کے جن مرحلوں سے وہ گزر چکے ہوتے ہیں ، جب عاشق کو اس کیفیت میں دیکھتے ہیں تو عاشق کے دل کی دھڑکن ان کے دل کی دھڑکن بن جاتی ہے۔افسانہ سایہ میں وکیل صاحب کے گھر کے تمام افراد بالغ نظر اور پڑھے لکھے ہیں مگر ان میں سے کوئی چقوں کے پیچھے متحرک سایہ نہیں دیکھ پاتا اورنہ ہی باجی کے دل سے محبت کی آگ سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کی بومحسوس کر پاتا ہے، مگر سجان اس متحرک سائے کو بھی دیکھ لیتا یے اور عشق کے اُٹھتے ہوئے دھوئیں کی بو بھی سونگھ لیتا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سبحان کی زندگی میں ایک ایسا موڑ آ چکا ہے، اس لیے وہ اس اُٹھتے دھو ئیں کو دور سے دیکھ لیتا ہے۔ شمشاد ذہین ہے، پڑھا لکھا ہے، جوان ہے، مگر وہ ریاض کی آنکھوں میں محبت کی چھلکتی ہوئی چنگاری اور اس کی گفتگو میں ہمکنے والی درد کی ٹیسوں کو محسوس نہیں کر پاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عشق کے ذاتی تجربے سے نا آشنا ہے۔ وہ نہیں جان پاتا کہ ریاض کی گفتگو کیوں طویل ہوتی رہتی ہے۔ وہ کہیں رُخ سے کھڑا ہوتا ہے اور متحرک سائے کو دیکھ کر اس کے چہرے پر ابھرنے والے تاثرات سے بیگانہ ہے۔ اس کے قہقہوں میں کھنک اور وارفتگی کا مطلب اس کی سمجھ سے باہر ہے۔ البتہ سبحان ان سب باتوں کو سمجھتا ہے۔ دراصل محبت کا ادراک ایک قلبی تجربے سے اُبھرتا ہے، جس کی شمشاد میں کمی ہے اور سبحان اس تجربے سے گزر چکا ہے۔ سایہ کے سلسلے میں ممتاز شیریں کا تبصرہ بڑا معنی خیز ہے، وہ لکھتی ہیں :افسانہ سایہ پہلے میں نے پڑھا۔ پھر شاہین نے ۔۔۔۔۔افسانہ ہم دونوں کو بہت پسند آیا۔ آپ کے سبھیافسانوں کی طرح یہ بھی صاف ستھرا اور نفیس ہے۔ آپ نے جو موضوع لیا ہے اس میں اچھی جزئیات کے با وجود افسانے کے سپاٹ اور غیر دلچسپ ہو جانے کا اندیشہ تھا، لیکن آپ نے افسانے کو سپاٹ اور غیردلچسپ نہیں ہونے دیا۔ کہانی لطافت سے دھیمے دھیمے کلائمکس کی طرف بڑھتی ہے اور کلائمیکس اور اختتام بھی بہت خوب ہیں۔ اگر ہمیں قطعی طور پر یہ بات معلوم ہو جاتی کہ لڑکی پر کیا گزرتی ہے تو افسانہ سایہ ٹھیلے والے کی بجائے لڑکی کی طرف جھک جاتا ۔ ایک کم کامیاب افسانہ نگار یہاں آ کر یہی غلطی کر بیٹھتا۔ اب آپ کے افسانے میں ہم سب کچھ ٹھلے والے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور اس کے قیاس سے اندازہ لگاتے ہیں۔ لڑکی کے انجام کی خبر دینے کی بجائے، افسانے کو ٹھیلے والے کی (Concern) اور بے چینی پرختم کر دینا فنکارانہ سچ ہے اور یہ ان جانی تذبذب اور Un-certainty کی کیفیت عجب لطف دے گئی ہے۔“ انوار احمد اردو افسانہ تحقیق وتنقید میں سایہ کے بارے میں لکھتے ہیں :سایہ بھی ایک ایسے خوانچے والے کی کہانی ہے جو اس دیوار کا مقروض ہو جاتا ہے۔ جس کے سائے میں وہ کاروبار شروع کرتا ہے۔ محبت کا یہ قرض وہ پورے کنبے کے ہر فرد کی جھولی میں ڈالتا ہے۔ پائی پائی، ریزہ ریزہ۔۔۔۔ وہ لوگ اپنے اپنے مشاغل میں منہمک ہو کر اس سے بے تعلق بھی رہیں مگروہ ان کے دُکھ سکھ کے ہر پہلو پر نظر رکھتا ہے حتٰی کہ وہ چلمن کے پیچھے اداسی کو بھی بھانپ لیتا ہے اور اس اداسی کے اس سب کو بھی ، جو منہ لٹکائے اس کے ٹھیلے کے گرد آ کھڑا ہوتا ہے ۔“ مرزا حامد بیگ افسانے کے پانچ رنگ میں افسانہ سایہ کے بارے میں لکھتے ہیں:افسانہ سایہ غلام عباس کا ایک اور اہم ہے۔ ”سایہ جو بظاہر ایک خوانچے والے کی کہانی ہے اور اسے بیانیہ انداز میں لکھا گیا ہے لیکن افسانے کو غلام عباس نے جزئیات نگاری اور انسانی نفسیات کا بار یک بین مطالعہ، از حد اہم بنا دیتا ہے۔ یوں ایک سادہ سی کہانی ہے۔ ایک ایسی نا کام محبت کی کہانی جس کا جنم صرف مشرق میں ہی ہو سکتا ہے۔ معاشرتی جکڑ بندیوں کے سبب جھوٹی عزت و ناموں کو جب ہمارا معاشرہ سنبھال رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس طرح کی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ اس کہانی میں خوانچے والا صبح سے م رات گئے تک ایک ہی محلے اور ایک ہی گھر کے سامنے کاروبار کرتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ذریعہ ہی ایک گھرانہ ہے، وکیل صاحب کا۔ ایک گھر جس میں چند افراد بستے ہیں۔ دونو جوان لڑکے اور دو لڑکیاں (افسانے میں تین لڑکیاں ہیں ) اور ایک لڑکے کا وہاں آنا جاتا رہتا ہے۔ اس گھر کی ایک لڑکی اور اس لڑکے کے بیج ایک ایسی خاموش محبت کا رشتہ ہے جس سے اور کوئی واقف نہیں ،سوائے خوانچہ والے کے۔ اس افسانے کی سب سے بڑی خوبی غلام عباس کے اسلوب کی نرم روی ہے ۔“

پروفیسر جمیل احمد انجم: افسانوی نثر اور ڈرامہ

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں